کتاب کا نام: ابابیل کی ہجرت (افسانے)
مصنف: ڈاکٹر شاہد جمیل (9430559161)
مبصر: محمد علیم اسماعیل (8275047415)
’’ ابابیل کی ہجرت ‘‘ ڈاکٹر شاہد جمیل (پٹنہ) کا پہلا افسانوی مجموعہ ہے۔جو دسمبر 2018 میں شائع ہوا ہے۔افسانوں کی فہرست کچھ اس طرح ہے،’’جالے میں پھنسی مکڑی،گردشِ ایام،مردم گزیدہ،دست و بازو،مہاجر،اپنے پرائے،نجات،ایک جنگ اور،تہی دست،تحفہ،تھوتھو،داغ،محبت کا صلہ،صحرا میں بھٹکتی چڑیا،ابابیل کی ہجرت۔‘‘مجموعے میں شامل افسانے ہندوپاک کے معتبر معیاری ادبی رسائل میں شائع شدہ ہیں۔اور سبھی افسانے ایک سے بڑھ کر ایک ہیں۔
ڈاکٹر شاہد جمیل لکھتے ہیں:’’انشاء اللہ قارئین کو ٹھگے جانے کا احساس نہیں ہوگا کہ اس میں بھرتی کے افسانے شامل نہیں ہیں یعنی کوئی نمبر ون اور کوئی نمبر دو نہیں۔‘‘
ڈاکٹر صاحب کا پہلا افسانہ’’جالے میں پسی مکڑی‘‘ اگست 2006 ماہنامہ ایوان اردو دہلی میں شائع ہوا تھا۔اور اب گیارہ/بارہ سال بعد ان کا پہلا مجموعہ آیا ہے۔ان گیارہ بارہ برسوں میں وہ اپنے افسانوں کو ایک قاری اور ایک ناقد کی حیثیت سے بار بار پڑھتے اور ترمیم کرتے رہے۔قارئین کی چاہتوں کو پورا کرتے رہے۔اور ناقدین کے اعتراضات کو رفع کرتے رہے۔جب کہیں جاکر پتھر سے صنم نکالنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
کمھار مٹی کا برتن بنا کر دھوپ میں رکھ دیتا ہے پھر دوبارہ اس کی جانب مڑ کر نہیں دیکھتا۔ لیکن ایک سنگ تراش ایسا نہیں کرتا۔وہ گھوم پھر کر آئے گا، دیکھے گا کہ ناک کچھ لبمی ہو گئی ہے اور درست کر دے گا۔یہی وجہ ہے کہ رسالہ چہارسو راولپنڑی پاکستان،دو ماہی گلبن لکھنؤ اور مجموعے میں شائع افسانہ’مہاجر‘میں بڑا فرق ہے۔بس ڈاکٹر شاہد جمیل نے بھی اپنے تمام افسانوں کی ایک سنگ تراش کی مانند نوک پلک سنواری ہے۔انھوں نے کتاب کے لیے کسی کے آراء نہیں لیں۔ اس لیے کور پیج میں اپنے ہی افسانوں سے اقتسابات اخذ کرکے لگادیے۔ گویا اپنے ہی سامان کو شوکیس میں رکھ دیا۔
’ ابابیل کی ہجرت ‘ ٹائٹل افسانہ ہونے کے ساتھ ساتھ مجموعے کا سب سے آخری افسانہ ہے۔ظفر،سمینہ،دادی،ابا،اماں اور معین چچا افسانے کے اہم کردار ہیں۔افسانے میں منظر نگاری کمال کی ہے۔تمام مناظر ذہن کے پردوں پر حرکت کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔افسانے کی زبان کافی دلچسپ ہے۔گھریلو زندگی کی عام نوک جھونک کا ڈاکٹر صاحب نے نہایت ہی گہرائی اور باریک بینی سے مشاہدہ کیا ہے۔انھوں نے زندگی کو بہت ہی قریب سے دیکھا ہے اور آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا ہے۔
میاں بیوی کی تو تو میں میں، باپ کے انتقال کے بعد بیٹے کا اچانک اپنے گھر کا ولی بن جانا اور تمام ذمہ داریوں کا بوجھ اسی کے سر آجانا۔لوگوں کی جھوٹی ہمدردی,پیٹ کی آگ,تن کے تقاضے,سماجی ضروریات اور اپنوں کی بے وفائی,منصوبہ بند تدبیر اور حکمت عملی۔ ۔ ۔ ۔ان تمام کو ڈاکٹر صاحب نے بڑی خوبی سے نبھایا ہے۔مشتاق احمد نوری فر ما تے ہیں،’’گرد و پیش پر گہری نگاہ اور بہترین جزویات نگاری کے لیے تم ہمیشہ یاد کیے جاؤگے۔‘‘
افسانہ گردش ایام ایک بہترین دلچسپ افسانہ ہے۔جس میں تمثیل احمد، غزالہ، بیگم شرجیل احمد، نکی اور ببلو افسانے کے متحرک کردار ہیں۔ اس افسانے میں اپنی بہو سے ناراض ہے۔اور وہ ڈاکٹر کی مدد سے اپنے بیٹے سے جدا ہو کر واپس اپنے گاؤں لوٹ جاتی ہے۔دراصل وہ اپنے بیٹے کو کسی پریشانی میں دیکھنا نہیں چاہتی۔
افسانہ’مہاجر‘زندگی سے ہارے ہوئے شوہر اور مکمل آزادی کی خواہش مند بیوی کی کہانی ہے۔آج کل چند عورتیں آزادی کا مطالبہ کر رہی ہیں،حقوق کی باتیں کر رہی ہیں لیکن المیہ یہ ہے کہ انھیں حقوق اسلامی اور آزادی مغربی چاہیے۔ڈاکٹر شاہد جمیل کے مطابق’’میاں بیوی میں تو تو میں میں، سرحدی جھڑپوں سی ہوتی ہیں اور سیز فائر کا معاہدہ ٹوٹتا رہتا ہے۔‘‘
جب بیوی سسرالی بندھنوں سے آزادی کی طلب گار ہو تب گھر کا سارا سکون غارت ہو جاتاہے۔گھر جہنم بن جاتاہے۔آدمی دن بھر کی مسافت سے تھک تھکا کر جب گھر آتا ہے تو وہ سکون چاہتا ہے۔اور جب کہیں بھی سکون نہ ملے تو وہ گھر سنسار کیا زندگی سے ہی بے زار ہو جاتاہے۔
شوہر نے بیوی کو عیش بھری زندگی کا تحفہ کچھ یوں دیا کہ بستر پر وصیت، دستاویزات، بینک اکاؤنٹ، بلینک چیک، کارڈ مع پن، دکان کی چابیاں رکھ کر گھر بار چھوڑ دیا۔نامعلوم منزل کی جانب چلتا رہا، ناہموار راہوں پر دن رات بھٹکتا رہا۔جب تھک کر چور چور ہو جاتا اور دم اکھڑنے لگتا تو کچھ آرام کر لیتا۔اپنے پیروں کو خود ہی دباتا، اپنے زخموں کو خود ہی سہلاتا۔ پھر پر خطر راہوں پر سفر کے لیے اٹھ کھڑا ہوتا اور ایام زندگی کو اسی طرح خرچ کرتارہا۔
آج تک ہم نے عورتوں پر ظلم کی داستانیں سنی اور پڑھی تھیں لیکن مرد بھی مظلوم ہوتے ہیں۔یہ صرف عہد جدید میں نہیں یہ تو ہر دور میں ہوا ہے۔پر ہم نے سکے کا ہمیشہ ایک ہی پہلو دیکھا ہے۔تخلیقیت واقعات کے رگ و پے میں سرایت کر گئی ہے۔کہانی اپنے وجود میں انسانی کرب کو سمیٹ کر سماجی مسائل کی طرف اشارہ کر رہی ہے۔
گھریلو زندگی کے مسائل کا ڈاکٹر شاہد جمیل نے نہایت ہی باریکی سے جائزہ لیا ہے۔ان کا مشاہدہ بہت گہرا ہے۔انھوں نے زندگی کو بہت ہی قریب سے دیکھا ہے اور آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا ہے۔یہی وجہ ہے کہ روز مرہ کے چھوٹے چھوٹے واقعات کو انھوں نے تخلیقیت سے بھر دیا ہے۔
جب انسان کو اپنی موت یقینی لگتی ہے تو فطری بات ہے کہ اسے اپنے گھر پریوار کی یاد ستاتی ہے۔وہ اپنوں کے درمیان زندگی کی آخری سانسیں لینا چاہتا ہے،چاہے وہ اپنے کتنے ہی بیگانے کیوں نہ ہو۔آخر میں ڈاکٹر صاحب نے یہ بات بھی جتلادی کہ تالی کبھی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی۔بیوی کی کچھ غلطیاں ہیں تو شوہر کی بھی کوتاہیاں ہیں۔مصنف نے بتایا ہے کہ زندگی باہمی اشتراک سے چلتی ہے۔ایک دوسرے کے لیے قربانی کا جذبہ رکھنے سے ہی گھر پریوار کی دیواریں مضبوط ہوتی ہیں۔افسانے کی پیشکش اتنی دلچسپ ہے کہ قاری کو اپنی گرفت میں آنے پر مجبور کر دیتی ہے۔قاری اپنے آپ کو افسانے کی رواں لہروں کے حوالے کر دیتا ہے اور اسی کے ساتھ بہتا چلا جاتا ہے۔ ڈاکٹر شاہد جمیل ایک ایسے فنکار ہیں جن کے یہاں زندگی کی ناہمواریوں کے خلاف احتجاج ہے،جدوجہد ہے،ٹکراؤ ہے۔
سب ہی افسانوں کے پلاٹس منظم ہیں۔مکالمے مناسب ہیں۔افسانوں میں اپنے عہد کے رسم و رواج پوری آب و تاب کے ساتھ سانسیں لے رہے ہیں۔انھوں نے معاشرے کی دکھتی رگوں کو پکڑا ہیں۔ہمارے آس پاس بے شمار کہانیاں بکھری پڑی ہیں دوستو۔مسائل وہی ہیں، موضوعات وہی ہیں جن پر لکھا جا چکا ہے اور لکھا جا رہا ہے۔ڈاکٹر شاہد جمیل نے بھی اپنے آس پاس بکھرے ہوئے گھریلو زندگی کے عام مسائل کو گہرے مشاہدے کے بعد افسانوی قالب میں ڈھالا ہے۔لیکن منفرد و دلکش اسلوب اور تخلیقی زبان و بیان نے عام واقعات کو شہکار بنا دیا ہے۔
ضخامت: 208 صفحات , قیمت : 250
ملنے کا پتہ: بک امپوریم، پٹنہ (09304888739)
——