کالم : بزمِ درویش
قسمت کا کھیل
تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ای میل:
ویب سائٹ: www.noorekhuda.org
امریکہ سے دس سال بعد وہ پاکستان واپس آیا تھا ‘ میری اُس سے آخری ملاقات دس سال پہلے ہوئی تھی جب آتش جوان تھا ‘ اب اُس کے بالوں سے چاندی چھلک رہی تھی چہرے پر بڑھاپے کی لکیروں کا جال بننا شروع ہو گیا تھا ‘ امریکہ جانے سے پہلے میری اِس سے تین طویل گفتگو کی نشستیں ہو ئی تھیں یہ اپنے وقت کا ذہین ترین ‘ چالاک ‘ معاملہ فہم ‘
دنیا کے نشیب و فراز سمجھنے والاچالیس سالہ بیوروکریٹ تھا ‘ قدرت نے ایسے بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا تھا ‘ اپنے بے پناہ ٹیلنٹ کی بدولت اس نے جو چاہا اُسے پاکر چھوڑا ‘ ترقی کے زینے چڑھتا چڑھتا یہ خود ستاسی کے زعم میں مبتلا ہو کر خدا کو بھول بیٹھا تھا ‘ اس کا چھوٹا بھائی کسی لڑکی کے عشق میں مبتلا ہو گیا تھا ‘ ملک کے مشہور بیوروکریٹ کے بھائی نے اپنی غریب کلاس فیلو پسند کر لی تھی یہی بھائی کا جرم تھا یہ معاشرے کے درمیانے طبقے سے تھا لیکن اچھی پوسٹوں پرتعیناتی‘ سینئر افسران کے ساتھ اچھے تعلقات ‘ حکومتی وزرا کے ساتھ خوش گوار تعلقات ‘ قدرتی بے پناہ ذہانت کی وجہ سے ہر مسئلے کا حل چٹکیوں میں نکال لیتا اب یہ تقدیر قسمت کی بجائے ذاتی ذہانت تعلقات پر زیادہ یقین کر تا تھا اِسے انسانی دماغوں سے کھیلنا اچھی طرح آگیا تھا ‘ ماتحت افسروں کو کس طرح دبا کر رکھنا ہے ‘ اعلی افسران کی چاپلوسی اور اُن کا فیورٹ کیسے بننا یہ تمام اسرار و رموز اِس کے دائیں ہاتھ کا کھیل تھا ‘ اپنی بے پناہ ذہانت نو کری کے طریقے اعلی افسران اور حکومتی اہلکاروں کے ساتھ شاندار تعلقات کی بنا پر اِس نے بہت زیادہ دولت اکھٹی کر لی تھی اتنی زیادہ دولت کے اِس کی اگلی تین نسلیں روپے جلاتی بھی تو دولت ختم نہ ہوتی اِس کا یہ دعوی تھا کہ انسا ن اپنی تقدیر خود بناتا ہے قدرت نے ہر انسان کو بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا ہے جواُ ن صلاحیتوں کو استعمال کر نے کا آرٹ جانتا ہے وہ کامیاب ہے جو اپنی صلاحیتوں کی بجائے غیر پیداواری سر گرمیوں میں وقت ضائع کرتا ہے وہ معاشرے میں ناکام زندگی گزارتا ہے یہ زندگی کو ریا ضی کے کلیوں کی طرح حل کر نے کا قائل تھا دولت تعلقات ہی ہر مسئلے کی چابی ہے یہ اسی فلسفے پر عمل کر تا معاشرے کا کامیاب ترین انسان بن چکا تھا اِس نے اگلے بیس سال کا پلان بنایاہوا تھا کہ خوب پیسا اکٹھا کر کے اُس پیسے کو امریکہ بھیج کر وہاں جا کر کامیاب زندگی گزارنی ہے یہاں سے وہ اِس لیے جانا چاہتا تھا کہ یہاں پر سیکورٹی کے حالات اطمینان بخش نہیں تھے وہ اب ایک کامیاب بزنس مین بننا چاہتا تھا ‘ یہاں سے نوکری چھوڑ کر اپنی بے پناہ دولت کے بل بوتے پر امریکہ میں اپنی کاروباری سلطنت قائم کر نا چاہتا تھا جوان ہونے اور سول سروس جوان کر نے کے بعد اُس نے اپنی آنے والی زندگی کا پلا ن بنایا اُس کے تحت پہلے امیر ترین بیوروکریٹ کے گھر شادی جو اُس نے کر لی اِس طرح وہ اپنی غربت اور تعلقات کی کمی کو پورا کر نا چاہتاتھا جو اُس نے کر لیا دوسرا منصوبہ یہ تھا کہ صرف دو ہی بچے جن کی پرورش وہ اپنے شاندار منصوبے کے تحت کر ے گا قدرت نے اُسے بیٹا بیٹی دونوں دئیے جن کی سکولنگ وہ ملک کے اچھے مہنگے ترین تعلیمی اداروں میں کرا رہا تھا اب اُس نے دولت کے انبار بھی لگا لیے تو اب اُس نے ملک چھوڑنے بلکہ چھٹی کر کے امریکہ جانے کا فیصلہ کیا پاکستا ن میں موجود جائیداد کا وارث وہ اپنے چھوٹے بھائی کو بنانا چاہتا تھا اُس کے مشن میں یہ بھی تھا کہ اپنے چھوٹے بھائی کی شادی بھی وہ بااثر دولت مند ترین گھرانے میں کرائے گا تاکہ اُس کی پاکستان والی جائیداد بھی محفوظ رہے جب کبھی وہ پاکستان آئے تو آرام کر کے دوستوں سے مل کر واپس چلا جایا کرے ‘ جب بھائی نے اُس کے منصوبے کے تحت کسی امیر گھر میں شادی سے انکار کر کے کسی دینی غریب کلاس فیلو سے شادی کا ارادہ کیا تو گھر میں بھو نچال آگیا پہلی بار اِس کے منصوبے کے رنگ پھیکے ہو نے شروع ہو ئے ‘ اِس نے بار بار بھائی کو سمجھایا لیکن وہ بلکل بھی نہ مانا تو زندگی میں پہلی باربے بسی ناکامی کے ذائقے سے متعارف ہوا اب اِس ناکامی کو کامیابی میں بدلنے کے لیے اِس نے ملک کے مشہور بابوں نجومیوں کے پاس جانا شروع کر دیا کسی نے میرا بتا یا تو میرے باس کو فون کر کے مجھ سے ملنے آگیا ‘ بھائی بھی ساتھ تھا ‘ دونوں سے گفتگو کے بعد میں نے کہا آپ بھائی کی شادی اُس لڑکی سے کر دیں جہاں پر یہ چاہتا ہے یہ بات اُسے بلکل بھی منظور نہ تھی اگلے دل باس کا فون کرا کر پھر اکیلا آیا اور بولا جناب میں آپ سے مشورہ نہیں مدد لینے آیا ہوں کہ میرا بھائی وہاں شادی کرے جہاں میں چاہتا ہوں تو میں نے پھر سمجھایا کہ آپ جہاں بھائی کہتا ہے وہیں کر دیں تو اُس نے مجھے چیلنج کیا میں جو منصوبہ بناتا ہوں اُس کو کامیاب کر نے کا آرٹ مجھے آتا ہے میں بھائی کو مجبو ر کر دوں گا کہ وہ میری بات مانے باتوں کے دوران اُس نے اپنی بیٹی کی تاریخ پیدائش نام وغیرہ اور تصویر بھی دکھائی تو میں نے کہا یہ ضدی مزاج لڑکی ہے اِس کی شادی دھیان سے کیجئے گا یہ اپنی مرضی کر ے گی تو بیوروکریٹ صاحب بپھرا گئے آتش فشاں کی طرح پھٹنے لگا میں تقدیر قسمت وغیر ہ کو نہیں مانتا بہترین پلانر ہوں جو سوچھتا ہوں اُس پر کامیابی سے عمل کر کے دکھاتا ہوں اِس کے بعد وہ ایک بار پھر میرے پاس آیا لمبے چوڑے دعوے خود ستاشی کی باتیں کر تا رہا اور ساتھ یہ بھی بتایا کہ میں اپنے بھائی کی شادی وہیں کروا دی ہے جہاں میں چاہتا تھا اب میں نے لمبی چھٹی لے لی ہے اب میں امریکہ جارہاہوں میری اور اُس کی طویل بحث اس پر ہوئی کہ آخر کار ہو تا وہی ہے جو خدائے لازوال چاہتا ہے انسان کو اُس کی محبت کو شش کا پھل ضرور ملتا ہے لیکن قدرت نے ہر انسان کے لیے مخصوص میدان کا انتخاب کر رکھا ہوتا ہے انسان دھکے کھاتا آخر کار اُس میدا ن میں ہی جاکر شاندار کامیابیاں حاصل کر تا ہے لیکن وہ بلند با لا دعوے کر تا چلا گیا کہ انسان اگر بہترین منصوبہ ساز ہو تو تقدیر مقدر قسمت لونڈیوں کی طرح قدموں کو چومتی رہتی ہیں جبکہ میں اِس بات پر بضد تھا کہ فطرت کا سادہ سا اصول ہے اگر آپ یہاں پر اچھائی بھلائی انصاف کی پنیری کاشت کرو گے تو پھل بھی میٹھا ہی کھاؤ گے اگر آپ جھوٹ فریب چالاکی عیاری تعلقات کی بنا پر وقتی کامیابیاں حاصل کر لیتے ہو تو دنیا میں ہی اُس کی سزا کاٹ کر جاؤ گے وہ بضد تھا میں نے ناجائز دولت کمائی ہے مجھے سزا کیوں نہیں ملی ‘ میں بضد تھا کہ اللہ نے زندگی دی تو ہماری ایک اور ملاقات ہو گی جب آپ کے بلند بانگ دعوے جھاگ کی طرح بیٹھ چکے ہو ں گے آپ مانیں گے کہ قسمت تقدیر کے فیصلے آکر کار ہو کر رہتے ہیں پھر یہ چلا گیا آج دس سال بعد ہارے ہو ئے جواری کی طرح میرے سامنے سر جھکائے بیٹھا تھا اُس کی آواز کی گرج اکڑی گردن خم ہو چکی تھی وہ میرے سامنے شکست خورہ انسان اپنی متاع حیات لٹا کر بیٹھا تھا اُ س نے بولنا شروع کیا پروفیسر صاحب آپ درست فرماتے تھے میں نے زبردستی بھا ئی کی شادی کی امریکہ چلا گیا میرے جاتے ہی اُ س نے بیوی کو طلاق دے کر اپنی کلاس فیلو سے شادی کر لی ‘ میں نے امریکہ جا کر بے پناہ دولت کے بل بو تے پر کاروبار شروع کیا دولت کی فراوانی کے باعث دن رات ترقی کر نے لگا ‘ میں اپنے منصوبے میں کامیاب ہو چکا تھا میں خود دفریبی کے سحر کے مبتلا ہو چکا تھا کہ میں نے کامیا ب منصوبہ بندی سے ناکامی کو شکست دے دی ہے لیکن کہیں سے قدرت کا ہاتھ حرکت میں آیا میری عقل و دانش جہالت کے گڑھے میں غرق ہو تی چلی گئی جوان ہو تے ہی میری بیٹی نے کالے حبشی سے دوستی کر لی ‘ میرے سمجھانے منع کر نے پر گھر چھوڑ کر چلی گئی جاکر بغیر شادی کے کالا بچہ پیدا کر لیا یہ میری پہلی شکست تھی اب میں نے اپنے اکلوتے بیٹے کے ساتھ بزنس پر دھیان دینا شروع کیا تو اچانک ایک دن میں اور میرا بیٹا شاپنگ کرنے گئے میرے سامنے میرا بیٹا دھڑام سے زمین پر کر لیا اُس کے چہرے سے خون ابل رہا تھا بعد میں پتہ چلا ایک اندھی گولی پتہ نہیں کہاں سے آکر میرے بیٹے کو ہلاک کر گئی ‘ آج تک پتہ نہیں چلا گو لی کدھر سے آئی ‘ اپنی کل کمائی اولاد سے میں محروم ہو چکا تھا میں بیٹی کے خلاف تھا جب بیٹی کالے کے ساتھ بچہ لے کر گھر آتی تو میں پاگل ہو جاتا ‘ بیٹی کو گھر آنے سے منع کیا تو اُس کی حمایتی بیگم نے اُس کا ساتھ دیا ‘ لڑا ئی جھگڑا بڑھا تو بیگم بھی بیٹی کے پاس چلی گئی میں شکست خوردہ انسان پاکستان آگیا ‘ اپنی دولت فلاحی کاموں میں لگا دی آپ کی یاد آئی تو چلا آیا پروفیسر صاحب ہم لو گ وقتی طور پر اپنی چالاکی سے کامیاب ہو جاتے ہیں لیکن جب خدا کی سزا کا عمل شروع ہو تا ہے تو فرعون جیسے زمینی خدا نیل کی موجوں میں خشک تنکے کی طرح بہہ جاتے ہیں ۔