کالم : بزمِ درویش
باجی کنیز
پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ای میل:
ویب سائٹ: www.noorekhuda.org
سر آپ کی کنیز خادمہ نوکر خدمت گار ‘ کبھی ہمیں بھی خدمت کا موقع دیں آپ کو مایوسی نہیں ہو گی بلکہ آپ دل سے خوش ہو کر ہمیں دعا دیں گے ‘ ہماری خدمت سے آپ کا جسم روح دل باغ باغ ہو جائے گا ‘ شرط صرف یہ ہے کہ ایک بار ہمیں خدمت کا موقع دیں ‘ میرے سامنے تقریباً پینتالیس سالہ خوبرو عورت جھک کر سلام کر تے ہو ئے یہ باتیں کر رہی تھی ‘
اُس کی جسمانی ساخت چہرے کے نقش و نگار آنکھوں کی گہرائی بو لنے کا انداز بتا رہاتھا کہ جوانی میں غضب کی خوبصورت عورت ہوگی وہ اپنے حسن اور آواز کا جادو جگانا بھی جانتی تھی ‘ جس اعتماد سے وہ بات کر رہی تھی اُس کے پر اعتماد لہجے سے پتہ چل رہاتھا کہ وہ مردوں سے بار بار مل یا گفتگو کر چکی ہے پھر وہ ادائے دلربائی سے سامنے بیٹھ گئی میں ابھی تک حیرت کے دریا میں غوطے کھا رہا تھا ‘ میں حیران پریشان نظروں سے اپنے میزبان کی طرف دیکھ رہاتھا جو مجھے شہر کے خوبصورت شاندار ہوٹل میں ڈنر پر اِس لیے لایا تھا کہ اُس نے میری کسی سے ملاقات کرانی ہے ‘ ملاقات کس سے کرانی ہے اِس کے بارے میں نہ اُس نے بتایا اور نہ ہی میں نے پوچھا ‘ وہ کئی دنوں سے میرے پیچھے پڑاہوا تھا میں حسب معمول اُسے ٹالتا رہا لیکن جب اُس نے پیچھا نہیں چھوڑا تو ٹائم دے دیا اور آج ہم کھانے کی میز پر تھے ‘ میری حیرت پریشانی دیکھ کر میزبان بولا جناب میں نے جس مہمان دوست کا آپ سے تذکر ہ کیا تھا وہ یہی خاتون ہیں اِ ن کی خواہش تھی کہ آپ سے علیحدگی میں زیادہ وقت کے لیے ملا جائے ‘ میرا ان سے بہت خوشگوار تعلق رہا ہے اب تو میں وہ رنگین شب و روز چھوڑ چکا ہو ں لیکن کبھی کبھی اب بھی اِن سے فون پر بات ہو جاتی ہے ‘ چند دن پہلے اِن سے بات ہو ئی تو یہ بہت پریشان تھیں جبکہ ماضی میں اِنہیں میں نے کبھی بھی پریشان نہ دیکھا تھا ‘ میرے پوچھنے پر اِنہوں نے بتایا کہ رزق کی تنگی کا شکار ہو نے کے ساتھ ساتھ جسمانی بیماریوں کا بھی شکار ہو چکی ہوں ‘ کسی روحانی عامل سے علاج بھی کروایا لیکن افاقہ نہ ہو الہٰذا اب یہ کسی اچھے روحانی معالج کی تلاش میں تھیں تو میں نے آپ کا ذکر کر دیا ‘ جوانی میں یہ ٹی وی ڈراموں اور فلموں میں بھی چھوٹے موٹے رول ادا کر تی رہی ہیں اِس لیے عام پبلک میں آپ سے ملنے سے گریزاں تھی کہ الگ ملاقات کر نی ہے اِس لیے میں آپ کو بتائے بغیر آپ کو اِن سے ملانے لے آیا ہوں ‘ میں حیرت سے نارمل زون میں داخل ہوا تو اُس خوبرو عورت کی طرف دیکھا جو حیران خوشگوار بڑی بڑی آنکھوں سے ہماری گفتگو سن رہی تھی اب جو میں نے اُس کی طرف دیکھا تو وہ آگے جھکتے ہو ئے بولی جناب یہ تو تعارفی ملاقات ہے ‘ اگلی ملاقات میرے غریب خانے پر ہو گی جہاں آپ دنیا کی ساری دعوتیں اورکھانے بھول جائیں گے ‘ جناب صرف آپ ایک بار خدمت کا موقع تو دیں ہم جیسے قدر دان آپ کو کسی اور جگہ نہیں ملیں گے جب تک ہمارے پیر صاحب زندہ تھے ہم نے اُن کے بل بوتے پر خوب عیاشی والی زندگی بسر کی ‘ دوسال پہلے پیر صاحب کا انتقال ہو گیا تو جیسے ہمارے سر سے چھت ہی اڑ گئی اب ہمیں روحانی سر پرستی کی شدت سے ضرورت محسوس ہوتی ہے لہذا اب آپ ہماری روحانی سر پرستی کریں ‘ ہمارے گھر میں شدید جادو ٹونہ آسیبی اثرات ہیں آپ پلیز ایک بار میرے گھر تشریف لائیں بندی کنیز سار ی عمر کنیزی میں گزار دے گی ‘ میں اس کیس کو روٹین کا کیس یا پھر ڈپریشن کا کیس سمجھ کر چپ ہو گیا اور وعدہ کیا کہ کسی دن آپ کی طرف چکر بھی لگا لوں گا پھر ادھر اُدھر کی باتیں ہو تی رہیں وہ اپنی جوانی کے دنوں کو یاد کرتی رہی وہ گفتگو کا آرٹ خوب جانتی تھی اُس نے ایک لمحے کے لیے بھی بوریت کا احساس نہیں ہو نے دیا ۔ پھر کھانا کھانے کے بعد میں واپس آگیا اگلے دن سے ہی وہی دوست میرے پیچھے کہ میڈم بار بار پوچھ رہی ہیں کہ پروفیسر صاحب کس دن تشریف لائیں گے اور وہ کھانے پینے میں کیا پسند کرتے ہیں تاکہ پروفیسر صاحب کی پسندیدہ چیزوں کو بنا کر پروفیسر صاحب سے داد سمیٹی جا سکے ‘ میں ٹال مٹول سے کام لیتا رہا ایک ہفتہ گزر گیا ‘ میں ہنگامہ زندگی میں غرق تھا کہ ایک دن میڈم کا فون آگیا جناب آپ تو ہمیں بھول ہی گئے ہیں سر ہم بہت تکلیف میں ہیں ‘ دال روٹی کے لالے پڑ گئے ہیں اب تو نو بت فاقوں تک آگئی ہے خدا کے لیے چکر لگا لیں آپ کے مبارک قدموں سے ہماری فاقہ زدہ زندگی میں بہار آجائے گی ‘ میں نے بہت کہا آپ میرے بارے میں کسی خوش فہمی کا شکار ہیں میں کو ئی نیک بندہ نہیں بلکہ گناہ گار ہوں لیکن وہ پھر بھی بضد رہی کہ آپ ایک بار میرے گھر تشریف لائیں ‘ آپ کی دعوت آپ کا انتظار کر رہی ہے گفتگو کے اختتام پر اُس کے آواز بھرآئی پھر اُس نے دبی دبی سسکیوں کے دوران یہ کہہ کر فون بند کر دیا سر میں بہت مجبور ہو گئی ہوں میری مدد کریں میں نے اگلے ہی دن اپنے دوست سے کہا ہم کل میڈم کے گھر جائیں گے لیکن میری ایک شرط ہے کہ وہ کو ئی کھانا وغیرہ نہیں بنائے گی ‘ مجھے دوران علاج کسی کے گھر سے کچھ بھی کھانے کی اجازت نہیں ہے ‘ دوست نے میڈم کو یہ بات بتا دی لہٰذا ہم اگلے دن فیصل ٹاؤن کے علاقے میں دس مرلے کے کرائے کے گھر میں اُس کے سامنے بیٹھے تھے وہ بہت خوش تھی ساتھ میں شکوہ بھی کر رہی تھی کہ آپ نے کھانے سے کیوں منع کر دیا تو میں نے وعدہ کیا علاج کے بعد کھانا بھی کھالیں گے اب اُس نے اپنی بات کو آگے بڑھایا سر میرا کام بہت اچھا تھا پیر صاحب کا روحانی فیض جاری تھا ہمارے گھر میں برکتیں تھیں اُ ن کے جانے کے بعد بھوک اُگ آئی ہے اور نہ ہی کوئی گاہک اب ادھر کا رخ کرتا ہے تو میں نے پریشان لہجے میں پو چھا آپ کام کیا کر تی ہیں تو اُس نے میرے دوست کی طرف معنی خیز نظروں سے دیکھا اور بو لی جناب یہ جسم فروشی کا اڈا ہے یہاں پر میں چند لڑکیوں کے ساتھ ناچ گانے اور جسم فروشی کا دھندہ کر تی ہوں ‘ مجھے یہ تھا کہ آپ کے دوست نے آپ کو بتا دیا ہو گا مجھے لگا کے ٹو پہاڑ میری سانس کی نالی پر آگیا ہے جسم میں سپرنگ اگ آئے ہیں ‘ اسی دوران چھ نوجوان لڑکیاں سامنے آکر صوفوں پر بیٹھ گئیں وہ بول رہی تھی جناب یہ سب خوبصورت نوجوان ہیں اِن میں کیا کمی ہے لیکن گاہک اب ادھر کا رخ ہی نہیں کر تے میں اور میری لڑکیاں ساری کی ساری آپ کی کنیزیں لونڈیاں ہیںآپ جس پر ہاتھ رکھیں گے اُس کے بھاگ جاگ جائیں گے وہ خوش قسمت ہو گی یہ پہلے پیر صاحب اور اُن کے ساتھی مولانا صاحب کی بھی خدمت کر تی تھیں ‘ اب یہ آپ کی ملکیت ہیں آپ اب ہم سب کے سرو ں پر اپنا ہاتھ رکھیں ‘ سر اسلام میں لونڈی ازم جائز ہے ہم سب آپ کے لیے جائز ہیں یہ سبق ہمارے پیر صاحب نے پڑھایا تھا اب مجھے سمجھ آئی پیر صاحب یہاں پر تمام لڑکیوں کو لونڈی بنا کر جسمانی ہو س پو ری کر تے رہے ہیں ‘ اِسی دوران وہ بولی جناب پیر صاحب بہت خدا ترس تھے گھر کا کرایہ اور خرچہ بھی کھل کر دیتے تھے اور میرا دماغ پھٹنے کے قریب تھا پیر صاحب نے عیاشی کا اڈا بنا رکھا تھا مفت میں کئی عورتیں دستیاب تھیں وہ لونڈی ازم کے پر دے میں جنسی ہوس پوری کر رہا تھا یہ بیچاری عورتیں یہ گھناؤنا گنا ہ عبادت سمجھ کر کر رہی تھیں ۔ میں نے میڈم کو روک کر سختی سے کہا کہ میں ایسا سوچ بھی نہیں سکتا اور پیر صاحب گناہ کر تے رہے ہیں آپ بھی یہ گناہ کا دھندہ چھوڑ دیں ‘ اللہ آپ کے لیے آسانیاں عطا کرے گا پھر میں اٹھ کر چلا آیا آتے ہوئے یہ بھی کہہ دیا آپ میر ی بہن باجی کنیز ہیں ‘ میں باجی کے طور پر آپ کے لیے دعا کرتا رہوں گا دوسال گزر گئے باجی کا فون کبھی کبھی آجاتا اُس نے پوری کوشش کی لیکن اڈا نہ چلا ‘ ساری لڑکیاں بھاگ گئیں تو باجی کنیز کا مجھے فون آیا پروفیسر صاحب میں نے دھندہ چھوڑ کر تو بہ کر لی ہے اب میں اپنی منہ بولی بیٹی کے پاس رہتی ہوں ‘ گناہوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھوڑ دیا ہے پھر پانچ سال اور گزر گئے باجی کنیز نے قرآن کلاس میں داخلہ لے کر قرآن کی قرات اور ترجمہ سیکھ لیا اب بھی کبھی کبھا ر باجی کنیز کا فون آتا ہے تو کسی کی مدد پریشانی کے لیے تو میں خدا کی کر م فرمانیوں پر قربان ہو جاتا ہوں جس نے باجی کنیز پر تو بہ کا دروازہ کھول کر اُسے گناہوں سے نکالا ایمان کے اجالوں میں پیکر نور بنا دیا ۔