شیخ التفسیر والحدیث ابو محمد فہیم انواراللہ خان
(قسط چہارم) – گزشتہ سے پیوستہ
ابوعبدالقدوس محمد یحییٰ
ایک دانا ، بینا ،جہاندیدہ ، مخلص، خیرخواہ شخص جو اس بصیرت وحکمت کی دولت سے مالا مال ہوجس کے بارے میں قرآن کریم میں ارشاد مبارک ہے: جس کو چاہتا ہے حکمت عطا کرتا ہے اورجس کو حکمت ملی اسے حقیقت میں خیر کثیر (بڑی دولت) مل گئی”(البقرۃ:269)۔ ایسے شخص کے اقوال یقیناً بیش بہاتحفہ، سرمایہ گرانمایہ اورنعمت بے بدل ہیں—
اقوالِ انوار بے بہا
ایک دانا ، بینا ،جہاندیدہ ، مخلص، خیرخواہ شخص جو بصیرت وحکمت کی دولت سے بھی مالا مال ہو۔جس حکمت کے بارے میں قرآن کریم میں ارشاد مبارک ہے: يُّؤْتِي الْحِکْمَةَ مَنْ يَّشَآءُ وَمَنْ يُّؤْتَ الْحِکْمَةَ فَقَدْ اُوْتِيَ خَيْرًا کَثِيْرًا ۔
جس کو چاہتا ہے حکمت عطا کرتا ہے اورجس کو حکمت ملی اسے حقیقت میں خیر کثیر (بڑی دولت) مل گئی”(البقرۃ:269)۔ ایسے شخص کے اقوال یقیناً بیش بہاتحفہ، سرمایہ گرانمایہ اورنعمت بے بدل ہیں ۔ آپ کے اقوال میں بھی حکمت و دانش کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے اور آپ فکر وذہن میں بلند اور سوچ میں عالی ، دل کے صاف ہونے کے ساتھ ساتھ طلباء سے مخلص اور ان کی فلاح وبہبود چاہنے والے ہیں ۔ بقول شاعر
؎ کہ تیرافکررسا، دل صفا، دماغ اولیٰ
صرف یہی نہیں بلکہ آپ کاکلام وعظ، نصیحتیں اور اقوال بلندی فکر کے ساتھ ساتھ معانی و بلاغت کے لحاظ سے بھی بے مثال اور بے نظیرہیں ۔ بقول شاعر
؎ تیرے کلام میں ہے بلاغت بھری ہوئی
ذیل میں آپ کے چند اقوال پیش خدمت ہیں ۔
١۔روزے کی انتہائی بلیغ وضاحت :
آپ نے روزے کی ایک جملے میں انتہائی بلیغ وشاندار وضاحت فرمائی:الصوم تمرین ترک الحرام بترک الحلال ”روزہ حلال چیزوں کو حرام چیزوں کی خاطر چھوڑنے کی مشق (Exercise) ہے”۔
آپ کے اس قول سے روزے کی روح اور اصل مقصد عیاں ہوجاتاہے اوریہ بات بخوبی واضح ہوجاتی ہے کہ اگر کوئی شخص روزہ رکھے اور اس کا روزہ اسے لغو،بیہودہ اور برے کاموں سے نہ روکے تو گویا کہ اس کا روزہ، روزہ ہی نہیں بلکہ بھوکے پیاسے رہنے کی مشقت ہے۔ کیونکہ اگرروزہ رکھنے کی وجہ سے حلال چیزیں اس شخص پر حرام ہوجاتی ہیں تو پھر جو مستقل حرام چیزیں ہیں ان میں مبتلاء ہونے والے کے روزے کی بھوکے پیاسے رہنے کے علاوہ کیاحیثیت رہ جاتی ہے۔(العیاذ باللہ)
٢۔مجربات انوار:
آپ فرماتے ہیں کہ انسان اگر کسی اجنبی دیار میں جہاں اس کا آشنا یا شناسا تک نہ ہو اگر وہاں وہ یہ آیت پڑھ لے تو اللہ رب العزت غیب سے اس کی رہائش،قیام وطعام کاانتظام کرے گاجہاں سے اسے گمان بھی نہ ہوگا۔
وَقُلْ رَّبِّ اَدْخِلْنِیْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَّاَخْرِجْنِیْ مُخْرَجَ صِدْقٍ وَّاجْعَلْ لِّیْ مِنْ لَّدُنْکَ سُلْطٰنًا نَّصِیْرًا(سورہ بنی اسرائیل :٨٠)
"اور دعامانگاکیجئے کہ اے میرے رب !جہاں کہیں تو مجھے لے جائے سچائی کے ساتھ لے جا اور جہاں کہیں سے مجھے لے آئے سچائی کے ساتھ لے آاور عطافرما مجھے اپنی جناب سے وہ قوت جو مدد کرنے والی ہو۔”
٣۔القرآن کتاب حیٌّ:
آپ اکثر فرماتے کہ قرآن مجید فرقان حمید اللہ رب العزت کا کلام ہے۔ یہ زندہ کلام ہے اور ازل تا ابد ہے۔ اس کے احکام و قوانین پر عمل کرنے سے عروج ،کامیابی، اور دنیا کی قیادت و سیادت حاصل ہوگی اور اس سے روگردانی ذلت ، رسوائی وندامت کاباعث ہے۔
وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہوکر
تم خوار ہوئے تارک قرآں ہوکر
آپ مزید فرماتے کہ قرآن میں جہاں بنی اسرائیل یاسابقہ دوسری اقوام کا تذکرہ آیا ہے یا ان پر عذاب کا ذکر ہے توجن افعال شنیعہ وقبیحہ کی بناء پر وہ اقوام عذابِ الہی میں مبتلاہوئیں تھیں اگران اعمال شنیعہ میں مسلمان آج بھی مبتلاہوں گے تو وہ بھی اس دنیامیں رسوا ہوں گے۔ ایسانہیں ہے کہ ایک عمل پرسابقہ قوم کو تو عذاب ہو اور وہی عمل مسلمان کریں تورب کی خوشنودی اور رضا کا باعث ہو۔ مثلاً بنی اسرائیل اپنے علماء ورہبانین و احبار کی اندھی تقلید کرتے تھے۔ اگر وہ حلال کو حرام قراردیتے تو اسے یہ حرام سمجھتے اور اسی طرح اگر وہ حرام کو حلال قراردیتے تو وہ اسے حلال سمجھتے۔ اس طرح انہوں نے اپنے احبار و رھبان کو منصب نبوت پر فائز کردیا تھا اور انہیں شارع سمجھ لیا تھا ۔اور ان کے رہبان ذاتی خواہشات، ملوک کی وفاداری، پسند وناپسند ،حب مال، چاہت جاہ و منصب،عصبیت،قرابت داری ودیگر دنیاوی اغراض و مقاصد کے تحت حلال کو حرام اور حرام کو حلال قراردیتے۔جب کوئی قوم ،ملت و معاشرہ اس حد تک ضلالت و گمراہی کا شکار ہوجائے تو ایسا معاشرہ ابتری و انتشار کا شکار ہوتے ہوتے تباہ و برباد ہوجاتاہے۔ ان کے ہاتھ سے دنیا کی سیادت و قیادت چھین لی جاتی ہے۔ اور یہی حال مسلم امہ کا ہے کہ انہوں نے بھی رب کے کلام کو پس و پشت ڈال دیا ہے۔ علماء سوء چند ٹکوں اورمتاع قلیل فانی کو حاصل کرنے کے لئے شریعت مطہرہ میں اپنی اور اپنے آقاؤں کی مرضی کے فتاویٰ جاری کرنے میں عار محسوس نہیں کرتے۔
نیز آپ فرماتے ہیں ہمارے مدارس نے علوم اسلامیہ(قرآن وحدیث وفقہ) کی تعلیم دینے میں ترتیب الٹ دی ہے۔سب سے اولی،مقدم اوراہمیت کی حامل کتاب قرآن کریم کو ہونا چاہئے تھاکہ جسے پڑھنے،سمجھنے کی کوشش سب سے زیادہ کی جاتی لیکن ہمارے مدارس میں اس کے برعکس عمل ہورہا ہے اور تمام تر توجہ فقہ کی کتابوں کودی جارہی ہے۔ فقہ کی کئی کتب کی مکمل تعلیم دی جاتی ہے لیکن اس کے برعکس سوائے چند معدودہ مدارس کے تفسیر القرآن کی تکمیل کہیں نہیں کی جاتی ۔اس میں کوئی شک نہیں ، قرآن کریم کو مقدس کتاب کا درجہ حاصل ہے ۔ اس کا پڑھنا اور سننا بھی باعث اجرو ثواب سمجھاجاتاہے۔ مگر قرآنِ کریم اللہ تعالیٰ نے سمجھ کر پڑھنے، غور کرنے اور عمل کرنے کے لیے نازل فرمایاہے۔ یہ کتاب دستور اور مسلمانوں کا منشور ہے۔جس سے آگہی اور عمل پیہم کے بغیر مسلمان دنیا میں اپنا کھویاہوامقام حاصل نہیں کرسکتے۔
الحمدللہ! اس حوالے سے استاذ مکرم اور جامعہ علیمیہ کا یہ اعزاز ہے کہ یہاں گذشتہ تین چاردہائیوں سے ہر سال تقریبِ تکمیلِ تفسیر القرآن منعقد ہوتی ہے۔ جس میں آپ منفرد انداز سے درس دیتے ہیں۔ آپ ایک ہی نشست ہی میں بیٹھ کر پورے قرآن کی ایک سو چودہ سورتوں کاترتیب وار اجمالاً تعارف کراتے ہیں۔آپ اتنا جامع ،دلچسپ ،بلیغ اور شاندار درس دیتے ہیں کہ تقریباً ڈھائی تین گھنٹوں پر محیط دورانیہ کے گزرنے کا احساس تک نہیں ہوتا ۔اس طرح آپ کے منفرد نوعیت کے درس قرآن کی عموم میں کوئی مثال نہیں ملتی۔
٤۔پابندی وقت:
آپ نظام الاوقات کے سختی سے پابند ہیں ۔راقم نے ١٨ سال تک، پہلے دوران طالب علمی اور بعد میں آپ کے ماتحت تدریس اور دفتری امور سرانجام دیئے ہیں لیکن کبھی بھی آپ کو تاخیر سے جامعہ آتے نہیں دیکھا۔ آپ تقریباً سوا سات ساڑھے سات بجے تک جامعہ پہنچ جاتے ۔ جامعہ علیمیہ کے اوقات سے قبل بھی ایک گھنٹہ تفسیر جلالین شریف پڑھاتے تھے۔ اور جامعہ کے اوقات سے نصف گھنٹہ قبل آپ تشریف لے جاتے۔
٥۔خداخوفی:
آپ نے ایک بار ارشاد فرمایا کہ انسان کو اگر رب کے سامنے جوابدہی کااحساس ہو اور وہ اس بارے میں فکر مند ہو تو پھر اسے کسی قسم کا ڈر اور خوف نہ ہوگا۔ کیونکہ ایساشخص نظام الاوقات کا پابند ، اپنے فرائض مکمل طور پر اداکرنے والا اور اس میں کسی قسم کی کوتاہی نہ کرنے والا ہوتاہے۔ پھر اسے کسی قسم کا خوف وخطر کیوں ہوگا۔آپ نے اپنی مثال دی کہ میں نہ تو جنرل سیکرٹری کے دفترجاتا ہوں اور نہ ہی کبھی ان کے ادارے میں وزٹ(معائنہ) پرآنے سے ڈرتاہوں کیونکہ میں دفتری اور تدریسی کام مکمل جانفشانی اورلگن سے کرتاہوں پھر ایساکرنے کے بعد مجھے کوئی ڈر اورخوف نہیں ۔
٦۔وقت کی اہمیت :
آپ طلباء کے وقت کوبھی بہت اہمیت دیتے اورانہیں وقت کے ضیاع سے روکتے۔ وقت کی اہمیت پر آپ دو مشہور اقوال دوران تدریس کثرت سے دہرایا کرتے: الوقت ثلج یذوب یعنی وقت برف کی مانند ہے اسے اگر استعمال نہ کیا گیا تو پگھل جائے گااورآہستہ آہستہ یہ عمربرف کی طرح پگھل کرمعدوم ہوجائے گی۔
ہورہی ہے عمرمثل برف کم
چپکے چپکے رفتہ رفتہ دم بدم
الوقت ذھب وذاھب۔ وقت سونا ہے لیکن ایسا کہ اسے چھوا نہیں جاسکتا ، کسی بھی طریقے سے ذخیرہ نہیں کیاجاسکتا اور اسے خریدا نہیں جاسکتا ، کیونکہ یہ مسلسل گزررہاہے اسے روکا نہیں جاسکتا جو وقت گزرگیا وہ ماضی کا حصہ بن جاتا ہے اور ہمارے ہاتھوں سے پھسل جاتا ہے اس پرافسوس کرنا بھی مزید وقت ضائع کرنے کے مترادف ہے۔اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو چوبیس گھنٹے دیئے ہیں جس میں کمی زیادتی نہیں کی جاسکتی۔ا ور آنے والی کل پر کام چھوڑنا خود کو دھوکا دینے کی مانند ہے کیونکہ جب یہ چوبیس گھنٹے گزر جائیں گے تو یہ کبھی واپس نہیں آسکتے اور نیا کل زندگی میں آنے کے بعد ”آج” کہلائے گا ٰ یعنی کہ صبح و شام کے یونہی گزرنے سے بالآخر زندگی تمام ہوجائے گی۔
صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے
عمریونہی تمام ہوتی ہے
اور جب یہ زندگی کی گھڑیاں مکمل ہوجائیں گی توپھر کسی بھی طور اس میں اضافہ نہ کیاجائے گا۔
وَلَنْ یُّؤَخِّرَ اللّٰہُ نَفْسًا اِذَا جَآءَ اَجَلُھَا (المنافقون:١١)
ترجمہ:اوراللہ تعالیٰ مہلت نہیں دیاکرتا کسی شخص کو جب اس کی موت کاوقت آجائے ۔
مختصراً آج وقت کی نقد نعمت کو” کل” جو کہ ان دیکھی ،ادھار ہے پرکبھی نہ چھوڑنا چاہئے۔ شاعر آپ کے اس قول کی وضاحت کچھ اس طرح کرتاہے:
چھوڑ مت نقدِ وقت نسیہ پر
آج جو کچھ ہے سوکہاں کل ہے
٧۔ طبقاتی نظام اور اس کا سد باب:
آپ کا خاندان چونکہ تجارت پیشہ ہے اس لئے اقتصاد ومعاش کے عملی پہلوؤں سے بھی آپ آگاہ ہیں۔ آج کے طبقاتی نظام اور بڑھتی ہوئی معاشی بدانتظامی کے دور میں جب معاشی طور پر پسماندہ افراد کا استحصال کرنا ایک عام سی بات ہے۔ بقول صبا
اور طبقات میں انسان بکھر جائیں گے
مشورے روز ہواکرتے ہیں زرداروں میں
آپ عام آدمی کے اس درد کو محسوس کرتے ہیں ۔ آپ کے پاس صرف نظریات ،خیالات وافکار نہیں بلکہ عملی طور پرظلم کے اس سفاکانہ وبے رحمانہ نظام کوختم کرنے کے لئے لائحہ عمل موجود ہے۔جو کہ اسلام نے آج سے تقریباً ساڑھے چودہ سو سال پہلے دیا تھا۔
آپ فرماتے ہیں ارتکاز دولت اورمعاشرتی ناہمواری امن و سلامتی کے لئے زہر قاتل ہے اور ملک ،قوم اور معاشرہ کو تباہ کرنے کا سبب بنتی ہے۔کیونکہ اس سے مالدار(Have) اور نادار (Have not) کے درمیان ایک جنگ شروع ہوجاتی ہے جب کمزور اور ناتواں طبقہ بغاوت کا علم سربلند کرتا ہے تو معاشرہ انتشار و مکمل تباہی کا شکار ہوجاتاہے۔ جب کوئی شخص بڑا سرمایہ دار، جاگیردار نہیں رہے گا تو وہ اپنی دولت کی طاقت وقوت کے بل پر دوسروں (بالخصوص سیاسی حکام) کو نہ خرید سکے گا اور نہ ان پر ظلم کرسکے گا۔ اس ارتکاز دولت کا سد باب اور توڑ صرف تین باتوں پر عمل کرنے میں ہے۔
زکوٰۃ کی صحیح اور منصفانہ تقسیم، وراثت کے قوانین پر کماحقہ عمل اور سود کی حرمت ۔ یعنی دو مثبت(یعنی زکوٰۃ اور قوانین وراثت پر عمل کرنا) اور ایک منفی (یعنی سود کی حرمت)۔
زکوٰۃ ایک مکمل اور باقاعدہ معاشرتی نظام ہے۔زکوٰۃ دولتمندوں سے لی جائے گی اور اس سے نادار لوگوں کی مدد کی جائے گی جس سے نظام اقتصاد ترقی کرے گا، انسان کے دل سے مال کی حرص و ہوس ختم ہو گی، محروم طبقہ کی کچھ دادرسی ہوگی اور محروم طبقہ کی امراء سے منافرت میں کمی ہو گی۔ اوراسی طرح اسلامی قوانین کی رُوسے وراثت کی صحیح تقسیم سے دولت چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں منقسم ہوجائے گی کیونکہ وارث کے انتقال کے بعد اس کی جائیداد اس کے ورثاء میں تقسیم ہونے سے دولت کا ارتکاز خودبخود ختم ہوجائے گا۔اسی طرح سود کی حرمت بھی انسان کو اپنا سرمایہ کاروبار میں لگانے کی ترغیب دے گی جس سے سرمایہ منجمد نہیں ہوگا بلکہ گردش کرتا رہے گااورپیسے کی گردش کی اہمیت وضرورت سے ماہرین معاشیات بحسن وخوبی آگاہ ہیں ۔ اور اس طرح ان تمام امور کے نتیجے میں ملک میں غریب اور امیر کے درمیان فرق کم ہوجائے گااور نتیجۃً ملک میں سلامتی ، خوشحالی کے ساتھ ساتھ امن و امان بھی قائم ہوجائے گا۔
٨۔انسان : مشقت ومصائب
قرآن مجید کی سورہ بلد کی آیت چار کی تفسیر کے ضمن میں آپ فرماتے ہیں:
لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِيْ کَبَد(سورۃ بلد:4)بے شک ہم نے آدمی کو مشقت میں رہتا پیدا کیا۔
انسان کو مشقت میں پیدا کیا گیاہے۔ اس کی پوری زندگی مشقت،مصائب،رنج والم سے عبارت ہے۔ اس مشقت کا آغاز انسان کی پیدائش سے ہی ہوجاتاہے۔ پھر جیسے جیسے بڑھتا ہے اس پر ذہنی ،سماجی،جذباتی دباؤ بڑھتا جاتاہے۔بچپن میں وہ سوچتا ہے کہ مجھ پر تو ہرایک قدغنیں لگاتا ہے۔ بلا وجہ روک ٹؤک ہوتی ۔نہ گھر میں اپنی مرضی چلتی ہے نہ اسکول میں ۔ وہ اپنا بھاری بستہ کاندھے پر لادے (حمال) بنا پھرتا ہے۔ اسکول کی تعلیم کاالگ تناؤ ہے کہ کہیں رزلٹ خراب نہ آجائے! بہرحال اسی فکر کاحامل اس بات پر خوش ہوتاہے کہ جب بڑا ہوجاؤں گا تو پھر آزادی مل جائے گی۔ لیکن بڑے ہونے پر صرف مشکلات اورمصائب کے انداز بدل جاتے ہیں لیکن یہ پہلے سے بھی سخت اور زیادہ شدید ہوجاتے ہیں۔ اب اس کے کاندھے پر گھروالوں کی ذمہ داری آجاتی ہے۔ اور جاب کی صورت میں ،خانگی معاملات اور سماجی تعلقات ہر جگہ کا الگ دباؤ وہ محسوس کرتاہے۔بہرکیف یہ سوچتا ہے کہ بڑھاپے میں ہی شاید آرام مل جائے۔ لیکن وہاں جاکر ایک بار پھر تکالیف کا انداز بدل جاتاہے۔ بڑھاپا اور پھر اس کی تنہائی بہرحال انسان کو اس دنیا میں کسی بھی پل راحت حاصل نہیں ، کرب والم ،رنج وغم ،مصائب وشدائد بہرحال بڑھتے ہی رہتے ہیں۔آپ جس شخص سے بھی بات کرلیں آپ اسے مشقت ،ومصائب کا شاکی پائیں گے۔
٩۔ احسن عملاً:
الَّذِيْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيٰوةَ لِيَبْلُوَکُمْ اَيُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا (سورۃ الملک:2)
آپ مدظلہ العالی اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ آج کل دیندار مسلمانوں کا زور اعمال کی کثرت اورطوالت پر ہے۔جب کہیں بات نکلتی ہے تو یہی کہا جاتا ہے کہ فلاں نے سترہ حج کرلئے، وہ اتنے روزے رکھتا ہے، اس نے اتنا چندہ دیا۔۔۔ حالانکہ اللہ رب العزت نے قرآن میں کہیں بھی اَکثرُ عملاً نہیں فرمایا۔ قرآن مجید میں اعمال وافعال کے لئے جہاں بھی ذکر آیا ہے ” احسن عملا”آیا ہے۔ جس سے اس بات کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ اللہ رب العزت کو اعمال کی کثرت اور طوالت مطلوب نہیں ہے دوسرے الفاظ میں اسلام Quality مانگتا ہے Quantity نہیں اور اس حُسن کے ساتھ دوسری اہم چیز جو مطلوب ہے وہ مداومت ہے اگرچہ عمل قلیل ہی کیوں نہ ہو۔جیسا کہ صحیح بخاری کی حدیث مبارکہ میں ہے:
وَأَنَّ أَحَبَّ الأَعْمَالِ إِلَى اللَّهِ أَدْوَمُهَا وَإِنْ قَلَّ۔
اللہ رب العزت کے نزدیک پسندیدہ عمل مداومت (ہمیشگی) ہے اگرچہ قلیل پر ہی کیوں نہ ہو۔
صحیح بخاری کی ایک اورروایت میں ہے : اكْلَفُوا مِنَ الأَعْمَالِ مَا تُطِيقُونَ خود کو ان اعمال کا مکلف بناؤ جن کی طاقت رکھتے ہو۔اپنی طاقت سے بڑھ کر کچھ کرنے کی حاجت نہیں کیونکہ اللہ رب العزت نیت دیکھتا ہے اعمال کی کثرت وقلت سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔بعض احادیث کے مفہوم میں یہ بھی وارد ہے کہ تم اعمال کی کثرت سے تھک جاؤ گے لیکن رب نہ عاجز ہوتا ہے نہ تھکتا ہے اس لئے اپنی استطاعت کے مطابق ” احسن عملا "پر ہی عمل کرو۔
١٠۔ پردہ ،احترام بنت حوّا:
آپ اسلام کے عطاکردہ خواتین کے حقوق کے بھی پاسدار وعلمبردار ہیں ۔ آپ ان کا بے حد احترام کرتے ہیں ۔اسلام نے عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے کاحکم دیا ہے اورخود نبی اکرم کی حیات مبارکہ و اسوہ حسنہ کی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں کہ عورت کو رشتہ،تعلق اور روپ میں عزت و تکریم دی جائے۔ آپ ان مثالوں پر عمل پیرااورکاربند ہیں ۔بالخصوص آپ نے خطبہ حجۃ الوداع کے نام سے موسوم جو کتابچہ ترتیب دیا ہے اس میں خواتین کے حقوق اور ان سے اچھاسلوک روارکھنے کے حکم نبوی کو جامع انداز سے بیان فرمایا ہے۔
سکون نفس ، خاندان و معاشرہ کو مستحکم کرنااور عورت کے احترام کو ملحوظ رکھنا،یہ ہے وہ فلسفہ اوراغراض جو اسلام پردہ کے حوالہ سے تمام انسانیت کے لئے پیش کرتا ہے۔
جامعہ کی تاریخ میں ٨ مارچ سن ٢٠٠٠ء میں خواتین کے عالمی دن کے موقع پر علیمیہ فورم ہال میں ایک خاتون مبلغہ نے تقریر کی ۔یہ علیمیہ کی تاریخ کا ایک منفرد اورانوکھاواقعہ ہے جونہ آپ کے دور سے پہلے کبھی ہوا اور نہ شاید بعد میں کبھی ممکن ہو۔ان کی تقریر کے بعد آپ نے کلمات تشکر کے طور پر فرمایا: عورت اسلامی معاشرے کا ایک اہم ستون وکردار ہے ۔ جسے اسلام نے مغربی معاشرہ کی طرح صرف مسز فلاں کا درجہ نہیں دیابلکہ ان کا اپنا ایک مقام اور حیثیت ہے ۔ یہ امر واقعہ ہے کہ تاریخ اسلام میں حضرت خدیجۃ الکبریٰ،حضرت عائشۃ الصدیقہ ، حضرت فاطمۃ الزہرااوردیگر صحابیات وتابعیات وتبع تابعیات رضی اللہ عنہن جس منصب ومقام پر فائز ہیں مغربی معاشرے اس کی کوئی نظیر نہیں ۔ اورحضور نے جس انداز سے اپنی رضاعی والدہ اوربہن کی تعظیم وتوقیر فرمائی کسی اورمذہب کی عورت(یعنی حقیقی ماں اوربہن) اس کا تصور بھی نہیں کرسکتی ۔
تلک عشرۃ کاملۃ۔ یہ کل دس اقوال ہیں جن میں علم وحکمت کے خزانے بھرے ہوئے ہیں۔ عاجز بس ان ہی اقوال پر اکتفاء کرے گا۔
راقم پر خصوصی شفقت ومحبت:
١٩٩٣ء میں جب راقم نے ابتدائی جماعت (Preparatory Class)(موجودہ صف اللغۃ ) کا امتحان پاس کیا تو اس وقت استاد محترم جناب انوار اللہ صاحب اوراس وقت کے صدر الوفاق جناب حبیب بٹ صاحب (مرحوم) ، اور جنرل سیکرٹری جناب شیخ محمد جعفر صاحب (مرحوم) تینوں حضرات ذی وقار و حشم نے مجھے سالانہ امتحان میں کامیابی حاصل کرنے پر سو سو روپے بطور انعام دیئے اور سرانوار اللہ صاحب کاکہاہوا جملہ آج بھی میرے ذہن میں محفوظ ہے کہ یہ ہمارے ادارے کے سب سے کم عمر طالب علم ہیں ۔
پھرجب نامساعد حالات و گھریلومسائل کی وجہ سے ١٩٩٥ء میں راقم نے تعلیم ادھوری چھوڑدی تو شفیق، مہربان،ہمدرد،غمگسار،استاد محترم ،پرنسپل علامہ ابوفہیم انواراللہ صاحب نے میرے ہم جماعت (گریجویٹ جناب طاہر پرویز صاحب) کوہاسٹل کی پیشکش کے ساتھ گھر بھیجا۔ جنہوں نے بہت محنت وکوششوں سے گھر ڈھونڈا اور والد صاحب کو استاد محترم کا پیغام پہنچایا۔ جس پر والد صاحب نے مجھے دوبارہ جامعہ میں داخل کروایا۔ دوبارہ داخلہ کے بعد استاد محترم نے راقم کی ہرلحاظ سے مدد و اعانت کی۔یہاں تک کہ راقم نے جامعہ علیمیہ سے فراغت کی سعادت حاصل کی۔
عروج اہل کرم کے لئے ہے دنیامیں
کس آبرو سے ہواپر سحاب ہوتاہے
فراغت کے بعد راقم نے جامعہ میں ہی تدریس کی خواہش کااظہار کیا تو استاد محترم نے راقم کویہ پیشکش کی کہ تم تخصص میں داخلہ لے لو تمہارے اخراجات میں برداشت کروں گا ۔ لیکن راقم نے جامعہ میں تدریس کی سعادت کوتخصص پر ترجیح وفوقیت دی اور اپنی مادر علمی میں تدریس کا اعزاز حاصل کیا۔
جب راقم کے پہلے بیٹے کی پیدائش ہوئی تو آپ نے بچے کا نام پوچھا۔جب عاجز نے محمد عبدالرحمن رکھنے کی خواہش کا اظہار کیا تو آپ نے تاریخ پیدائش کی مناسبت سے فرمایا نہیں محمدعبدالقدوس رکھو۔یوں راقم نے آپ ہی کے حکم پر اپنے پہلے بیٹے کا نام محمد عبدالقدوس رکھا۔
الغرض میرے والدین کے بعد میرے لئے سب سے زیادہ قابل احترام ،لائق تعظیم شخصیت استاد محترم کی ہے جن کے نہ صرف راقم پر بے پناہ ، لاتعداد،انگنت،بےشمار احسانات، عنایات وکرم نوازیاں ہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ان کی شخصیت کے مزیدکئی خوبصورت پہلو مثلاً اذکار انوار،اعزاز انوار، احباب انوار، ابناء انوار، افراد انوار،اقلام انوار،افکارانوار، اثمار انوار، اسفارانوار،اوراد انوار،اسرارانوار، انوار انوار، تجلیات انوار، ایسے ہیں جنہیں احاطہ تحریر میں لانے کی قوت وطاقت اس عاجز وناتواں قلم کار میں نہیں ہے کہ وہ ان(احسانات) کا احاطہ کرسکے۔یہ تو ان کے ادنیٰ اورحقیر ترین طالب علم کی نگارشات قلبی ہیں جس کے لئے اس نے قلم کا سہارا لیا اور کاغذ کے ان ٹکڑوں سے دل بہلایا ہے۔بقول شاعر
تحریر میں سمٹے ہیں کہاں دلوں کے درد
بہلارہے ہیں خود کو ذرا کاغذوں کے ساتھ
اللہ رب العزت سے دعاگوہوں کہ آپ کو صحت وتندرستی وعافیت سے طویل عمرعطاکرے تاکہ آپ کا سایہ عاطفت ہم پر تادیر قائم رہے اور ہم آپ سے مزید فیض پاسکیں ۔ نیزاللہ رب العزت آپ کو دنیوی واخروی عظیم کامیابیوں (فوزوفلاح عظیم اورسعادت دارین) سے نوازے ۔آمین