دورِ مکّی کی دعوت میں خلافتِ الٰہیہ کا پیغام :- مفتی کلیم رحمانی

Share
مفتی کلیم رحمانی

دورِ مکّی کی دعوت میں خلافتِ الٰہیہ کا پیغام

مفتی کلیم رحمانی
8329602318 Mob:

یہ بات کسی بھی اہلِ علم سے پوشیدہ نہیں ہے کہ آنحضور ﷺ کی نبوی زندگی کو دو دور سے یاد کیا جاتا ہے ایک دورِ مکّی اور دوسرا دور مدنی، دورِ مکّی میں آنحضور ﷺ کی پوری کوشش دعوت کے عنوان پر صرف ہوئی گویا یہ دور دعوتی دور شمار ہوتا ہے۔

لیکن اس دعوتی دور میں آنحضورﷺ نے حکومتِ الٰہیہ کے قیام کے تصّور کو کبھی بھی نظروں سے اُوجھل نہیں رکھا بلکہ ہمیشہ اس کو سامنے رکھا اور جابجا مخاطبین کے سامنے اس تصّور کو پیش بھی کیا، لیکن بد قسمتی سے آج دعوتی عمل سے حکومتِ الٰہیہ کے قیام کا تصّور بالکل نکل چکا ہے، اور ستم ظریفی یہ کہ بہت سے دین کے داعی جو دراصل داعی کم اور دعویدار زیادہ ہیں حکومتِ الٰہیہ کے تصّور کو شجر ممنوعہ سمجھتے ہیں اور المیہ یہ کہ اس کے ثبوت میں آنحضور ﷺ کے دورِ مکّی کو پیش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آنحضور ﷺ نے دورِ مکّی میں حکومتِ الٰہیہ کاکوئی تصّور نہیں دیا تھا۔
اس لئے آج کے ان حالات میں ضروری ہے کہ آنحضور ﷺ کی دورِ مکّی کی دعوت کے حوالے سے حکومتِ الٰہیہ کے قیام کے تصّور کو واضح کیا جائے تا کہ دعوتی عمل سے موجودہ فکری جمود و انحطاط دور ہو، اور ایک داعی کے ذہن میں ہمیشہ حکومتِ الٰہیہ کے قیام کا تصّور موجود رہے اوروہ اسی تصّور کے ساتھ وہ دعوتی سفر طئے کرئے جس طرح آنحضور ﷺ نے طئے کیا تھا۔ ایک مضمون میں دورِ مکّی کے ان تمام واقعات کا احاطہ نہیں کیا جاسکتا جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آنحضور ﷺ نے دورِ مکّی میں مخاطبین کے سامنے نہ صرف یہ کہ واضح انداز میں حکومتِ الٰہیہ کے تصّور کو پیش کیا بلکہ اس کے قائم ہونے کی خوش خبری بھی دی، بطور مثال چند واقعات کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے۔ دورِ مکّی میں جن اہلِ ایمان کو کفّار مکّہ نے شدید تکلیفیں دیں ان میں سے ایک حضرت خباب بن ارتؓ بھی ہیں ایک دفعہ انہوں نے آنحضور ﷺ سے مشرکین کی طرف سے پہنچنے والی تکلیفوں کی شکایت کی تو آپ ﷺ نے انہیں صبر کی تلقین کی اور ایک خوش خبری دی جس میں حکومتِ الٰہیہ کے
قائم ہونے کا پیغام ہے، چنانچہ بخاری شریف کی روایت ہے۔
عَنْ خَبَّابِ بِنِ الْاَرتِ قَالَ شَکَوْنَا اِلیٰ النَّبِیّﷺ وَھُوَ مُتَوَصَّدُبُرْدَۃً فِی ظِلَّ الْکَعْبَۃِ وَلَقَدْ لَقِےْنَا مِنَ الْمُشْرِکِےْنَ شِدَّۃً فَقُلْنَا اَلاَ تَدْعُوْا اللّٰہَ فَقَعَدَ وَھُوَ مُحْمَرُّ وَجْھُہٗ وَقَالَ کَانَ الرَّجُلُ فِےْمَنَ کَانَ قَبْلَکُمْ ےُحْفَرُ لَہٗ فِی الْاَرْضِ فَےُجْعَلُ فِےْہِ فَےُجآءُ بِمِنْشَارٍ فَےُوْضَعُ فَوْقَ رَاسِہٖ فَےُشَقُّ بِاِثْنَےْنِ فَمَا ےَصُدُّہٗ ذٰلِکَ عَنْ دِےْنِہٖ وَےُمْشَطُ بِاَمْشَاطِ الْحَدےْدِ مَادُوْنَ لَحْمِہٖ مِنْ عَظْمٍ وَّ مَا ےَصُدُّہٗ ذٰلِکَ عَنْ دِےْنِہٖ وَ اللّٰہُ لَےَتِمَنَّ ھٰذَا الْاَمْرُ حَتّٰی ےَسِےْرَا الرَّکْبُ مِنْ صَنْعَاءَ اِلیٰ حَضَرَ مَوْتَ لاَ ےَخَافُ اِلَّا اللّٰہَ اَوِ الذَّئبَ عَلٰی غَنَمِہٖ وَلکِنَّکُمْ تَسْتَعْجِلوُنَ ( بخاری)
’’حضرت خبابؓ بن ارت سے روایت ہے کہ ہم نے نبی ﷺ سے مشرکین کی طرف سے پہنچنے والی شدید تکلیفوں کی شکایت کی اس حال میں کہ آپ ﷺ کعبہ کے سایہ میں چادر سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے۔ ہم نے عرض کیا، کیا آپ ﷺ اللہ سے دُعا نہیں کرتے ، پس آپ ﷺ اُٹھ بیٹھے اور آپ ﷺ کا چہرا سُرخ ہو گیا، اور آپ ﷺ نے فرمایا تم سے پہلے کے لوگوں میں ایک شخص کے لئے زمین میں گڑھا کھودا جاتا اور اس میں ایک کو ڈال دیا جاتا، پھر اس کے اُوپر آرا رکھ کر چلا دیا جاتا اور اس کے دو ٹکڑے ہوجاتے، لیکن یہ عذاب اس کو اپنے دین سے نہیں پھیر سکا، اور ایک شخص کے جسم پر لوہے کی کنگھی کی جاتی اور کنگھی اس کے گوشت ، ہڈیوں اور پٹھوں کے درمیان گُھس جاتی لیکن یہ عذاب اس کو اپنے دین سے نہیں پھیر سکا، پھر آپ ﷺ نے فرمایا اللہ کی قسم یہ امر پورا ہوکر رہے گا یہاں تک کہ ایک سوار صنعاء سے حضرموت تک چلے گا اور وہ اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرے گا یا بھیڑیے سے اپنی بکریوں پرلیکن تم جلدی کرتے ہو۔ ‘‘
مذکورہ واقعہ اور فرمان رسول ﷺ میں تین باتیں قابل توجہ ہیں پہلی بات یہ کہ دین اسلام کو پورے طور پر اختیار کرنے کی بناء پر مشرکین کی طرف سے تکلیفیں پہنچنا لازمی چیز ہے خصوصاً اسلام کی مغلوبیت کے دور میں۔ دوسری بات یہ کہ جب مسلمانوں کے دینی سربراہ کے پاس
مشرکین کے ظلم و ستم کو روکنے کی طاقت و قوت نہ ہوتو اس سے شکایت کرنا کوئی پسندیدہ چیز نہیں ہے جب کہ وہ خود مشرکین کے ظلم و ستم کو جانتا ہو، بلکہ صبر و استقامت کے ساتھ ظلم و ستم کو برداشت کرنا چاہئے، جیسا کہ حضرت خبابؓ نے جب آنحضور ﷺ سے مشرکین کے ظلم و ستم کی شکایت کی تو آپ ﷺ کا چہرہ سُرخ ہوگیا اور آپ ﷺ نے زمانہ ماضی کی اس سے زیادہ تکلیف کی مثال دے کر انہیں صبر کی تلقین کی اور ان کے اس فعل کو جلد بازی سے تعبیر فرمایا۔
تیسری بات یہ کہ آنحضور ﷺ نے صنعاء سے حضر موت تک ایک سوار کے بے خوف و خطرگزرنے کی پیشن گوئی دے کر ایک طرح سے حکومتِ الٰہیہ کے قیام کی خوش خبری سنائی ، کیوں کہ کسی بھی راستہ کو چور اور ڈاکوؤں سے بالکل مامون و محفوظ بنادینا اور راستہ طئے کرنے والے کے اندر اللہ کا ڈر پیدا کرنا حکومتِ الٰہیہ کا ہی کام ہوسکتا ہے۔ گویا آپ ﷺ کے فرمان کا مطلب یہ تھا کہ اے خبابؓ ! اگرچہ آج اللہ کے کلمہ کو اختیار کرنے کی بناء پر تکلیفیں دی جارہی ہیں لیکن آئندہ اسی کلمہ کی بنیاد پر ایسی حکومت قائم ہوگی کہ ہر طرف امن و امان ہوگا ۔ اور صرف حضر میں ہی نہیں بلکہ سفر میں بھی دور دراز کا راستہ طئے کرنے والے کو اللہ کے علاوہ کسی انسان کا ڈر لاحق نہیں ہوگا۔ یعنی وہ حکومتِ الٰہیہ کے زیرِ سایہ راستہ طئے کررہا ہوگا۔ اور پھر مزید یہ کہ آنحضور ﷺ نے مذکورہ فرمان میں کلمہ کی تکمیل کو واضح کرنے کے لئے لفظ اَمر کا استعمال فرمایا اور لفظ اَمْرعربی زبان میں حکومت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔اس سے مذکورہ فرمانِ رسول ﷺ میں حکومتِ الٰہیہ کا پیغام روزِ روشن کی طرح عیاں ہوجاتا ہے۔ ساتھ ہی مذکورہ فرمان سے یہ بات بھی واضح ہوئی کہ حکومتِ الٰہیہ کے تصّور و قیام کے بغیر دینِ اسلام کی تکمیل نہیں ہوتی کیونکہ آنحضورﷺ نے مذکورہ فرمان میں تکمیلِ دین کو حکومتِ الٰہیہ کے قیام پر منحصر فرمایا ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر کسی کے پاس دینِ اسلام کا تصّور حکومتِ الٰہیہ کے تصّور کے بغیر ہے تو اس کے پاس دین کا ناقص تصّور ہے۔ اسی طرح اگر کسی کے پاس دینی جدوجہد حکومتِ الٰہیہ کے قیام کے منصوبہ و عمل کے بغیر ہے تو یہ ایک ناقص دینی جدوجہد ہے۔
مذکورہ واقعہ اور فرمانِ رسول ﷺ پر ان لوگوں کو سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے جو دورِ مکّی کو حکومتِ الٰہیہ کے تصّور سے خالی دور سمجھتے اور سمجھاتے ہیں۔ اور حکومتِ الٰہیہ کے تصّور کی مخالفت کرتے ہیں۔
کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ اللہ نے قرآن میں جس غلبہ دین کا حکم دیا ہے اس سے مراد صرف دینی فکر و اخلاق کا غلبہ ہے ، دینی سیاست و قوت کا غلبہ اس میں شامل نہیں ہے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے جس غلبہ کا حکم دیا ہے اس سے مراد دینی سیاست و قوت کا غلبہ ہے او ر یقیناًاس میں دینی فکر وا خلاق کا غلبہ بھی شامل ہے، لیکن یہ غلبہ بھی دینی سیاست و قوت کے غلبہ سے قائم ہوتا ہے ، دینی سیاست وقوت کے غلبہ کے بغیر دینی فکر و اخلاق کا غلبہ قائم ہو ہی نہیں سکتا۔
آنحضور ﷺ دینی سیاست و قوت کے غلبہ کے لیے کتنے فکر مند و کوشاں رہا کرتے تھے آپ ﷺ کی ایک دُعا سے بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ جو دورِ مکّی سے تعلق رکھتی ہے، دُعا کا پس منظر یہ ہیکہ جب دورِ مکّی میں ایمان والوں پر مشرکینِ مکّہ کا ظلم و ستم بہت زیادہ بڑھ گیا تو آنحضور ﷺ کی یہ خواہش ہوئی کہ مکہ والوں میں سے کوئی طاقتور شخص ایمان قبول کرلے تاکہ اس کی طاقت سے ایمان والوں کو تقویت پہنچے اور مشرکینِ مکّہ آزادی کے ساتھ اہلِ ایمان پر ظلم و ستم نہ کرسکے ، اس وقت مکّہ میں دو ایسے نوجوان تھے جو بہت طاقتور شمار ہوتے تھے اور مکّہ والوں پران کا رُعب و دبدبہ تھا ان میں سے ایک عمر بن خطابؓ تھے اور دوسرا ابو جہل تھا جس کی کُنیت ابو الحکم تھی ،
آنحضور ﷺ نے ان دونوں میں سے ایک کی ہدایت کے لیے دُعا کی چنانچہ آپ ﷺ کی یہ دُعا سیرت کی ایک معروف و مستند ایک کتاب ’’ سیرت ابنِ ہشام ‘‘ میں درج ہے۔
اَلّٰھُمَّ اَیّدِ الْاِسْلاَمَ بِاَبِیْ الْحَکَمِ ابْنِ ھِشَامِِ اَوْ بِعُمَرَ ابْنِ الْخَطَّابِ ( سیرت ابن ہشام جلد اوّل ، صفحہ ۳۷۹)
’’اے اللہ! اسلام کو مضبوطی عطا فرماابولحکم بن ہشام یا عمر بن خطاب کے ذریعہ۔‘‘
چنانچہ آپﷺ کی یہ دعا عمرؓ بن خطاب کے حق میں قبول ہوئی اور حضرت عمرؓ ایمان کی دولت سے مالامال ہوئے، حضرت عمرؓ نے جب اپنی بہن فاطمہ کے گھر ایمان قبول کرنے کا فیصلہ کرلیا تو حضرت خباب بن ارتؓ نے حضرت عمر کو اسی وقت اللہ کے رسولﷺ کی اس دعا کی خوش خبری سنائی تھی۔
اللہ کے رسول ﷺ کی مذکورہ دعا سے بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اسلام میں ظاہری طاقت وقوت کی کتنی اہمیت ہے کہ سید المرسلین حضرت محمدﷺ اس کے حصول کے لیے دعا کررہے ہیں۔
کچھ مسلمان روحانی طاقت وقوت کا نام لے کر اسلام کی ظاہری طاقت وقوت کو تسلیم نہیں کرتے اور اس کے حصول کو بے کار قرار دیتے ہیں۔ روحانی طاقت وقوت کا فلسفہ دراصل دشمنان اسلام کا ایجاد کردہ ہے، اور یہ فلسفہ انہوں نے اس لیے ایجاد کیا تاکہ مسلمانوں کو اس کے فریب میں مبتلا کرکے ان کے اندر سے جذبہ جہاد اور عمل جہاد کو ختم کیا جاسکے، اسلام میں روحانی طاقت وقوت کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں ہے، اسلام میں جس طاقت وقوت کا وجود ہے وہ اہل ایمان کی ایمانی پختگی اور جسمانی و جنگی طاقت وقوت ہے اور اللہ کی مدد ونصرت بھی دراصل اہل ایمان کی ایمانی پختگی اور جسمانی وجنگی طاقت و قوت کے استعمال کے بعد شامل حال ہوتی ہے، جیسا کہ اللہ تعالی نے قرآن میں اپنی مدد و نصرت کے متعلق ایک اہم اُصول بیان فرمایا۔ اِنْ تَنْصُرُوْا اللّٰہَ ےَنْصُرْ کُمْ وَےُثَبَّتُ اَقْدَامَکُمْ ( سورۃ محمد ) ’’ اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدموں کو جمادے گا۔ ‘‘
دورِ مکّی ہی کا واقعہ ہے جب مشرکین مکّہ نے دیکھا کہ طرح طرح کی تکلیفیں پہنچانے کو باوجود آنحضور ﷺ مسلسل اپنا کام کئے جارہے ہیں اور دن بہ دن ایمان والوں کی تعداد میں اضافہ
ہورہا ہے تو کفّارِ مکّہ نے آنحضورﷺ کو چند چیزوں کی پیش کش کی اس شرط پر کہ آپ ﷺ دینِ اسلام لوگوں کے سامنے پیش کرنا بند کردیں ان چیزوں میں سے ایک سرداری بھی تھی آپ ﷺ نے
ان کی پیش کش کا جواب یوں دیا :
ےَا عَمَّی وَاللّٰہِ لَوْ وَضعُوُاْ الشَّمْسَ فِیْ ےَمِےْنِیْ وَالقَمَرَ فِیْ ےَسَارِیْ عَلٰی
اَنْ اَتْرُکَ ھٰذَا الْاَمْرَ حَتّٰی ےُظْھِرَہُ اللّٰہُ اَوْ اَھْلِکَ فِےْہٖ مَا تَرَکْتُہٗ (سیرت ابن ہشام ، جلد اوّل ، صفحہ ۲۸۱)
اے چچا ! قسم ہے اللہ کی اگر یہ میرے دائیں ہاتھ میں سورج رکھ دیں اور میرے بائیں ہاتھ میں چاند رکھ دیں اس شرط پر کہ میں اس امر کو چھوڑ دوں تب بھی میں اس کو چھوڑنے والا نہیں ہوں یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس کو غالب کردے یا میں اس میں ہلاک ہوجاؤں۔ ‘‘
مذکورہ واقعہ سے بھی معلوم ہواکہ مکّی دور میں اللہ کے رسول ﷺ کے پیشِ نظر غلبہ دین تھا، اور غلبہ دین کا مطلب حکومتِ الٰہیہ کا قیام ہے ، اور مذکورہ فرمانِ رسول ﷺ سے حکومت الٰہیہ کا تصور اس لیے بھی واضح ہوجاتا ہے کہ آپﷺ نے لفظ امر استعمال فرمایا۔ اور لفظ امر عربی میں حکومت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ کچھ نادان لوگ مذکورہ واقعہ اور فرمانِ رسولﷺ کو بنیاد بنا کر حکومتِ الٰہیہ کی اہمیت کو گھٹا تے ہیں اور کہتے ہیں کہ دین اسلام میں اگر حکومت و سرداری مطلوب ہوتی تو اللہ رسول ﷺ کفّارِ مکّہ کی پیش کش کو قبول فرمالیتے ۔ کاش کہ یہ نادان لوگ مذکورہ پیش کش او رفرمان رسول ﷺ کی حقیقت پر ذرا بھی غور کرتے تو خود ان کا ضمیر ان کی نادانی پر ماتم کرتا۔
پیش کش کی حقیقت یہ ہے کہ آپ ﷺ کو سرداری کی یہ پیش کش دین کی پوری دعوت سے باز آنے کے بدلے کی گئی تھی اور دین اسلام اپنے ماننے والوں کو یہ تعلیم دیتا ہے کہ دین کی صرف ایک بات سے باز آنے کے بدلہ بھی کسی حکومت کا تخت و تاج مل رہا ہوتو اسے ٹھوکر مار دی جائے ۔ اور پھر مزید یہ کہ کفّار مکّہ نے آپ ﷺ کو جس حکومت کی پیش کش کی تھی وہ انسانوں پر انسان کی حکومت کی پیش کش تھی، اور محمد ﷺ جس حکومت کا پیغام اپنے ساتھ لائے تھے وہ انسانوں پر انسانوں کے خالق و مالک کی حکومت کا پیغام تھا جسے حکومتِ الٰہیہ کہتے ہیں۔
غرض یہ کہ آنحضور ﷺ کا کفّارِ مکّہ کی حکومت کی پیش کش کو ٹھکرادینا اس سے حکومتِ
الٰہیہ کی اہمیت میں ذرا بھی کمی واقع نہیں ہوتی، بلکہ مزید بڑھ جاتی ہے کیوں کہ آنحضور ﷺ نے صرف پیش کش کو ٹھکرایا ہی نہیں بلکہ اسکے ساتھ یہ اعلان بھی کردیا کہ میں اس امر یعنی حکومتِ الٰہیہ کی جدوجہد سے باز آنے والا نہیں ہوں یہاں تک کہ اللہ اس کو غالب کردے یا میں اس جدوجہد میں ہلاک ہوجاؤں۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اسلام جس حکومت کا پیغام لے کر آیا ہے وہ حکومت کسی غیر اسلامی حکومت کا انجن ، ایندھن، پہیےّ اور کل پُرزے نہیں بن سکتی، بلکہ وہ خود اللہ کی ہدایت کی روشنی میں اپنا انجن، ایندھن، پہیےّ اور کُل پُرزے تیار کرتی ہے اور خود ہی اس حکومت کی گاڑی کا ڈرائیور تیار کرتی ہے جس کو دینی اصلاح میں امیر المومنین یا خلیفہ المسلمین کہتے ہیں۔
اللہ کی نظر میں بڑی قدرو منزلت والے ہیں وہ ایمان والے جو حکومتِ الٰہیہ کی گاڑی کو تیار کریں اور اس کو چلائیں اور بڑے خوش نصیب ہیں وہ اہلِ ایمان جنہیں حکومتِ الٰہیہ کی گاڑی کی سواری میّسر ہو۔ اور اللہ کی نظر میں بڑے ملعون و مبغوض ہیں وہ لوگ جو حکومتِ الٰہیہ کی گاڑی کی تیاری میں رکاوٹ ڈالیں اور اس کو زمین پر چلنے نہ دیں، اور بڑے بد نصیب ہیں وہ اہلِ ایمان جو حکومتِ الٰہیہ کی گاڑی میں سوار ہونے کی بجائے باطل حکومت کی گاڑی میں سوار ہوجائیں۔
دورِ مکّی ہی کا واقعہ ہے، جب حج کے دنوں میں مختلف قبائل کے لوگ مکّہ آیا کرتے تو آنحضور ﷺ ان کے سامنے اسلام کی دعوت پیش کرتے ، ایک موقع پر آپ ﷺ نے قبیلہ بنی آمر کے افراد کے سامنے دعوت پیش کی اور چوں کہ مکّہ میں حالات بہت کشیدہ تھے اس لئے ان کے سامنے اپنی پناہ کا معاملہ بھی پیش کیا ۔ ان میں سے ایک شخص فراس بن عبداللہ نے اپنے ساتھیوں سے کہا اگر میں اس قریشی جوان کو لے لوں تو اس کے ذریعہ پورے عرب پر غالب آجاؤں ، پھر اس نے آپ ﷺ سے کہا اچھّا یہ بتاؤ اگر تمہارے اس پیش کئے ہوئے دعوے پر ہم بیعت کرلیں اور اللہ تمہیں ان لوگوں پر غلبہ دیدے جو تمہاری مخالف کررہے ہیں تو کیا تمہارے بعد حکومت ہمیں ملے گی ؟ آپ ﷺ نے فرمایا اَلْاَمْرُ اِلٰی اللّہِ ےَضَعَہُ حَےْثُ ےَشآءُ یعنی حکومت کا معاملہ اللہ کے ہاتھ میں ہے وہ جس کو چاہے دے گا۔ اس شخص نے کہا ہم تمہاری حفاظت کے لیے اپنے گلے عرب
کے تیروں کا نشانہ بنائیں اور جب اللہ تمہیں فتح نصیب کرے تو حکومت ہمیں ملنے کی بجائے دوسروں کو ملے ہمیں تمہاری ضرورت نہیں۔ ‘‘ ( سیرت ابن ہشام، جلد اوّل صفحہ ۴۷۴)
مذکورہ دعوتی واقعہ میں تین اہم باتیں قابلِ توّجہ ہیں سب سے پہلی یہ کہ آنحضور ﷺ دین کی دعوت ایسے انداز میں پیش کرتے تھے کہ کہ پہلی مرتبہ سُننے والے پر بھی یہ بات واضح ہوجاتی تھی کہ اس دعوت میں حکومت کا تصّور اور لائحہ عمل بھی ہے چنانچہ فراس بن عبداللہ نے پہلی ہی دعوت سے یہ اندازہ لگالیا کہ محمد ﷺ جس دین کی دعوت پیش کررہے ہیں وہ اپنے اندر غلبہ اور حکومت کا تصّور بھی رکھتی ہے، اسی لئے اس نے یہ دین قبول کرنے کے لئے یہ شرط پیش کی کہ آپ ﷺ کے بعد حکومت ہمیں ملے۔ اگر دین اسلام میں حکومت و غلبہ کا کوئی تصّور نہ ہوتا تو آنحضور ﷺ اس کی اس شرط پر فرما دیتے کہ میں جو دین لے کر آیا ہوں اس کا غلبہ اور حکومت سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن آپ ﷺ نے ایسا نہیں فرمایا۔ اس سے معلوم ہواکہ اسلام پہلے ہی دن سے اپنے اندر حکومت و غلبہ کا تصّور رکھتا ہے۔
دوسری بات یہ کہ حکومتِ الٰہیہ کا سربراہ کسی کا جان نشین نہیں ہوتا بلکہ وہ اہلِ ایمان کی مرضی سے منتخب ہوتا ہے جیسا کہ فراس بن عبداللہ نے جب یہ شرط پیش کی کہ آپ ﷺ کے بعد حکومت ہمیں ملے تو آپ ﷺ نے اسے مسترد فرمادیا۔
تیسری بات یہ کہ حکومتِ الٰہیہ کے قیام کا کام کوئی پھولوں کی سیج نہیں ہے بلکہ کاٹوں بھرا راستہ ہے جیسا کہ فراس بن عبداللہ نے جب یہ کہا کہ ہم آپ ﷺ کی حفاظت کے لئے اپنے گلے عرب کے تیروں کا نشانہ بنائیں تو آپ ﷺ نے اس کے اس خیال کی تردید نہیں فرمائی۔ اس سے معلوم ہوا کہ حکومتِ الٰہیہ کو قائم کرنے والے افراد کو مسلح مقابلہ کے لئے بھی تیار رہنا چاہیے۔ مذکورہ باتوں پر ان اہلِ ایمان کو سنجیدگی سے غور رکرنا چاہیے جو برسوں کے بعد بھی دعوتی عمل میں حکومتِ الٰہیہ کا تصّور پیش نہیں کرتے ، اور ان اہلِ ایمان کو بھی غور کرنا چاہیے جو حکومتِ الٰہیہ کے
سربراہ سے متعلق جان نشینی کا تصّور رکھتے ہیں ، اور ان اہلِ ایمان کو بھی غور کرنا چاہیے جو حکومتِ الٰہیہ
کے قیام کے لئے مسلح مقابلہ کی ضرورت محسوس نہیں کرتے ۔
حکومتِ الٰہیہ کا اسلام سے کتنا گہرا تعلق ہے چودہویں صدی ہجری کے ایک جلیل القدر عالمِ دین و مصنف علامہ سیّد سلیمان ندوی ؒ کی تحریر سے بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے جو آپ نے اپنی معرکۃ الآراء کتاب ’’ سیرت النبی ﷺ ‘‘ کی ساتویں جلد میں تحریر فرمائی ہے، چنانچہ اس جلد کے صفحہ ۳۰ کی عبارت قارئین کی خدمت میں من و عن پیش ہے۔
’’ یہ حقیقت ہے کہ اسلام جس دن سے مذہب بنا اسی دن سے وہ سلطنت بھی ہے اس کی مسجد اس کا دیوان، اس کا منبر اس تخت تھا، اسلام کے جن بدگمان دشمنوں نے یہ سمجھا کہ محمد ﷺ نے پہلے مذہب کی دعوت پیش کی، جب وہ کامیاب ہونے لگی اور جنگجو عربوں کا ایک گروہ ساتھ ہوگیا تو آپ ﷺ کو سلطنت کے قیام کی فکر ہوئی ان کا یہ خیال سراسر اسلام کی حقیقت سے ناآشنائی پر مبنی ہے ، ایسی بادشاہی اور سرداری تو خود قریش کے رئیس آنحضرت ﷺ کی خدمت میں اس شرط کے ساتھ پیش کررہے تھے کہ وہ ان کے بتوں کو برا نہ کہیں، لیکن آپ ﷺ نے ان کی اس درخواست کو ہمیشہ ٹھکرادیا کیوں کہ آپ ﷺ کی دعوت کا مقصد محمد ﷺ کی انسانی بادشاہی نہ تھی، بلکہ روئے زمین پر خدائے واحد و برحق کی بادشاہی کا قیام تھا، اسی لئے اسلام دین و دینا اور جنّت ارضی اور جنّت سماوی اور آسمانی بادشاہی اور زمین کی خلافت کی دعوت لے کر اوّل ہی روز سے پیدا ہوا، اس کے نزدیک عیسائیوں کی طرح خدا اور قیصر دو نہیں ہے ، ایک ہی شہنشاہ علی الاطلاق ہے جس کے حدود
حکومت میں نہ کوئی قیصرہے اور نہ کسریٰ اسی کا حکم عرش سے فرش تک اور آسمان سے زمین تک جاری ہے وہی آسمان پر حکمران ہے اور وہی زمین پر فرماں رواں ہے۔
وَھُوَالَّذِیْ فِی السَّمٰآءِ اِلٰۃ وَ فِی الْاَرْضِ اِلٰۃ ( الزخرف ۰ ۱ )
’’ اور وہ وہی ہے جو آسمان میں معبود ہے اور وہی زمین میں بھی موجود ہے۔ ‘‘
وہ دیویوں اور دیوتاؤں اور نمرودوں اور فرعونوں کو ایک ساتھ ان کے آستانوں اور ایوانوں سے نکالنے کے لئے آیا تھا اور اس بات کی منادی کرتا تھا کہ آسمان ہویا زمین دونوں میں ایک ہی خدا کی حکومت ہوگی اس کے لئے آسمان میں نہ کوئی دیوی ہوگی نہ دیوتا ہوگا، اور نہ اس کی زمین پر کوئی قیصر ہوگا اور نہ کسریٰ جو اس دعوت کی راہ کی روڑا بنے گا اس کو اس راہ سے ہٹایا جائے گا اور جو اس کو روکنے کے لئے تلوار اُٹھائے گا وہ تلوار سے گرایا جائے گا۔
( منقول : سیرت النبی جلد ۷ ، صفحہ ۳۰) واضح رہے کہ علامہ سیّد سلیمان ندوی ؒ ، مولانا سیّد ابوالحسن علی ندویؒ عرف مولانا علی میاں کے استاذ ہیں۔

Share
Share
Share