اکیسویں صدی بھی میر تقی میرؔ کی
ڈاکٹر محمد عطا اللہ خان
سابق پرنسپل اورینٹل اردو کالج
حال مقیم شکاگو
اُردو ادب کی تین صدیاں گذر گئیں میر تقی میرؔ کا مقابل کوئی شاعر پیدا نہیں ہوا میر کی شاعری آج بھی ممتاز مقام رکھتی ہے۔ میر کی غزل گوئی دل کشی رنگینی ورعنائی سادگی وپرکاری دنیا میں اس کا ثانی نہیں۔میر کے اشعار میں اعجاز واختصار کا اثر رہتی دنیا تک قائم ودائم رہے گا۔
پروفیسرشمس الرحمن فاروقی نے میر تقی میرؔ کی شعری عظمت کو سراہتے ہوئے شعرشور انگیز پانچ جلدوں میں شائع کیا وہ اپنی رائے دیتے ہوئے لکھا ہے کہ میر کے اشعار اپنی اثر پذیری کی بدولت زندہ ہیں وہ تمام فارسی ‘عربی اور اردو کے قدیم شعر کا حوالہ دیکر اپناکام مکمل کیا اس وسیع المرتبت پراجکٹ کی اہمیت اردو ادب کی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے ۔اس نایاب تصنیف کے کئی ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔ اور انھیں سرسوتی سمان کے ایوارڈ سے نوازہ گیا۔آج تک اتنا بڑا انعام اردو دنیا کے کسی ادیب یا شاعر کو حاصل نہیں ہوا۔ یہ سب میر تقی میرؔ کے کلام کی بدولت ہے ۔اس کہ علاوہ پروفیسر شمس الرحمن فاروقی نے میر تقی میرؔ کے تمام دواوین کو ایکجاکیا اور قومی کونسل سے دوزقیم جلدوں میں رجسٹرسائیز کی تصانیف جس میں سات ہزار سات سواشعار ہیں شائع کیا فاروقی صاحب کا یہ کام بھی قابل تعریف اور حوالہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ میر کی خود اعتمادی کی داد دینی چاہئے ایک شعر ملا حظہ کیجئے۔
سارے عالم پہ میں ہوں چھایا ہوا
مستند ہے میرا فرمایا ہوا
کس قدر اپنے کلام پر فخر اور اطمینان بھی۔ اس شعر کی مثال موجودہ زمانے کے ہزاروں دوادین میں میر تقی میرؔ کے مقابل ایک شعر بھی نہیں ملے گا۔ میرؔ جس عہدمیں شاعری کی وہ ہندوستان کی بدحال کا زمانہ تھا۔ احمد شاہ ابدالی کاحملہ دہلی میں شرفا کی زندگی حرام ہوگئی تھی ان حالات کا اثرمیر ؔ کی شاعری پرپڑھا دہلی سے لکھنو منتقل ہوئے کن حالات سے وہ لکھنومیں داخل ہوئے اس کی تفصیل آب حیات میں آزاد نے لکھی ہے ۔ لکھنو آنے سے قبل ان کی شہرت لکھنو میں تھی۔ میر لکھنو میں آتے ہی ایک نواب صاحب میر ؔ کے رہنے کاانتظام کیا جس کمرے میں میرؔ رہتے تھے اسی میں سے نواب کا باغ نظرآتا تھا۔ میرصاحب اس قدر اپنی دنیا میں کھوئے ہوئے تھے کے ایک دن بھی کھڑکی کھول کر باغ کونہیں دیکھا۔ وہ قنوطی حساس طبعیت کے مالک تھے زندگی غم والم میں بیتی ان کی آنکھوں کے سامنے دہلی کی تباہی ہوئی وہ بہت آزردہ تھے۔ زندگی میں تو غم ہے ہی اور مرنے کے بعد پھرسے اٹھنے کا بھی غم بہت تھا اس شعر میں ملا حظہ کیجئے۔
جی تو جانے کا ہمیں اندوہ ہی ہے ایک میر
حشر کو اٹھنا پڑے گا پھر یہ اک غم اور ہے
حشر کے دن حساب کتاب دینے کے لئے اٹھنے کا غم بھی میر کی زندگی میں تھا میر کے دیوان کا مطالعہ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان کی سوچ کافی لامحدودتھی ان کا مشاہدہ کافی وسیع تھا تین صدیوں میں ایسا شاعر پیدانہیں ہوا جو میرؔ کے مقابل کھڑا کیاجاسکے میرؔ اُردو ادب میں منفرد غزل گوہیں شعر ملاحظہ کیجئے۔
سرہانے میر کے کوئی نہ بولو
ابھی تک روتے روتے سوگیا ہے
میرؔ انسانی فطرت کو مطمین کرنے والے اشعار لکھ کر اور اپنی آب بیتی کسی خوبی سے بیان کردیتے ہیں ۔میر ؔ کی شاعری میں مشاہددات فطرت سے لذت گیر ہوکر ان کے الفاظ دل کی گہرایوں تک اتر جاتے ہیں میرؔ انسانی فطرت سے بہرہ مند ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ اکثر موقعوں پر انہوں نے حقائق کے بیان میں شاعرانہ انداز بیان کا سہارا لیا ہے او ربہت سے سوالات طنز وتعصب کے پردے میں اسی طرح سمیٹ لیا ہے کہ بظاہرہ قنوطی شاعر معلوم ہوتے ہیں لیکن ایسا نہیں ہے میرؔ کا انداز بیان اور ہے میر تقی میرؔ کی شاعری میں دنیا سے بیزاری کی جوکیفیت ہے وہ اردو ادب کے کسی دوسرے شاعروں کے پاس نہیں ملتی اس کیفیت کو انہوں نے کس خوبی سے بیان کیا ہے ملاحظہ کیجئے۔
عالم سیاہ خانہ ہے کس کا کہ روز وشب
یہ شور ہے کہ دیتی نہیں کچھ سنائی بات
دنیا کے مسائل سے وہ اس قدر نالاں ہیں وہ شعر وفغاں سے اکثر ان پرجنوں کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے میرؔ کے مشاہدات پرڈاکٹر عبداللہ نے کیا خوب بحث کی ہے ملاحظہ کیجئے’’دیکھنا تو یہ ہے کہ میر ؔ نے مشاہدات پر غور کتنا کیا ہے اور مختلف مظاہر زندگی کے متعلق ان کا ردعمل اکثر صورتوں میں شاعرانہ یا جذباتی ہی ہوتا ہے‘‘
میر ؔ کی شاعری میں بیسیوں اشعار خدا کی وحدانیت سے متعلق ملتی ہیں میر کے والد محمد متقی بہت نیک برگزیدہ شخصیت کے مالک تھے ان کی رگوں میں بھی یہ اثر آیا ہوگا ذیل میں ایک شعر درج کیا جاتا ہے جس میں خدا کی صفات اور کائنات کا وجود کا جلوہ نمایاں طورپر نظر آتا ہے میرؔ کہتے ہیں۔
تھا مستعار جس سے اس کے جونور تھا
خورشید میں بھی اس ہی کا ذرہ ظہور تھا
کس قدر خدا کی ذات اور عظمت کا خیال اس شعر میں ملتا ہے خدا کی وحدانیت کا جلوہ خورشید کی روشنی میں تھوڑا سا نظرآتا ہے۔ میرؔ کا مشاہدہ کس قدر وسیع ہے خدا کی عظمت کا تصور میرؔ کے پاس کس قدر ہے قابل غور ہے۔
میر تقی میرؔ کا ایک تصور انسانیت بھی ہے وہ اپنے اشعار میں انسانیت کی نسبت اپنے شاعرانہ فلسفے میں کہتے ہیں کہ انسان تو بحرکیف انسان ہی ہے اس میں انسانیت کی کمی ہے وہ کچھ اس طرح کے احمد شاہ ابدالی میں انسانیت ہوتی تو وہ اس قدر قہر دہلی پر نہ برساتا تھا ایک آدمی کی فتح اور ہزاروں انسانوں کا خون ناحق یہ کہاں کی انسانیت ہے میرؔ ان حالات سے راست متاثر ہوئے دہلی کو خیر باد کرنا پڑا تھا اس واقعات کا غم بھی میرؔ کے اس شعر میں ملاحظہ کیجئے
آدمی جسے ملک کو کیا نسبت
شان ارفع ہے میر انساں کی
میر کی انانیت خوداری اور ایگو کس قدر ہے میر کے باہشر نشتر مشہور ہیں تین صدیوں میں ہزاروں شاعر پیدا ہوئے لیکن کسی کے بھی اشعارمیں اس قدر شور۔ انگیز نہیں ہے جس قدر میر کے اشعار میں انانیت کی مثال اس شعر میں ملا حظہ کیجئے۔
جانے کا نہیں شور سخن کا مرے ہرگز
تاحشر جہاں میں میرا دیوان رہے گا
حقیقت میں میرؔ کے اشعار تا قیامت تک یاد رہنے والے ہیں میرؔ کا شعور اوران کی وجدانی تجلیات انسان کے عقل وفراصت کی طرف غور کرنے کی دعوت دیتی ہے۔
اُردو شاعری میں غزل کو جوقبولیت عام حاصل ہوئی وہ کسی اور صنف سخن کو نصیب نہ ہوسکی۔ غزل کی شیرینی ودل کشی‘ رنگینی ورعنائی موسیقی ونغمگی سادگی وپرکاری اور روانی وسہل انگاری جادو جگاتی ہے وہ دنیا کے عاشق مزاج عوام کو اپنا دیوانہ بناتی ہے ۔غزل میں جمالیات کاعنصر میر تقی میرؔ کے اشعار میں بہ درجہ اتم موجود ہے اشعار میں اعجاز واختصار ایماد بلاغت اور اثر پذیری کے معاملہ میں میر کے اشعار کو زے میں دریا کی منہ بولتی تصویر ہے حیات پھر حیا ہے اسی کی بے حیائی پر کتنی حیاداریاں صدقہ ہیں۔
تردامنی پہ شیخ ہماری نہ جائیو
دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضوکریں
بعض ناقدین میر کی جمالیاتی شاعری پر اعتراض کرتے ہیں کہ اس میں محض تخیل کے طوطے مینا اڑائے جاتے ہیں۔ جس سے صداقت مجروح ہوتی ہے جبکہ جمالیات کی صداقت میر کے علم وفن کی جان ہے میرؔ کی شاعری سے جمالیات کا پہلو نکال دیا جائے تو میرؔ اردو شاعری کا میر کاروان نہیں رہے گا۔ آج بھی قصیدہ گو مرثیہ گو‘ مثنوی گو اوررباعی گو سب خاموش ہیں لیکن میر کی شاعری تاقیامت زندہ ہے وہ اس وجہہ سے کہ اس میں محبوب کے حسین روپ کو مختلف انداز میں جمالیات کی شکل میں پیش کیا ہے جوہمیشہ عاشقی کی دنیا میں اپنا منفرد مقام رکھتا ہے۔
دنیا کے کسی بھی حصے میں مشاعرے ہویا شعری نشست میں ان ہی اشعار کو بے پناہ داد ملتی ہے جس میں جمالیات کے عنصر نمایاں ہوتے ہیں۔ جیسے مومن خان مومن‘ جگر مراد آباد‘ فیض احمد فیض‘ خمار بارہ بنکوی‘ ان تمام کے علاوہ اور بھی بے شمار شعراگذرے ہیں جن کا کلام آج بھی زندہ ہے وہ ان کے جمالیاتی عنصر سے سرشار ہے۔ میرؔ کے والد انھیں بچپن سے ہی عشق کروکی تعلیم دیتے آئے تھے۔ زمانے کی سرد وگرم ہوا میں میر کی عمر عزیز گذری‘ میر فطر تاََ بہت حساس اور نازک مزاج تھے۔ طبیعت کیوں کہ موزوں پائی تھی وہ گالی بھی دیتے تو بیت ہوجاتی یہی وجہہ ہیکہ ان کے کلام کی شہرت آج بھی کم نہیں ہوئی اکیسوی صدی کی دوسری دہائی میں بھی میر کی شاعری کا جمالیاتی فن اپنی جگہ مسلمہ ہے ۔چند اشعار
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کار گہہ شیشہ گری کا
نازکی اس کے لب کی کیا کہیے
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے
میرؔ ان نیم باز آنکھوں میں
ساری مستی ثراب کی سی ہے
پڑتی ہے آنکھ ہر دم جاکر صفا ئے تن پر
سوجی گے تھے قرباں اسی شوخ کے بدن پر
نام خدا نکالے کیاپاروں رفتہ رفتہ
تلواریں چلتاں ہیں اس کے تواب چلن پر
تنگ قبائی کا سماں یار کی
غنچہ کیا پیرہن نہ کرگیا
محمد حسین آزاد نے آب حیات میں سودا ؔ پر میرؔ کو فوقیت دی وہ لکھتے ہیں کہ میرؔ کی غزلیں ہربحر میں کہیں شربت کہیں شیر وشکر ہیں مگر چھوٹی بحروں میں فقط آب حیات بہاتے ہیں ۔جو لفظ منہ سے نکلتا ہے تاشیر میں ڈوبا ہوا نکلتا ہے۔ خواجہ احمد فاروقی میرؔ کی غزل گوئی کی خصوصیات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں کہ غالب نے مراسلہ کو مکالمہ اور میر نے غزل کو راز گفتن بہ معشوق کا ذریعہ بنادیا ہے ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے کوئی چاہنے والا اپنے چہیتے عزیز سے باتیں کررہا ہے۔ میر ؔ کی جمالیات کے اشعار میں وہ رقم طراز ہیں یہ مصرعہ
ملنے لگے ہو دیر دیر دیکھے کیا ہے کیا نہیں
تم تو کرو ہوصاحبی بندہ میں کچھ رہا نہیں
میر کا جمالیات کلام فصاحت صلاست‘ بلاغت روانی گہرائی گیرائی اور تاثیر سے عبارت ہے۔صلاست عام فہمی او رسہل انگاری اس قدر ہے کہ گوباسہل ممتنع ہے فن شاعری پر انہیں کامل عبور تھا اور زبان کے تو وہ استاد فن تھے۔ محاوروں کے برجستہ برمحل اور بے تکلف استعمال میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ جہاں تشبیہات استعارات اورمحاکات سے کام لیا ہے گویا قلم توڑدیا۔ چھوٹی بڑی بحروں میں عام فہم الفاظ کے سہارے ایسے خوب صورت پیکر تراشے ہیں کہ شعر خود جمالیات سے اپنی زبان بول اٹھتا ہے اور سامعین سردھنتے رہ جاتے ہیں۔
میرؔ صحیح معنوں میں شمع انجمن عشق بازاں تھے ان کا تصور حسن نہایت رچااور سنورا ہوا ہے۔ میرؔ کے یہاں جمالیات کا تصور عبادت سے کم نہیں تھا وہ زخم دل سے اس میں وہی رعنائی اور گل کاری ہے جو دل کے چاک میں ہوتی ہے۔ وہ اپنے اشعار سے ایسا تاثر چھوڑتے ہیں جس میں ہرشے حسین اور دلکش نظر آنے لگتی ہے۔ میرؔ کے ہاں درد مندانہ دل ہے داخلیت اپنی معراج پر ہے وہ دل کی گلابی میں انھوں نے جس پری کے جسم وجمال کا عکس اتاررہے جمالیاتی شاعری میں اس کی نظیر کسی شاعر کے کلام میں نہیں ملتی۔ میر جنسی جذبہ کو تقدس دے کر اسے لطیف تر بنادیا ہے ان کے تصور محبوب سے صرف دیدہ ودل ہی شاداب نہیں ہوتا چند اشعار ملاحظہ کیجئے۔
ان گل رخوں کی قامت لہکے ہے یوں ہوا میں
حسن رنگ سے لچکتی پھولوں کی ڈالیاں ہیں
ہمارے آگے ترا جب کسی نے نام لیا
دل ستم زدہ کو ہم نے تھام تھام لیا
پروفیسر آل احمد سرور نے کہا میرؔ کی شاعری معنویت سے بھرپور شاعری ہے اسے بجا طورپر ایک مکمل شاعری کہا ہے۔ اسے پڑھکر میرؔ کی جمالیاتی شاعری پر ہندوپاک کے نامی گرامی نقادوں نے بہت کچھ لکھا ہے یہاں میر کا ایک شعر پیش کرتے ہوئے اپنی بات تمام کرنے کی اجازت چاہتا ہوں۔
جانے کا نہیں شور سخن کا مرے ہرگز
تاحشر جہاں میں میرا دیوان رہے گا