خطۂ کوکن کی اہم تعلیمی شخصیات
نذیرؔ فتح پوری
مدیر سہ ماہی اسباق
پونہ(مہاراشٹر)
علم کے بغیر زندگی میں اندھیرا ہے ۔ علم کے بغیر آدمی اندھا ہے ۔ سماج بہرہ ہے ۔ علم انسانی زندگی کے لیے آبِ حیات ہے ۔ علم ہی وقارِ کائنات ہے ۔ علم نور ہے ، روشنی ہے ، اجلا ہے ۔ جہاں علم نہیں تعلیم نہیں وہاں جہالت کا بول بالا ہے ۔ علم ایک ایسا بیش بہا خزانہ ہے ۔ یہ جس قوم کی تحویل و تصرف میں آجاتا ہے اسے سر بلند و سر فراز کر دیتا ہے ۔
علم تسخیرِ کائنات کا ذریعہ ہے ۔ علم ذہنوں کے لیے آفتاب ہے ۔ دلوں کے لیے ماہتاب ہے ۔ علم نبیوں کی میراث ہے ۔ صوفیوں کی آس ہے اور بزرگوں کی پیاس ہے ۔ علم کا عَلم جس ہاتھ میں ہوتا ہے وہ ہاتھ کائنات میں سب سے بلند نظر آتا ہے ۔ علم کے حوالے سے ہم خطۂ کوکن کی بات کرنے جارہے ہیں ۔ یہ خطہ کوکن کے نام سے مہاراشٹر کی سر زمین کا ایک ایسا زرخیز و زرتاب علاقہ ہے جسے ہم مہاراشٹر کاکشمیر کہیں تو کوئی مضائقہ نہیں ۔ یہ ایک مثال ہے ۔ یہ استعارے کی زبان ہے اور یہ اس لیے ہے کہ کشمیر کی طرح خطۂ کوکن میں بھی خوبصورت قدرتی مناظر ہر طرف پھیلے بکھرے اور رواں دواں نظر آتے ہیں ۔ یہاں کے پہاڑوں کی بات کریں ۔ ندیوں اور سمندروں کی سمت نظر بھر کر دیکھیں ۔ جھرنوں اور آبشاروں کے بل کھاتے اور ٹھمکے لگاتے بہتے اور قدم آگے بڑھاتے منظروں کو دیکھیں تو یوں لگتا ہے شاید ہی کشمیر کے علاوہ ہندوستان میں ایسے قدرتی مظاہر کی بہتات ہو ۔
مجھے کہنے دیجئے کہ کوکن کا آفاقی حسن محض اشیاء تک ہی محدود نہیں بلکہ یہاں کے انساں بھی خوبصورت ہوتے ہیں ۔ ان کے دل بھی خوبصورت ہوتے ہیں ۔ ان کی سوچ کی لہروں اور فکرکے دھاروں میں بھی حسن کی جلوہ نمائی اور فہم و فراست کی کہکشاں چمکتی اور دھمکتی نظر آتی ہے ۔ اسی چمک دمک نے اس خطے کے باشندوں کے دل میں تعلیم کے چراغ روشن کئے ہیں ۔ تعلیم جو انسانی ضرورت کا سب سے کار آمد جوہر ہے اور جسے مسلمانوں کی میراث کہا گیا ہے ۔ اسی جوہر اور اسی گم شدہ میراث کی بازیافت کے لیے کچگ زہین اور بیدار دل اشخاص نے برسوں پہلے اس خطے کی زمین میں علم کا پودا لگایا تھا ۔ اس کی آبیاری کی تھی اور اسے سرسبز و شاداب کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا ۔ اب یہ باغ ثمر آور ہے ۔ پھل دے رہا ہے اور قوم کے نونہالوں کو زندگی کی نئی قدروں سے آشنا کرنے میں اہم کردار ادا کررہا ہے ۔ آج ہر کوئی علم کے اس باغ سے پھل حاصل کرکے اپنے علم کی بھوک مٹا رہا ہے۔ یہ کون لوگ ہیں جنہوں نے یہ بیج بویا تھا ۔ اس باغ کی آبیاری اپنے خونِ جگر سے کی تھی جنہوں نے سرسید احمد خان کی تعلیمی تحریک کو شمالی ہندوستان سے مستعار لے کر دکن کے وادیوں میں جس کے جلوے بکھیرے تھے ۔ ان بزگزیدہ ہستیوں کا ذکر کرنے سے پہلے ہم ڈاکٹر عبدالرحیم نشترؔ کے حوالے اور ان کی گراں قدر اور مایہ ناز کتاب کوکن میں اردو تعلیم کے حوالے سے کچھ گفتگو کرنا ضروری سمجھتے ہیں ۔
ڈاکٹر عبدالرحیم نشترؔ جب ناگپور سے کوکن کی وادیوں میں آکر متمکن ہوگئے تو ان وادیوں نے انہیں گلے لگالیا ۔ اپنا بنالیا ۔ جس ہیرے کی پرکھ ان کے گھر میں نہ ہوسکی اس ہیرے کے پارکھ قدرت نے کوکن کی وادیوں میں ان کے لیے فراہم کردئیے ۔ کوکن کے باشندوں نے عبدالرحیم نشترؔ کو باوقار زندگی کا سکھ عطا کیا اور ان کے چراغوں کی لو بڑھادی ۔ لیکن چراغوں کی اس روشنی سے نشترؔ نے صرف اپنے گھر کا اندھیرا دور نہیں کیا بلکہ یہ چراغ لے کر وہ کوکن کی وادیوں میں نکل گئے ۔ قلم کان پر رکھا اور کاغذ کو پیراہن بنایا ۔ تلوؤں میں آہنی عزائم باندھ لیے اور خوابوں کو اپنا ہمسفر بنالیا ۔ یوں اس کمبل پوش نے سفر کی راہ اختیار کی۔ گاؤں گاؤں اور شہر شہر کی خاک چھانی ۔ درس گاہوں کے دروازے کھٹکھٹائے ۔ اسکول اور کالجوں کے منتظمین سے مصاحفہ اور معانقہ لیا اور سمیٹ لائے وہ سارا سرمایہ جو تعلیم کے نام پر کوکن کی وادیوں میں بکھرا پڑا تھا ۔ اور پھر دو کتابوں کے صفحات میں یہ سرمایہ حرف کی صورت میں شائع کرکے اہلِ فکر و نظر کے روبرو پیش کردیا اور بتا دیا کہ یہ کوکن ہے ۔ یہ اس کے سپوتوں کے تعلیمی کارنامے ہیں ۔ یہ وہ فرہاد صفت ہستیاں ہیں جن کے تیشوں کی ضربوں نے کوکن کی وادیوں میں تعلیم کے چشمے جاری کر دکھائے ۔ نشترؔ بڑے اعتماد کے ساتھ رقمطراز ہیں :
’’ دورِ حاضر میں کوکن کی تعلیمی صورتِ حال خوش کن اور خوشگوار ہے ۔ تعلیمی افق کو روشن کرنے کے لیے کتنی ہی علاقائی ہستیوں نے اپنا خونِ جگر صرف کیا تب کہیں جا کر یہ تب و تاب آئی ہے ۔ جب تک کسی عظیم مقصد کے لیے قربانیاں نہیں دی جاتیں تب تک دامنِ مراد خالی ہی رہتا ہے ۔ ‘‘ ( کوکن میں اردو تعلیم ، ص ۴۵ )
نشترؔ صاحب کی اس عبارت سے اس بات کا یقین ہوجاتا ہے کہ آج کوکن کے باشندوں کا دامنِ مراد خالی نہیں ہے ۔ ہر طرف علم کی فراوانی نظر آتی ہے ۔ یہاں عبدالرحیم نشترؔ کی یہ عبارت اسناد کا درجہ رکھتی ہے ۔ وہ لکھتے ہیں :
’’ اردو مجاہدوں اور علم دوستوں نے جذبۂ صڈق و ایثار سے کام لیا اور ہمارے ان بزرگوں نے محض زبانی جمع خرچ نہیں کی بلکہ اپنے جان و مال اور اوقات کو فروغِ تعلیم کے لیے بے دریغ خرچ کیا ۔ مقامی جفا کشوں اور بیرونِ ملک بسے ہوئے دلداروں اور فیاضوں کے اشتراکِ باہم ، جہدِ پیہم اور خلوصِ فراواں کی بدولت آج ہم خطۂ کوکن کی تعلیمی رفتار پر فخر و انبساط کی چمک دمک محسوس کر رہے ہیں ۔ ‘‘ (کوکن میں اردو تعلیم ، ص ۴۵ )
سر زمینِ کوکن چار اضلاع میں بٹی ہوئی ہے ۔ یہ چاروں اضلاع اپنے آپ میں اپنی اپنی شناخت رکھتے ہیں اور ہر ضلع میں حصولِ تعلیم کے لیے معقول انتظامات ہیں ۔ ایک سروے کے مطابق ضلؑ رائے گڑھ میں ۳۶ ؍ اسکول ہیں جو نئی نسل کی تعلیمی بیداری میں اہم کردار ادا کررہے ہیں ۔ اسی طرح رتناگری میں ۳۴ ؍ اسکولوں کی موجودگی ظاہر کرتی ہے کہ یہاں تعلیم کے معاملے میں کتنی بیداری ہے ۔ تھانے کا شمار بھی اسی زمرے میں آتا ہے ۔ یہاں ۳۳ ؍ اسکولوں کی نشاندہی ہوئی ہے ۔ البتہ کوکن کے چوتھے ضلع سندھو درگ میں اسکولوں کی تعداد کم ہے ۔ محمد علی مقادم کی فراہم کردہ معلومات کے مطابق یہاں صرف چار اسکول ہیں جہاں بچوں کے لیے تعلیم کا انتظام ہے ۔ اس لحاظ سے سندھودرگ کو تعلیم کے میدان میں پچھڑا ہوا ضلع کہا جاسکتا ہے ۔ لیکن مشترکہ طور پر دیکھا جائے تو باشندگانِ کوکن تعلیم کے میدان میں نمایاں نظر آتے ہیں ۔
ہم یہاں چند افراد اور اداروں کے نام پیش کرنا چاہتے ہیں جو کوکن میں تعلیم کی روشنی پھیلانے کے لیے سرگرمِ عمل ہیں ۔ کوکن ڈائری ۲۰۱۳ء کے مطابق رائل ایجوکشنل سوسائٹی کے زیرِ اہتمام کوکن کے مختلف حصوں میں پانچ کالج اور تیرہ اسکول اپنی تاب و توانائی کے ساتھ سرگرمِ عمل ہیں اور چھوٹے چھوٹے گاؤں اور بستیوں میں نہایت ذمہ داری کے ساتھ علم کی روشنی پھیلا رہے ہیں ۔ یہ تمام ڈاکٹر اے آر انڈرے کے نام سے منسوب ہیں اور انہی کی سرپرستی میں چلتے ہیں ۔ ان اداروں کی اردو دوستی اور اردو زبان کے فروغ کے لیے اٹھائے جانے والے اقدام کے بارے میں کوکن ڈائری میں لکھا گیا ہے :
’’ رائل ایجوکیشنل سوسائٹی کی زیرِ نگرانی چلنے والے تمام اداروں کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ یہاں اردو کی ترویح و ترقی کا پورا انتظام کیا گیا ہے ۔ ایک ایسے وقت میں جب اس مقبول ، خوبصورت شیریں اور سرمایہ دار زبان کو ہر طرف سے ٹھکرایا جارہا ہے اور اس کا پڑھنا دقیانوسی اور ترقی کی راہ میں مزاحم باور کیا جارہا ہے سوسائٹی نے اسے پیار سے اپنایا اور وہی عزت و اہمیت دی جو ماضی قریب میں اسے حاصل تھی ۔ ‘‘ ( کوکن ڈائریکٹری ۲۰۱۳ء ، ص ۱۶۹ )
کوکن قلعوں اور سمندروں کی وجہ سے کبھی مشہور رہا ہوگا لیکن اب تعلیم کے حوالے سے بھی کافی عروج پر ہے ۔ کوکن کے مسلمانوں میں اپنی صالح فکر اور ذہنی بالیدگی کا ثبوت فراہم کرتے ہوئے تعلیم کے اس سفر میں بہت سی منازل طے کی ہیں ۔ چند نام یہاں پیش کرتا ہوں جن کے ذکر کے بغیر اس تعلیمی سفر کی روداد نامکمل سمجھی جائے گی ۔ اس فہرست میں زمانی لحاظ سے ترتیب کی تہذیبی روایت کو ملحوظ نہیں رکھا گیا ہے ۔ جو نام جہاں سے یاد آیا شاملِ عبارت کیا جارہا ہے ۔ ضروری نہیں کہ ان تمام اشخاص نے مدارس قائم کئے ہوں یا اسکولوں کی بنیاد رکھی ہو لیکن اپنی فطری صلاحیتیوں اور علم و ہنر کی وجہ سے انہوں نے قوم کو صحت مند نظریہ اور صالح فکر ضرور بخشی ہے ۔
مولانا عبدا لشکور کوکاٹے ، محمد ابراہیم پیش امام ، مصظفےٰ غلام نبی فقیہہ ، سید ظفر محمود شیخانی ، ڈاکٹر رفیق ذکریا ، پرکار محمد عبداللہ احمد عرف جرمن پرکار ، عثمان احمد قاضی ، ڈاکٹر ایم او شیخ ، محمد یوسف رئیس ، ایچ بی مقدم ، الحاج عبدالغنی فجندار ، آر ٹی پرکار وغیرہ ۔ ڈاکٹر عبدالرحیم نشترؔ نے ان ہستیوں کو یادگار زمانہ لوگ بتایا ہے ۔ اور بہت تفصیل سے ان کے علاوہ بھی بہت سے اہم ناموں کا ذکر کیا ہے ۔ ان کی علمی اور تعلیمی صلاحیتوں کی مکمل روداد اپنی دونوں کتابوں کے حوالے سے پیش کی ہے ۔ ابراہیم احمد سندیلکر کی شخصیت اور خدمات کا مکمل اعتراف نشترؔ صاحب نے اپنی کتاب میں کیا ہے ۔
سچ تو یہ ہے کہ کوکن میں جتنی بھی اہم شخصیات پہلے ہوچکی ہیں اور جو آج بھی موجود ہیں ان کے فکر و فن ، علمی و ادبی خدمات اور سماجی ، ملی اور مذہبی شعبوں میں ان کے قابل داد تحسین کارناموں کے اعتراف میں ایک ایک کتاب لکھی جاسکتی ہے ۔ کچھ شخصیات سے متعلق کتابیں شائع بھی ہوئی ہیں ۔ جناب حسن چوگلے پر اردو رسالہ لمحے لمحے کا ایک بہت ہی رنگارنگ اور بہار پرور نمبر شائع ہوچکا ہے ۔ محترم علی ایم شمسی کی ذات و صفات کردار عملی اور جذبۂ صادق کے اعتراف میں ایک ضخیم کتاب آچکی ہے ۔
کچھ اشخاص ایسے ہوتے ہیں جن کی تعریف و توصیف کے لیے الفاظ کم پڑنے لگ جاتے ہیں ۔ یہ سچ ہے کہ ہر کوئی سرسید احمد خاں نہیں بن سکتا ۔ لیکن سرسید احمد خان نے نقشِ قدم پر چل کچھ لوگ تناور درخت بن چکے ہیں ۔ جن کی شفقت بھری چھاؤں میں بیٹھ کر مسلم قوم اپنا پسینہ خشک کر رہے ہے ۔ ایسے تناور اور قد آور شجر سایہ دار کے طور پر ایک نام ناخدا محمد علی روگھے کا بھی ہے ۔ ممبئی کے مشہور اسکول انجمن اسلام کے جاری کرنے میں سب سے زیادہ محنت محمد علی روگھے ہی کی ہے ۔
ممبئی اگرچہ کوکن کے علاقے میں شمار نہیں ہوتا لیکن ممبئی کو عروج عطا کرنے اور زندگی کے ہر شعبہ میں ترقی کی راہوں پر گامزن کرنے میں باشندگانِ کوکن کا بڑا ہاتھ ہے ۔ کچھ نام اس وقت جو قلم سے ادا ہورہے ہیں ۔ اس طرح ہیں ۔ کمال الدین قاضی ، معین الدین حارث ، رضوان حارث ، ڈاکٹر رفیق ذکریا ، منشی انوار احمد ذکریا ، صغیر احمد ڈانگے اور شاکر سوپاروی۔۔۔ یہ لوگ اپنی زندگی کے ساتھ ساتھ قوم کے لیے بھی جیتے رہے ۔ ایک زندگی میں کئی زندگیاں انہوں نے جی ہیں جو ان کی فعالیت کا ثبوت ہے ۔
کوکن ڈائریکٹری میں کوکن یونیٹی سینٹر کو ایک ایسا ادارہ بتایا گیا ہے جس نے تاریخ مرتب کی ہے ۔ اس ادارے کی داغ بیل ڈالنے والوں میں بہت سے نام ہیں جن میں الحاج ابراہیم سیٹھ چونا والا ، مشہور شاعر اخترؔ راہی ، اور ڈاکٹر عبدالکریم نائیک کے نام اہم ہیں ۔ ایک شعر
فردِ قائم ربطِ ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں
کوکن کے باشعور مسلمانوں نے ربطِ ملت کی اہمیت کو بدرجہ اتم سمجھ لیا ہے ۔ یہ ادارے ، یہ تنظمیں ، یہ سینٹر اس کا ثبوت ہیں ۔ فیض نے کہا تھا کہ
چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی
منزل کبھی نہیں آتی ۔ اس لیے مسافر کو لازم ہے کہ وہ چلتا رہے ۔ قدم آگے بڑھاتا رہے ۔ پتھروں کو اولانگھتا رہے ۔ کانٹوں کو پھلانگتا رہے ۔ باشندگانِ کوکن اسی فلسفے پر عمل پیرا ہیں ۔ خزاں کا موسم ہو یا رت بہار کی ۔ یہ کارواں چل رہا ہے لیکن اس کارواں میں شامل افراد نے اپنے پیش روؤں کا فراموش نہیں کیا ہے ۔ ذکر پھر سندیلکر صاحب کا آتا ہے۔ کیپٹن فقیر محمد مستری نے نقشِ کوکن پبلی کیشن ٹرسٹ کی طرف سے ان کو ’’ سپاس نامہ ‘‘ پیش کیا تو یوں خطاب کیا :
’’ اے مردِ مجاہد ! یہ حقیقت ہے کہ آج آپ عمر کی اس منزل میں ہیں جسے لوگ ضعیف العمری کہتے ہیں مگر زندگی کی اسی منزلیں طے کرنے کے بعد بھی آپ جس جواں مردی ، عزم ، استقلال ، تندہی اور پابندی کے ساتھ نیز ستائش و صلے کی تمنا کئے بغیر سرگرمِ عمل ہیں وہ نوجوان نسل کے لیے مشعلِ راہ ہے ۔ اے دور اندیش ساتھی ! آپ نے قرونِ اول کی شاندار روایت کا دیکھا ہے ۔ آپ نے خطۂ کوکن کے بدلتے ہوئے حالات کو دیکھا ہے ۔ تعلیمی پسماندگی کی کوکھ سے جنم لینے والے نورانی میناروں کو بھی دیکھا ہے اور اس پر اپنی مسرت کا اظہار بھی کیا ہے ۔ ‘‘
یہ عبارت ڈاکٹر عبدالرحیم نشترؔ کی کتاب ’’ کوکن میں اردو تعلیم ‘‘ سے ماخوذ ہے ۔ نشترؔ صاحب نے جس ترتیب اور سلیقے سے کوکن کا ذکر کیا ہے اسی ترتیب اور سیلقے سے کوکن کی تحریکوں ، درس گاہوں اور ان سے وابستہ افراد کا بھی ذکر کیا ہے ۔
نشترؔ صاحب نے ماہرِ تعلیم جناب مبارک کاپڑی کو تعلیم کی رہنما مشعل قرار دیا ہے۔ یہ مشعل جس کی روشنی نہ صرف کوکن کی وادیوں کو منور کررہی ہے بلکہ مہاراشٹر کے دیگر تعلیمی اداروں میں بھی گاہے گاہے اپنے علمی اور تعلیمی تجربات کی کرنیں پھیلائے ہوئے ہیں اور تازہ کار اذبان کو منور کرتے رہتے ہیں ۔ نشترؔ صاحب نے مبارک کاپڑی کے لیے کیا تخلیقی عبارت پیش کی ہے :
’’ مبارک کاپڑی گزشتہ دس برسوں سے سائنسی شعور و ادراک اور تکنالوجیت کی تبلیغ میں مست قلندر کی طرح لگے ہوئے ہیں ۔ ‘‘ (کوکن میں اردو تعلیم ، ص ۱۴۲ )
عرصۂ دراز سے مرحوم عبدالحمید بوبیرے نے اپنے رسالے ماہنامہ صبح امید کے ذریعہ اردو زبان و ادب کی ترسیل و اشاعت کا کام کیا ہے ۔ ان کے بعد ان کے فرزند عبدالسمیع بوبیرے نے روزنامہ انقلاب ممبئی میں ’’ درسگاہوں کی سیر ‘‘ کے عنوان سے مسلسل کالم لکھے اور کوکن ہی نہیں بلکہ مہاراشٹر کے بہت سے تعلیمی اداروں کو عوام سے روشناس کرایا۔
انجمن اسلام جنجیرہ کی خدمات کو ایک صدی گزر چکی ہے ۔ کوکن کی ڈائریکٹری میں انجمن اسلام جنجیرہ کی مختصر تاریخ درج ہے ۔ صرف مضمون کی پہلی سطر ہم یہاں پیش کرتے ہیں :
’’ انجمن اسلام جنجیرہ کی صد سالہ تعلیمی ، سماجی اور ثقافتی خدمات کوکن کی علمی و تہذیبی تاریخ کا ایک درخشاں باب ہے ۔ ‘‘ ( کوکن میں اردو تعلیم ، ص ۱۴۸ )
کوکن میں تعلیمی نظام کو فروغ دینے والوں میں ایک نمایاں نام عبدالرزاق کالسیکر جا بھی ہے ۔ گونا گوں ادبی تعلیمی خدمات موصوف کے نام سے درج ہیں ۔ اس زمرے میں اور بھی معزز اور معتبر نام آسکتے ہیں ۔
کسی نے کہا ہے کہ اچھی سوچ اور نیک نیت رکھنے والوں کو سکون ڈھونڈنا نہیں پڑتا ۔ ان کی سوچ ہمیشہ نکھری صبح کی طرح اجلی اور پاکیزہ ہوتی ہے ۔ یہی اجالا اور پاکیزگی انسان کو فلاح اور بہبود کے کاموں کی جانب متوجہ ہونے میں معاونت کرتی ہے ۔ اس کے ثبوت ہمیں خطۂ کوکن کے بہت سے سپوتوں کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہیں ۔ جن کے گہرے اور اجلے نقوش آنے والی نسلوں کے لیے مشعلِ راہ ثابت ہوں گے ۔
اکثر عبارت جہاں ختم ہوتی ہے وہاں یوں لگتا ہے کہ ہمارا مضمون مکمل ہوگیا لیکن یہ عنوان جس کے تحت ہم آپ سے مخاطب ہیں ایسا نہیں ہے کہ کبھی ختم ہو ۔ نسل در نسل یہ سلسلہ جارہ رہے گا ۔ اس کا ثبوت ڈاکٹر عبدالرحیم نشترؔ کے بعد ان کے فرزند محمد دانش غنی کی شخصیت ہے ۔ برسوں قبل خظۂ کوکن کے حوالے سے ڈاکٹر عبدالرحیم نشترؔ نے جو تعلیمی اور تحریری چراغ روشن کئے تھے ابھی تک ان کی روشنی ماند نہیں پڑی تھی کہ قدرت نے محمد دانش غنی کو کوکن کے علمی اور تعلیمی سلسلے کو آگے بڑھانے کے لیے یہاں بھیج دیا جس کا ثبوت آج کا یہ سمینار ہے ۔ کوکن کی تعلیمی درس گاہیں ، کوکن میں اردو تعلیم کے چراغ روشن کرنے والی شخصیات ، کوکن کی تہذیب اور ثقافت کے گم شدہ نقوش کی بازیافت یہاں کے شعراء اور ادبا کی تخلیقی خدمات کا اعتراف ، ان موضوعات پر مقالے اور مضامین لکھواکر اور آج کے اس سمینار میں سامعین کے روبرو انہیں پیش کرکے ایک نئے دور کا آغاز کیا ہے ۔ خدا کرے یہ سلسلہ دراز رہے ۔ کیونکہ بقول شاعر
ورق تمام ہوا اور مدح باقی ہے
سفینہ چاہئے اس بحرِ بیکراں کے لیے
(مشمولہ کوکن میں اردو : سمت و رفتار ۔ مرتب : ڈاکٹر دانش غنی)