اردو عربی اور فارسی میں رزمیہ شاعری‘ صلح و جنگ کی داستان :- رپورتاژ :سعدیہ سلیم

Share


اردو عربی اور فارسی میں رزمیہ شاعری‘ صلح و جنگ کی داستان
ورلڈ اردو ایسو سی ایشن ہندستانی زبانوں کا مرکز ، جواہر لعل نہرو یونیورسٹی
کے اشتراک سے جے. این. یو میں منعقد دو روزہ بین الاقوامی سیمینار

رپورتاژ : سعدیہ سلیم
لیکچرر اردو سینٹ جانس کالج آگرہ

ہندوستان کی جامعات میں اردو سمیناروں کے کامیاب انعقاد کی روایت مضبوط ہے۔یہ سمینار کسی موضوع کے ماہر اساتذہ اور علم کے پیاسے ریسرچ اسکالرز اور محبان اردو کے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونے اور علمی مباحث کا مرکز ہوتے ہیں۔ دہلی نہ صرف ہندوستان کا دل ہے بلکہ یہ اردو زبان و ادب کا مرکز بھی ہے۔

یہاں سے عالمی سطح پر اردو زبان و ادب کی خدمت مختلف سطح پر ہورہی ہے۔ اردو کے عالمی سفیر اور اردو کو ٹیکنالوجی سے جوڑنے میں اہم کردار ادا کرنے والے پروفیسر خواجہ اکرام صاحب کی کاوشوں سے حال ہی میں ورلڈ اردو اسوسی ایشن کا قیام عمل میں آیا ۔ جس کا بنیادی مقصد عالمی سطح پراردو کے دانشور طبقے اوراردو کی نئی نسل کو ایک پلیٹ فارم پرجمع کرنا اور اردو سرگرمیوں کو فروغ دینا ہے۔ جس کے لیے ایک دیدہ زیب ویب سائٹ شروع ہوچکی ہے۔ اسی ورلڈ اردو اسوسی ایشن کے زیر اہتمام دہلی کی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں30اور31جنوری کو ’’اردو عربی اور فارسی میں رزمیہ شاعری‘صلح و جنگ کی داستان‘‘ کے موضوع پر دو روزہ عالمی سمینار کا انعقاد عمل میں لایا گیا۔اس سمینار کی بھر پور تیاریاں کی گئیں۔ اور ملک و بیرون ملک سے ماہرین فن کو مقالے پیش کرنے کے لیے مدعو کیا گیا۔
اردو شاعری کو عالمی ادب میں جو اعلیٰ مقام حاصل ہے وہ اس کی رزمیہ شاعری کی بدولت ہے۔رزمیہ شاعری ہماری ادبی تہذیب کی شناخت ہے۔رزم و بزم کی داستانیں قدیم دور سے ہی ہندوستانی ادب کا حصہ رہی ہیں۔ رامائن و مہا بھارت کے قصے اور بعد میں اردو مرثیے میں پیش کردہ واقعات کربلا اور ان سے وابستہ انسانی جذبات کی پیشکشی اسی رزمیہ شاعری کا حصہ ہیں جو دور قدیم سے مختلف زبانوں میں پیش ہوتی رہی ہیں ایک ایسے دور میں جب کہ مادہ پرستی اپنے عروج پر ہے انسانی جذبات کے احترام کا اعادہ اور اپنے شعری سرمایے کی اس عظیم وراثت کی کھوج وقت کی ایک اہم ضرورت بن گئی تھی جسے ورلڈ اردو اسوسی ایشن نے محسوس کیا اور اردو عربی اور فارسی کے دانشوروں کی ایک کہکشاں کو ہندوستان کے دل اور عظیم مادر علمیہ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں جمع کردیا۔یہ میری خوش بختی رہی کہ استاد محترم پروفیسر خواجہ اکرام صاحب نے ذرہ نوازی کی اور مجھ ناچیز کو اس عالمی سمینار کا حصہ بنایا اور مقالے کی پیشکشی کے لیے مدعو کیا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پروفیسر خواجہ اکرام اردو کی نئی نسل کو آگے بڑھانے میں کتنے فراخ دل ہیں۔اس سمینار کے روح رواں جناب ڈاکٹر خواجہ اکرام الدین صاحب کے بارے میں کچھ لکھنا مانو سورج کو چراغ دکھلانے کے برابر ہے اردو ادب کے اس گلشن کو مہکانے اور ہر روز ایک نیا پھول کھلانے کی خداداد صلاحیت رکھتے ہیں ۔ڈاکٹر خواجہ اکرام الدین صاحب نے ہندوستان میں اردو کے کارواں کو بڑھانے اور اردو کی آواز کو ساری دنیا میں پہونچانے کے لیے ہر چھوٹی بڑی کوشش کی ہے۔ وہ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے چیرمین رہے۔ عالمی اردو کانفرنس کرائی۔ ماریشس ۔قاہرہ ۔ برطانیہ اور دیگر ممالک میں اردو کے حوالے سے سفر کیا۔ انہیں اپنی یونیورسٹی جے. این یومیں جو ماحول ملا اس نے انہیں اپنی شخصیت کو مزید نکھارنے کا موقع دیا جس طرح دنیا کے ہر شعبہ میں تبدیلیاں آرہی ہیں دنیا بہت تیزی سے آگے کی طرف بڑھ رہی ہے تو اس کے اثرات ہماری زبانوں پر بھی بہت تیزی سے پڑرہے ہیں اور جناب خواجہ اکرام الدین صاحب نے اس چیز کو بہت تیزی سے محسوس کرلیا اور اردو زبان و ادب کو ٹیکنالوجی سے جوڑنے کی کوشش میں لگ گیے کیونکہ ان کا ماننا یہ تھا کہ اگر ہم وقت کے ساتھ نہیں چلیں تو زبان اور ادب ختم ہوجائیں گے اور زبان کو زندہ رکھنے کے لیے اس کے تقاضے اور مطالبے کو سامنے رکھنا بہت ضروری ہے اسی بات پر انہوں نے عمل کر دکھایا اور دس سال اس پر رسرچ کی اور ان تمام ٹیکنالوجی، سوشل میڈیا کی معلومات ہمیں اپنی کتاب "اردو کی جدید ٹیکنالوجی وسائل اور امکانات” اور دوسری کتاب "اردو میڈیا” کے ذریعے فراہم کیں۔ یہ کتاب 2012 میں منظر عام پر آئی اس سے پہلے 2006 میں ان کا پہلا مضمون جو ٹیکنالوجی پر تھا اور اس کو انہوں نے پاور پاؤنٹ میں اردو میں پڑھا تھا تو اس وقت لوگ حیرت سے آنکھیں پھاڑ کر دیکھ رہے تھے کہ اردو میں کیسے پاور پوائنٹ ہے اس وقت فیس بک کی شروعات کچھی ہی دنوں قبل ہوئی تھی اور اسی طرح مورڈن ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا سے جڑی بہت سی معلومات کا خزانہ وہ ہم سب تک پہنچاتے رہے یہی نہیں بلکہ انہوں نے ادبی تنظیم کا بھی آغاز کیا جسے ہم اردو ورلڈ ایسوسیشن کا نام سے جانتے ہیں یہ ایک غیر سرکاری اور خود مختار ادبی تنظیم ہے اور دنیا بھر کے ادارے، اردو کے قدردان، احباب اور تنظیموں نے مل کر اس میں اشتراک کیا اور تعاون دیا تو یہ تنظیم عمل میں آئی اور بہت تیزی سے ترقی کے زینے چڑھ رہی ہے۔عالمی سمینار کے آغاز سے قبل سوشل میڈیا پر مہمانوں کے خیر مقدمی پوسٹر پیش ہوتے رہے جس سے کانفرنس کی اچھی خاصی تشہیر ہوئی اور لوگ انتظار میں تھی کے کانفرنس میں کیا کچھ پیش کیاجائے گا۔
کانفرنس میں شرکت کے لیے میں نے اپنے ارکان خاندان کے ہمراہ آگرہ سے دہلی کا سفر کیا۔یہ بھی ایک عجیب اتفاق رہا کہ دونوں بچے بھی میرے ہمراہ تھے اور میرے شوہر محترم جناب *راشد سلیم شمسی* صاحب جنہوں نے مجھے اس سمینار میں لے جانے کا وعدہ کیا تھا وہ پورا کر دیکھایا یہ سب ان ہی کی کاوشوں اور حوصلے کا نتیجہ ہے کہ میں اپنے اس ادبی سفر پر روانہ ہوسکی ۔ ہم اس سمینار میں شرکت کے لیے صبح چھ بجے ہم گھر سے نکلے اور راستے میں ہی میرے محترم اور ہر دل عزیز استاد ڈاکٹر خواجہ اکرام الدین صاحب کے فون اور میسیجز کا سلسلہ میرے شوہر کے پاس جاری رہا کہ ہم لوگ کب نکلے اور کب پہنچ جائیں گے انہوں نے مہمان نوازی کے سارے ہی خلوص نچھاور کردیے۔ اور الحمدللہ دس بجے ہم جے. این. یونیورسٹی کے کیمپس اسکول آف کمپیوٹر اینڈ سائنس پہنچ گیے جہاں ہمارے استقبال کے لئے جناب خواجہ اکرام الدین صاحب کے ایک نہایت ہی لائق اسکالر *لیاقت رضا* کھڑے ہمارا انتظار کررہے تھے انہوں نے ہماری بہت رہبری کی اور ہم ان کے ہمراہ ہی سمینار ہال میں داخل ہوئے۔ پروگرام کا آغاز مقررہ وقت پر ہوا۔ اور ہم نے دیکھا کہ استقبالیہ پروگرام کی محفل سجی ہوئی ہے اور سب کا ہی استقبال بہت ہی پْر تپاک طریقے سے گلدستوں کی پیشکشی سے کیا جارہا ہے سب سے پہلے بیرون ممالک سے آئے مہمانان جن میں "جامعہ ازہر کے وائس چانسلر *پروفیسر یوسف عامر صاحب* پروفیسر رانیا فوزی، ڈاکٹر ولا جمال، ڈاکٹر مروہ لطفی وغیرہ کا استقبال کیا گیا یہ نظارہ بھی بڑا دلکش تھا اور ان سب ستاروں کو دیکھ کر بہت خوشی محسوس ہورہی تھی اور فخر بھی کہ ہماری اردو زبان بھی اتنی خوبصورت ہے جیسا کہ اس کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ ایک شیریں زبان ہے تو حقیقتاً ان سب کو دیکھ کر ایک شیرینی سی ہی دل و دماغ میں گھلتی چلی جاتی تھی۔۔۔ سمینار کے آغاز میں ورلڈ اردو ایسوسیشن کے چیئرمین اور اردو کے عالمی سفیر پروفیسر محمد اکرام الدین صاحب نے سمینار کے موضوع *اردو عربی اور فارسی میں رزمیہ شاعری: صلح و جنگ کی داستان* کے ابعاد و متعلقات پر روشنی ڈالی اور کہا کہ یہ موضوع اپنے آپ میں بہت اہمیت کا حامل ہے اس میں جذبات نگاری اور منظر کشی اعلی درجے کی ہوتی ہے نیز انہوں نے سبھی مہمانوں اور اسکارلز کا خیر مقدم کرتے ہوئے اپنے آئندہ کے عزائم کا بھی اظہار کیا اور اسی دوران جامعہ ازہر عین شمس یونیورسٹی اور ورلڈ اردو ایسوسیشن کے اشتراک سے چند ماہ بعد قاہرہ میں منعقد ہونے والے سمینار کا بھی انہوں نے اعلان کیا اور یہ بھی بتایا کہ اس میں اسکالرز کو فوقیت دی جائے گی جسے سنتے ہی ماحول میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔۔۔..
الہ آباد یونیورسٹی سے آئے "پروفیسر علی احمد فاطمی” صاحب نے کلیدی خطبہ پیش کیا اور کہا کہ "عمدہ رزمیہ شاعری محض بیان جنگ تک محدود نہیں رہتی بلکہ فلسفہ جنگ کے حوالے سے حیات و ممات، حق و باطل، خیر و شر کو تو اپنے دائرے میں سمیٹتی ہی ہے نیز اس میں انسانی اور عوامی کلچر در آتا ہے خوف و ڈر، شجاعت اور قربانی کے جو مظاہر سامنے آتے ہیں اس سے نہ صرف نظریہ جنگ بلکہ نظریہ حیات اور مقصدِ حیات ظاہر ہوتا چلتا ہے” پروفیسر علی احمد فاطمی صاحب کے اس خطبہ نے بہت سے ایسے پہلو ہمارے سامنے واضح کیے جس سے اب تک شاید ہم محروم تھے۔۔۔. سلسلہ آگے بڑھا اور ہمارے سامنے جامعہ ازہر کے وائس چانسلر” پروفیسر یوسف عامر صاحب” نے بطورِ مہمانِ خصوصی شرکت کرتے ہوئے کہا کہ” اردو بہت قدیم زبان نہیں اس کے باوجود اس زبان کے ادب میں عالمی ادب سے مقابلے کی قوت موجود ہے کیونکہ اردو کے شعراء نے فلسفہ حیات کو بڑی عمدگی سے پیش کیا، اور ساتھ ہی اپنی یونیورسٹی الازہر کے بارے میں بھی بتایا کہ یہ جامعہ 1048 سال پرانی ہے اور 87 فیکیلٹیز ہیں اور جن میں تقریباً ساڑھے چھ لاکھ طلبہ زیرِ تعلیم ہیں اور دنیا کے 107 ممالک سے تشنگانِ علم و ہنر جامعہ الازہر قاہرہ میں قیام پذیر ہیں یہ سن کر بہت حیرانگی اور خوشی ہوئی کہ ہماری اردو زبان کہاں کہاں تک اور کن کن ممالک میں کتنے ذوق و شوق کے ساتھ بولی اور پڑھی جاتی ہے،،،،، دبئی سے آئے اردو کے جنرل سیکرٹری "جناب ریحان خان صاحب” نے ہمیں بتایا کہ ہماری بنیادی خدمت یہ ہوگی کہ ہم آئندہ نسل تک اردو زبان کی روح کو پہنچا سکیں بزم اردو کے بارے میں ہمیں بہت کچھ جاننے کا موقع ملا ان کی گفتگو سے فن کاروں کا کارواں دیے گئے مقررہ اور کے مطابق آگے بڑھتا چلا گیا اور ہمارے سامنے انجمن ترقی اردو ہند کے ڈائریکٹر "ڈاکٹر اطہر فاروقی صاحب” جلوہ نما ہوئے جنہوں نے اپنے بہت ہی منفرد لب و لہجہ میں خطاب کیا اور محفل کو ایک نیا ہی رنگ دے دیا رجز کی اس محفل میں بڑی ہی شگفتگی کے ساتھ مزاح کا رنگ بھی گھولتے چلے گیے اور ہمیں بتایا کہ ” آج تعلیمی اداروں کی ڈور مکمل طور پر پرائیویٹ سیکٹر کے ہاتھوں میں ہے اس لیے اگر ہم اپنے بچوں کو اردو کی تعلیم دلانا لازمی سمجھ لیں تو یقیناً وہ ادارے اردو کی تعلیم کے لئے اردو اساتذہ بحال کریں گے اس لیے ہمیں اردو کے لیے خود بیداری کا ثبوت دینا ہوگا اور اسی مبارک موقع پر ایک اور ستارہ ہمارے سامنے چمکے مصر کے کلچرل قونصل "ڈاکٹر محمد ندا… انہوں نے بتایا کہ” ہندوستان اور مصر کے درمیان روز بروز تعلقات بہتر ہوتے جارہے ہیں یہی وجہ ہے کہ مصر ی تعلیمی اداروں میں ہندوستانی طلباء کو بہت سی اسکالر شپ دی جارہی ہے امید ہے کہ آنے والے دنوں میں دونوں ملکوں کے تعلقات میں مضبوطی آئے گی اور اسی طرح دنیا بھر کے ستاروں سے چمکتی اس بزم کا اختتام ہوا۔ اور جے. این یو کی ایک طلبہ مہوش نے سب کا شکریہ بہت ہی پیارے انداز میں پیش کیا ۔ سمینار کی دوسری نشت کا آغاز ہونے سے قبل جناب خواجہ اکرام الدین صاحب نے اپنے تمام ہی مہمانوں کو کھانے کے لیے دعوت دی اور ادب کا یہ کارواں طعام کے لیے چل پڑا جے. این یو کیمپس میں ہی طعام کا بہت ہی خوبصورت اہتمام کیا گیا تھا ہر ہر ڈش میں ایک مہک اور ایسی لذت اور خواجہ اکرام الدین صاحب اور ان کی پوری ٹیم کی مہمان نوازی کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ دوران طعام اسکارلز اور اساتذہ ایک دوسرے سے گفتگو کرتے دکھائی دئیے اور اردو ادب کی یہ عالمی کہکشاں قدیم و جدید کا انوکھا سنگم بن گئی۔ کھانے اور نماز وغیرہ سے فارغ ہوکر ہم پھر اس بزم میں داخل ہوگیے جہاں سیمنار کی مختلف نشستوں کا لطف لینے میں پھر سے محو ہوگیے اور ان نشستوں میں ملک بھر سے آئے انمول نگینے اپنے اپنے ہنر کا جادو چلاتے رہے اور فضا کو خوشگوار بناتے چلے گیے جس میں "پروفیسر یوسف عامر صاحب، پروفیسر ابن کنول، پروفیسر شفیق احمد اشرفی، پروفیسر رانیا فوزی، ڈاکٹر ولا جمال ڈاکٹر رشید القادری اور مجھ خاکسار نے بھی اپنا مقالہ جس کا عنوان تھا” میر انیس کے مرثیوں میں میدان جنگ کی منظر نگاری ایک مطالعہ” پیش کیا۔۔۔۔میرے مقالے کے موضوع کے حوالے سے آپ کو یہاں بتاتی چلوں کہ اس کا انتخاب میرے استاد محترم ڈاکٹر اسلم فاروقی صاحب صدر شعبہ اردو این ٹی آر گورنمنٹ ڈگری کالج برائے نسواں محبوب نگر ریاست تلنگانہ نے کیا۔ جن کی زیر نگرانی الحمدللہ میں عثمانیہ یونیورسٹی سے اپنی پی. ایچ ڈی کررہی ہوں نے کیا ڈاکٹر اسلم فاروقی کے بارے میں ابھی اتنا ہی بتانا چاہتی ہوں کہ جس طرح شمال میں اردو کو جدید ٹیکنالوجی سے جوڑنے کا کام ڈاکٹر خواجہ اکرام الدین صاحب کررہے ہیں تو ادھر جنوب میں ڈاکٹر اسلم فاروقی صاحب اس کام کو بہت تیزی سے آگے بڑھارہے ہیں جن میں ایک اہم کارنامہ یہ کہ انہوں نے
فون میں اردو گھر گھر میں اردو مہم کے ذریعے اردو رسم الخط کو فون سے جوڑنے کا کام کیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے اردو کو فروغ دے رہے ہیں۔۔۔. نظامت کے فرائض انجام دے رہے ڈاکٹر شفیع ایوب صاحب نے ہر فنکار کے بارے میں اتنی خوبصورتی کے ساتھ تمہید باندھی کہ دل سرشار ہوتا چلا گیا۔ ان کا لہجہ اور اندازِ بیان ایک عجب کشش پیدا کرتا کہ یہ انتظار ہوتا کہ وہ جلدی سے دوسرے فنکار کے بارے میں بتانے ڈائس پر آجائیں اور اس طرح سیمنار اپنی کئی نشستوں میں اختتام پذیر ہوا۔سمینار کے یہ خوبی رہی کہ اس میں ذکر حبیب ﷺ کے ضمن میں نعتیہ محفل بھی منعقد کی گئی ۔ یہ اردو سمیناروں کی ایک عظیم اور بابرکت روایت دیکھی گئی۔ اس محفل میں نعت شریف کا نذرانہ عقیدت پیش کرنے کے لیے مجھ خاکسار کو بھی موقع دیا گیا۔
میری نہ یہ مجال ہے، میرا نہ یہ مقام ہے
نعتِ حبیبِ کبریا صرف خدا کا کام ہے
فضا معطر سی ہوگئی جب نعت خوانی کی اس بزم کا آغاز ہوا جہاں ابھی کچھ دیر پہلے ہم رزمیہ شاعری پر اپنی گفتگو کرریے تھے وہی نعتِ نبی ﷺ سن کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت و اخلاق میں ڈوب گیے کہ انہوں نے کس طرح دشمنوں کو اپنے دشمنوں کو اپنے حسن و اخلاق کے ساتھ جیتا۔ سب سے پہلے مجھ ناچیز کو دعوت سخن دی گئی اور اس کے بعد سلیم امروہی صاحب نے ایسی نعت شریف پیش کی کہ بزم میں بیٹھا ہر ہر شخص جھوم جھوم گیا… پھر جے این یو کے اسکالر رشید افتخار صاحب نے نہایت ہی خوبصورت لہجہ میں اپنی نعتِ پاک پیش کی اور اس طرح دیگر نعت خواں اپنے فن سے فضا کو مزید معطر بناتے چلے گئے۔ نعتیہ محفل کے انعقاد کے ساتھ عالمی سیمینار کے پہلے دن کا اختتام عمل میں آیا۔ ہم لوگ شہر آگرہ واپس ہوئے۔
میرے محترم استاد ڈاکٹر خواجہ اکرام الدین صاحب نے اس حدیث کو بھی بہت خوبصورتی کے ساتھ عمل کیا کہ مہمانوں کو دروازے تک رخصت کرنا سنت ہے اور وہ ہمیں باہر تک الوداع کہنے آئے اس طرح رات ساڑے بارہ بجے ہم اپنے شہر آگرہ اپنے گھر پہنچ گیے الحمدللہ۔۔۔.. اور جب صبح میں نے اپنی بیٹی عائشہ کو جگایا تو اس نے بڑی معصومیت سے کہا "مما میرا مقالہ ادھورا رہ گیا اور آپ نے مجھے اٹھا دیا” تو مجھے بے ساختہ بہت ہنسی آء اور خوشی بھی ہوء کہ میرے بچے جو کہ کانونٹ اسکول میں پڑھتے ہیں وہ بھی الحمدللہ ثم الحمدللہ اردو سے اتنی محبت کرتے ہیں کہ ساری رات خواب میں عائشہ اپنا مقالہ ہی پڑھتی رہیں۔۔۔عالمی سمینار کے دوسرے دن مختلف مجالس میں مہمانوں اور ریسرچ اسکالرز نے پر مغز مقالے پیش کئے۔ اردو اخبارات اور میڈیا میں اس سمینار کا بھرپور کوریج کیا گیا۔ ورلڈ اردو اسوسی ایشن کی ویب سائٹ اور فیس بک پیج پر اس سمینار کے ویڈیوز اور تصاویر پیش کی گئیں۔ اور بہتر انتظامی صلاحیتوں کے ساتھ اس سمینار کا انعقاد اپنی یادوں کو مہمانوں کے دلوں میں بٹھاتا چلا گیا۔ امید ہے کہ اس سمینار میں جو مباحث ہوئے ہیں اور جو مقالے پیش ہوئے ہیں وہ اردو عربی اور فارسی شاعری کی رزم و بزم کی داستانوں اور ان سے وابستہ جزئیات کو تادیر ہمارے دلوں میں محفوظ رکھیں گی۔ اور ہماری رزمیہ شاعری نے جو انسانی اقدار پیش کئے وہ ہماری زندگی میں مشعل راہ ثابت ہوں گی۔

Share
Share
Share