بک اسٹبلشمنٹ کیفے پونہ میں ہندوستانی زبانوں اور عالمی ادب پر
خان حسنین عاقب کا خصوصی لکچر
پونہ : سماج اور ادب کا رشتہ بہت گہرا ہوتا ہے۔ سماج کے مختلف شعبوں میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات کی عکاسی ادب میں ہوتی ہے. ادب ہی سماج میں تبدیلیوں اور انقلاب کی پیشوائی کرتا ہے.
مہاراشٹر کی تہذیبی و ثقافتی راجدھانی پونہ میں مختلف یونیورسٹیوں میں زیرِ تعلیم کچھ نوجوانوں نے *بک اسٹبلشمنٹ کیفے* کے نام سے ایک ثقافتی تنظیم تشکیل دی جس کے ذریعے وہ زندگی کے مختلف شعبوں سے وابستہ افراد کو زبان و ادب جوڑتے ہیں۔ اسی سلسلے میں وہ ہر مہینے کسی مشہور و معروف بڑے ادیب و دانشور کو خصوصی لکچر کے لیے مدعو کرتے ہیں.
15 فروری 2019 کی نشست میں اس مرتبہ نئی نسل کے معروف ادیب و شاعر ماہر تعلیم اور ترجمہ نگار پروفیسر خان حسنین عاقب صاحب کو مدعو کیا گیا ۔
یہاں یہ بتادینا مناسب ہوگا کہ موصوف کی دو کتابیں یشونت راؤ چوہان اوپن یورسٹی میں سال آخر کے بی اے کے نصاب میں شامل ہیں اور وہ اب تک گیارہ کتابیں تصنیف کر چکے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ وہ اردو کے ساتھ ساتھ انگریزی، ہندی، مراٹھی اور فارسی زبان پر بھی مہارت رکھتے ہیں۔ وہ بال بھارتی پونہ کی لسانی کمیٹی کے معزز رکن بھی ہیں۔
حسنین عاقب نے اپنے خصوصی لکچر کا آغاز پلوامہ میں شہید ہونے والے فوجیوں کو دو منٹ کی خاموشی اختیار کے ذریعے خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کیا ۔ اپنے خصوصی لکچر کا آغاز انھوں نے اردو اور ہندی کے باہمی رشتے کی تفصیلی وضاحت کے ساتھ کیا . انہوں نے ایک سوال کے جواب میں جب یہ بتایا کہ جدید ہندی کی عمر اردو زبان سے بہت کم ہے تو غیر اردو داں برادران و دخترانِ وطن نے یہ جان کر حیرت کا اظہار کیا کہ ان کی فہم کے مطابق ہندی قدیم زبان تھی. حسنین عاقب نے اردو اور ہندی زبانوں کی تاریخ اور دونوں زبانوں میں مماثلت اور تقابل کو ادبی حوالوں کے ساتھ پیش کیا. حاضرین نے مختلف ادبی موضوعات پر نہایت پر مغز اور اہم سوالات کئے جن کے تشفی بخش جوابات خان حسنین عاقب نے اپنے پرلطف انداز میں دے کر انہیں محظوظ کیا. حیرت کی بات یہ تھی کہ اس پروگرام میں لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں کی تعداد زیادہ تھی اور سوالات بھی لڑکیوں نے ہی زیادہ کئے جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ دخترانِ وطن ادب کے شعبے میں بھی کتنی سنجیدہ ہیں.
اس پروگرام میں پونہ یونیورسٹی اور سمبائسس یونیورسٹی کے مختلف فیکلٹیز کے گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ طلبہ نیز مختلف کارپوریٹ کمپنیوں میں برسرِ کار لیکن ادبی ذوق کے حامل اہل قلم کے ساتھ ساتھ سمبائسس انٹر نیشنل یونیورسٹی کی ایک معزز لکچرر بھی شامل تھیں. ان کے علاوہ کئی اہم شخصیات بھی موجود تھیں۔ اہل اردو کے لیے یہ اس لیے بھی اعزاز کی بات ہے کہ اس قسم کے پروگراموں میں کسی اردو ادیب و شاعر کو مدعو کیا جانا ایک مثبت پیش رفت ہوسکتی ہے.
اس پروگرام میں ای۔بی۔سی۔ کی جانب سے پونے میں مقیم ادبی ذوق رکھنے والے زیرِ تعلیم اور برسرِ ملازمت نوجوانوں سے ای بی سی کے حصول مقصد میں شامل ہونے کی خواہش کی گئی ۔ اس پروگرام کا انعقاد ای۔بی۔سی۔ کے تسہیل کاروں بشمول محمد سیف محمد ندیم (پونے یونیورسٹی اسٹوڈنٹ ویلفیئر ایکٹوسٹ) ، پراگ پٹھارے (کارپوریٹ کنسلٹنٹ) کملیش سونونے ( کارپوریٹ مینیجر) سعد احمد (ریسرچ اسکالر) اور دیگر ساتھیوں نے نہایت کامیابی کے ساتھ کیا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو اس نوعیت کے بامقصد اور سنجیدہ ادبی پروگراموں کا انعقاد کرنے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ نئی نسل کو معیاری ادب تخلیق کرنے والے اہل قلم میسر آسکیں.