آہ ! الیاس مرزا :- ڈاکٹر اظہار احمد گلزار

Share
الیاس مرزا

آہ ! الیاس مرزا

تحریر ؛ ڈاکٹر اظہار احمد گلزار

اب یاد رفتگاں کی بھی ہمت نہیں رہی
یاروں نے کتنی دور بسائی ہیں بستیاں

ممتاز پاکستانی ادیب ،نقاد ، محقق ، انشاییہ نگار ، ماہر لسانیات اور دانشور جناب محمد الیاس مرزا بھی یہ دھوپ بھری دنیا چھوڑ گئے۔ ۔وہ ایک وسیع المطالعہ ادیب اور ماہر تعلیم تھے ۔

انھوں سے پنجابی ، اردو ، سیاسیات ،مطالعہ پاکستان ،ہسٹری میں ماسٹرز جبکہ سیکنڈری ایجوکیشن میں ایم -ایڈ کر رکھا تھا۔ ۔پاکستانی لسانیات پر ایم – فل پر مقالہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں۔ جمع کروایا ہوا تھا۔ ۔اور ڈگری کے منتظر تھے۔ ۔۔۔ان کے متعدد تحقیقی مضامین پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ پنجابی کے ریسرچ میگزین ” کھوج” میں چھپ چکے ہیں ۔ ۔ وہ پنجابی زبان کے سچے عاشق اور قلم کار تھے۔ ۔پنجابی زبان میں انشائیہ صنف میں ان کا کام مثالی ہے ۔۔ان کے انشائیوں کا مجموعہ ” بارہ مسالے ” کے عنوان سے کوئی بیس سال قبل چشتی کتب خانہ فیصل آباد سے چھپ چکا ہے ۔۔ان کے دادا میاں کرم الدین بھی ایک صوفی شاعر تھے۔ ۔میاں کرم الدین کی کتب میں تفسیر سورہ فاتحہ ،حیات النبی ،مختصر قصہ حضرت حضرت یوسف ،سی حرفیاں ،چٹھی مستری کرم الدین وغیرہ شامل ہیں ،۔۔ان کتب میں میاں صاحب نے بڑے اخلاقی ،مذہبی اور روحانی پرتوں کو کھول کر بیان کیا ہے۔ ۔۔
الیاس مرزا ایک ملن سار ، خلیق ، ہمدرد ، شریف النفس تھے – عالم اسلام کے ایک ایسے مایا ناز فرزند مفکر و محقق ، مدبّر و دانشور اور زیرک استاد و متحرک ادیب سے محروم ھو گیا ہے۔ جس کی نگاہ نکتہ رس میں علم و فکر کی پھناییاں اور پنھاییاں آئینے کی طرح روشن تھیں۔ ۔گل چین ازل نے گلشن علم و ادب سے وہ مہکتا پھول توڑ لیا – جس کی عطر بیزی سے پیچھلے پانچ عشروں سے اکناف عالم کا گوشہ گوشہ مہک رہا تھا۔ ۔
علم و ادب کا خورشید جہاں تاب جو یکم جنوری 1962 کو مرزا لال دین کے گھر طلوع ہوا اور 12 / مارچ 2019 کو فیصل آباد میں ہمیشہ کے لیے غروب ھو گیا ۔۔چناب گارڈن فیصل آباد ، پاکستان سے ملحقہ زمین نے عالمی ادبیات کے اس آسمان کو اپنے دامن میں چھپا لیا ۔ الیاس مرزا چپکے سے یہ جہاں چھوڑ گئے ۔۔ہمارے عہد کا درخشندہ ستارہ ٹوٹ گرا اور ایک بہت بڑا خلا پیدا ھو گیا ۔۔
الیاس مرزا کی وفات ایک بہت بڑا سانحہ ہے۔ جس پر شہر کا شہر سوگوار ہے۔ اور ہر آنکھ اشکبار ہے۔ اس کی یاد میں بزم ادب ایک عرصے تک سوگوار رہے گی ۔۔
انسانی ہمدردی ، پیار ،ایثار ، رواداری ، بے لوث محبّت اور بے باک صداقت کو تمام عمر حرز جاں بنانے والے تخلیق کار کے دامن میں ہمیشہ محبّت کے لازوال پھول ہوتے تھے۔ ۔۔ان کا ظاہر و باطن آئینے کی مانند ہوتا تھا ۔۔اس کا تعلق میرے آبائی علاقے ” ڈجکوٹ” سے تھا اور میرے تایا زاد بھائی رانا الطاف احمد کے ساتھ متعدد اسکولز میں درس و تدریس میں ایک ساتھ رہے ہیں۔ ۔میرے ایک اور مشفق و مہربان دوست پروفیسر اخلاق حیدر آبادی سے بھی وہ بہت عقیدت و محبّت کرتے تھے۔ ۔میں جب بھی کبھی بھائی اخلاق حیدر آبادی کے دولت خانہ جاتا تھا تو اکثر الیاس مرزا مجھے وہاں مل جاتے۔ ۔اور خوب گپ چھپ ہوتی۔ ۔پھر ہم وہاں گھنٹہ دو گھنٹے باہمی تبادلہ خیال کرتے۔ ۔۔اخلاق حیدر آبادی صاحب سے وہ اکثر تحقیق و تنقید پر گفتگو کرتے تھے۔ ۔۔میں بھی وہاں ان کی باتوں سے محظوظ ہوتا ۔۔۔
میں نے مرحوم الیاس مرزا کے نماز جنازہ میں لوگوں کا جم غفیر دیکھا ۔۔ہر کوئی کہ رہا تھا کہ لگتا ہے کہ آج ہمارا حقیقی بھائی ہم سے آج بھچڑ گیا ہے۔ ۔ہر آنکھ پر نم اور اشکبار تھی ۔۔الیاس مرزا نے چند ماہ قبل گورنمنٹ اسلامیہ ہائی اسکول جناح کالونی فیصل آباد کی پرنسپل شپ کا چارج لیا تھا۔ ۔شیخ اشفاق احمد سابق پرنسپل اسکول هذا نے الیاس مرزا کی تدریسی اور تنظیمی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہوۓ کہا کہ
"الیاس مرزا ایک زیرک ،محنتی، شفیق اور اپنے سبجیکٹ میں کامل عبور رکھنے کے علاوہ ایک ان تھک ،دیانت دار ، زہین اور عمدہ تنظیمی صلاحیت رکھنے والا منتظم تھا۔ ۔بطور پرنسپل انہوں سے قلیل مدت میں بہت سے پروجیکٹ پر کام کیا ۔۔اسکول کی تزئین و آرایش سے ساتھ ساتھ نے شعبہ جات کے لیے نئی بلڈنگ کی تعمیر میں انھوں نے اپنے دل کے عارضے کی بڑھا لیا۔ وہ مرنجان مرنج شخصیت کے مالک ایک ہر دلعزیز انسان تھے "

اس عالم و گل کی حقیقی معنویت کے بارے میں مثبت شعور و آگہی پروان چڑھانے والا دانشور آج ہمارے درمیان نہیں رہا ۔۔۔وہ ایسے انسان تھے جو اپنی بے لوث محبّت کے اعجاز سے نار کو بھی گلزار بنا دیا کرتے تھے۔ ۔جب تک دنیا باقی ہے ایک عظیم استاد اور ادیب کے افکار کی صداقت کا نغمہ قلب و روح کی دھڑکن سے تا ابد آہنگ رہے گا ۔۔جب تک درس و تدریس کا سلسلہ جاری رہے گا ، ایک عظیم استاد کے اسلوب کی تقلید کی جاتی رہے گی ۔جن کا حسن اخلاق فکر و خیال کی وادی کے ہر رہرو کے لیے مشعل راہ ثابت ھو گا ۔۔

شہر کی بے چراغ گلیوں میں
زندگی تجھ کو ڈھونڈتی ہے ابھی

دکھ اس لیے زیادہ ہے کہ ایک ایک کر کے وہ سارے لوگ اٹھتے جا رہے ہیں جن سے بزم رونق تھی۔ الیاس مرزا سے زیادہ خوبیوں کے حامل لوگ ممکن ہے ہمارے درمیان موجود ہوں مگر ان جیسا کوئی نہیں ۔۔۔موصوف اپنی ذات میں یکتا تھے۔ ۔پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو اس علم و عرفاں کے کتنے موتی میری آنکھوں کے سامنے آسودہ خاک ھو چکے ہیں ۔۔وہ آج گئے ۔۔کل ہماری باری ہے۔ ۔۔۔۔۔۔رہے نام اللہ‎ کا ۔۔۔۔۔۔!!

مقدور ھو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم!
تو نے وہ گنج ہاے گراں مایہ کیا کیے ؟

Share
Share
Share