علم و عمل کے پیکرحضرت مولانا محمد قاسم صاحب
صدرجمعیۃ علماء بہارو بانی مدرسہ مدنیہ سبل پورپٹنہ
مفتی امانت علی قاسمیؔ
استاذ دار العلوم حیدرآباد
E-mail:
07207326738 Mob:
اہل بہار کے بالخصوص اور تمام ہندی مسلمانوں کے لیے بالعموم یہ انتہائی اندوہ ناک اور کرب ناک بات ہے کہ صوبہ بہار کے مایہ ناز سپوت ، اور پوری دنیا میں اپنے کردار و عمل کی خوشبو بکھیرنے والے ، اسلاف کے روشن نقوش ، ان کی پاکیزہ روایات کے امین ، آسمان علم و ادب کے تابندہ ستارے اور علم و عمل اور فکر و نظر کی جھومر کے ایک ایک کڑی گرتی جارہی ہے ۔
نمونہ اسلاف حضرت مولانا اسرار الحق صاحب(۱۵/فروری ۱۹۴۲ء۔۷/دسمبر۲۰۱۸ء ) ، محدث کبیر حضرت مولانا حسیب الرحمن صاحب(۱۹۳۶ء ۔۲۴/دسمبر۲۰۱۸ء ) ، فقہ و فتاوی کی قد و آور شخصیت حضرت مولانا زبیر صاحب (یکم جنوری ۱۹۳۶ء ۔۱۳ جنوری ۲۰۱۹ء )کے انتقال کے بعد اب ایک اور ہمہ جہت شخصیت حضرت مولانا محمد قاسم صاحب (۲۰/نومبر ۱۹۵۳ء ۔۲۹ جنوری ۲۰۱۹ء )نے دنیائے آب و گل سے اپنا رشتہ توڑ لیا ہے۔
یہ حضرات علم و ادب کے وہ سمندر تھے جن کی لہروں سے دریا نکلتے ہیں ، یہ آفتاب عالم تاب تھے جن کی روشنی میں لوگ اپنی زندگی کی شمع جلاتے ہیں ، یہ آسمان میں رات کے وہ تارے تھے جن کو دیکھ کر لوگ زندگی کا صحیح رخ تلاش کرتے ہیں ،یہ باغیچے کے وہ گل سرسبد تھے جن کی خوشبو سے پورا باغ مہک رہا تھا؛ لیکن آج اب یہ آفتاب و ماہ تاب ہمارے درمیان نہیں رہے ، اور ان کی زند گی کا سورج غروب ہوگیا اور ان کی حیات مستعار کی شمع بجھ گئی اور ہم سب ان سے محروم ہوگئے ،لیکن انشاء اللہ ان کے فکر و نظر کی روشنی سے بہار ہی نہیں پورا ملک روشنی حاصل کرے گا ۔
وہ چراغ علم ہے اور خاک کی آغوش ہے
آہ ! وہ طوفاں ہمیشہ کے لیے خاموش ہے
مولانا محمد قاسم صاحب صوبہ بہار کے ضلع بھاگل پور سے تعلق رکھتے تھے ، آپ نے دارالعلوم سے ۱۹۷۰ء میں فراغت حاصل کی، پوری زندگی درس و تدریس ،خطابت ، وعظ و نصیحت ،تفسیراور خدمت خلق میں گزاری ، تشنہ لب امت کو سیراب کیا ، اندھیرے میں پڑے لوگوں کو روشنی دکھائی ، بھولے بسرے لوگوں کو راہ راست پر لائے ،ضرورت مندوں کے مسیحا بنے ،محتاجوں کی ضرورت پوری کی ، درس و تدریس کے ذریعہ دینی علوم پڑھنے والوں کو فیض پہنچایا ، تفسیر و خطابت کے ذریعہ عام لوگو ں کو سنت و شریعت سے واقف کرایا ، لوگوں کا رشتہ قرآن سے جوڑا ، عام انسانوں میں قرآن کا شوق اور شریعت پر عمل کا جذبہ پیدا کیا اور خدمت خلق کے ذریعہ بے شمار بے سہار ا اور بے آسرا لوگوں کے لیے سہارا اور آسرا ثابت ہوئے، اس طرح آپ کی خدمات ہر چہار جانب تھی ، امت کے ہر طبقہ تک آپ نے رسائی حاصل کی تھی ، اور ہر جگہ آپ کا فیض اور آپ کے کردار کی خوشبو پھیلی تھی یہی عند الناس آپ کی مقبولیت کا راز سربستہ اور عند اللہ محبوبیت کی علامت ہے ۔
آپ سادگی و وضع داری کے پیکر ، اخلاص و للہیت کے سراپا مجسم تھے ، شرافت و خوداری ، تواضع ،انکساری اورملنساری آپ کی خاص پہچان تھی ، جب بھی ملتے تو خنداں پیشانی سے ملتے ، اپنائیت و خلوص و محبت کا اظہار فرماتے ،آپ خوش مزاج اور کم گو انسان تھے ، مہمان نواز ، کرم گستر اور بلند اخلاق کے مالک تھے ، ملت کے لیے ٹرپنے اور امت کے غم میں گھلنے والا دل آپ کے اندر تھا ۔خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را ۔
۲۰۰۵ء میں آپ بہار رابطہ مدارس کے صدر منتخب ہوئے اوراسی سال دارالعلوم دیوبند میں رابطہ مدارس کے اجلاس میں اس حیثیت سے پہلی مرتبہ تشریف لائے، راقم الحروف اُس وقت طلبہ بھاگل پور کی انجمن ’’بزم سہول‘‘کا صدر تھا رابطہ کے اجلاس کی مناسبت سے بھاگل پور کے بہت سے علماء کرام تشریف لائے تھے اس لیے بزم سہول کی جانب سے ایک استقبالیہ پروگرام رکھا گیا تھا حضرت مولانا قاسم صاحب اس اجلاس میں مہان خصوصی تھے، راقم کی حضرت سے پہلی ملاقات یہیں ہوئی تھی اور اسی اجلاس سے آپ سے شناسائی ہوئی ، آپ کو قریب سے دیکھنے اور استفادہ کا موقع ملا۔اس وقت میں نے جو صفت آپ کی نوٹ کی وہ یہ تھی کہ آپ کے اندر خورد نوازی ، تھی چھوٹوں کے ساتھ شفقت و محبت کرنا ، ان کے اندر اپنائیت کا احساس پیدا کرنا ، چھوٹوں کی حوصلہ افزائی کرنا ،ان کے اندر عزم و ہمت کا جوہر بھر نا یہ بری عظیم صفت ہے اوراب اس صفت کا فقدان نظر آتاہے ، اس پہلی ملاقات کے بعد گاہے بگاہے آپ سے ملاقات ہوتی تھی ایک مرتبہ چمپانگر میں بخاری کے اجلاس کے موقع پر اور ایک مرتبہ ان کے گاؤں کروڈیہہ میں ملاقات ہوئی تھی اور آخری ملاقات حال ہی میں ۱۵/دسمبر ۲۰۱۸ء میں جمعیۃ علماء ہند کے منعقدہ سیمینار دہلی میں ہوئی تھی آپ اس اجلاس میں تشریف لائے تھے اور خطاب بھی فرمایا تھا اور یہ راقم بھی مقالہ نگار کی حیثیت سے شریک تھا اس موقع پر حضرت سے ملاقات ہوئی تھی ،حضرت کے برادر خورد حضرت مولانا ناظم صاحب سے بھی ملاقات ہوئی تھی؛ لیکن یہ ملاقات دیدار جیسی تھی کوئی خاص گفت و شنید نہیں ہوسکی تھی ۔آج جب کہ حضرت کا سایہ نہیں رہا یہ احساس شدید ہورہا ہے کہ کاش اس آخری ملاقات میں کچھ گفتگو کرلی ہوتی جو آخری یادگار کے طور پر سینے دل میں محفوظ ہوجاتی؛ لیکن قضاء و قدر کو کون ٹال سکتا ہے اور قانون قدرت پر کس کی اجارہ داری ہے ، موت سے کون لڑ سکتا ہے۔ کسی کو بھی یقین نہیں تھا کہ حضرت اچانک ہمارے درمیان سے غائب ہوجائیں گے لیکن کیا جائے قانون فطرت کے مطابق موت ایسی بیماری ہے جس کے آنے کا کسی کو علم نہیں ہوتاہے اور کوئی ماہر ڈاکٹر بھی اس کے صحیح وقت کا ادراک نہیں کرسکتا ہے اور یہ وہ بیماری ہے جس سے کوئی بچ بھی نہیں سکتا ہے چاہیے اس کے پاس دولت کا انبار ہو یا حکمت کا خزانہ ہو ۔
حضرت ؒ کی دوسری بہت اہم خصوصیت کم گوئی کی تھی ۔یہ حقیقت ہے کہ جو آدمی کم بولتاہے وہ سوچ کربولتا ہے، تول کر بولتا ہے اسی لیے اس کی زبان سے حکمت کے گوہر اور معرفت کے جوہر جاری ہوتے ہیں ۔بیہقی میں حضرت ابوہریرہ کی حدیث ہے آپ ﷺ نے فرمایا : جب تم ایسے شخص کو دیکھو جسے زہد فی الدینا اور کم گوئی سے نوازا گیا ہے تو اس سے قرب حاصل کرلو کیوں کہ اس کو حکمت و دانائی کی دولت دی گئی ہے ۔حضرات صوفیا کے یہاں کم گوئی مدارج عالیہ کے حصول کے لیے انتہائی اہم ہے ۔حضرت ؒ اس حدیث کے مصداق تھے ۔
آپ کی خدکات کا دائرہ بہت وسیع تھا ، فراغت کے بعد آپ نے تین سال بجنور میں اور چھ سال بردوان میں قندیل محمدی روشن کی، اس کے بعد شمس الہدی پٹنہ سے وسیع خدمات کا آغاز کیا ،جس میں آپ نے تیس سال سے زائد عرصہ گزارا،پٹنہ آنا آپ کے لیے نیک فال ثابت ہوا ، یہاں آپ کو ہمہ جہت کام کا موقع ملا، شمس الہدی پٹنہ کو نئی بلندی تک لے گئے ، وہاں آپ کو بہت مقبولیت حاصل ہوئی آپ وہاں استاد ، پھر استاذ حدیث پھر شیخ الحدیث ہوئے اور اخیر میں پرسنل کے عہدہ سے ریٹائرڈ ہوئے ۔ شمس الہدی میں تدریس کے ہی زمانے میں آپ نے ۱۹۸۹ء میں مدرسہ مدنیہ سبل پور پٹنہ میں قائم کیا تھا یہِ اس وقت آپ کی یادگار ہے اور بہار کے معیار ی مدارس میں اس کا شمار ہوتا ہے،تقریبا سات سوت بچے یہاں زیر تعلیم ہیں ۔ پٹنہ میں آپ نے تفسیر قرآن کا سلسلہ شروع کیا تھا جو بہت مقبول ہوا، پٹنہ کی مختلف مساجد میں آپ کا درس قرآن ہوا کرتا تھا جو اخیر وقت تک جاری تھا ، اس کے علاوہ آپ نے پٹنہ اور قرب و جوار کے اضلاع میں متعدد مدارس قائم کئے ،بھاگل پور اپنے گاؤں میں معہد ارشد قائم کیا ، آپ پٹنہ کے گاندھی میدان میں ایک عرصے سے امام و خطیب تھے جس کی وجہ سے پورا شہر آپ سے نہ صرف مانوس تھا؛ بلکہ عقیدت و محبت کے پھول آپ پر نچھاور کرتا تھا۔ آپ نے جمعیۃ علماء کے پلیٹ فارم سے بھی اہالیان بہار کی خوب خدمت کی ہے۔ اللہ تعالی آپ کی ان خدمات کو قبول فرمائے اور آپ کو بہترین بدلہ عنایت فرمائے ۔
حضرت ؒ کا جمعیۃ علماء اور خانوادۂ مدنی سے بڑا عقیدت مندانہ رشتہ تھا ، آپ کا آبائی وطن شہر بھاگل پور سے قریب اٹھارہ کلو میڑدور ایک تاریخی گاؤں ہے جو کروڈیہہ سے موسوم ہے۔ اس گاؤں کا حضرت شیخ الاسلام حسین احمد مدنی ؒ سے بڑا گہرا تعلق رہا ہے ۔حضرت شیخ الاسلام کی شخصیت ایک پارس کی تھی جو بھی ان کی خدمت اور صحبت میں رہتا کندن ہوجاتا تھا جو بھی ان کی صحبت میں رہا اور جس نے بھی ان کا فیض اٹھایا یہ حقیقت ہے کہ مقبولیت کی عظیم بلندیوں تک پہنچ گیا ،محبوبیت نے اس کے گھر اور افراد کا گویا بسیرا کرلیا آپ کے تلامذہ ، اور خلفاء سب کے سب افق عالم پر روشن ستارے کی طرح چمکے ،اس لیے کہ اللہ رب العزب نے ممبر رسول اور روضہ رسول ﷺ کے سامنے آپ کو سنت کی اشاعت اور حدیث کی خدمت کا شرف بخشا تھا میں سمجھتا ہوں کہ یہی وہ امتیازی وصف تھا جس نے حضرت شیخ الاسلام ؒ کو اس مقام تک پہنچادیا تھا۔
حضرت کے گاؤں سے حضرت مدنی کا بہت گہرا تعلق تھا اس زمانے میں جب کہ سواری کی سہولیات نہیں تھی، حضرت شیخ الاسلام کئی میل پیدل سفر کرکے اس گاؤں کا سفر کیا کرتے تھے ، حضرت شیخ الاسلام کے بعد حضرت فدائے ملت مولانا اسعد مدنی ؒ کا بھی یہ سلسلہ جاری رہا اور آج بھی خانوادہ مدنی کا اس گاؤں سے یہ رشتہ اسی طرح برقرار ہے ، امیر الہند حضرت مولانا سید قاری محمد عثمان منصوری دامت برکاتہم بارہا اس گاؤں کا سفر کرتے ہیں ۔حضرت مولانا قاسم صاحب کو اگر چہ حضرت شیخ الاسلام ؒ کی صحبت میسر نہیں آئی لیکن حضرت فدائے ملت کے ساتھ رہنے اور ان سے فیض حاصل کرنے کا انہیں خوب موقع میسر آیا۔آپ حضرت فدائے ملت کے خلیفہ تھے ۔اسی خانوادہ مدنی سے قرب کا نتیجہ تھا کہ آپ کو جمعیۃ علماء سے بہت گہرا تعلق تھا آپ جمعیۃ علماء ہند کی مجلس عاملہ کے رکن تھے ، صوبائی جمعیۃ کے آپ صدر تھے ، جمعیۃ کے تحت چلنے والے دینی تعلیمی بورڈ کے آپ صوبائی صدر عالی قدر تھے۔ آپ جمعیۃ کے مشن کو عام کرنے اور ان کے منصوبوں کو تکمیل تک پہنچانے میں ہرممکن سعی و جد جہد کرتے تھے ۔
آپ کی زندگی بھی قابل رشک تھی اور آپ کی موت بھی قابل رشک تھی۔ راقم الحروف کا قلبی احساس یہ ہے کہ آپ کو دیکھ کر آپ سے مل کر ہمیشہ خوشی ہوتی تھی ،دل کو سکون ملتا تھا، آپ کی پیشانی کی چمک ، اور چہرے کی نورانیت سے آپ کی بزرگی و برگزیدگی ہویداتھی ،آپ نے پور ی زندگی جہد مسلسل اور عمل پیہم میں گزاری آپ کی موت بھی کسی بشارت سے کم نہیں ہے ،مغرب کی نماز پڑھی ،سنت کے لیے کھڑے ہوئے پاؤں لڑکھڑاگئے اور آپ گر گئے اور اپنے مالک حقیقی سے جا ملے ۔عبادت میں سب سے اہم عبادت نماز ہے ،یہ قرب خداوندی کا ذریعہ ہے ،اس حالت میں آپ کی موت کا عارضہ پیش آنا یقیناًمقرب عند اللہ ہونے کی علامت ہے ۔آپ کی زندگی کی یہ مبارک جد جہد اورموت کا یہ حسین لمحہ آپ کی مقبولیت و محبوبیت کی واضح دلیل ہے ۔
ہے خاک کی آغوش میں وہ مہر جہاں تاب
جو شب کی سیاہی کے لیے نور سحر تھا