کالم : بزمِ درویش
گفٹ
پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ای میل:
ویب سائٹ: www.noorekhuda.org
فرعون نما پٹواری کو اپنے گھر کے دروازے پر کھڑا دیکھ کر مجھے تو آگ ہی لگ گئی ‘ آج جو سلوک اُس نے میرے ساتھ کیا تھا یہ کسی بھی شریف سے شریف ٹھنڈے مزاج والے انسان سے ہوا ہو تو اُسے غصہ تو آئے گا کیونکہ اس نے خواہ مخواہ ہمیں ذلیل اور تنگ کیا تھا ‘
میں حیران نظروں سے پٹواری کو دیکھ رہا تھا اِس وقت نہ تو اُس کے چہرے پر غرور دولت کا نشہ اکڑ چودھراہٹ تھی اور نہ ہی افسروں والی رعونیت بلکہ میں جیسے ہی گاڑی سے اُترا وہ تیزی سے میری طرف بڑھا ‘ گھٹنوں کو چھو نے کی کو شش کی جو میں نے منع کر دیا میں حیران نظروں سے دیکھتے ہو ئے بو لا پٹواری صاحب آپ جیسے اعلیٰ افسر مجھ فقیر کے در پر کیسے آگئے ‘ مجھے حقیقت کا پتہ لگ گیا تھا کہ اِس کے باس نے اِس کے سر پر ڈنڈا مار کر اِس کی فرعونیت اقتدار دولت کا نشہ اتار دیا ہے اِس کو اِس کی اوقات یاد دلا دی ہے ‘ اب یہ اعلی نسل کے میراثی کے طور پر سر جھکائے چہرے پر خو شامدی تاثرات سجائے کھڑا تھا ساتھ ہی اِس نے وہ کاغذات میری طرف بڑھائے جنا ب جس کام کے لیے آپ آئے تھے وہ میں بکلم خود لے کر حاضر ہو ں ۔آئندہ جب کبھی بھی آپ کو ایسا کسی بھی قسم کا کا م ہو تو غلام کو ایک کال کر دیا کریں نوکر خود حاضر ہو جایا کرے گا اِس بہانے آ پ کا دیدار بھی ہو جایا کرے گا ‘ اِس دوران اُس نے پھلوں کا ٹوکرا اور مٹھا ئی کا ڈبہ بھی پیش کیا جناب آپ کے کام کی خوشی میں فروٹ اور مٹھائی بھی میں خود ہی لے کر آیا ہوں اور یہ خدمت آئندہ بھی جاری رہے گی ‘ ایک انسان نئے چہرے میں ایک ہی دن میں ایک انسان کے دور وپ میں حیران نظروں سے دیکھ رہا تھا کہاں فرعون بنا لوگوں پر حکمرانی کر رہا تھا اور یہاں غلاموں کی طرح سر جھکائے خو شامد پر خوشامد کئے جا رہا تھا انسان کتنی سپیڈ سے گرگٹ کی طرح رنگ بدلتا ہے یہ میں اپنی نظروں سے دیکھ رہا تھا ‘ میں نے کاغذ پکڑے اور سختی سے کہا مٹھائی اور فروٹ واپس لے جاؤ میں تمہیں بلکل نہیں جانتا اور نہ ہی لوں گا اُس نے بہت اصرار کیا لیکن میرا لہجہ دیکھ کر ڈر گیا جاتے جاتے یہ کہہ گیا جناب قریبی مسجد میں دے جاتا ہوں ۔ میں حیران نظروں سے اُسے دیکھ رہا تھا میں نے بیوہ کو بلایا اُس کو کاغذات دئیے وہ بہت خوش تھی کہ بھٹی صاحب کی کرامت کام آگئی جبکہ میں اچھی طرح جانتا تھا یہ کرامت نہیں اُس کے باس کا ڈنڈا تھا جس کے لگنے سے اِس کی ٹیوننگ ہو گئی تھوڑی دیر میں اُس کے باس کا فون بھی آگیا جناب بندہ پہنچ گیا ہے آپ کاکام کر گیا ہے تو میں نے شکریہ ادا کیا باس بار بار شرمندگی کا اظہارکر رہا تھا ساتھ یہ بھی کہ آپ کو خود جانا ہی نہیں چاہیے تھا میں خوش تھا کہ اُس بے بس عورت کا کام ہو گیا لیکن اصل سٹوری تو اب شروع ہو نے جارہی ہے جو میرے لکھنے کی وجہ بنی ‘ پٹواری کے جانے کے بعد اگلے دن ہی میرے دوتین دوستوں کے فون آئے اُس پٹواری کا نام لیا کہ یار وہ ہمارا دوست ہے تم اُس سے ناراض ہو ‘ ناراضگی ختم کرو بہت کام کا بندہ ہے اِس کو اپنے حلقے میں شامل کر لیں بہت کام آئے گا پھر تین دن بعد پٹواری مٹھائی فروٹ کے ساتھ حاضر تھا اِس بار میرا قریبی دوست بھی سفارشی بن کر آیا تھا مجھے بھی اچھی طرح احساس ہو گیا تھا کہ یہ ایک چلتا پھرتا پرزہ ہے ‘ معاشرے اور نوکری میں کیسے سروائیو کر نا ہے خوب جانتا ہے اُس کی ذہانت کا میں اِس طرح قائل ہوا کہ اُس نے کتنی برق رفتاری سے میرے حدود اربعے کے دوستوں کا پتہ چلایا اور پھر میرے قریب ہونے کی کامیاب کو شش کی ‘ پٹواری بار بار ایک ہی درخواست جناب مجھے اپنا مرید غلام بنالیں میں آپ کی خدمت کر نا چاہتا ہوں ‘ اصل میں جب وہ میرا جغرافیہ پتہ کر رہا تھا تو شاید چند دوستوں نے اسے بتایاتھا کہ بھٹی صاحب کے پاس بھی بہت سارے اعلیٰ افسران آتے ہیں اور پھر اُس کے باس نے بھی شاید اپنی عقیدت کا اظہار کیا تھا اس لیے اب وہ میری روحانیت کی بجائے تعلقات کی بنا پر قریب ہو نا چاہ رہا تھا میری فطری رحم دلی میں نے اُس پر اپناغصہ کر نا کم کر دیا اب وہ کبھی کبھی آتا سلام کر کے چلا جاتا ‘ میں نے ایک بات نوٹ کی وہ مسلسل میرے قریب آنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن پتہ نہیں کیوں میرے دماغ سے اُس کا فرعونی رویہ ابھی تک نہیں نکلا تھا وہ جب بھی آتا مجھے عجیب سی بیزارگی اکتاہٹ ہو تی اُس سے طبیعت میں عجیب سا بو جھل پن اوازارگی سی آجاتی اور دل کر تا وہ جلدی سے واپس چلا جائے لیکن اُسے دیکھ کر حیرت ضرور ہو تی پھر اُس نے ایک ایسی حرکت کہ کہ میرے تن بدن میں تو آگ ہی لگ گئی ‘ ایک دن تین جوان خوبصورت لڑکیاں میرے پاس روحانی علاج کے سلسلے میں وہ لے کر آیا اور بولا جناب اِن کو دم وغیرہ کردیں اِن لڑکیوں کے انداز اطوار گفتگو میں فحاشی کا عنصر زیادہ تھا ادھر ادھر کی باتیں کر کے چلی گئیں جتنا عرصہ بھی وہ میرے سامنے رہیں اپنی معنی خیز مسکراہٹ اور اداؤں کا مسلسل اظہار کر تی رہیں عقیدت و احترام بھی نام کا تھا پتہ نہیں وہ کس مشن پر انہیں لے کر میرے پاس آیاتھا وہ لڑکیاں کون تھیں اِس کا اُن کے ساتھ کیا تعلق تھا‘ یہ سوال میرے دماغ میں مچل رہے تھے میں نے اپنے دوست کو بلایا جو اُس کو لے کر آیا تھا اب میرا تجسس پھر جوبن پر تھا کہ یہ ہے کیا چیز اگلے دن وہ دوست آگیااُس نے جو حقائق اِس انسان کے بارے میں بتائے میری زندگی کا ایک نیا تجربہ اور انسان کا ایک اور روپ ‘حیرت ہی حیرت تھی آج اُس کا اصل روپ کھل کر میرے سامنے آیا تھا میرے دوست نے بتا نا شروع کیا جناب بہت تیز چالاک انسان ہے پچھلے کئی سالوں سے لاہور کے ٹاپ ٹین حلقوں میں اپنی مرضی کی جاب کرتا ہے ‘ سرکاری افسران اِس کی رکھوالی کر تے ہیں ۔ سرکاری افسروں کا اِس کے گھر اور اِس کا اُن کے گھروں میں جانا معمولی سی بات ہے اِس کو کوئی بڑے سے بڑا بندہ نہیں چھیڑ سکتا اِس کو اگر چھیڑنے کی کوشش کرے تو اوپر تک گھنٹیاں بج جاتی ہیں ‘ اپنے پیسے تعلقات کے بل بو تے پر یہ طاقتور ترین افسر ہے اعلیٰ افسران کو قیمتی گفٹ دیتا ہے اُن کے گھروں کے بل ادا کر تا ہے ‘ کچن کے خرچے اٹھاتا ہے گندم چاول سالانہ بنیادوں پر دیتا ہے اور سب سے اہم کام جو سن کر آپ بھی حیران رہ جائیں گے اِ س نے اقبال ٹاؤن میں ایک کوٹھی کرائے پر لے رکھی ہے جہاں پر تین جوان لڑکیاں اِس نے ماہانہ بنیادوں پر ملازم رکھی ہیں وہ تینوں جسم فروش لڑکیاں ہیں جواِس نے مختلف اڈوں سے حاصل کی ہیں یہ سرکاری افسروں کی شاندار لذیز کھانوں اورشراب کی دعوتیں کر تا ہے یہ لڑکیاں وہاں سرو کر تی ہیں جو پسند ہو افسر لے کر خواب گاہ میں گھُس جاتا ہے اُس کوٹھی میں اعلیٰ درجے کے دو کک شراب اور یہ تین لڑکیاں ہیں جو افسر آرا م کرنا چاہتا ہے جاکر وہاں راتیں بھی گزارتا ہے اگر کوئی افسر مری یا کسی اور جگہ اِن لڑکیوں کو لے جانا چاہے تو لے جاتا ہے آپ کے پاس بھی وہی تین لڑکیاں آئی تھیں ۔ اُس کی یہ جرات لیکن اُس نے آپ کو بھی یہ گفٹ کے طور پر بھیجی تھیں اب وہ آپ کو عمرے کی آفر کرے گا جو لوگ عیاشی نہیں کر تے انہیں عمرے بھی کراد یتا ہے یہ بندے کی ڈیمانڈ کے مطابق گفٹ دیتا ہے میرا دوست اُس کے کارنامے بتا رہاتھا اور میں انسان کے روپ پر حیران تھا اگلے دن میں نے پٹواری کو بلایا اور کہا زندگی میں کبھی میرے سامنے نہ آنا کبھی تو بہ کا موڈ ہو تو آنا ورنہ میں تمہاری شکل نہیں دیکھنا چاہتا پھر یہ چلا گیا آج آٹھ سال بعد ناکام اداس شکست خوردہ میرے سامنے تھا سر میں توبہ کر نے آیا ہوں ساتھ ہی بتا نا شروع کیا میں طاقت کے نشے میں چور بھاگا جا رہاتھا پھر خدانے مجھے سزا دینے کا فیصلہ کیا میں کسی لڑکی کے عشق میں مبتلا ہو گیا اُس کے عشق میں نوکری اور دوستوں پر توجہ نہ دے سکا انٹی کرپشن نے رشوت کے نوٹوں کے ساتھ پکڑ لیا بیوی میرے تین بچوں کے ساتھ کسی اورکے ساتھ بھاگ گئی فون پر بتایا تینوں بچے تمہارے نہیں کسی اور کے ہیں ‘ یقین نہیں تو DNA کرا کر دیکھ لو پیسہ ختم ہوا تو جس لڑکی کے عشق میں تھا وہ بھی بھاگ گئی ۔ اب انٹی کرپشن کے پیشیاں بھگت رہاہوں ‘ پرانے دوستوں سے ادھار پیسے لے کر گزارا کر تا ہوں جسم پر مختلف بیماریوں نے حملہ کر دیا کثرت شراب نوشی سے معدہ اورجگر خراب ہو چکے ہیں اب میں تو بہ کر نا چاہتا ہوں پھر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا میں نے تسلی دی اور بولا تم ساری زندگی لوگوں کو گفٹ دیتے رہے اب خدا کو توبہ کا گفٹ دو تاکہ اُسے تم پر رحم آئے تمہاری دنیااور آخرت دونوں سنور جائیں ۔