فنِ تبصرہ نگاری
مولانا محمدجہان یعقوب
سینئرریسرچ اسکالر و تبصرہ نگار
بنوریہ ریسرچ اکیڈمی،جامعہ بنوریہ عالمیہ،سائٹ کراچی
تبصرہ نگاری ایک فن ہے،جس کے اپنے اصول و ضوابط،قوانین وقاعدے اور تقاضے ہیں۔فی زمانہ چوں کہ ہر شخص ، مستثنیات کے سوا،تن آسانی کا شکا رہے،اس لیے محنت سے جی چراناایک عام سی بات بن گئی ہے،یہی معاملہ تبصرہ نگاروں کا بھی ہے،کہ وہ تبصرے کے لیے آئی ہوئی کتاب کو صرف دیکھ کر،اس پر تبصرہ کردیتے ہیں۔
جو تبصرہ تو کہیں سے نہیں لگتا،البتہ اسے ہم اس کتاب کے شائع ہونے کی اطلاع اور اس کا ایک مبہم تعارف کہہ سکتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اب تبصرے کو ایک رسمی کارروائی سے زیادہ حیثیت مصنفین ومؤلفین اور ناشرین کتب بھی نہیں دیتے۔جب کہ ایک وقت ایسا بھی تھا کہ کتاب کے اگلے ایڈیشن کو تبصروں میں دی جانے والی تجاویزکی روشنی میں ترتیب دیا جاتا تھا۔تبصرہ نگاری اردو ادب کی جدید ترین اصناف میں سے ایک ہے ،جس کے ذریعے کسی کتاب کے بارے میں بنیادی معلومات فراہم کی جاتی ہیں۔اردو میں ا گرچہ تنقید کی طرح تبصرہ بھی جدید ترین صنف ہے مگر اس کی ایک توانا روایت رہی ہے۔ مشہور ادیبوں میں خواجہ الطاف حسین حالی،علامہ شبلی نعمانی، نیاز فتح پوری، ڈاکٹر فرمان فتح پوری، بابائے اردوڈاکٹر مولوی عبد الحق، علامہ ماہر القادری،مولانا ابو الکلام آزاد،علامہ سید سلیمان ندوی،مولانا عبد الماجد دریابادی۔آل احمد سرور اور مشفق خواجہ وغیرہ نے نہایت معیاری اور عمدہ تبصرے کیے ہیں۔
اردو میں دیگر کئی اصناف کی طرح اس کے ڈانڈے بھی انگریزی ادب سے ملتے ہیں۔انگریزی ادب ہی کی پیروی میں اردوکے اخبارات ورسائل کی اشاعت کے ساتھ ہی کتابوں پر تبصرہ کرنے کا آغاز ہوا۔ حالاں کہ اس سے قبل اردو تقریظ اور دیباچے وغیرہ کی روایت رہی ہے۔ البتہ تقریظ و دیباچے اور تبصرے میں فرق یہ ہے کہ تقریظ یا دیباچہ کتاب میں شامل ہوتا ہے جس میں کتاب کے موضوع اور مصنف کے بارے میں تشریح وتوضیح تو ہوتی ہے، لیکن اس میں عموماًکتاب کے کمزور پہلوؤں سے اغماض برتا جاتا ہے،جب کہ تبصرہ کتاب کی اشاعت کے بعد تحریر کیا جاتا ہے، تاکہ عام قاری کو کتاب کی تفصیل معلوم ہوسکے۔
تبصرہ کی بنیادی شرط کتاب کا راست اور ذاتی مطالعہ ہے۔ اگر کتاب نہیں پڑھی جائے گی تو کتاب کی قدر وقیمت کا صحیح اندازہ ممکن نہیں ہوگا اور تبصرے میں غیر درست معلومات بیان ہوسکتی ہیں۔ اس سے مبصر کا وقار مجروح ہوتا ہے۔ کیونکہ تبصرہ لکھتے ہوئے وہ ایک ذمہ دار شخص ہوتا ہے۔ تبصرہ لکھنے والے کو نہایت باریک بینی کے ساتھ کتاب کا مطالعہ کرنا پڑتاہے۔ مبصر دورانِ مطالعہ ذہن میں ابھرنے والے ضروری نکات کتاب کے حاشیے پر بطور یادداشت قلم بند کرلیتا ہے تاکہ تبصرہ لکھتے وقت کوئی ضروری نکتہ چھوٹ نہ جائے۔مصنف کے پس منظر کو سامنے رکھے بغیر کتاب پر جامع تبصرہ نہیں ہوسکتا ،اس کے پس منظر کا جائزہ مبصر کے لیے رائے قائم کرنے میں بہت معاون ثابت ہوتا ہے۔ مصنف کی سیاسی ، سماجی ، ادبی اور مذہبی وابستگی کے پیش نظراس کی تعلیمی لیاقت بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اگر صاحب کتاب اس سے قبل بھی کتاب لکھ چکا ہے تو قبل کی تصنیف کا اس سے کیا تعلق ہے؟مبصراس کو بھی سامنے لاتا ہے،اس کا ذکر قاری کے لیے مفید ہوتا ہے۔ تبصرہ لکھنے سے قبل چند بنیادی اور لازمی امور کی طرف توجہ دینا بھی ضروری ہے،جو درج ذیل ہیں:
۱)کتاب کاموضوع: یعنی اس بات کی وضاحت،کہ یہ کتاب کس موضوع پر لکھی گئی ہے۔کتاب کے موضوع کے انتخاب میں عموما خاص پس منظر کار فرما ہوا کرتا ہے جس کی وجہ سے مصنف یا ادیب اسے موضوع بحث بنانے پر مجبور ہوتا ہے۔
۲)مقصد تالیف:مصنف کے پیش نظراس کتاب کے لکھنے کے وقت جو مقاصد ہوتے ہیں،ہے تبصرے میں اس پر بھی روشنی ڈالی جاتی ہے۔ مقصد تالیف کو سمجھنے کے لیے کتاب کا نام ، پیش لفظ،عرض ناشروغیرہ ابتدائی امورممدومعاون ثابر ہوتے ہیں۔
۳)اندازِتالیف: یعنی اس بات کی وضاحت کہ یہ کتاب کس انداز اور رنگ میں لکھی گئی ہے۔ اس کی تشخیص کے لیے مباحث کے عناوین اور ذیلی سرخیوں پر غور کرناپڑتا ہے۔ دوران مطالعہ اس بات پر بھی نظر ہوتی ہے کہ کتاب کے مباحث اس کے مرکزی خیال سے مربوط ہیں یانہیں؟ مصنف چند مخصوص الفاظ یا اصطلاحوں کا استعمال کرتا ہے، جن سے اس کے نظریات کی عکاسی ہوتی ہے۔ ایک اچھی کتاب کے اندر نظریات میں داخلی ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ایک اچھے مصنف کے خیالات میں تضاد نہیں پایا جاتا ، اچھے مصنف کا نظریہ بتدریج اور منطقی طور پر ارتقا پذیر ہوتا ہے۔کتاب کے جائزے کے دوران مبصر اس بات پر نظر رکھتا ہے کہ مصنف کی فکر سطحی ہے یا عالمانہ۔ اس کے نظریات کس طور پر ارتقا پذیر ہوئے ہیں۔اسی طرح مبصر اس کتاب میں آنے والے مباحث پر بھی نظر رکھتا ہے کہ ان کا کتاب میں لایا جانا درست ہے یا نہیں؟ان موضوعات ومضامین کا انتخاب وقت کے تقاضوں کو پوراکرنے والا ہے یا اس سے ایک اور پنڈورا باکس کھل سکتا ہے؟
۴)مبصر کو اس بات کو بھی نظر میں رکھنا چاہیے کہ کہیں یہ کتاب کلی یا جزوی طور پر کسی اور کتاب کا سرقہ یا اس کا چربہ تو نہیں؟کسی معروف نسخے کی عکسی طباعت کو ناشر نے اپنا کارنامہ باور کرانے کی کوشش کرکے بددیانتی تو نہیں کی؟اگر کتاب دوبارہ شائع ہوئی ہے تو مبصر کو یہ دیکھنا چاہیے کہ اس ایڈیشن میں کوئی اضافہ ہواہے یا نہیں؟ اگر ہوا ہے تو یہ اضافہ کس قسم کا ہے؟ اس اضافے سے کتاب میں کیا جدت آئی ہے؟
۵)تخلیقی کتابوں کے تبصرے میں اس بات کا جائزہ بھی لیا جاتا ہے کہ مصنف نے اس فن کے بنیادی اور ثانوی ذرائع سے استفادہ کیا ہے یا نہیں؟ بنیادی ذرائع سے کام لیتے ہوئے اس نے کون سی جدت پیدا کی ہے؟ اسی طرح ثانوی ذرائع سے اس نے کس طور پر استفادہ کیا ہے ؟ متعلقہ ثانوی ذرائع کا تنقیدی جائزہ بھی ضروری ہے۔ مبصر کے لیے ضروری ہے کہ وہ متعلقہ فن کی تاریخ ، قوانین وضوابط اور جدید ارتقا سے ضروری واقفیت رکھے۔ درج بالا امور کے لیے کتاب کاازاول تاآخر بالاستیعاب مطالعہ ضروری ہے۔اس کے بغیرصرف چند ابواب یاچند مقامات دیکھ کراخذکیا جانے والا نتیجہ کتاب کے مجموعی انداز سے متضاد اور کتاب کی غلط تعبیر کا باعث بھی بن سکتاہے،جو مبصر کی پیشہ ورانہ ذمے داری کے خلاف اورمصنف،مؤلف وناشر کے اعتماد کو ٹھیس پہنچانے کے مترادف ہے۔ان امور کا تعلق تو کتاب میں درج شدہ مواد سے تھا۔اس کے ساتھ ساتھ ایک اچھامبصران متعلقہ مباحث کو بھی نظر میں رکھتا ہے جو کتاب کے موضوع سے تعلق رکھنے کے باوجوداس کتاب میں شامل نہیں کیے گئے۔مصنف نے ایسا عمدا کیا ہے یا یہ فروگذاشت کسی سہو کا نتیجہ ہے ؟مبصر جاننے کی کوشش کرتا ہے کہ مصنف کا یہ طرز عمل کسی خاص مقصد کے پیش نظر تو نہیں،اوروہ خاص مقصد کیا ہے؟اس کے مثبت اور منفی پہلوکیا ہوسکتے ہیں؟ کہیں مصنف تعصب سے توکام نہیں لے رہا ؟اس فروگذاشت سے کتاب میں اگر کوئی نقص پیدا ہواہو رہا ہو،تو مبصر اس کا اظہار کرتااورتوجہ مبذول کراتاہے،تاکہ اگلی اشاعتوں میں یہ کمی پوری کی جاسکے ۔خلاصہ یہ کہ :کتاب کا مطالعہ، اس کی تفہیم اور مصنف کے پس منظر کا جائزہ لینے کے بعد تبصرے کا خاکہ تیار کیا جاتا ہے۔ خاکے میں کتاب کے بارے میں بنیادی معلومات دی جاتی ہے۔ جن میں کتاب کا نام، مصنف، ایڈیشن، سن اشاعت، صفحات، قیمت، ملنے کا پتہ اور ناشر وغیرہ جیسی معلومات شامل ہیں۔تبصرے کے کم از کم تین اجزا ہوتے ہیں جنہیں تمہید، ارتقا اور خاتمہ کا نام دیا جاسکتا ہے:
۱)تمہید:کسی بھی مضمون کا تمہیدی جزواہمیت رکھتا ہے۔ایک اچھا مبصر اس کی ابتدا مختصر مگر مؤثر تمہید سے کرتا ہے ،جو کتاب کے موضوع یا صاحب کتاب سے وابستہ ہوتی ہے۔ کتاب اور صاحب کتاب کانام وغیرہ،جوخاکے میں آچکے،تمہید میں انھیں دوبارہ شامل کردینے سے قاری اور مضمون کے درمیان ایک رشتہ استوار ہوجاتا ہے۔تمہید میں کتا ب کے مرکزی خیال کوسامنے لایاجاتاہے۔ کتاب کی افادیت ،کتاب کے نوع کا تعین بھی تمہید میں کردیا جاتاہے۔اسی طرح ان امور کی عقدہ کشائی بھی،کہ کتاب کس انداز کی ہے؟ کتاب میں کس طرز کو اپنایا گیا ہے؟ مبصر کی نظر میں اس کتاب کا اسلوب پسندیدہ ہے توکیوں؟یا ناپسندیدہ ہے توکیوں ؟ کتاب دلچسپ ہے یا نہیں؟ کیا کتاب اپنے مقصد میں کامیاب ہے؟ مصنف کے خیالات کیاہیں؟
۲)اصل موضوع:اس حصے میں میں کتا ب کی صحیح قدروقیمت متعین کی جاتی ہے اور جہاں تک ممکن ہو یہ واضح کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ مصنف کا اندازِ نظر کیا ہے؟ ذرائع کے اختیار وانتخاب میں مصنف کی شخصیت کا کیا اثر مرتب ہوا ہے؟ ایسا کرنے پر تبصرہ ایک مضمون کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ اس میں کتاب کی کوئی بحث یا حصہ شامل نہیں کیا جاتا،البتہ کسی نکتہ کو عیاں کرنے کے لیے بعض اقتباسات شامل کیے جاسکتے ہیں۔
۳)اختتامیہ:یہ حصہ تمہید میں پیش کردہ خیالات سے بہت حد تک مربوط ہوتا ہے تاکہ تبصرے کا اختتام منطقی ہو۔اس میں کتاب کی خوبیوں اور خامیوں کا تجزیہ اعتدال ،غیر جانب داری،سنجیدگی اورخیر خواہی کے جذبے کے ساتھ کیا جاتا ہے۔تبصرے کی تحریر میں توازن بہت ضروری ہے۔ تبصرے کا انداز لکش اور عالمانہ ہوناچاہیے۔ ایک اچھے تبصرے میں تلخی نہیں پائی جاتی ۔ تبصرہ نگار کو وسیع معلومات کا حامل ہونا چاہیے،کیوں کہ اوسط قاری بہت سے مضامین میں اپنی واقفیت کو بہت محدود سمجھتا ہے اور وہ مبصر کی رائے پر اعتماد کرتا ہے۔اس لیے مبصر کو بہت احتیاط کرنی چاہیے۔مبصرکے لیے ضروری ہے کہ نہ تووہ تعریف میں بے جا رطب اللسان ہو،اورنہ ہی مصنف کی تضحیک اسے زیب دیتی ہے۔ کتاب کے معنوی تجزیے کے سا تھ ساتھ اس کی صوری حالت کا جائزہِ مثلا اس کا کاغذ ، حسنِ ترتیب اور سرورق کی جاذبیت وغیرہ،کااختتامیے میں ذکر،اسی طرح اس بات کی وضاحت ، کہ یہ کتاب کس طرح کے لوگوں کے لیے زیادہ کار آمد ہے؟قاری کے لیے کتاب کے انتخاب میں معاون ثابت ہوتی ہے۔