افسانہ : خطا
محمد علیم اسماعیل
یہ میرے ہاتھ قلم و قرطاس کی جانب کیوں بڑھ رہے ہیں۔ رہ رہ کر چند لکیریں تحریر کرنے کی خواہش میرے باطن میں یوں انگڑائیاں لے رہی ہے جیسے بنا پانی کے مچھلیاں پھڑ پھڑاتی ہو۔ یوں محسوس ہو رہا ہے جیسے میں نے آج کچھ تخلیق نہ کی تو میرا سینہ پھٹ جائے گا۔
ایک ان دیکھی قوت نے مجھے ڈھکیل کر ٹیبل کے سامنے رکھی کرسی پر بٹھا دیا ہے۔ میرے ہاتھ میں قلم تھما دی گئی ہے۔ کاغذ الٹ پلٹ کر قلم کے نیچے آرہے ہیں۔ قلم خودبخود چلنے لگا ہے اور ایک بے اختیاری تحریر جنم لے رہی ہے جس کے لفظ لفظ سے درد کی چنگاریاں پھوٹ رہی ہیں۔۔۔
ڈیئر حیا۔۔۔۔۔۔،
میں تم سے کہتا نا تھا کہ تم نے ایک ایسی خطا کی ہے جس کی سزا تم آج تک بھگت رہی ہو۔ اورتمھارے چہرے پر سنجیدگی جالا بن دیتی تھی۔ چہرے کی تمازت کی میں تاب نہ لاپاتا اور اپنی بات کو بدل کر ہنسی میں اڑا دیتا اور کہتا، میں تو مذاق کر رہا تھا۔ حالانکہ اس نازک موضوع پرمیں آج تک کوئی گفتگو نہ کر سکا تھا۔ اور کرتا بھی کیسے کہ تم نے ابھی تک کوئی موقع ہی نہیں دیا تھا۔ شاید تم چاہتی تھیں کہ میں اس موضوع پر کوئی بات نہ کروں۔ اور میں تمہارے ہاؤ بھاؤ کو سمجھ لیتا تھا۔
سب سے پہلا زخم تم کو تمہارے اپنوں نے دیا تھا۔ جب پہلی بار تمھیں لڑکے والے دیکھنے آئے تھے تو شاید تمھیں معلوم نہیں ہوگا کہ تمہارے پاپا نے ان سے کہا تھا، ابھی ابھی تو ہماری لڑکی نے سروس جوائن کی ہے۔ اس کی پڑھائی پر ہم نے ایک موٹی رقم خرچ کی ہے۔ ابھی چار پانچ سال ہم شادی کرنے کے موڈ میں نہیں ہیں۔ یہ وہی تھے جنھیں دن رات پاپا پاپا کہتے تمہارا منہ تھکتا نہ تھا۔
اس کے بعد جو تمھیں زخم لگے وہ تمہاری اپنی غلطیوں کا نتیجہ تھے۔ اب یاد کرو ان دنوں کو جب تم ہاسٹل میں رہ کر بی۔اے کر رہی تھیں۔ تمہاری سبھی سہیلیوں نے بوائے فرینڈ بنا رکھے تھے۔ بوائے فرینڈ بنانے کا ایک فیشن چل نکلا تھا۔ تمہاری سہیلیوں نے اس فیشن کے بہت سے فائدے بتائے تھے لیکن تم ان سب سے الگ تھیں۔
تمہاری سہلیاں آپس میں باتیں کررہی تھیں۔
’’آج میں نے جاوید کو خوب الو بنایا۔‘‘
’’راحیل نے مجھے اپنی موٹر سائیکل پر بٹھا کر بہت گھمایا، ہم نے بہت انجوائے کیا خوب مزہ آیا۔‘‘
’’میرے بوائے فرینڈ نے میرا مہینے بھر کا انٹرنیٹ اور ٹاک ٹائم رچارج کروا دیا۔‘‘
’’میں نے ابھی نیا مرغا پھنسا یا ہے پہلے والا بڑا کنجوس تھا کمبخت۔‘‘
تم انھیں سمجھاتیں اور بے راہ روی سے روکتیں ، یہ سب ٹھیک نہیں۔ تب وہ الٹا تمھیں ہی سبق پڑھانے لگتیں اور کہتیں کہ بی۔ اے کے نصاب میں موجود ناول میں امراؤ جان اداؔ کہتی ہے، ایک نہ ایک کو اپنا بنا کر رکھنا چاہیے اس کے بہت سے فائدے ہیں۔
پھر یوں ہوا کے تمہارے پاپا نے تمھیں خرچ کے لیے رقم بھیجنی بند کردی۔ تم شکایت کرتی بھی تو کس سے کہ بچپن میں ہی تم اپنی والدہ کو کھو چکی تھیں۔ حالانکہ تم اپنے پاپا کی اکلوتی بیٹی تھیں لیکن گھر میں جب سے سوتیلی ماں آئی تھیں پاپا کی محبت ماند پڑ گئی تھی اور وہ اپنی نئی بیوی بچوں میں مگن ہو گئے تھے۔ تب تم نے بوائے فرینڈ بنانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ حالانکہ تمھیں جلد کوئی لڑکا پسند نہ آیا تھا۔ پھر تم نے ایک سیدھے سادھے شریف لڑکے فواد کے دل سے کھیلنے کا ارادہ کرلیا تھا۔ تم صرف کھیلنا چاہتی تھیں، اپنی دوسری سہیلیوں کی طرح۔
ایک دفعہ شام کے وقت تم گیلری میں کھڑی تھیں۔ فضاؤں کے شرابی جھونکے تمھارے چہرے کو چھو کر گزر رہے تھے۔ تم دھیرے دھیرے قدم بڑھا کر گیلری میں چہل قدمی کرنے لگی تھیں۔ دن بھر سورج کی تپش سے تم گھٹن کا شکار ہوئی تھیں لیکن شام کی نرم گرم ہواؤں کی مستانہ سرسراہٹ تمھیں مسرت بخش رہی تھی۔ تم گیلری میں کھڑی تھیں اور فواد گیلری کے نیچے سے گزر رہا تھا۔ تم نے اپنی نشیلی و ترچھی نگاہوں کے تیروں سے اس کے دل پر ایسا وار کیا کہ اس کی روح کو چھلنی کر دیا تھا۔ اور سڑکوں پربکھرے پڑے مرجھائے سوکھے پتے کھڑکھڑا کر ہوا میں اڑنے لگے تھے۔ وہ مسکرایا اور تم پلکیں جھکا کر شرما گئی تھیں۔
حالانکہ وہ پہلے سے ہی تمھیں چاہتا تھا لیکن کبھی اپنی بات زبان تک نہیں لا پایا تھا۔ دور دور سے تمھیں اور تمہارے کھلکھلاتے چہرے کو دیکھتا اور خاموشی سے اپنے جذبات کو دبا کر بیٹھ جاتا تھا۔ تمہاری ترچھی نگاہوں کے تیروں نے آگ میں تیل ڈالنے کا کام کیا تھا۔ تم اسے بے چین کر رہی تھیں۔ اتنا بے چین کہ وہ خود آکر تم سے اپنی محبت کا اظہار کر بیٹھے۔ اور تمہاری فرمائشوں کو پورا کرے۔
بد قسمتی یہ ہوئی کہ فواد طبیعت سے بڑا ہی شرمیلا نکلا۔ تم جب بھی اس کے سامنے ہوتی تھیں اس کے دل کی دھڑکنیں تیز ہوجاتیں۔ اس کی زبان اظہار محبت کرنے سے تو رہی ایک لفظ بھی ادا کرنے سے قاصر تھی۔ جب کہ تم نے اظہار کرنے کے کئی موقعے اسے دیے تھے۔ اس سے پہلے تمھیں یہ سب پسند نہیں تھا لیکن ایک غیر مرئی طاقت تمھیں مجبور کر رہی تھی شاید تم پر اپنی سہیلیوں کی صحبت کا اثر ہو گیا تھا۔
پھر ایک دن فواد نے تمہارے ہاتھ میں ایک خط تھما دیا جس میں لکھا تھا، ’’ایک لمبی سوچ و سمجھ اور ایک مکمل ارادے کے بعد جسم کی تمام قوت جمع کر کے انگلیوں کو دی ہے۔تاکہ قلم کے ذریعہ تمھیں اپنے دل کا حال لکھ سکوں۔ جب تم کالج میں آئی تھیں،محبت سے دور اپنی دنیا میں کھوئی ہوئی تھیں،ایک آوارہ پنچھی کی طرح گلیوں میں گھوما کرتی تھیں اور ایک رنگین تتلی کی طرح پھولوں پر جھولا کرتی تھیں تب سے تم سے پیار کرتا ہوں۔ اب تو ہر وقت اس دل کو تمہارا خیال ہوتا ہے ،دیکھ لو ں ایک نظر تو سکون حال ہوتا ہے۔ بے چینی بے قراری یہ کیا درد ہے خدایا، انتظار کا ایک پل ایک سال ہوتا ہے۔‘‘
اس کے بعد تم دونوں کا رومانس شروع ہوگیا۔ وہ بہت خوش رہنے لگا تھا۔ ہر وقت تمہارے ہاسٹل کے سامنے سے گزرنا اس کا معمول ہوگیا تھا۔ اس کی خوشی کا کوئی ٹھکا نا نہیں رہا۔ وہ راستے پر چلتے چلتے خوشی کے مارے ودڑ پڑتا اور من ہی من میں کچھ سوچ کر مسکرانے لگتا۔ اس کے پیر زمین پر ٹکتے ہی نہیں تھے۔ وہ چلتا کم دوڑتا زیادہ تھا۔ وہ غریب ماں باپ کا اکلوتا بیٹا تھا۔ یہ لڑکے بھی کالج میں اپنی غریبی کو اس طرح چھپاتے ہیں جیسے کوئی خطرناک بیماری ہو۔ تم فرمائشیں کرتی رہیں اور وہ پوری کرتا رہا۔ ساتھ ہی ساتھ تمھیں اس کا چپکوپن بالکل پسند نہیں تھا پر تم انکار بھی نہیں کر سکتی تھیں۔ تم تو صرف کھیل رہی تھیں، اس کے جذبات سے، اس کی زندگی سے، اس کی خوشیوں سے۔۔۔ اور کس لیے۔۔۔ اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے، موج مستی اور انجوائے کرنے کے لیے۔ حالانکہ تم پہلے ایسی نہیں تھیں لیکن وقت اور زمانے کے ساتھ تم نے بھی اپنا رنگ بدل لیا تھا۔
جب امتحانات کے نتائج آئے، تم اچھے نمبرات سے کامیاب ہوگئیں اور وہ فیل ہوگیا تھا۔ بار بار کوشش کرنے کے باوجود وہ کامیاب نہ ہو سکا۔ اور ہوتا بھی کیسے ہر وقت وہ تمہارے خیالات میں ہی کھویا رہتا تھا۔ تمھیں ایک کمپنی میں ملازمت مل گئی۔ تمہارا مقصد پورا ہوگیا تھا۔ اور اب تم یہ کھیل ختم کرنا چاہتی تھیں۔ لیکن تمہیں کیا پتا تھا کہ کھیل اب شروع ہونے والا تھا۔ تمھیں کمپنی میں ساتھ کام کر رہے ایک ہینڈسم نوجوان دانش سے محبت ہو گئی تھی۔ وہ بھی تمھیں بہت پسند کرنے لگا تھا۔ تم دونوں شادی کے خواب دیکھنے لگے تھے۔
تم نے فواد سے کہہ دیا تھا، اب تم ہمیں اجنبی لگتے ہو۔ یہ سنتے ہی دور کہیں بجلی کڑکی۔ اور وہ حیرت کا پتلا بن گیا تھا۔ اس کے پیر زمین میں دھنستے چلے گئے اور دیدے پھٹے کے پھٹے رہ گئے تھے۔ دل جڑتے جڑتے ٹوٹ گئے، ہاتھ ملتے ملتے چھوٹ گئے کیسا کھیل یہ تم نے کھیلا تھا۔ فواد خشک آنکھوں سے رونے لگا تھا۔ اس نے ایک سرد آہ بھری اور صرف اتنا کہہ پایا تھا، حیا۔۔۔ میں تمہارے بنا کیسے رہ سکتا ہوں؟ میں تو جیتے جی مر جاؤں گا۔ لیکن تمہارا فیصلہ اٹل تھا۔ اس کے بعد وہ حیران و سرگرداں رہنے لگا تھا۔
جب دانش اور تمہارے محبت کے قصوں کی بھنک فواد کو لگی تب غصہ اس کے وجود میں بھر گیا اور اس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ تمھیں بدنام کر کے ہی دم لے گا ۔ اس نے تم دونوں کے ساتھ ساتھ نکالے ہوئے فوٹو ز انٹر نیٹ، سوشل میڈیا پر وائرل کردیے۔ جس میں چند فوٹو ایسے بھی تھے جو تم دونوں کی محبت کی کہانی بیان کررہے تھے۔ وہ ہر کسی سے کہتا، ہم دونوں کے جسمانی تعلقات تھے۔
یہ خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی۔ ہر طرف چہ میگوئیاں ہونے لگی تھیں۔ گلی بازار، چوک چوراہوں اور ہر چپے چپے پر تمہاری ہی باتیں ہو رہی تھیں۔ تم چرچا کا موضوع بنی ہوئی تھیں۔ جب تم باہر نکلتیں تب تم پر طعنے کسے جاتے اور لوگ تمہاری طرف انگلی سے اشارہ کرکے کہتے ’’دیکھو وہ جارہی ہے۔‘‘
یہ سب دیکھ کر دانش نے شادی سے انکار کر دیا۔ اور تم تشتّْت سے گھر گئی تھیں۔ اتنا سب کچھ ہونے کے بعد تمہارے دل میں فواد کے لیے نفرت بھر گئی تھی۔ دانش سے شادی ٹوٹنے کے بعد بھی تمھیں بہت لڑکے دیکھ کر گئے پر واپس نہیں آئے تھے۔ کوئی اگر جھوٹی بدنامی کردے تو وہ لڑکی لڑکے والوں کی نظر میں مشکوک ہو جاتی ہے۔ یہاں تو ایک حقیقت سر اٹھائے کھڑی تھی۔ اور چاروں طرف دھواں اڑتا دیکھ تم ذہنی انتشار کا شکار ہو گئی تھیں۔
ہم دونوں آنکھوں میں ترقی کے خواب لیے گاؤں سے شہر میں بی۔اے کرنے ساتھ ساتھ آئے تھے۔ تم ایک خواب تھی میرے لیے لیکن تم نے میری چاہت کو کبھی محسوس ہی نہیں کیا۔ فواد بڑا خوش نصیب ثابت ہوا کہ اسے تمہاری عاطِفَت میسر ہوئی۔ وہ بڑاہی مخلص مزاج لڑکا تھا جو کالج میں میرا بھی ایک اچھا دوست بن گیا تھا۔ میں اس کی قسمت پر رشک کرنے لگا تھا پر کسے معلوم تھا کہ بدنصیبی چہرہ بدل کر آئی تھی۔تم ایسی ویسی لڑکی بالکل بھی نہیں تھیں۔ جب سوچتا ہوں وہ تمام باتیں تو حیرت ہوتی ہے مجھے کہ میرے پڑوس میں رہنے والی ایک شوخ چنچل، اصول پسند لڑکی اتنا کیسے بدل سکتی ہیں۔
خوبرو مسکراہٹ قابل دید تھی۔۔۔۔ جب تم مسکراتیں تب گالوں میں دونوں جانب بھنور کی طرح پڑتے دباؤ سے نظریں ہٹانا مشکل ہو جاتا۔ اورقہقہے لگاتیں تب ایسا لگتا تھا کہ ساری خوشیاں تمہارے قدموں میں آپڑی ہیں۔ میں بھول نہیں سکتا ہمارا بچپن۔ تمہارا ہنسنا کھیلنا، بھاگنا دوڑنا، اچھلنا کودنا سب یاد ہے مجھے۔تمہاری نشاط مزاجی پر ہر کوئی رشک کرتا تھا۔ تم پڑھائی میں بھی اچھی تھیں۔
تم اپنے مقصد میں فیل ہو گئی ہو۔ ایک وقتی فائدے کے لیے حسین زندگی کے سارے خوابوں کو تابوت میں بند کر چکی ہو۔ اگر تم عاقبت اندیشی سے کام لیتیں تو یہ دن نہیں دیکھنا پڑتا۔ عجیب و غریب خیالات تمہارے وجود کو بے چین کر دیتے ہیں۔ ڈراؤنے خواب پیچھا کرتے رہتے ہیں۔ کبھی دیکھتی ہو فواد پاگل کتے کی طرح تمہارے پیچھے دوڑ رہا ہے۔ اس کے منہ سے دونوں جانب تیز نوکیلے دانت باہر نکل آئے ہیں۔ دانش دور کھڑا دیکھ رہا ہے۔ وہ آئے تمھیں بچائے تم امید کرتی ہو۔ لیکن وہ اپنی جگہ پر ساکت و جامد کھڑا قہقہے لگا رہا ہے۔ تم تیز دوڑنا چاہتی ہو لیکن قدم اٹھ نہیں رہے ہیں۔ دوسری جانب تمہارے پاپا کھڑے ہیں۔ وہ ابھی بہت دور ہیں۔ وہ تمہاری طرف لپکنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن وہ بے بس ہیں کیونکہ ان کے پیر زمین میں دھستے چلے جا رہے ہیں۔ ایک فلک شگاف چیخ بلند ہوتی ہے اور تم خود کو آرام کرسی پر پاتی ہو۔ کبھی فواد تمہارے بال پکڑ کر خاردار جھاڑیوں میں سے گھسیٹتے ہوئے لے جا رہا ہے اور تم کہہ رہی ہو، جتنا مارنا ہے مار پر میرا پیچھا چھوڑ دے پھر بیٹھے بٹھائے چونک پڑتی ہو۔کبھی بندوق چھ کی چھ گولیاں اس کے سینے میں اتاردیتی ہو اور ہر بار ٹریگر دبانے کے ساتھ کہتی ہو مجھے نفرت ہے تجھ سے، نفرت، نفرت، نفرت۔۔۔۔۔۔ اور جاگ جاتی ہو۔
میں ہر وقت تمہاری ہی باتیں کرتا تھااپنے دوستوں سے۔ مانو میرے دل و دماغ پر تم نے قبضہ کر لیا ہو۔میرے دوست مجھے دیکھ کر راستہ بدل لیتے تھے۔ ایک دو اِدھر اُدھر کی باتیں کرنے کے بعد میں پھر تمہارا ہی ذکر چھیڑ دیتا تھا۔ تب میرے دوست مجھ سے سوال کرتے، تو اس کے متعلق اتنا کیسے جانتا ہے؟ اور میں سوچ میں پڑ جاتا کہ مجھے مجھ کو سمجھنے میں ابھی نجانے کتنے سمندر پار کرنے تھے لیکن میں تمہارے متعلق سب کچھ جان گیا تھا۔ تمہاری زندگی کے تمام واقعات میری آنکھوں کے سامنے بکھرے پڑے تھے۔ میں تمہارا چہرہ دیکھ کر تمہارے ذہن کی کلبلاہٹ اور دل کی کیفیت بآسانی بیان کر سکتا تھا۔ عالم تو یہ تھا کہ جب میں کوئی دوسرے موضوع پر بات کر رہا ہوتا اس وقت بھی تمہارا ہی خیال میرے دل و دماغ کی دیواروں سے ٹکرانے لگتا اور میں خیالات کی لہروں میں بہتا ہوا چلا جاتا۔
وقت کسی کے لیے رکتا نہیں۔ ایام فرفر گزرتے جا رہے ہیں۔ زندگی تیز و تند دریا کی مانند بہتی جا رہی ہے۔ دیکھتے دیکھتے تمہاری جوانی ڈھلتی جا رہی ہے۔ اب کتنی بھونڈی ہوگئی ہو تم، کتنی بھدی لگ رہی ہو، کوئی کشش باقی نہیں، اب خود تم بھی آئینہ دیکھنے سے کتراتی ہو۔ تمہارا کسیلا بدن اب تھل تھل ہو کر کتنا پھیل گیا ہے۔ کالی کالی غزال سی آنکھیں گدلا گئی ہیں۔ چمچماتا پر نور چہر ہ مٹیالا ہو گیا ہے۔ کالے ریشمی گھنے بالوں نے جاروب کی شکل اختیار کر لی ہیں۔ ایک نوخیز لڑکی سے اب تم عورت بن گئیں ہو، تصویر عبرت بن گئیں ہو۔
آج بھی فواد کی افسردہ ویران آنکھیں تمہاری منتظر ہیں۔ وہ آنکھیں بڑی حسرتوں سے سونی راہوں پر تمہاری تلاش میں بھٹکتی رہتی ہیں۔ بے خواب آنکھوں سے نیند جیسے غائب ہو گئی ہے۔ نحیف ناتواں دل میں رہ رہ کر امیدوں کے شعلے مچلنے لگتے ہیں۔ کمزور ہوتا جسم ان شعلوں کی تپش میں جھلس کر رہ جاتا ہے۔ میرے دل کے جذبات کاغذ پر کود پڑے ہیں پر تمھیں بھیجنے کی سکت کہاں۔
تمہارا خیرخواہ
تابش