انشائیہ
انا پرستی
جمشید احمد میاں
سینٹرل یونی ورسٹی آف کشمیر
خود پر یقین ہونا قابل تحسین بات ہے لیکن جب نظر ’’خود‘‘تک محدود ہو کر رہ جائے تو غور و فکر کا مسئلہ بن جاتا ہے اور ایسا نظر آتا ہے کہ یہ لفظ’’خود‘‘ تو تھا ہی اب ’’میں‘‘ہو چلا،ایک چھوٹے سے جگر میں وہ لفظ سمانے کی ضد جو اس کی شان نہیں۔ایک نشہ اترتا چلا جاتا ہے،ایسے کمزور انسان میں جس کے حواس بگڑتے چلے جاتے ہیں۔
ظاہر ہے جب انسان کی عقل میں فطور آہی جائے تو مختلف قسم کی بیماریاں خود بخود د عوت قبول کرتی ہے۔ایسے میں غرور خود ظاہر ہونے لگتا ہے،جو ایک بد ترین کیفیت ہے انسانوں کے لیے کیونکہ یہ صفت خداکی شان جو ٹھہری۔ہر شخص کا ایک نظریہ ہوتا ہے،اور الفاظ کے بول کا الگ اپنا معنی بھی،اس لیے وہ جو زبان بولتا ہے غور طلب ہوتی ہے۔جیسے’’میں کر سکتا ہوں‘‘کے بجائے’’صرف میں ہی کر سکتا ہوں‘‘میں بھی ہوں‘‘کے بجائے’’صرف میں ہی ہوں‘‘رہ جاتا ہے۔یہاں ان چھوٹے جملوں سے بڑی باتیں نظر آنے لگتی ہیں جیسے انسان کی پہچان،جو چیز خواص اور محدودہو کر رہ جاتی ہے اوروں سے کٹ جاتی ہے۔انسان کا مسلہ بھی کچھ ایسا ہی ہے،خود پسند انسان کی زندگی اکثر اوروں پر گراں گزرتی ہے جو نا قابل برداشت کی شکل اختیار کر کے رشتوں میں درار اور تلخی پیدا کر دیتی ہے۔محبتیں ختم ہو جاتی ہے،عظمتوں کا گلا گھٹ جاتا ہے یقین وہم سے ہو کر گزرتا ہے،نفرتیں بڑھتی چلی جاتی ہے۔جہاں انسان کو درد بانٹنے والے نہیں ملتے،بس اس کی زندگی جو ’’میں‘‘تک تھی اب الگ اک تنہا ویرانی کا نام رہ جاتی ہے۔نہ جانے لوگ اس انا پسندی کے بار کو کیسے اٹھا پاتے ہیں؟نہ جانے یہ فطرت لوگوں کے وجود میں کیسے آ گئی ہے؟کچھ ایسے سوال ہیں جن کا جواب ’’میں‘‘سے گزر کر ’’پوری زندگی کا مطالعہ‘‘ چاہتی ہے،جو اوروں کی نقل کا آئین ہے ،کیونکہ دنیا میں ہر سبق،ہر ہنر سیکھنے کو مل جاتا ہے کچھ اچھے اور حسین ہوتے ہیں،تو کچھ زندگی کے حسن کو تباہ کرنے کا باعث۔صحبت سے جو مل جاتا ہے زندگی کا حصہ بن جاتا ہے لیکن غور و فکر کرتا ہوں تو یہ انا پسندی کا کاروبار جس کا سودہ سوائے نفرت کے کچھ نہیں،ہمیشہ لبوں کی مسکراہٹ سلب کر لیتی ہے۔صحبت اچھی مل جائے تو زندگی آسان اور خوشگوار بن جاتی ہے،ایسی راہیں خود مل جاتی ہے جن سے منزل صاف دکھائی دیتی ہے،گر بری مل جائے تو صرف افسوس اور المیہ باقی،منزل کا راستہ تو دور انسان خارزار رستوں میں تڑپتی ہوئی آواز بن کر پھنس جاتا ہے،ایسی مصیبت میں درد بانٹنے والے تو دور ،درد سننے والا نہیں ملتا۔
زندگی کا سفر انسان خود شروع کرتا ہے،حوشیار بننے کے لئے ایسے لوگوں کو پسند کرتا ہے،جو زبان اور فطرت کے کمال سے اوروں کو ہرا دینے،دبانے،گرانے ،درد والم اور دل چیرنے کا ہنر رکھتے ہیں۔کیا بلا ہے؟بے گناہ پیدا ہوا ،ایسے ایسے ہنر سیکھے جس سے اپنی ذات و صفات بدل کر رکھ دی۔یہ حاضر جوابی ، غرور میں عزت نظر آنا،اوروں کو کمتر سمجھنا ،زبان کی کڑواہٹ،دل چھلنی کرنے والی ادائیں،تلخ گوئی اور حرکات و سکنات سے اوروں پر چھانے کا گھمنڈ،غیروں کے ساتھ ساتھ اپنوں کو بھی رسوا کرنا،یہ بد اخلاقی یہ خود غرضی،ملال کر کے ڈٹے رہنا اپنی ضد پہ،یہ نفرت یہ نشہ نہ جانے کتنے زمانے کے بد ترین ہنر اس ’’انانیت‘‘کا غذا بن گئے۔پر حقیقت یہ ہے کہ انسان ازل سے ابد تک محتاج ہے ہر امر کے کرنے کو،یہ بات الگ ہے کہ کوئی کہہ دے نہیں ہے،شاید پھر وہ قرآن کا یہ قول بھول جاتا ہے اور جاہل ثابت ہوتا ہے کہ وہ تھا کیا؟کس سے پیدا ہوا’’ایک گندے پانی کے قطرے سے جو عورت کے رحم میں ٹپکا یا گیا،مدت گزر جانے کے بعد پھر وہ خون کی شکل ہو گیا اس کے بعد گوشت کا ٹکڑا ہو گیا اور اللہ تعلی نے اس میں ہڑیاں پیدا کر دی پھر اس کے اعضاء درست کئے پھر اس کی شکل و صورت بنا دئی اور دو قسموں میں کر دیا ،مرد اور عورت۔اور جب پیدا ہوااور دھیرے دھیرے بلوغیت کو پہنچ گیا تو غرور کر کے کہتا ہے کہ میں’’میں‘‘ ہوں نہ جانے کس کو دھوکہ دے کر کہتا ہے کہ، میں فلاں ہوں ،اپنی پہچان نہیں بلکہ جاہل اپنے پیشے ،طبقے،رتبے کو اپنی پہچان کہا کرتا ہے کہ فلاں ہوں اور بھول جاتا ہے کہ ’’میں‘‘کیا ہوں۔۔۔؟