جہانِ شبلی پر ایک نظر :- ڈاکٹر خالد ندیم

Share
ڈاکٹر خالد ندیم

جہانِ شبلی پر ایک نظر

ڈاکٹر خالد ندیم
شعبہ اردو اور مشرقی زبانیں
سرگودھا یونیورسٹی سرگودھا

ڈاکٹر محمد الیاس الاعظمی کے بارے میں صرف اتنا لکھ دینا کافی ہے کہ وہ علامہ شبلی نعمانی کے سچے عاشق ہیں۔ ڈاکٹر اعظمی نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ شبلی سے متعلق لوازمے کی تلاش اور اس کی تفہیم و تشریح میں بسر کیا ہے۔

اپریل 2015ء میں شبلی پر ان کی نویں تصنیف جہانِ شبلی کے نام سے منصۂ شہود پر آئی، جس میں ان کے دس مضامین شامل ہیں۔ کتاب کے مندرجات کو دیکھتے ہوئے ان کا کہنا بالکل بجا محسوس ہوتا ہے کہ ’مطالعاتِ شبلی پر ایک صدی سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے، تاہم ان کی شخصیت کے ایسے پہلو اور گوشے اب بھی سامنے آ جاتے ہیں، جو بالکل اچھوتے اور لائقِ مطالعہ و تجزیہ ہوتے ہیں‘۔ (ص7) یہ مضامین چونکہ بعض تقریبات کے لیے تحریر کیے گئے، اس لیے ان میں بظاہر معنوی ربط نہیں سواے اس کے کہ سبھی علامہ شبلی سے متعلق ہیں، اسی لیے یہ کوئی مستقل تصنیف قرار نہیں پاتی۔ دیباچے میں تمام مضامین سے متعلق تمہیدی و تعارفی گفتگو سے ان کے تنقیدی نقطہ نظر کی وضاحت ہوتی ہے۔
پہلے چار مضامین براہِ راست علامہ شبلی سے متعلق ہیں۔ ’علامہ شبلی اور اسلامی اقدار کا تحفظ‘ کے سلسلے میں ڈاکٹر اعظمی نے شبلی کے اُن اقدام کا ذکر کیا ہے، جو انھوں نے اسلامی روایات و اقدار کے تحفظ کے لیے اٹھائے۔ علامہ کے ان منصوبوں کا پس منظر بیان کرتے ہوئے مصنف نے لکھا ہے:
اسلام، اسلامی علوم و فنون اور شعائرِ اسلام پر ہر طرف سے حملے ہو رہے تھے۔ عیسائی، مشنری، پادری، آریا، ہندو اہلِ قلم اور سب سے بڑھ کر مستشرقینِ یورپ اسلام پر حملہ آور تھے اور انتہائی سرگرمی کے ساتھ اپنے مشن میں لگے ہوئے تھے۔ ان کے لغو، بے بنیاد، ناروا اور رکیک الزامات اسلام اور اسلامی اقدار اور روایات کی تصویر مسخ کر رہے تھے۔ ان کی پردہ ری اور جواب کے لیے جو شخصیت سب سے پہلے میدان میں آئی، وہ علامہ شبلی کی ذاتِ گرامی تھی۔ (ص11)
اس مضمون میں انھوں نےترکی پر روسی حملے کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتِ حال کے موقع پر 1877ء میں شبلی کی طرف سے ترک سلطان و عوام سے یکجہتی، مسلمان بادشاہوں پر غیر مسلم رعایا پر مظالم اور جزیے کے الزامات، کتب خانہ اسکندریہ کی بربادی میں مسلمانوں کے کردار، اسلامی تاریخ و تمدن پر جرجی زیدان کے بیانات کی حقیقت، وقف علی الاولاد بل کی منظوری، مسلم اوقات کے تحفظ، نمازِ جمعہ کے لیے مسلمانوں کی رخصت، ہندوستان کے مسلم اقلیتی علاقوں میں فتنۂ ارتداد کی روک تھام کے لیے حفاظت و اشاعتِ اسلام کا منصوبہ، سانحہ کانپور پر پُرجوش نظمیں، سیرت النبیؐ کی تدوین اور دارالمصنّفین کا قیام پر نہایت اختصار سے قلم اٹھایا ہے۔ یہ مضمون اپنے تشنگی کا احساس دلاتے ہوئے ان موضوعات پر بالتفصیل لکھنے کا تقاضا کرتا ہے۔
دوسرے مضمون ’علامہ شبلی نعمانی کا نظریۂ تاریخ‘ میں مصنف نے اردو نے تاریخ نویسی سے متعلق علامہ شبلی کے نقطہ نظر پر غور کیا ہے۔ مصنف کا یہ بیان صداقت پر مبنی ہے کہ ’وہ جہاں اسلامی اور ایرانی مؤرخین کے تاریخی اصول و آئین اور افکار و خیالات پر وسیع نظر رکھتے تھے، وہاں انھوں نے مغربی مؤرخین کے عمدہ اصولوں سے بھی اخذ و استفادہ کیا‘، اور یہ کہ ’جس طرح انھوں نے اسلامی مؤرخوں کے نقائص بیان کیے ہیں، اسی طرح یورپ کے مؤرخین کی بے اعتدالیوں سے بھی آگاہ کیا ہے‘۔ (ص23) شبلی کی مؤرخانہ حیثیت پر ڈاکٹر سید عبداللّٰہ اور پروفیسر خلیق احمد نظامی کی آرا کا حوالہ دینے کے بعد تاریخ نویسی سے متعلق شبلی کے نقطہ نظر سے متعلق الفاروق سے دو اقتباس پیش کیے ہیں۔ مصنف نے شبلی کے فلسفہ تاریخ کی وضاحت کے لیے چودہ نکات پر بات کی ہے۔ مقالاتِ شبلی کی جلد چہارم و ششم، الفاروق، المامون، سیرۃ النعمان، سیرۃ النبیؐ اور معارف میں مطبوعہ شبلی کے بعض مضامین سے استفادے کے بعد فلسفہ تاریخ سے متعلق شبلی کے ان اصولوں کو دریافت کرنے پر مصنف داد کا مستحق ہے۔ جامع بحث کے بعد ڈاکٹر اعظمی نے بڑے نپے تُلے انداز میں اپنا نتیجہ فکر پیش کیا ہے:
انھوں نے تاریخ نگاری کے بلند اور معیاری اصول وضع کیے اور نہ صرف علامہ ابنِ خلدون کی طرح اس کے اصول و آئین منضبط کیے، بلکہ انھیں عملی طور پر بھی پیش کرنے کی کوشش کی۔ ’مسلمانوں کی گذشتہ تعلیم‘، المامون، سیرۃ النعمان، الفاروق، اورنگ زیب عالمگیر پر ایک نظر اور سیرۃ النبیؐ جیسی بلند پایہ اور مہتم بالشان کتابیں اور متعدد معرکۃ الآرا تاریخ مقالات اس دعویٰ کے شاہدِ عادل ہیں۔ (ص34)
تیسرا مضمون ’علامہ شبلی کے تعلیمی افکار کی تشکیل میں کارفرما عناصر‘ میں مصنف نے درست نتیجہ نکالا ہے کہ ’تعلیمی غور و فکر میں ان کے نقطہ نظر سے آج بھی اغماض نہیں برتا جا سکتا‘۔ (ص35) مصنف نے دیوبند کی قدامت پرستی اور علی گڑھ کے جدید خیالات کے درمیان شبلی کی مفاہمانہ کوششوں کا ذکر کیا ہے اور ندوۃ العلما سے وابستگی کو اسی تناظر میں دیکھا ہے۔ شبلی کی تدریسی اور نصابی خدمات کے حوالے سے مصنف نے علی گڑھ میں نصابی کتاب تاریخ بدء الاسلام کی تالیف، الٰہ آباد یونیورسٹی کے فارسی امتحانات کے لیے انٹرمیڈیٹ اور گریجویشن کے نصاب ککی ترتیب،حیدرآباد دکن کی مشرقی یونیورسٹی کا خاکے کی تیاری کی مثالیں دی ہیں۔ قدیم تعلیم حاصل کر کے علی گڑھ میں سرسید اور پروفیسر آرنلڈ کی صحبتوں سے فیضیاب شبلی دونوں اقسام کی تعلیم، تدریسی اور نصابات سے بخوبی واقف تھے، چنانچہ ڈاکٹر اعظمی نے شبلی کے مکاتیب، مقالات، خطبات اور سفرنامے سے متعلقہ اقتباسات پیش کر کے ان کے تعلیمی افکار کی تشکیل میں کارفرما عناصر کی صحیح صحیح نشاندہی کی ہے۔ شبلی نے اپنے عہد کے ذمہ دارانِ مدارس سے نصابِ تعلیم کی بابت چھ سوالات دے کر حیاتِ شبلی سے سید سلیمان ندوی کا بیان کردہ ایک واقعہ تحریر کیا ہے، جس سے شبلی کے نظامِ تعلیم کی اہمیت کا اندازہ عہدِ حاضر کے مدارس کے نصابات کو دیکھ کر بھی ہو سکتا ہے۔ سیدی سلیمان ندوی نے استاد سے عرض کیا کہ ’عربی کے ہر طالب علم کو انگریزی پڑھنے پر کیوں مجبور کیا جاتا ہے، مثلاً جو لوگ فقیہہ بننا چاہتے ہیں، ان کو انگریزی کیا کام آئے گی؟‘ تو علامہ شبلی نے فرمایا کہ ’عجیب بات کہتے ہو! اگر فقہا انگریزی جانتے اور ہماری فقہ کو انگریزی میں منتقل کرتے تو ہدایہ وغیرہ کے انگریزوں اور غیر مسلموں کے کیے ہوئے غلط سلط ترجمے آج عدالتوں میں سند نہ قرار پاتے‘۔ (ص42) گو اس مضمون پر نظر ثانی اور وسعت کی گنجائش موجود ہے، لیکن موجودہ حالت میں بھی یہ استفادے کی چیز ہے اور اس کے مطالعے سے تعلیمی نظام کی بہتری اور ترقی کے لیے شبلی کے اضطراب اور منصوبہ بندی کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
ڈاکٹر محمد الیاس الاعظمی کا چوتھا مضمون اردو شاعری کے حوالے سے ’علامہ شبلی کی ملّی دردمندی‘ کے موضوع پر ہے۔ شبلی باقاعدہ شاعر نہیں تھے، چنانچہ مضمون نگار کا یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ ’جب وہ جذبات سے مغلوب ہوتے یا ملّت کسی ابتلا و آزمائش کا شکار ہوتی یا اس پر مظالم ڈھائے جاتے یا چمنِ اسلام کے پھولوں کو کسی گستاخ کے ہاتھوں نقصان پہنچتا تو بے اختیارانہ ان کے غم، ان کےآنسو اور ان کے جذبات شعری پیکر میں ڈھل جاتے‘۔ (ص43) مصنّف نے جنگِ طرابلس، حادثہ مسجد کانپور، مسلم لیگ اور جنگِ عظیم سے متعلق ان نظموں پر تاثراتی تبصرہ کیا ہے۔ ان کا یہ مضمون موضوع سے متعلق کسی ندرت کا حامل نہیں، بلکہ یہ معلومات سابقہ تحریروں میں زیادہ بہتر انداز میں پیش کی جا چکی ہیں۔ مصنف کے اس بیان پر کہ ’شبلی کانگریس کے حامی، دو قومی نظریے کے مخالف اور ہندو مسلم اتحاد کے علم بردار تھے‘، یہی کہا جا سکتا ہے کہ اگر وہ مزید زندہ رہتے تو ہر وقت جدید خیالات اور بدلتی ہوئی صورتِ حال پر نظر رکھنے والے شبلی کے نظریات میں کسی حد تک تبدیلی کا امکان تھا، جیسا کہ عین اُسی دَور میں محمد علی جناح بھی کانگریس کے حامی اور ہندو مسلم اتحاد کے علم بردار تھے، تاہم ہندو ذہنیت نے بتدریج انھیں اپنے خیالات بدلنے پر مجبور کر دیا اور وہ تحریکِ پاکستان کے میرِ کارواں بن گئے۔
مضمون ’مراسلاتِ شبلی، ایک مطالعہ‘ میں شبلی کےچوبیس مراسلات کا مختصر تعارف اور ان سے اقتباسات پیش کیے ہیں۔ یہ مراسلات تحقیق و تصنیف سے متعلق بعض پہلوؤں کی نشاندہی، بعض علمی و تعلیمی منصوبوں پر مشاورت اور بعض امور پر وضاحتی بیانات پر مشتمل ہے۔ چونکہ یہ خطوط اخبارات و رسائل میں اشاعت کے لیے بھیجے گئے، اس لیے ان کے عناوین بھی تجویز کیے گئے۔ مصنف نے ہر عنوان کے تحت متعلقہ مراسلے کے مندرجات کا تعارف کرایا ہے اور اسے اقتباسات سے مزین کیا ہے، البتہ بعض مراسلات کی ذیل میں مصنف کی موجودگی کا انحصار فقط چند وضاحتی جملوں پر رہ گیا۔ یہ مضمون اپنے موضوع کی وسعت کے اعتبار سے تشنگی کا احساس دِلاتا ہے، حقیقت یہ ہے کہ ہر مراسلے کے پس منظر اور اس مراسلے کے اثرات پر سیر حاصل گفتگو کی گنجائش تھی۔
’ظفر حسن ایبک اور تصانیفِ شبلی کے انگریزی و ترکی تراجم‘ کے عنوان سے مضمون نگار نے اپنے سابقہ مضمون ۔۔۔۔ (2008ء) پر اضافہ کیا ہے، جس میں انھوں نے محمد عمر رضا آفندی کی طرف سے شبلی کی تصانیف الفاروق اور سیرۃ النبیؐ کے ترکی تراجم سے متعلق معلومات فراہم کی تھیں، البتہ بعد میں ظفر حسن ایبک کی آپ بیتی خاطرات کے مطالعے کا موقع ملا تو انھیں معلوم ہوا کہ محمد عمر آفندی کے یہ ترکی تراجم اردو سے براہِ راست نہیں ہوئے، بلکہ پہلے ظفر حسن ایبک نے انھیں انگریزی میں ترجمہ کیا، پھر اس انگریزی ترجمے کو پیش نظر رکھ کر انھوں نے ترکی ترجمہ کیا۔ مصنف نے اعتراف کیا ہے کہ ظفر حسن ایبک کے [انگریزی] تراجم کا کہیں سراغ نہیں ملتا، (ص 85) تاہم وہ استنبول کے کتب خانوں یا محمد عمر آفندی کے ذاتی ذخیرے میں ان کی موجودگی کا امکان ظاہر کرتے ہیں۔
آخری چار مضامین میں مصنف نے علامہ شبلی نعمانی اور اپنے عہد کے معروف علمی و ادبی پرچوں لسان الصدق، الہلال، البلاغ اور زمیندار سے علمی تعاون اور شبلی سے متعلق ان میں مطبوعہ تحریروں کے تعارف و تجزیے پر مشتمل ہیں۔ ان مضامین میں مصنف نے اعلیٰ تحقیق کا ثبوت دیا ہے اور ان پرچوں کی فائلوں کے بالاستیعاب مطالعے کے بعد قارئین کی معلومات میں گراں قدر اضافہ کیا ہے۔ اگر مصنف عہدِ شبلی کے مؤقر رسائل و جرائد اور اخبارات میں آثارِ شبلی پر مشتمل ایک مکمل تصنیف پیش کر سکیں تو ان کا ایک کارنامہ قرار پائے گا۔
ڈاکٹر محمد الیاس الاعظمی نے اس مجموعے میں شبلی سے متعلق کئی ایک موضوعات کو چھیڑا ہے اور اکثر مضامین میں انھوں نے تحقیقی معیارات کو بھی پیش نظر رکھا ہے، بعض میں تاثراتی انداز اختیار کیا گیا اور آخری چار مضامین رسائل و جرائد کی فائلوں سے شبلی پر لوازمے پر مشتمل ہیں۔ مجموعی طور پر یہ تصنیف مصنف کے تحقیقی معیار، تنقیدی بصیرت اور شبلی سے محبت کی آئینہ دار ہے اور مطالعہ کے میز پر اس کی موجودگی قاری کے ادبی ذوق کی دلیل۔

Share
Share
Share