اِس عہد کا چہرہ
پروفیسرنورالامین۔۔پربھنی
میں ۔۔۔ہاں ‘ میں ادھر ذرا سنو تو۔۔۔ میر ی جانب۔۔۔ میں نے اردگرد نظر دوڑائی پر مجھے راستے پر دور دور تک کوئی بھی نظر نہیں آیا۔کیوں کہ ابھی تو صبح ہوئی تھی اور یہ شہر اپنی نیند سے اتنی جلد بیدار نہیں ہوتا ہے وہ تو مجھے آج آفس جلد پہنچ کر لوٹنا تھا اس لئے میں بس اسٹاپ پر چلا آیا۔میں مزید کچھ شبہات میں مبتلاء ہوتا۔۔۔پھر ایک مرتبہ وہی آواز میری سماعتوں سے ٹکرائی۔۔۔’’ میں ۔۔۔ادھر یہ ! اس جانب ۔۔۔ میں نے آوازکو بغور سُنا تو کیا دیکھتا ہوں کہ سایہ فگن درخت ہی مجھ سے مخاطب ہے ۔ اُس نے کہا ۔
’’ ذرا قریب آؤ میں تم سے کچھ کہنا چاہتا ہوں۔‘‘
میں نے سونچا چلو سُن لیتے ہیں کیا کہتا ہے۔ابھی بس کہ آنے میں ویسے بھی کچھ وقت ہے۔
اُس نے کہا۔
’ میں تم کو جانتا ہوں۔‘‘
اُس کے جانتا ہوں کہنے نے ، کیا جانتا ہے کی تشنگی کوبڑھادیا تو میرے تجسس نے مجھے اُس سے قریب کردیا۔میں کچھ پوچھتا وہ کہنے لگا۔’’ میں تمہیں تب سے جانتا ہوں جب تم یہاں سے اسکول کے لئے بس میں سوار ہوتے تھے ۔ میں نے تم کو عمر کے ہر درجہ میں دیکھا ہے ۔ اُس وقت بھی جب تم کھلونوں کے لئے ضد کرتے تھے اور اس وقت بھی جب تمہارے بچے تم سے کھلونوں کے لئے ضد کرتے ہیں۔۔۔ میں تمہیں کیامیں ان زمانوں کا بھی شاہد ہوں ۔جب اونٹ کے پہلے یا بعد میں پانی پینے کی وجہ سے خاندان کے خاندان کٹ جاتے تھے ۔ میں نے زمانے دیکھے ہیں۔‘‘ اچھے بُرے۔۔۔بُرے اچھے تمام کی تمام حالتوں کا میں شاہد ہوں یہ سورج کی گردش، یہ چاند کا نکلنا ، بارش کی بوندیں ، تمہارے پیروں تلے کی زمین اور تمہارے سرپر موجود نیلا آسمان سب میرے بات کی تصدیق کرینگے کہ میں کئی زمانوں کا شاہد ہوں میں زمانے کی پیدائش پر شادیانے بھی سُنے اور اس کی موت پر آہ وزاری بھی،میں بڑے بڑے تغیرات کا آنکھوں دیکھا حال لفظ بہ لفظ سُنا سکتا ہوں۔تم مجھے بس ایک بوڑھا پیڑ جان کر میری باتوں کو نظر انداز مت کرنا۔مجھے وقت نے زبان دی ہے اور حالات نے الفاظ۔میں حکمت بھی جانتاہوں اور مصالحت کے موڑبھی ، میں دردِوجہ جانتا اور علاج دردِ بھی یہاں رہتے رہتے خالق نے علم والوں کو اس جگہ پر ہر زمانے میں بھیج کر ایسی علمی باتیں سُنانے کا نظم کیا کہ میں خود بھی حیران ہوں اس راہ سے گذرنے والا بادشاہ ہو کہ فقیر سب نے اس خادم خلق کے سایہ سے فیض اٹھایا۔وہ زیر سایہ بیٹھ کر علمی ،سیاسی، سماجی ،حکمت ،دانائی اور طیب کی باتیں کرتے گویا کہ وہ آپس ہی میں نہیں مجھے بھی علم کے باٹنے کا فعل انجام دے رہے ہوں ۔میرے علمی ذخائران ہی آپسی مبحاثوں کی وجہ سے لبالب ہیں یہ فخر نہیں ہے بس تمہارے ساتھ اپنی عمر اور اس کے ساتھ جو حاصل کیاہے اُسے بانٹ رہاہوں۔میر ی دلچسپی مزید اور مزیدگہری ہورہی تھی وہ کہہ جارہا تھا۔اُس نے بڑی اچھی اچھی دانائی وحکمت کی باتیں کی۔میں بہت محظوظ
ہوا۔ اس نے زندگی کی ہر گوشے کو بڑے ہی سلیقے سے مجھے سمجھایا بڑی عمدگی سے اس کی بارکیوں کو بتایا۔اُس کی باتوں میں، میں جانے کیسے کھو گیا ۔اُس نے کچھ کہنے کے لئے توقف کیا تو مجھے یاد آیا کہ مجھے آج آفیس جلد پہنچنا بھی ہے۔ آفس کے خیال نے میری توجہ بس کی جانب لگادی۔۔۔میں بار بار بے ترتیب سا کبھی اُسے کبھی بس والی راہ کو دیکھ رہا تھا ۔پر اس خالی راہ پر اُس کا پتہ نہیں تھا۔ پرجانے کیوں اس سے لمحہ بھر ہی میں ایک رشتہ سا قائم ہوگیا تھا ویسا ہی جیسا میرے اور میرے دادا کے درمیان تھا۔یا شاید اُس سے بھی زیادہ۔۔۔!زیادہ اس لئے کیونکہ وہ تو میری زندگی کے ہر اُس لمحہ کو اِس طرح بتلا رہا تھا جیسے دادی کہانی کے درمیان میری بچپن کی شرارتوں کو تمثیلاً بیان کرکے مجھے سمجھاتی تھی۔کچھ اس طرح کے احساس کو میں محسوس کررہا تھا ۔ میں مزید احساس و جذبات کے دریا میں غوطے لگا تا مجھے دوبارہ بس کے خیال نے احساس و جذبات سے الگ کیا تو میں نے خالی راہ پر نگاہ دوڑائی پر بس کہاں بس ایک دو سواریاں نظر آئیں ۔
’’بس بھی آجائیگی۔ابھی کچھ وقت ہے تم بے چین نہ ہو یہاں جو بھی آتا ہے اپنی سواری میں سوار ہو کر ہی جاتا ہے ہر ایک کی سواری اُس کے اپنے مقررہ وقت پر آتی ہے اور اُسے سوار کرکے لے جاتی ہے۔تمہاری سواری بھی تمہیں تمہاری منزل تک پہنچانے ضرور آئیگی ۔‘‘
اُس نے جانے کیا کہا میری سمجھ میں تو بس اتنا آیا کہ میری بس آئیگی چاہے تھوڑی دیر ہی سے کیوں نہ آئے پر آئیگی ضرور وہ مزید کچھ اور کہنے جارہا تھا پر اب میرے پاس اُس کی دلچسپ باتیں سُننے کے لئے وقت نہیں تھا۔میں اب یہ سونچ رہا تھا کہ اگر بس نہ آئے گی تو میں کونسی سہولت اختیار کروں جس سے آفس وقت پر پہنچ سکوں ذہین میں کئی طرح کی باتیں، ترکیبیں آفس پہنچنے کے لئے آرہی تھیں۔پر نہ جانے کیوں مجھے یہ احساس ہورہا تھا کہ میرے قدم زمیں ہی سے چسپاں ہوگئے ہیں۔جب میں نے اپنے قدم آگے بڑھانے کے لئے اٹھائے تو آگے بڑھنے میں کامیاب نہیں ہوا تب میں نے سُنا کہ درخت مجھے ’’ بیٹے ‘‘ کہہ رہاہے ۔اُس نے کہا۔
’’ بیٹے میں ایک مصیبت میں ہوں۔۔۔!‘‘ مصیبت درخت کی ۔میں نے مزید کچھ نہیں سونچا اُس نے کہا تم میری مصیبت کو دور کرسکتے ہو میں اور مصیبت کو دور کرسکتا ہوں میری زبان سے بے اختیار نکلا۔
’’ ہاں تم ہی ‘‘ ۔ اُس نے کہا ۔
’’ کیاہوا ؟‘‘
’’ میرے سر کے اوپر سے چند بجلی کی تاریں ہو کر گزر رہی ہیں ۔میں نے دیکھا تو چند تاریں تھیں۔وہ کہہ رہا تھا ۔
’’ ہواؤں کے چلنے کے باعث ان میں چنگاریاں پیدا ہوتیں ہیں۔اور وہ مجھ پر گرتی ہیں ۔ تم محکمہ بجلی میں جا کر انھیں درست کرنے کے لئے ایک درخواست دے سکتے ہو۔ابھی ان چنگاریوں کے خطرناک ہونے میں وقت ہے تم چاہو تو یہ کام چھٹی کے دن بھی انجام دے سکتے ہو میں نے سُنا ہے کہ تاروں کو دُرست کرنے کا دفتر تمہارے گھر کی راہ میں ہی پڑتا ہے ۔‘‘
’’ ہاں پڑتا ہے ۔‘‘ میں نے کہا۔
’’ تو بیٹا تم جاؤگے ؟۔‘‘ اُس نے پوچھا ۔
’’ ہاں۔‘‘ میرے کہنے پر اُس نے پھر سے استفسار کیا۔
’’ کب ‘‘ ؟ تو میں نے کہا ۔
’’ میں دو تین دن انتہائی مصروف ہوں اس کے بعد اولین فرصت میں آپ کا حکم انجام دونگا۔‘‘
’’ حکم نہیں ہے بیٹا ۔۔۔مصیبت زدہ کی درخواست ہے۔‘‘
’’ آپ نے بیٹا کہا ہے تو میں آپ کی بات کو حکم ہی کے طور پر قبول کرتا ہوں۔‘‘ جانے میں یہ کیسے کہہ گیا شاید اس لئے کہ آج کئی سالوں بعد میں نے یہ جملہ دوہرایا تھا ۔کئی سالوں بعد اس لئے کیوں کہ میں اپنے دادا کا وہ کام جووہ بیٹا کہہ کرکہتے تھے میں بڑے ہی احترام سے سُنتا
پر۔۔۔میں نے اُسے اُس کی خدمت انجام دینے کا وعدہ کیا اور ڈھیر ساری دُعائیں لے کر بس کے آتے ہی اُس میں سوار ہوگیا۔آفس پہنچا۔۔۔کام کیا۔۔۔گھر لوٹا۔۔۔ گھر میں گھر کی مصروفیات کو کم کیا ۔۔۔ تو صبح بس اسٹاپ وہی اُس کا سوال ’’فرصت نہیں ہوئی ۔۔۔میرا جواب۔۔۔ ’’ نہیں کل ملی اس چھٹی پر۔۔۔!
اب تو یہ بات معمول میں شامل ہوگئی تھی ۔ ایسا نہیں کہ مجھے اس کے کام میں عدم دلچسپی تھی بلکہ میں اس شہر میں تنہا اپنی گھر یلو و سماجی زندگی کو کسی نہ کسی طرح سے انجام دے رہا تھا ۔ تھی توبہت معمولی سی بات کہ ایک درخواست دے دوں۔پر گردش ایام میں اس قدر گرفت کہ ہر ضرورت پابہ زنجیر۔۔۔ نہ دو قدم آگے نہ دو قدم پیچھے۔۔۔ پابندی کے خلاف حرکت کی اجازت نہیں بس یوں ہی اپنی اور اپنوں کی ضرورتوں کی تکمیل کرتے کرتے زندگی و زندگی کے لمحے گذارنے پڑتے ہیں یا پڑرہے ہیں ۔ ان حالات میں ہمدردی کے باوجود مجھ سے نہ چاہتے ہوئے بھی تاخیر ہورہی تھی اور یہ تاخیر مجھے شرمندہ کررہی تھی۔اس سے بچنے کے لئے میں نے آفس ہی کے اوقات میں سے وقت نکال کر ایک درخواست لکھ دی کہ بس اسٹاپ وی۔آئی ۔پی روڈکے درخت کے اوپر سے گذرنے والی بجلی کی تاروں میں چنگاریاں پیدا ہو رہی ہیں جو وہاں موجود درخت پر گرتی ہے جس سے وہ کبھی بھی حادثہ سے دو چار ہوسکتا ہے لہذا محکمہ سے درخواست ہے کہ ان چنگاریوں کو فورا بند کرئیے۔میں نے اس کے علاوہ بھی بس اسٹاپ پر درخت کی اہمیت کو بڑے ہی موثر طریقہ سے بیان کیا۔درخواست کے مکمل ہونے پر مجھے بڑا ہی اطمینان ہوا آفس سے لوٹتے ہوئے بس اسٹاپ پرپہنچا تو خیال ہوا کہ درخواست بتلاؤں پر اس خیال سے کہ چین نہیں پایا کہ وہ میری بات پر شاید یقین نہ کریں۔ مگر یقین کرلیتا کیونکہ اُسے میری دیانت داری پرکوئی شبہ نہیں تھاپھربھی میں نے اس سے درخواست کے بارے میں اُنہیں بتایا اور گھر چلا آیا پھر وہی معمول وہی ضرورتیں خواہش اور طرح طرح کی باتیں لیئے چہرے انھیں پڑھ کر ، انھیں سُن کر ، میں ان ہی میں کھو گیا ۔۔۔!
صبح آفس پہنچا تو میرے ہاتھوں میں ایک لیٹر دیا گیا جس میں کہا گیا تھا کہ مجھے آفس کے کام سے بیس دن آسٹریلیا جانا ہے میں یہ پڑھ کر اُچھل پڑا ۔کیوں نہیں۔۔۔! مجھ جیسے افسر کو اتنا بڑا موقع جو ملا تھا ۔ جس سے میری خوشی کی انتہا نہ رہی۔۔۔ میں نے آفس کی چند کاغذی کاروائی کی اوراپنے ہمرا ہ لے جانے والے کاغذات ، فائلیں، ساتھ لیئے اور ٹیکسی سے گھر آگیاگھرمیں جب میں نے آسٹریلیا جانے کے بارے میں سُنایا تو مجھے مبارک باد تو نہیں ملی بلکہ ہر ایک کی لمبی لمبی فرمائش کی لسٹ ضرور مل گئی۔میں آسٹریلیا جانے کی تیاریوں میں جٹ گیا۔کیونکہ کل ہی فلائٹ تھی ساری تیاریاں مکمل ہوچکی تھی رات جیسے تیسے کروٹیں بدل بدل کر گذاری۔۔۔صبح۹ بجے۔۔۔ ایئر پورٹ۔۔۔ آسٹریلیا ۔۔۔ آفس۔۔۔ آفس کا کام۔۔۔ چند ایک میٹنگس۔۔۔اس کے بعد فرصت۔۔۔ ہوٹل ۔۔۔ گھومنا۔۔۔ بچوں کی بیوی کی فرمائش کی چیزوں کی خریدی۔۔۔ کچھ دن آرام۔۔۔ اچھی خاصی سیر۔۔۔ اور لوٹنے کا وقت۔۔۔ لوٹنے کی تیاریاں ۔۔۔وہ دن آیا جب میں آسٹریلیا سے اپنے گھر کے لئے روانہ ہوا چہرہ پر اطمینان اور جسم میں نئی سی حرارت ۔۔۔اطمینان اس لئے کیوں کہ وہ کام بہ حُسن خوبی انجام دیا جو آفس نے انجام دینے کو کہا تھا اور حرارت اس لئے کیونکہ آسٹریلیا کی تازگی اور سماجی رتبے میں اضافہ نے جسم میں نئی توانائی دوڑادی۔ میں نے زندگی میں ایک خوشی کے احساس کو دل سے محسوس کیا ۔۔۔ اسی خوشی و احساس کے ساتھ ہندوستان اپنے وطن لوٹا۔۔۔ ائیر پورٹ سے ٹیکسی لی اور اپنے گھر کی جانب چل پڑا۔راستے میں یکا یک متفریق خیالوں کے درمیان درخت کا بھی خیال آیا۔! میں۔۔۔ اس خیال ہی سے رنجیدہ ہوگیا۔۔۔ مجھے خیال ہوا کہ میں کیسا شخص ہو ایک جاندار جس نے ایک معمولی تکلیف کے دور کرنے کو کہا تو میں نے اُسی طرح جس طرح کی غلطی میں نے دادا کے ساتھ کی تھی۔۔۔ ہاں! میں دہل کیوں کہ آج بھی سارے لوگ مجھے ہی دادا کی موت کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ وہ اس لئے کہ میں نے اُن کی معمولی سی ، اسی طرح کی ملتی جھلتی تکلیف دور نہیں کی تھی اور وہی تکلیف اُن کی موت کی وجہ بنی۔ اس خیال کے
ذہن میں آتے ہی میں نے ٹیکسی کو بس اسٹاپ کی جانب موڑ نے کو کہا۔ ڈرائیور نے گاڑی میری ہدایت پر موڑدی میں نے دور ہی سے بس اسٹاپ کی روڈ پر زیادہ روشنی کو محسوس کیا تو سینے میں ہلکی سی پھانس کی چبھن کا احساس ہومجھے یہ سمجھنے میں لمحہ بھی نہیں لگا کہ میں نے اپنی ایک اور
سب سے بڑی غلطی کی ہے میری دو غلطیاں ۔۔۔ دو جانیں۔۔۔ میری آواز حلق میں بیٹھ گئی۔۔۔
میری نگاہیں راکھ کے ڈھیر ہی پر جم گئی ڈرائیور نے مجھ سے کہا یہ راکھ بوڑھے پیڑ کی ہے یہ جو تارے ہے نا صاحب ان ہی تاروں کی وجہ سے درخت خاکھ میں تبدیل ہوگیا۔ کاش مجھے پتہ ہوتا کہ یہ تاریں پیڑ کو خاکھ کردے گی تو میں اسے بدلوانے کے لئے اپنی جان پر کھیل جاتا ان کی بھی تو جان ہوتی ہے نا صاحب ۔۔۔ کاش مجھے پتہ ہوتا۔۔۔ جانے دو صاحب اب کہاں چلوں کیا یہی پر اُترنا ہے۔‘‘
’’ نہیں میں نے بڑی تکلیف سے کہا۔ تو اُس نے پوچھا کہاں۔
تو میں نے کہا چلو جہاں پر ضرورتیں مجھ جیسے خادم کی راہ میں نظریں لگائے کھڑی ہونگی۔ اور ٹیکسی گھر کی جانب چل پڑی گھر تک پہنچنے پہنچے چنگاریوں کے جلانے کا غم کا فور
ہوگیا۔۔۔! نہ کچھ ہونے کا افسوس ہو اور نہ کچھ نہ کرنے کا غم یہ احساس کی تبدیلیوں کے پلٹے اُلٹتے اوراق جانے کب اپنی تحریروں سے خالی ہوگئے ۔ میری طرح کسی کو بھی شایداس کا علم نہیں ہوگا۔۔۔!!
شاید یہ عہد ہی ایسا ہے جس کا چہرہ میرے لمحہ بھر کے احساس کرنے
جیسا ہے ۔۔۔!!