فدوی خان فدویؔ
سراج اورنگ آبادی کا ہم عصر
ڈاکٹر محمد عطا اللہ خان
حال مقیم شکاگو
فدوی خان فدویؔ کا عہد تقریباََ وہی ہے جو سراج اورنگ آبادی کا عہد تھا یہ وہ زمانہ تھا جب کہ آصف جاہ اول نے اورنگ آباد میں اپنی سلطنت کی بنیاد رکھی تھی۔ ان کے عہد کی نمایاں خصوصیت علم وفن اور شعر وادب کی ترقی تھی۔سلطنت آصفیہ کی قدردانی کی بدولت اورنگ آباد علم وفن اور شعر وادب کا گہوارہ بن گیا تھا۔
ارباب علم وہنر اور شعراء ادیب آصف جاہ اول کے دربار سے وابستہ تھے۔ اسی دور میں بیسوں شاعر پیدا ہوئے جنہوں نے اپنے کلام کویادگار زمانہ بنایاتھا۔ انہی شاعروں میں فدوی خان فدویؔ قابل ذکر ہیں۔ محبوب الزمن تذکرہ شعراء دکن میں عبدالجبار صوفی ملکاپوری رقم طراز ہیں۔ فدوی خان فدویؔ ۔’’بلبل خوش بیان وطوطی رنگین زبان است‘‘ بارہویں صدی ہجری کی آخری دہائی کی نثری اور شعری تصانیف کا موضوع زیادہ تر مذہبی رہا ہے اور خانقاہی نظام میں صوفی حضرات کے مذہبی موضوعات کو اپنانے کی وجہ سے اس دور میں فارسی شاعری کی شراب ابھی مکمل طورپر دکنی کے جام میں نہیں سمائی تھی۔ خیالات میں پختگی ضرور تھی لیکن زبان وبیان کی یہ حالت تھی جس پر نظر کرتے ہوئے ہم بلا خوف تردید کہہ سکتے ہیں کہ اُردو ابھی ارتقائی منزلوں میں اور دکنی زبان کی روایات کے جال میں تھی منزل کھٹن تھی۔ راستہ تقریباََ معدوم تھا اس کھٹن منزل سے گزرجانے کے لئے تھوڑا عرصہ ابھی درکار تھا دکن نواز حکومتیں اجڑگئیں اور زبان اپنے بل بوتے پر کھڑی ہونا چاہتی تھی۔آصف جاہ اول کے عہد میں دکنی میں اردو شعر وادب کی روایت عام ہوچکی تھی۔ اسی لئے بعض باکمال سخن داں اور صاحب ذوق اہل قلم نے اسی زبان میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں سے کام لیتے ہوئے اس کو سہارادے کر رینگنے سے بچالیا جن میں سید سراج الدین سراجؔ اورنگ آبادی‘ مرزاداودؔ اورنگ آبادی‘ سید عبدالقادر سامیؔ ‘ خواجہ ایوب نوازشؔ خاں داد‘ ملا باقر شہید‘ؔ معتبر خاں عمر‘ؔ شاہ فضل اللہ فضلیؔ ؔ ‘ عارف الدین خاں عاجزؔ ‘میر عبدالحی ‘صارم‘ؔ مبتلاؔ ‘ میر‘ؔ نجات‘ؔ ایما‘ؔ رنگین‘ؔ عزیزؔ اور خصوصی طورپر فدوی خان فدویؔ قابل ذکر ہیں۔
فدوی خان فدویؔ عہد آصف جاہ اول کا ایک قادر الکلام شاعر گزرا ہے۔ اس کی تاریخ پیدائش اور وفات پر تاریکی کے پردے پڑے ہیں۔ڈاکٹرزورؔ نے تذکرہ مخطوطات جلد سوم میں فدوی تخلص کے درج ذیل پانچ شعراء کا ذکر کیاہے۔(۱) میر فضل علی دہلوی فدوی(۲)محمد محسن فدوی(۳) مرزا محمد عرف مرزا بھچو دہلوی فدوی(۴) سجن لال دہلوی فدوی اور(۵)مرزا عظیم بیگ فدوی ہیں۔بعد میں پروفیسرمحمدعلی اثرؔ نے اپنی کتاب تحقیقی نقوش میں مزید پانچ شاعروں کی نشان دہی کی ہے۔ جن کے نام اس طرح ہیں۔ مرزا فدائی بیگ لاہوری فدوی‘سمن لال کائستھ دہلوی فدوی‘ منکدلال فدوی ‘سیوک رام وکیل فدوی اور شاہ محسن فدوی۔ راقم الحروف کو فدوی تخلص کے ایک اور شاعر محمد حسن لاہوری فدوی کا پتہ تذکرہ گلشن بے خار(مطبوعہ ۱۸۷۴ء) میں چلا ہے۔ جس کا ذکر متذکرہ بالا دونوں محقیقوں نے نہیں کیا ہے۔ اس کے علاوہ پروفیسر محمد علی اثرؔ کے دریافت کردہ نام مکندلال فدوی نہیں تھا۔ ان کانام مکندبقال فدوی لاہوری ہے۔ اس کاذکر ڈاکٹر ملک حسن اختر نے اپنی کتاب ’’ایہام گوئی کی تحریک‘‘مطبوعہ لاہور صفحہ نمبر ۲۷۲ میں کیا ہے۔
فدوی خان فدویؔ راقم الحروف کی تحقیق کی روشنی میں عبدالجبار صوفی ملکاپوری وہ واحد تذکرہ نویس ہیں جنہوں نے اس فدوی خان فدویؔ کا ذکر محبوب الزمن جلد دوم صفحہ ۸۹۰ میں کیا ہے۔ انہوں نے میر عبدالولی عزلت کی بیاض سے معلوم کیا تھا فدوی دکنی الاصل تھے اور۱۱۶۷ھ میں حیدرآباد میں مقیم تھے۔ ڈاکٹر زورؔ بھی تذکرہ مخطوطات جلد سو م صفحہ ۱۷۹ میں اسی بات کی اطلاع دی ہے۔ عبدالجبار خاں صوفی ملکاپور ی محبوب الزمن میں آصف جاہ اول کے معیت میں دہلی سے اورنگ آباد آئے ہوئے ہم رکاب اہل ہنر وفن احباب کی فہرست دی ہے۔ فدوی خان فدویؔ کانام اٹھاون نمبر پر آتا ہے۔وہ آگے لکھتے ہیں ان تمام اہل ہنروفن امراء کے حالات چوتھی جلد میں لکھے ہیں۔ لیکن تلاش و بیسار کے باوجود اس نام کا تذکرہ کہیں دستیاب نہیں ہوا۔ اس کے علاوہ لکشمی نرائن شفیق نے تذکرے چمنستان شعراء میں فدوی کاذکر ملتا ہے۔ اسی تذکرے کو مولوی عبدالحق بابائے اُردو نے مرتب کرکے انجمن ترقی اردو اورنگ آباد سے ۱۹۲۸ء میں شائع کیا تھا۔ مولوی صاحب نے فدوی کے درج ذیل اشعار نقل کئے ہیں۔
میں دیا جان کے تیءں جان کے جاناں اپنا
جان من جان جہاں تھا مجھے معلوم نہ تھا
چپ عمر گنوایا میں ملاعشق سے دل
عشق یوں فیض رساں تھا مجھے معلوم نہ تھا
اداراہ ادبیات اردو حیدرآباد کے نایاب خزینہ مخطوطات میں(۴۷۵) جدید نمبر سے دیوان فدوی کا نسخہ محفوظ ہے۔ تعجب ہے اس دیوان میں فدوی کی مندرجہ بالا اشعار نہیں ملتے۔ آصف جاہ اول کا عہد جلوس ۲۳/ محرم ۱۱۳۷ھ م ا۱/ اکٹوبر ۱۹۲۴ء ہے۔ ان کے ساتھ دہلی سے آنے والوں میں فدوی خان فدوی بھی موجود تھے۔ آصف جاہ اول کی وفات ۴/ جمادی الثانی ۱۱۶۱ ھ کو ہوئی۔ ممکن ہے ان کی وفات سے قبل فدوی کا انتقال ہوچکا ہوگا۔ اگر فدوی آصف جاہ اول کے بعد وفات پاتے تو بادشاہ وقت کی تعریف میں شعر ضرور کہتے ۔ مملکت آصفیہ کو وسعت دینے کے لئے شہزادہ ناصر جنگ المخاطبت میراحمد کی شان میں ایک قصیدہ لکھا ہے۔ جس میں میر صاحب سے مخاطب کیا ہے شعر ملاحظہ ہو۔
میر صاحب مشق والا گہر
حق کردے دو جگ میں تم کوں نام ور
حق تعالی تجھ کرے عالی نصیب
بادشاہی تجھ کو دیوے بحر وبر
کافروں کو مار سارا ملک لے
سب رقیباں تیرے ہوئیں گورخر
تجھ کوں دیوے قادر ملک ختن
بسکہ دریا ملک خشکی سیر کر
ان اشعار سے پتہ چلتا ہے کہ فدوی اور ناصر جنگ کے بہت قریبی تعلقات تھے۔ قیاس کیا جاسکتا ہے کہ فدوی نے ۱۱۶۱ء سے قبل وفات پائی۔
ڈاکٹر خالدہ یوسف نے ڈاکٹر زور صاحب کی نگرانی میں شعبہ اردو جامعہ عثمانیہ سے پی۔ ایچ ڈی کا مقالہ بعنوان اورنگ آبادمیں’’ اُردو زبان کاارتقاء‘‘ ۱۹۵۷ء میں تحریر کرکے سند حاصل کی۔ اپنے مقالہ میں تقریبا دوسو شعرا کی فہرست دی ہے اور اورنگ آباد سے ان کا تعلق ثابت کیا ہے مگر اس فہرست میں فدوی خان فدوی کا نام نہیں ملتا۔ ڈاکٹر زور نے تذکرہ مخطوطات جلد سوم میں دیوان فدوی میں جملہ اشعار کی تعداد ۷۵۰ بتائی ہے۔ لیکن پروفیسر محمد علی اثرؔ نے اپنی تصنیف تحقیقی نقوش صفحہ ۱۰۰ پر لکھا ہے کہ فدوی کے دیوان میں جملہ ۶۰۶ اشعار ہیں اور غزلوں کی تعداد (۷۳) ہیں۔
فدوی خان فدوی کے کلام میں ولی اورنگ آبادی اور سراج اورنگ آبادی کا اثرنمایاں طورپردکھائی دیتا ہے۔ سراج کی ایک غزل ملا حظہ کیجئے۔
گر آرزو ہے تجکوں تالاب کا تماشا
کشتی میں چشم کی آ دیکھ آب کا تماشا
ہر شب تار تصور آرام جان و دل ہے
آنکھوں کوں خوش لگے ہے جیوں خواب کاتماشا
اے قبلہ دل وجاں تیری بھنووں کے دیکھے
زاہد کوں خوش نہ آوے محراب کا تماشا
ہر قطرہ اشک میں ہے ظاہر پیو کی صورت
پانی میں جیوں کی آگن میں ہے اب سراج بے کل
اس زمین میں فدوی کے دیوان میں بھی ایک غزل ملتی ہے۔ ملاحظہ کیجئے۔
مطلوب ہے تجے پیو گر آب کا تماشا
نظارہ کرتو چشم شاداب کا تماشا
کیوں جائے گی سلامت کشتی عقل کی جاناں
ہے حلقہ زلف میں گرداب کا تماشا
دیکھیا ہوں جب سوں تجھ کو اے آفتاب طلعت
نیں خوب مجھ کوں دستا مہتاب کا تماشا
سٹ خضر بحر کوں نت ساکن اچھیں گے برکے
دیکھے جو مجھ نین کے سیلاب کا تماشا
دنیا کے کّروفرمیں مت بھول اے سریجن
نین اعتبار رکھتا کچھ خواب کا تماشا
جب سوں جدا ہے میرے سوں دو پری رو
بے چاہ دل میں فدوی سیماب کا تماشا
فدوی دراصل شمالی ہند کا باشند ہ تھا جس نے اورنگ آبادپہنچ کر دکنی زبان میں شاعری کی اور جگہ جگہ اپنے پیش رواستادسخن ولی اورنگ آبادی کا ذکر کیا ہے۔ اور ولی کی غزلوں کی زمینوں میں غزلیں بھی کہی ہیں ملا حظہ کیجئے۔
طاقت نہیں کس کو کہ ایک حرف سن سکے
احوال مگر کہوں میں دل ہے قرار کا
فدوی نے اپنی ایک غزل میں ولی اورنگ آبادی کا تذکرہ یوں کرتا ہے۔
سخت مشکل ہے اے عزیزاں ہو
شعر کہنا ولی کے مضمون کا
فدوی کی ایک اور غزل کا مقطع دیکھئے جس میں اس نے نہ صرف ولی سے استفادہ کرنے کا ذکر کیا ہے بلکہ سراج اورنگ آبادی کی متذکرہ بالا غزل کی زمین میں بہ تبدیل قافیہ استعمال کیا ہے۔
پھر پھر ولی کا مصرع آتا زباں پہ فدوی
دوزخ ہے مجھ کوں پیوبن گلزار کاتماشا
فدوی نے اپنے دیوان میں سنگ لاخ زمینوں میں بھی غزلیں کہی ہے ایک غزل کامطلع ملا حظہ کیجئے۔
نہیں سجن کو مرے حال پر نگاہ دریغ
میں کس طریق رہوں صد ہزار راہ دریغ
لسانی خصوصیات: دکنی زبان کی دیگر قلمی تصانیف کی طرح کلیات فدوی کے مخطوطے میں املا کی درج ذیل خصوصیات قابل ذکر ہیں۔
۱۔ ہاے معروف اور ہاے مجہول میں کوئی امتیاز نہیں ہے۔
۲۔ ک اورگ دونوں کے لئے ک ہی کا استعمال کیا گیا ہے۔
۳۔ ٹ اور داور ڑ۔ اور ث تحریر میں استعمال کیا گیاہے۔
۴۔ بہت سے الفاظ کو غیر ضروری طورپرملا کرلکھا گیا ہے جیسے بیگنہ۔ بے گناہ‘ آویگا(اوے گا)‘ دلکشی(دل کشی ) وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
اس کے علاوہ فدوی کے کلام میں عربی اور فارسی الفاظ کی آمیزش بھی ملتی ہے جیسے جب ہم فدوی خان فدوی کی شاعری کا لسانی تجزیہ کرتے ہیں تو ان کی اس بیان کی صداقت ہم پرواضح ہوجاتی ہے کہان پر ولی اورسراج کارنگ غالب ہے ملا حظہ ہو۔
آج میرے پر یکایک فضل یزادنی ہوا
ہم نظر میرے سوں میرا دلبر جانی ہوا
فدوی کے یہاں دوسرے دکنی شعراء کی طرح اکثر جگہ مضمون میں (ھ) کی تخفیف کا رحجان نظر آتا ہے۔ مثلاََجتہ(تجھ) تجے(تجھے)‘ مجہ(مجھ)‘مجے(مجھے) اس طرح دوچشمی (ھ) کا استعمال کلیات میں نہیں ملتا مثلاََیہ شعر ملا حظہ ہو۔
تجہ قد کوں دیکہ سردچمن سرنگوں ہوا
نرگس کا حال نین نجھا کر زبوں ہوا
رویا ہو ں تجہ فراق میں از بسکہ دھر اچاٹ
صحرا تمام پل منے دریائے خوں ہوا
کلیات فدوی کے قلمی نسخہ:
کلیا ت فدوی کی قلمی نسخہ(۱۹) اوراق پر مشتمل سوائے ہاشیے کی غزلوں کے تمام اشعار قابل قرات ہیں۔اس مخطوطے کا کوئی صفحہ ضائع نہیں ہواہے۔ کا غذ دیسی ہے خط نستعلیق او رکہیں کہیں شکتہ بھی ہے۔ ۱۱۶۱ھ کی تاریخ درج ہے۔ فدوی کے دیوان کا واحد نسخہ ادارہ ادبیات اردو میں جدید داخلہ نمبر (۴۷۵) سے محفوظ ہے: اس کے علاوہ کتب خانہ سالارجنگ کی ایک قلمی بیاض میں فدوی کے دومخمس موجود ہیں۔کتب خانہ سالارجنگ کے قلمی بیاض میں صرف پانچ بند ہیں جبکہ ادارہ ادبیات کے مخطوطے میں مخمس کے سات بند موجود ہیں۔ فدوی کے دیوان میں جملہ(۷۳) غزلیں اور ایک منظوم دیباچہ موجود ہیں۔ ڈاکٹر زورؔ مخطوطات کی جلد سوم میں اشعار کی تعداد اندازاََ(۷۵۰) بتائی ہے اور پروفیسر محمد علی اثرؔ نے تعداد اشعار(۶۰۶) بتائی ہے۔ لیکن راقم الحروف کی تحقیق میں اشعار کی تعداد(۶۰۸) ہے۔ فدوی خان فدوی حنفی مسلک کا پیر وتھا دیوان کے شروع میں اس نے(۱۷) اشعار کا قصیدہ لکھا ہے جس میں خلفائے راشدین کی مدح میں اشعارکہے ہیں۔حمد نعت کے دومصرعوں کے بعد حضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت عمر فاروقؓ کے نام اپنے قصیدے میں لکھے ہیں جبکہ چوتھے مصرعے میں حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ کا نام لیا ہے۔ اس کے علاوہ فدوی نے پیران پیر غوث الا عظم دستگیرؒ کی مدح میں ایک قصیدہ لکھا ہے ۔اس قصیدے کامطلع اور مقطع ملا حظہ کیجئے۔
دوجگ کے ملک کا ہے سلطان غوث الا عظم
ہے شاہ ہور گدا کا ایمان غوث الاعظم
ہے جان ودل سوں فدوی تیرا غلام صادق
کر اس پر کا مشکل آسان غوث الا عظم
اس اشعار سے فدوی کا حنفی المذہب ہونا ثابت ہوجاتا ہے۔ آخر میں دیوان فدوی سے چند اشعار پیش کیے جاتے ہیں۔ جن سے اس کی قادر الکلامی اورزبان واسلوب کا بخوبی انداہ ہوتا ہے۔ شعر ملا حظہ ہو۔
جس کوں لاگی ہے یار کی لذت
اس کونیں کاروبار کی لذت
تیشہ فریاد‘ قیس کوں زنجیر
ہے اناالحق کوں دار کی لذت
زلف میں اس پری کی اے یاراں
عین ہے لیل و نار کی لذت
مجھ کوں سرشار ہوکیا بے خود
تجہ نیں کی خمار کی لذت
ایک اور غزل
خود نمائی ہے ذات کا پردا
خامشی ہے صفات کا پردا
مکہ پرکیس یوں دسے دھن کے
دن پہ غالب ہے رات کا پردہ
چاند کی روشنی کوں ابر حجاب
ہے رقیب القضات کا پردہ
مجہ کوں دیکھے تو دورسوں موہن
مکہ پہ کرتے ہیں ہات کا پردا
شاہ علی کے طفیل فدوی پر
کھل گیا کائنات کا پردا