فروغ اردو پروگراموں میں نئی نسل کی حوصلہ افزائی ضروری
قمر الدین صابری اردو فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام
محفل افسانہ و مشاعرہ سے پروفیسر مجید بیدار کا خطاب
حیدرآباد۔24فروری راست) اردو کی عظیم وراثت کو نئی نسلوں تک منتقل کرنے کے لیے لازمی ہے کہ فروغ اردو کے سبھی پروگراموں میں نئی نسل کی حوصلہ افزائی کی جائے تاکہ وہ اردو کے کارواں کو مزید آگے لے جا سکیں۔
اردو دلوں کو جوڑنے والی عالمی بھائی چارے کی عظیم زبان ہے جس کے شعر و ادب کے سرمایے سے استفادہ اور اس کے پیغام کو عام کرنے کی ضرورت ہے اور حیدرآباد میں قمر الدین صا بری اردو فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام منعقد ہونے والے ماہانہ ادبی اجلاس اور مشاعرے سے یہ کام بخوبی ہورہا ہے جہاں ہر ماہ اردو کے سینیر ادیب‘شاعر‘ محقق و نقادوں کے ساتھ نئی نسل کے ابھرتے تخلیق کار ‘ادیب و نقاد اپنی تخلیقات کو پیش کر رہے ہیں اور فروغ اردو کی مہم کا حصہ بن رہے ہیں ان خیالات کا اظہار پروفیسر مجید بیدار نے قمر الدین صابری اردو فاؤنڈیشن حیدرآباد کے زیر اہتمام منعقدہ شام افسانہ و مشاعرے سے کیا۔ اس پروگرام کے سرپرست اعلیٰ پروفیسر ایم ایم انور پرنسپل سائنٹسٹ و سرپرست بزم تھے۔ ڈاکٹر محمد ناظم علی نے اردو افسانے کے اہم خد و خال پیش کئے اور پریم چند کے افسانے نجات کا تنقیدی جائزہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ پریم چند بیسویں صدی کے اہم افسانہ نگار تھے ۔ ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی نے محمد انیس فاروقی کا افسانہ آدرش وادی پیش کیا۔ آگرہ سے ریسرچ اسکالر سعدیہ سلیم نے اپنا افسانہ نیکی کا صلہ ذریعے فون پیش کیا۔امرناتھ راہگیر نے اپنا افسانہ مکالمہ پیش کیا۔ریسرچ اسکالر ظفر اقبال نے مومن خان شوق فن اور شخصیت پر اپنا مقالہ پیش کیا۔ حیدرآباد کے نامور شاعر مومن خان شوق پر انہوں نے ایم فل کا مقالہ لکھا ہے۔ اس موقع پر قمر الدین صابری اردو فاؤنڈیشن کے زیر اہمتام پروفیسر ایم ایم انور صاحب اور پروفیسر مجید بیدار صاحب کے ہاتھوں ریسرچ اسکالر ظفر اقبال اور مومن خان شوق کی شال پوشی و گلپوشی کی گئی ۔ حیدرآباد کی دیگر ادبی تنظیموں کی جانب سے بھی گلپوشی کی گئی۔ ادبی اجلاس کے بعد محفل شعر منعقد ہوئی۔ جس میں مدعو شعراشکیل انور رزاقیؔ ‘ڈاکٹر ناقد رزاقیؔ ‘ سردار اثر‘کامل حیدرآبادی‘ مومن خان شوق اور صدر جلسہ پروفیسر مجید بیدار صاحب نے اپنا کلام پیش کیا۔ ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی نے پروگرام کی نظامت کی اور اس اجلاس کی کاروائی کو فیس بک کے ذریعے لائیو ٹیلی کاسٹ کیا۔ ان ہی کے شکریے پر محفل کا اختتام عمل میں آیا۔