اقبال اور حیدرآباد :- ظہور احمد

Share
ظہور احمد

اقبال اور حیدرآباد

ظہور احمد (پونچھ،مہنڈر)

ریسرچ اسکالر، یونیورسٹی آف حیدرآباد

اقبال کی پیدائش 1877ء میں سیالکوٹ میں ہوئی ۔ابتدائی تعلیم وہیں حاصل کی ،لیکن اعلیٰ تعلیم کے لئے بیرونی ممالک کا سفر کرنا پڑا ۔ابتدائی دور میں اگر چہ ان کی شاعری میں وطنیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی لیکن جوں جوں زمانہ گزرتا گیاان کی سوچ و فکر میں تبدل آنے لگا ۔

اقبال کی شناخت ایک شاعر اور فلسفی کے طور پر ہے ۔لیکن یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ وہ صرف ایک شاعر ہی نہیں تھے بلکہ ایک پیمبر بھی تھے ۔انہوں نے قوم کے سوتوں کو جگانے کی کوشش اپنی شاعری کی ذریعے کی اوراسی شاعری کے ذریعے پورے عالم کی ادبی دنیا میں ان کی شناسائی بھی ہوئی۔
حیدرآباد شہر سیالکوٹ سے کوسوں دور ہے لیکن اقبال کی شاعری کی کشش اتنی زوردار تھی کہ وہاں کے اردودان اور سیاستدان ان کی شاعری سے بے حد متاثر ہوئے ۔
اقبال حیدرآباد دو بار آئے ۔پہلی بار 1910ء میں اور دوسری دفعہ 1929ء میں آئے۔ان کے حیدرآباد میں آنے کے تعلق سے پروفیسر بیگ احساس یوں رقمطراز ہیں ۔
’’1910ء میں جب اقبال حیدرآباد میں آئے تھے ۔سر اکبر حیدری نے اقبال کا پر خلوص استقبال کیا ،نہایت ہی محبت سے پیش آئے ۔بیگم حیدری نے اکثر شرفاء سے ملاقات کروائی۔اقبال کے دل پر ان کے اخلاق کا گہرا اثر ہوا۔‘‘
اقبال جب 1910ء میں حیدرآباد آئے تو سر اکبر حیدری کے ساتھ مہاراجہ کشن پرشاد نے بھی خوب خاطر مدارت کی تھی ۔اقبال جب واپس وطن پہنچے تو انہوں نے مہاراجہ کشن پرشاد کی مدح میں 39) (اشعار لکھے ،اس کے متعلق پروفیسر بیگ احساس یوں رقمطراز ہیں :
’’ڈاکٹر اقبال 1910ء میں حیدرآباد آئے تو کشن پرشاد نے بھی بڑ ی خاطر مدارت کی تھی ۔اقبال نے واپس جاکر مہاراجہ کشن پرشاد کی مدح میں (39)اشعار لکھے ۔ان کی ابتداء میں ایک بہاریہ تشبیب ہے پھر گریز کر کے دکن اور نظام کی تعریف ہے بعد میں مہاراجہ کی مدح ہے ۔‘‘
اس سفر کے بعد اقبال 1929ء میں حیدرآباد آئے یہ ان کا حیدرآباد کا دوسرا دورہ تھا۔ حیدرآباد سے اقبال کووالہانہ محبت تھی کیونکہ جب وہ پہلی بار یہاں پر آئے تو ان کے چاہنے والوں نے ان کی خوب خاطرتواضع کی ۔اقبال کا کلام حیدرآبادمیں خوب پڑھا جاتا رہا اور ان کی شاعری پرداد بھی دی جاتی رہی۔حیدرآبادیوں کو اقبال سے اتنی محبت ہو گئی کہ ان کی زندگی ہی میں یوم اقبال منایا گیا ۔اگر چہ آج ملک کے کونے کونے میں یوم اقبال منایا جا رہا ہے لیکن اقبال کی وفات کے بعد ہی ،لیکن حیدرآباد ہی وہ واحد شہر ہے جس نے یہ یوم اقبال کی حیات میں بھی منایا ۔ان کے اس جلسے میں ہزاروں لوگوں نے شرکت کی یہ جلسہ حیدآباد کے ٹاؤن ہال میں منعقد کیا گیا تھا اور کہا گیا ہے کہ ٹاؤن ہال میں کرسیو ں کے علاوہ کھڑکیوں اور دروازوں پر بھی لوگوں کا ہجوم برپا تھا ،نظر حیدرآبادی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں :
’’۹ جنوری ۱۹۳۸ء کی خنک صبح اس طرح طلوع ہوئی کی باغ عامہ کے پرسکون اورخاموش ماحول میں ہلچل سی مچ گئی ۔نو بجتے بجتے پا پیادہ چلنے والوں ،سائیکل سواروں اور لمبی لمبی رنگ برنگی موٹروں کا ایک جلوس ٹاؤن ہال(باغ عامہ)کی طرف رواں دواں نظر آنے لگاَ ۔۔۔۔۔ہال بھر گیا ہال کے اوپر کی گیلریاں بھی بھر گئیں ۔حتیٰ کہ دروازوں اور کھڑکیوں پر مجمع نے قبضہ کر لیا ۔۔۔۔۔اتنے میں سیٹیاں بجنے لگیں ،یہ اعلان تھا کہ اس محفل کے صدر آپہنچے ہیں۔سارا مجمع ایستادہ ہوگیا ۔دیکھتے یہ دیکھتے اسٹیج لال، پیلی ،ہری اور سفید ستاروں ساد ہ ویر کار شیروانیوں اور ان کے وسط میں چمکنے والی بگلوں اور پٹیوں سے بھر گیا ۔لوگ اپنی اپنی نشستوں بیٹھ گئے ۔قرآن خوانی کے بعد فخر یار جنگ (صدر مسلم کلچر سوسائیٹی )نے تحریک صدارت کی اور نظام دکن کے ولی عہد شہزادہ برار نے مخصوص شاہانہ اندازمیں کرسی صدارت سنبھالی ۔‘‘۳؂
اس جلسہ میں شہزادہ برا ر نے مختصرافتتاحی تقریر کی اور اس کے بعدسر اکبر حیدری نے اپنے خیالات کا اظہار کرنے کے بعد چند پیامات پڑھے۔ یہ پیامات ڈاکٹر رابندر ناتھ ٹیگور ،مسز سروجنی نائیڈو،پنڈت جواہر لال نہرو ،ہز ہائینس آغا خان ،ہز ہائینس نواب صاحب بھوپال ،ہزہائینس نواب صاحب رامپور ،سکندر حیات خان وغیرو کے تھے ۔ان کے علاوہ بھی اہل دکن والوں نے یوم اقبال کے موقع پر مقالے پڑھے جن میں ڈاکٹر عبدالطیف(اقبال پر انگریز ی میں تقریر کی )،ڈاکٹر محی الدین قادری زور ،اکبر وفاقانی ،مولوی سید ہاشمی فرید آبادی وغیرہ کے نام شامل ہیں۔
مہاراجہ کشن پرشاد یوم اقبال کے موقع پراپنی تقریر میں یوں کہتے ہیں۔
’’اردو شاعری کی جنم بھوم میں آج کا دن ایک یادگار دن ہے کیونکہ آج ہم سر اقبال جیسے مشہور اور مقبول شاعر کی خصوصیات کی داد و تحسین کے لئے جمع ہوئے ہیں ،مجھے اس کی مسرت ہے کہ آپ نے اس جلسے کے دوسرے اجلاس کی صدارت کا اعزاز مجھے عطا کیا ہے میرے اقبال سے ذاتی تعلقات بھی ہیں یہی تعلقات مجھے اپنی کم نظری کے باوجود اس کا مستحق ٹھہراتے ہیں ۔‘‘
حیدرآباد میں جس طرح مرد حضرات نے اقبال کی شاعری یا ان کی زندگی سے جڑے حالات کو پیش کیا ہے ۔بالکل اسی طرح سے خواتیں نے بھی اپنے ادب میں اقبال کی شاعری یا ان کی ادبی زندگی کو جگہ عطا کی ہے کیونکہ اقبال کو جس نے پڑھا ہے اس کے دل و دماغ میں وہ ضرور کوئی دیر پا نقش چھوڑ گیا ۔اس کی شاعری کوئی روایتی شاعری نہیں بلکہ وہ ایک فلسفی تھا ۔جس نے اپنی شاعری میں قدرت کے مناظر اور قدرتی چیزوں کو پیش کیا ہے۔ انہوں نے انسانی مخلوق کو صیح راستے پر چلنے کا درس دیا ہے۔ انہوں نے بچوں ،نوجوانوں اور بوڑھوں سبھی کو اپنی شاعری سے راہ راست پر لانے کی کوشش کی جس میں وہ کامیاب بھی ہوئے ۔اگر یہ کہیں کہ اقبال نے بھٹکی ہوئی انسانیت کو راہ راست پر لایا ہے تو بے جا نہ ہوگا ۔
حیدرآباد کی ایک ادیباء لطیف النساء بیگم نے ’’اقبال کے کلام میں رجائیت کا عنصر ‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون لکھا جس میں انہوں نے اقبال کو ایک فلسفی اور تاریخ فلسفے کا ایک مبصر بھی بتایا ہے اور بتایا گیا ہے کہ اقبال ان شعرا ء سے نسبت نہیں رکھتا جو صرف تغزل کی زمینوں کو محدود سمجھ کر تصوف اور فلسفے کے روایتی زور میں ایک عالم رنگ و بو پیدا کرنا چاہتے ہیں اور وہ دماغی صلاحیتوں سے خالی ہوتے ہیں ا س ضمن میں ان کے مضمون سے ایک اقتباس ملاحظہ ہو ؛
’’وہ خود ایک فلسفی ہے ،اور تاریخ فلسفہ کا مبصر بھی ،ارسطو، افلاطون ،سیناد خادابی سے لے کر سیگل ؔ ،نطشےؔ ،شیلرؔ ،کارل مارکس ،برگساں اور ائین سٹائین کے نظریوں پر عالمانہ اور ناقدانہ عبور رکھتا ہے چونکہ وہ خود ایک منظم فکر کا حامل ہے اس لئے ان شعراء سے نسبت ہی نہیں رکھتا جو صرف تغزل کی زمینوں کو محدود سمجھ کر تصوف اور فلسفے کے روایتی زور میں ایک جدید عالم رنگ و بو پیدا کرنا چاہتے ہیں لیکن چونکہ ان کے دل و دماغ کسی مستحکم خیال اور فلسفہ حیات سے خالی ہوتے ہیں ۔‘‘
صغرا ہمایوں مرزا ،برسٹر ہمایوں مرزا صاحب کی بیگم ہیں یہ حیدرآباد کی ان بزرگ خواتین میں سے ہیں جنہوں نے حیدراآباد کی خواتین میں علم و ادب کا ذوق پیدا کیا کیونکہ شاد عظیم آبادی کے استاد فریادؔ عظیم آبادی ان کے خسر تھے ۔اسی وجہ سے انہیں اپنے ذوق کی تشکیل اور تعمیر کا اچھا موقع ملا۔ انہوں نے حیدرآباد سے ’’النساء‘‘ کے نام سے ایک رسالہ بھی جاری کیا تھا تو اس سلسلہ میں اقبال سے ان کی خط وکتابت بھی ہوئی تھی ۔صغراء ہمایوں جب ۱۹۲۸ء میں اپنے شوہر کے ساتھ کشمیر گئیں تو وہاں راستے میں لاہور میں چند روز قیام کیا ۔وہیں جس ہوٹل میں ان کا ٹھہراؤ ہوا تو اس کے نزدیک ہی میں اقبال کا مکان بھی تھا صغرا ہمایوں اور ان کے شوہر نے اقبال سے ملاقات کی وہ اپنی ملاقات کے تعلق سے لکھتی ہیں :
’’۱۹۲۸ء میں جب ہم کشمیر گئے ۔راستہ میں لاہور چند روز ٹھہرنا ہوا۔ہمارے ہوٹل کے بازو میں سر محمد اقبال مرحوم کا مکان تھا ۔پھاٹک پر بورڈ لکھا ہوا تھا ،بیرسٹر صاحب سر محمد اقبال سے ملنے گئے ۔اس کے بعد ان کی بیگم صاحبہ نے موٹر بھیج کر مجھے بلوایا میں نے ایک نظم نور جہاں کے مزار پر چڑھانے کے لئے لکھی تھی وہ ان کو دکھائی اس میں مرحوم نے اصلاح دی ۔اس لئے وہ میرے استاد بھی ہوئے اور میرے آٹو گراف البم میں سر محمد اقبال صاحب نے انگریزی میں ایک جملہ لکھا جس کا اردو ترجمہ درج کرتی ہوں ۔
’’اسلام کے تعریف میں چند الفاظ میں ظاہر کرتا ہوں ۔یعنی ذات باری پر پورا بھروسہ ہے اور موت سے متعلق میں نہیں ڈرتا۔‘‘
نوشابہ خاتون اور بشیر النساء بیگم نے اقبال پر نظمیں بھی لکھی ہیں ان کی نظموں کے عنوان اس طرح ہیں ؛اشک خونیں ،اقبال سے ،رحلت اقبال ،داستان اقبال ،اقبال کی آرام گاہ ،بہار آخریں وغیرہ ۔
ان کی نظم کا ایک شعر ملاحظہ ہو؛
تیرہ تاریک نظروں میں،نہ ہوں کیونکہ جہاں
سایہ اقبال سے محروم ہے ہندوستا ن ہمارا
لطیف النساء بیگم بھی ایک صاحب طرزشاعرہ اور نثر نگار ہیں انہوں نے بچوں کے لئے نظمیں لکھنے میں بڑی مہارت حاصل کی اقبال کی جب وفات ہوئی تو انہوں نے ایک ایسی نظم لکھی جس میں ایک بچہ اقبال کے بارے میں پوچھتا ہے یہ کون تھا،کدھر کا تھا جس کے چرچے ہر جگہ ہورہے ہیں تو ماں بھی اس بچے کو کیا کہتی ہے ۔بچہ جب پوچھتا ہے شعر ملاحظہ ہو؛
بچہ ؛
مری امی جان مجھ سے کہئے ذرا
یہ تھا کون اقبال جو مر گیا

خبر پڑھ کے اخبار میں موت کی
لگی رونے اس روز تھیں آپ بھی
ما ں ؛
مری جان تھا وہ بڑا آدمی
تڑپ قوم کی اس کے سینے میں تھی
بہت انہون نے ہم پر کئے ہیں کرم
جنہیں یاد کر کے روتے ہیں ہم
جگہ اس کی لے لو مرے لال تم
بڑے ہو کہ بن جاؤ اقبال تم
لطیف النساء بیگم
اقبال کی موت ۲۱اپریل ،۱۹۳۸ء کو ہوئی ان کی موت پر جس طرح سے ملک کی دوسری جگہوں پر جلسہ تعزیت کا انعقاد کیا گیا اس سے کہیں بڑھ چڑھ کر شہر حیدرآباد کے لوگوں نے بھی منایا ۔ان کی موت کے بارے جس نے بھی سنا اس کی آنکھیں ضرور اشک بار ہوئیں ۔یہاں پر علی اختر کا وہ شعرجو انہوں نے اقبال کی موت کے بارے سنتے ہی کہا تھا اس کو بیان کر رہا ہوں تاکہ اس سے آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ ان سے لوگ کس طرح کی محبت رکھتے تھے اور ان کی موت پر کس طرح کی بات دل سے نکال رہے تھے شعر ملاحظہ ہو ؛
کاش اپنی عمر کے ایام دے سکتا تجھے
اور واپس موت کے ہاتھوں سے لے سکتا تجھے علیؔ اختر
اقبال کی عمر درازی کے لئے ہر کسی نے دعا کی چائے وہ امیر ہو ،غریب ہو،ادیب ،خطیب،عالم یا کوئی سیاست دان ہو سبھی نے ان کی عمر درازی کے لئے دل سے دعا کی تھی لیکن قدرت کا نظام ہے جس نے ا س دنیا میں قدم رکھا اس کی واپسی ایک نہ ایک دن ضرور ہونی ہے ،موت برحق ہے اس کو ہر حال میں آنا ہی آنا ہے ۔
حیدرآباد کے شہریوں نے ایک ساتھ مل کر ’’زمردمحل تھیٹر ‘‘ میں ایک تعزیتی جلسہ منعقد کیا اس جلسے کی صدارت مسز سروجنی نائیڈو نے کی اور ا ن گنت لوگوں نے شرکت کی اس ضمن میں نظر حیدرآبادی نے یوں لکھاہے ،اقتباس :
’’شہر کے سارے کاروبار بند رہے ۔کالجوں اوراسکولوں میں چھٹی ہوگئی ۔دوسرے دن اضلاع حیدرآ باد کے تمام اسکولوں اور سماجی انجمنوں نے تعزیتی جلسے منعقد کئے ۔خود شہر حیدراآباد میں ایک عظیم الشان تعزیتی جلسہ زمرد محل تھیٹر میں ہوا ۔اجلاس کی صدارت مسز سروجنی نائیڈو نے کی ۔حاضرین کی تعداد شمار سے باہر تھی ۔صرف چار ماہ پہلے لوگ کس ذوق و شوق سے یوم اقبال کی تقریب سعید میں شرکت کے لئے ٹاؤن ہال میں پہنچے تھے لیکن اس وقت کی انبساط انگیز اور اس وقت کی کرب آمیز فضا میں کتنا فرق تھا ۔
آدمی محسوس کر سکتا ہے کہہ سکتا نہیں
ہاں سوچنے اور محسوس کرنے والوں کے لئے اتنا فرق ضرور واضح تھا کہ ’’یوم اقبال‘‘کی تقریب طلوع آفتاب کے بعد صبح کی چمکدار روشنی میں منائی گئی تھی اور یہ جلسہ تعزیت سرشام شروع ہوا ۔ادھر آفتاب غروب ہو رہا تھا اور ادھر ہزاروں آنکھوں میں اقبال کی یاد آنسو بن کر ’’طلوع ‘‘ہو رہی تھیں ۔‘‘
اس جلسہ میں مقررین نواب بہادر یار جنگ،ڈاکٹر عبدالحکیم ،ڈاکٹر یوسف حسین خان ،نواب مہدی یار جنگ تھے بیرون حیدرآباد سے جو حضرات تشریف لانے کے خواہاں تھے لیکن کسی بنا پر نہ آسکے انہوں نے اپنے پیامات بھیج دئے جن میں قائد اعظم ،راجہ صاحب محمودآباد ،پرنس آف برار ،سر اکبر حیدری ،سر مرزا اسماعیل ،سر سکندر حیات خان ،ڈاکٹر رابندر ناتھ ٹیگور ،پنڈت جواہر لال نہرو ،سر تیج بہادر سپرو ،سبھاش چندر بوس ،ڈاکٹر سید محمود اور سر سلطان احمد ۔
جس طرح سے اقبال کی وفات پرتعزیتی جلسہ منعقد کیا گیاتھا اسی طرح سے شاعر حضرات نے اقبال کی وفات پر نظمیں بھی لکھیں جن شعرا ء نے اقبال کی وفات پر نظمیں لکھیں ان کی نظموں کے چند اشعار درج کئے جارہے ہیں ۔
الوداع اے نطق کی سحر آفرینی کے امام
الوداع اے محفل معنی کے میر ا ہتمام
جا!کہ تیری منتظر تھی دیر سے خلد برین
اٹھ!کہ یہ دنیا ابھی اسرار کی محرم نہیں
علیؔ اختر
کس کی نظر نے اس کی نظر بند کردیا
اس برق جاں نواز کو پابند کردیا
مخدوم محی الدین
دلوں کی وادیوں میں پھول برساتا ہوا آیا
حجازی ’’لے ‘‘میں نغمہ ہند کا گاتا ہوا آیا
ماہرالقادری کہا اس نے مسلمان موت سے ڈرتا نہیں ہر گز
فسانہ حضر ت ٹیپو کا دھراتا ہو ا آیا
ماہر القادری
اقبال کے تعلقات بذریعہ خطوط جن جن حیدرآبادیوں کے ساتھ رہے ہیں ان کے نام حسب ذیل ہیں ،مہاراجہ کشن پرشاد ،مولوی عبدالحق ،ڈاکٹر عباس علی خان لمعہؔ ،نصیر الدین ہاشمی ،مسز صغرا ہمایوں مرزا،بہادر یار جنگ ،تصدق حسین تاج وغیرہ ہیں ۔ان سبھی کو جتنے بھی خطوط لکھے ہیں ان سے کچھ نہ کچھ مفید معلومات ضرور ملتی ہے ۔نظر حیدرآبادی لکھتے ہیں۔
’’مہاراجہ کشن پرشاد کے موسومہ خطوط بعض اعتبار سے بہت اہم ہیں ،کیونکہ ان کے مطالعہ سے ۱۹۱۶ء سے۱۹۲۶ء تک کی اقبال کی علمی،شعری اور سیاسی مصروفیات کی تفصیلات معلوم ہوجاتی ہیں اور بعض نظمیں کہاں اور کن حالات میں کہی گئیں اس کا علم بھی ہو جاتا ہے مثلاًیکم نومبر ۱۶ ؁ء کے خط کے دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ مثنوی ’’اسرار خودی ‘‘کے حصہ دوم کا کچھ حصہ لاہور سے باہر ایک گاؤں میں لکھا گیا اور یہ کہ اسی زمانے میں ان کے ذہن میں ’’ اقلم خموشاں ‘‘کے عنوان سے ایک نظم لکھنے کا خیال پیدا ہوا جس میں وہ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ مردہ قومیں دنیا میں کیا کرتی ہیں اور ان کے عام حالات و جذبات و خیالات کیا ہوتے ہیں ۔غالباً یہ خیال نظم کی شکل اختیار نہیں کر سکا ۔‘‘
اس لئے مختصراً ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اقبال کے روابط جس کے ساتھ بھی رہے گہرے رہے اور ہمیشہ علم و ادب کی ہی باتیں کرتے رہے۔ انہوں نے اپنی پوری شاعری قوم کی فلاح و بہبود کے لئے کی۔ ان کے ایک ایک شعر میں پوری زندگی سمائی ہوئی ہے ۔اقبال کے سفر بھی ادبی رہے جہاں بھی گئے وہاں کے لوگوں کو اپنی شاعری سے روشناس ضرور کرایااور ان کی شاعری کو بھی اہل علم وادب نے سنبھال کے رکھا اور اس سے آج کے شاعر بھی مستفید ہورہے ہیں ۔حیدرآباد میں خاص کر انہوں نے جو دو اسفار کئے ان سے یہاں کے اہل و علم وادب اقبال سے خوب روشناس ہوئے لیکن ان کے چاہنے والے ان کے یہاں کے سفر سے پہلے بھی لاتعدا د میں موجود تھے۔
حیدرآباد ہی وہ شہر ہے جس نے اقبال کی زندگی ہی میں یوم اقبال منایا کسی شخصیت کا یوم منایا وہ بھی اس کی زندگی میں گویا اس سے والہانہ محبت کا ثبوت ملتا ہے۔
—–
ریسرچ اسکالر، یونیورسٹی آف حیدرآباد
ای ۔میل ؛
فون نمبر ؛9086881658

Share
Share
Share