خلافت الٰہیہ کے بنیادی اصول :- مفتی کلیم رحمانی

Share
مفتی کلیم رحمانی

خلافت الٰہیہ کے بنیادی اصول

مفتی کلیم رحمانی
8329602318 Mob:

حکومت اور اصول میں ایسا گہرا تعلق ہے کہ جب بھی کسی حکومت کا لفظ بولاجاتا ہے تو لفظ اصول اس میں ضرور موجود ہوتا ہے چاہے اس کو بولا جائے یا نہ بولاجائے ، کیوں کہ کوئی بھی حکومت اصولوں کے بغیر وجود میں نہیں آتی ، یہاں تک کہ کسی بھی حکومت کی کامیابی کا انحصار اس کے اُصولوں پر ہی ہوتا ہے ،

اگر اُصول اچھے ہوں تو وہ کامیاب حکومت ہے اور اُصول غلط ہوں تو وہ ناکام حکومت ہے، اس لحاظ سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ دراصل حکومتِ الٰہیہ کے اُصول ہی اُصول کہلانے کے لائق ہیں اور حکومتِ الٰہیہ ہی دراصل حکومت کہلانے کے لائق ہے، کیوں کہ اس کے اُصول اس رب کے مقرر کئے ہوئے ہیں جو انسانوں کا خالق اور مالک ہے اس لئے وہی بہتر جان سکتا ہے کہ انسانوں کی زندگی کے لئے کون سے اُصول اچھے ہوسکتے ہیں اور کونسے بُرے۔ اس سے یہ بات واضح ہوئی کہ اس زمین کی بہتر اور جائز حکومت صرف حکومتِ الٰہیہ ہی ہے اس کے علاوہ جتنی بھی حکومتیں ہیں وہ سب کی سب بُری اور ناجائز ہیں۔ یوں تو حکومتِ الٰہیہ کے کئی اُصول ہیں لیکن سب سے بنیادی اُصول یہ ہے کہ اس کے نزدیک سب سے بڑا حاکم اللہ ہے اور وہی قانون ساز ہے، اور چوں کہ کسی بھی قانون کے سمجھنے اور عمل کرنے میں ایک نمونہ کی ضرورت ہوتی ہے ، اس لیے اللہ کے آخری رسول ﷺ کی سیرت طیّبہ نمونہ ہے اس لحاظ سے حکومتِ الٰہیہ میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت ہی قانون کا اصل ماخذ و سرچشمہ ہے، اسی طرح کسی بھی حکومت کو چلانے کے لئے ایک سربراہ کی ضرورت ہوتی ہے اس لئے اس کی حیثیت بھی تسلیم شدہ ہے جس کو امیر المومنین یا خلیفۃ المسلمین کہتے ہیں اور حکومت کے انتظامی اُمور میں اس کی اطاعت بھی ضروری قرار دی گئی ہے کیوں کہ وہ ایک طرح سے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا نمائندہ ہوتا ہے۔ لیکن یہاں یہ بات واضح رہے کہ امیر المومنین قانون بنانے اور حکم دینے میں آزاد و خود مختار نہیں ہوتا بلکہ وہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکام کا تابع و پابند ہوتا ہے ، اس سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں پر
امیر المومنین کی اطاعت اسی وقت تک واجب ہے جب کہ اس کا کوئی حکم اللہ اور اس کے رسول کے حکم سے نہ ٹکرائے ، اگر اس کا حکم اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے حکم سے ٹکرائے تو پھر اس کی اطاعت نہیں کی جائے گی، اور اگر امیر المومنین سے کھلا ہو ا کفر صادر ہوجائے تو اس کی اطاعت سے ہاتھ کھینچ لینا اور اس کو عہدہ سے معزول کردینا مسلمانوں پر واجب ہے۔
حکومتِ الٰہیہ کے اس بنیادی اُصول سے سمجھا جاسکتا ہے کہ دُنیا کے عام حکومتوں کے بنیادی اُصول اور حکومتِ الٰہیہ کے بنیادی اُصول میں زمین و آسمان کا فرق ہے کیوں کہ دُنیا کی عام حکومتوں میں بنیادی طور پر انسان ہی کو سب سے بڑا سمجھا گیا ہے اور اسی کو قانون ساز تسلیم کیا گیا ہے۔ کچھ لوگ یہ کہہ کر حکومتِ الٰہیہ کی اہمیت و ضرورت سے انکار کرتے ہیں کہ اس کے اُصولوں کو بنے ہوئے چودہ سو سال سے زیادہ عرصہ ہوچکا ہے اس لئے موجودہ دور میں اس کے اُصول کارآمد نہیں ہوسکتے ۔ اس سلسلہ میں بس اتنا عرض ہے کہ حکومتِ الٰہیہ کے اُصول اگر کسی انسان کے بنائے ہوئے ہوتے تو یقیناًیہ خیال درست ہوتا کیوں کہ کوئی انسان مستقبل کے حالات کو نہیں جانتا ، لیکن یہاں یہ معاملہ ہے کہ حکومتِ الٰہیہ کے اُصول اس خالق کائنات کے بنائے ہوئے ہیں جس کے علم میں ماضی ، حال، مستقبل برابر ہیں۔
اور جہاں تک زمانہ کی تبدیلی کو بنیاد بناکر حکومتِ الٰہیہ کے اُصولوں کو نظر انداز کرنے کی بات ہے تو اس حقیقت کو سمجھنے کے لئے یہ کافی ہے کہ حکومتِ الٰہیہ کے اُصولوں کا تعلق انسان کی فطرت و ضرورت سے ہے اور انسانی ابتداء سے لے کر آج تک انسانی فطرت اور ضرورت میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی اور نہ قیامت تک واقع ہوگی۔مثلاً آج سے چودہ سو سال پہلے کا انسان جس طرح دل سے سوچنے، دماغ سے سمجھنے، کان سے سُننے، آنکھ سے دیکھنے، ناک سے سونگھنے ، منہ سے کھانے، زبان سے بولنے، ہاتھ سے پکڑنے، پیر سے چلنے کا کام لیتا تھا آج کا انسان بھی ان اعضاء سے یہی کام لیتا ہے، اسی طرح آج سے چودہ سو سال پہلے انسان کی جو بنیادی ضروریات تھیں آج بھی انسان کی وہی بنیادی ضروریات ہیں، مثلاً کھانا، پینا، سونا، جاگنا، نکاح، تجارت،
تعلیم، سفر، جنگ، سیاست ، حکومت وغیرہ یہ بات اور ہے کہ کچھ ضروریات کے حصول کے طریقوں میں تبدیلی واقع ہوئی ہے لیکن اس کے لئے اُصول کو تبدیل کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی کیوں کہ حکومتِ الٰہیہ کے اُصول اتنے جامع اور دائمی ہیں کہ ضرورتِ انسانی کے حصول کا کوئی طریقہ قیامت تک ان کی رہنمائی سے محروم نہیں رہ سکتا۔ لہٰذا جو لوگ حکومتِ الٰہیہ کے اُصولوں کو فرسودہ قرار دے کے ان میں تبدیلی کی بات کرتے ہیں یا ان کی ضرورت سے انکار کرتے ہیں پہلے انہیں اپنی فرسودگی پر ماتم کرنا چاہیے اس لیے کہ آج کا انسان بھی بنیادی طور پر دس ہزار سال پہلے کے انسان کی طرح ہے۔
بعض لوگ اسلام کے ایک حکم ’’ مشورہ‘‘ کا حوالہ دے کر موجودہ جمہوری طرزِ حکومت کو دُرست ٹھہراتے ہیں اور کچھ تو اس کو اسلامی طرزِ حکومت قرار دیتے ہیں ، جب کہ موجودہ جمہوری طرزِ حکومت اور اسلامی طرزِ حکومت میں دور کا بھی تعلق نہیں نہ دستوری لحاظ سے نہ طریقہ کار کے لحاظ سے بلکہ یہ عین اسلامی طرزِ حکومت کی ضد ہے۔
جمہوری طرزِ حکومت کی حقیقت یہ ہے کہ کسی ملک کے عام انتخابات میں حصّہ لینے والوں کی اکثریت جس فرد یا پارٹی کے حق میں اپنے ووٹ کا استعمال کرے وہ فرد یا پارٹی حکومت کرنے کی اہل قرار پائے گی پھر وہ فرد یا پارٹی قانون سازی میں آزاد و خود مختار ہوگی، اگر وہ اسلام کے کسی جائز فعل کو ممنوع قرار دے یا ممنوع فعل کو جائز قرار دے تووہ اس کی بھی مجاز ہوگی، پھر اس کی جائز کردہ چیزوں کو جائز تسلیم کرنا اور ممنوع چیزوں کو ممنوع تسلیم کرنا ملک کے تمام باشندوں پر لازم ہوگا جنہوں نے اس پارٹی کو ووٹ دیا ان پر بھی اور جنہوں نے اس پارٹی کو ووٹ نہیں دیا ان پر بھی، جب کہ اسلامی طرزِ حکومت کی حقیقت یہ ہے کہ پوری دنیا کے انسان بھی اسلام کے کسی جائز فعل کوممنوع قرار دیں تو وہ ممنوع نہیں ہوسکتا اور کسی ممنوع فعل کو جائز قرار دیں تو وہ جائز نہیں ہوسکتا، بلکہ اسلام اس طرزِ عمل کو اللہ کے ساتھ شرک اور بغاوت سے تعبیر کرتا ہے۔ جہاں تک اسلام کے ایک حکم ’’ مشورہ ‘‘ کا تعلق ہے تو یقیناًحکومتِ الٰہیہ کے سربراہ کو بعض انتظامی اُمور میں
صاحب الرائے افراد سے مشورہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے لیکن اس میں بھی اس کو کثرت رائے کا پابند نہیں کیا گیا بلکہ اس کی صوابدید پر چھوڑا گیا ، گویا کہ مشورہ میں بھی انسانوں کے سروں کی تعداد نہیں دیکھی جاتی بلکہ سروں کے اندر کی مقدار دیکھی جاتی ہے۔
جمہوری طرزِ حکومت پر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ اکثریت کے نام پر اقلیت کی حکومت ہے، اس لئے کہ اس وقت دُنیا میں جو عام انتخابات ہوتے ہیں ایک اندازہ کے مطابق ان میں عوام کی صرف ۵۰ فیصد آبادی ہی اپنے ووٹ کا استعمال کرتی ہے، اور ہر انتخابی حلقے میں کم از کم تین اُمیدوار ہوتے ہیں اب اگر ان تین اُمیدواروں میں مقابلہ برابر کا رہا تو جس کو ۳۵ فیصد ووٹ مل جائے وہ منتخب قرار پائے گا، اس لحاظ سے اس کو منتخب قرار دینے میں حلقہ کی صرف ساڑھے سترہ فیصد عوام کی رائے کا دخل رہا اور ساڑھے بیاسی فیصد عوام کا اس کے انتخاب میں دخل نہیں رہا۔ ۵۰ فیصد عوام غیر جانب دار رہی اور ساڑھے بتیس فیصد عوام نے اس کے خلاف ووٹ دیا، لیکن اس کے باوجود قانونی طور پر یہ حلقہ کی پوری عوام کا نمائندہ قرار پاتا ہے۔ اس کے بعد بھی ہر منتخب ممبر کو حکومت کرنے کا حق حاصل نہیں ہوتا، بلکہ ملک کے جملہ منتخب ممبران کی اکثریت جس پارٹی کے ساتھ ہوگی اس کو حکومت کرنے کا حق حاصل ہوتا ہے، مثلاً کسی ملک کے منتخب ممبران کی تعداد ۱۰۰ ہے۔ ایک پارٹی کے ساتھ ۵۱ اور ایک پارٹی کے ساتھ ۴۹ ، تو ۵۱ ممبران والی پارٹی کو حکومت کرنے کا حق حاصل ہوگا اور ۴۹ ممبران والی پارٹی حکومت کرنے کے حق سے محروم رہے گی، گویا اب ملک پر اس پارٹی کی حکومت ہوگی جس کو ملک کی ۹ فیصد عوام نے منتخب کیا ہو لیکن اس کو جمہوری طرزِ حکومت کا جادو ہی کہنا چاہیے کہ ۹۱ فیصد عوام پر ۹ فیصد عوام کی حکومت ہونے کے باوجود وہ اقلیت پر اکثریت کی حکومت کہلاتی ہے، اور مزید غور کرنے سے اہلِ حکومت کا یہ فیصد اور بھی نیچے گر جاتا ہے کیوں کہ حکومت کے زیادہ تر اُمور صرف وزراء ہی طئے کرتے ہیں اور وزیروں کی تعداد جملہ منتخب ممبران سے ۱۵ فیصد سے زیادہ نہیں ہوتی اس لحاظ سے ان وزیروں کو ملک کی صرف ۳ فیصد عوام کی رائے حاصل ہے اور ستانوے فیصد عوام کی رائے سے یہ وزراء محروم ہیں، نتیجہ یہ نکلا کہ جمہوری حکومت کے بیشتر معاملات ملک کی ۳ فیصد عوام کی رائے سے طئے پاتے ہیں اور ۹۷ فیصد عوام کے لئے لازم ہوتا ہے کہ وہ ان طئے شدہ اُمور کو تسلیم کرلیں ۔ بعض لوگ دورِ نبوی ﷺ کے مشہور واقعہ صلح حدیبیہ کا حوالہ دے کے غیر اسلامی نظام کے تحت زندگی گزارنے کو دُرست ٹھہراتے ہیں اور حکومتِ الٰہیہ کی اہمیت و ضرورت کو نظر انداز کردیتے ہیں، جب کہ غیر اسلامی نظام کے تحت زندگی گزارنے اور صلح حدیبیہ میں دور کا بھی تعلق نہیں ہے، کیوں کہ صلح حدیبیہ میں یہ شرط نہیں تھی کہ مسلمانوں کو مشرکین کے نظام کے تحت زندگی گزارنی ہوگی، بلکہ اس صلح میں اہلِ ایمان کو ایک بااختیار اور صاحبِ نظام اُمّت تسلیم کیا گیا تھا، اور مطلق جنگ نہ کرنے پر بھی صلح نہیں ہوئی تھی بلکہ دس سال کے لیے صرف مشرکینِ مکّہ سے جنگ نہ کرنے پر صلح ہوئی تھی، اور اسی صلح میں مسلمانوں کا یہ حق بھی تسلیم کیا گیا تھا کہ وہ عرب کے کسی بھی قبیلہ کو اپنی پناہ میں لے سکتے ہیں، چنانچہ اس صلح کے بعد بنو خزاعہ مسلمانوں کی پناہ میں داخل ہوگیا اور قبیلہ بنو بکر مشرکین مکّہ کی پناہ میں داخل ہوگیا، جب کہ آج کے جمہوری نظام میں اُمّتِ مسلمہ کو بااختیار اور صاحبِ نظام اُمّت تسلیم نہیں کیا گیا اور نہ ان کے پناہ کے حق کو تسلیم کیا گیا ہے، کیوں کہ صلح حدیبیہ کی حالت میں پہنچنے کے لئے مسلمانوں کو بدر و احد و احزاب جیسے معرکے سر کرنے پڑتے ہیں۔

Share
Share
Share