اسلام کے پہلے ہی کلمہ میں خلافتِ الٰہیہ کی دعوت
مفتی کلیم رحمانی
8329602318 Mob:
قرآن مجید میں ارشادِ ربّانی ہے :
اَلَمْ تَرَا کَےْفَ ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلاً کَلِمَۃً طَیِّبَۃً کَشَجَرَۃٍ طَیَّبَۃٍ اَصْلُھَا ثاَبِت’‘
وَ فَرْعَھَا فِیْ السَّمٰآءِ ۔ تُوَتِی اُکُلَھَا کُلَّ حِےْنٍ بِأِذْنِ رَبَّھَا وَےَضْرِبَ اللّٰہُ الْاَمثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّلھُمْ ےَتَذَکَّرُوْنَ ۔ ( ابراھیم : ۲۵،۲۴)
’’ کیا آپ نے نہیں دیکھا اللہ تعالی نے کلمہ طیّبہ کی کیسے مثال بیان فرمائی ، جیسے کوئی اچھا درخت ہے اس کی جڑ مضبوط ہے اور اس کی ٹہنیاں آسمانوں میں ہے ہر وقت وہ اپنے رب کی اجازت سے پھل لاتا ہے، اور اللہ لوگوں کے لئے مثالیں بیان کرتا ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔ ‘‘
مذکورہ آیت میں جس کلمہ طیبہ کی مثال بیان کی گئی ہے اس سے مراد کلمہ لاالہ الا اللہ ہے جو اسلا م کا سب سے پہلا کلمہ ہے اس کو کلمہ تو حید بھی کہتے ہیں کیوں کہ اس میں اللہ کے ایک معبود ہونے کا ذکر ہے، اس کو کلمہ ایمان بھی کہتے ہیں کیوں کہ اس کی تصدیق و اقرار کے بغیر ایمان درست نہیں ہوتا۔
کلمہ طیبہ کو جس درخت سے تشبیہ دی گئی ہے اس کی چار خصوصیات بیان کی گئیں۔پہلی یہ کہ وہ درخت اچھا ہے دوسری یہ کہ اس کی جڑ مضبوط ہے، تیسری یہ کہ اس کی ٹہنیاں آسمان میں ہیں ، چوتھی یہ کہ وہ ہر وقت پھل لاتا ہے۔ جب کلمہ طیبہ کو ایسے درخت سے تشبیہ دی گئی تو لازماً اس میں بھی اس طرح کی چار خصوصیات ہوں گی ، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے مثال بیان کرنے کے بعد فرمایا کہ لوگ اس سے نصیحت حاصل کریں۔
اب اگر درخت کی ان چار خصوصیات کو کلمہ پر منطبق کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ چاروں ہی خصوصیات کلمہ طیبہ پر پورے طور پر صادق آتی ہیں، اور یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ کلمہ طیبہ کی اس مثال میں عقیدہ و عمل کی مضبوطی کے ساتھ حکومت الٰہیہ کی دعوت بھی شامل ہے۔
مذکورہ مثال میں سب سے پہلے جو بات قابل توجہ ہے وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے کلمہ طیبہ کو ایک درخت سے تشبیہ دے کر انسانوں کو یہ پیغام دیا کہ کلمہ طیبہ کا اس زمین سے گہرا تعلق ہے، جس طرح درخت کا زمین سے گہرا تعلق ہوتا ہے، اور جب کلمہ طیبہ کا زمین سے گہرا تعلق ہے تو ظاہر ہے زمین پر بسنے والی تمام مخلوقات سے کلمہ طیبہ کا گہرا تعلق ہوگا، اس سے یہ بات واضح ہوئی کہ جو لوگ اس زمین پر کلمہ طیبہ کے تعلق کے ساتھ زندگی گذارتے ہیں وہ اپنی اصل پر قائم ہیں، اور جو کلمہ طیبہ کے تعلق کے بغیر زندگی گزارتے ہیں وہ اپنی اصل سے ہٹے ہوئے ہیں اوراس زمین پر بوجھ بنے ہوئے ہیں۔
ساتھ ہی اس سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ جس طرح درخت کی صحیح نشونما زمین سے تعلق کے ساتھ ہوتی ہے، اسی طرح انسانی زندگی کی صحیح نشونما کلمہ طبیبہ کے تعلق کے ساتھ ہوتی ہے، اور جس طرح درخت کا زمین سے تعلق ختم ہوجانے سے درخت زمین پر گرجاتا ہے اور سوکھ جاتا ہے اسی طرح انسان کا اس کلمہ سے تعلق ختم ہوجانے سے انسان اپنے حقیقی مقام سے گرجاتا ہے اور اخلاقی موت مرجاتا ہے بھلے ہی اس کا جسم زندہ رہے۔
درخت کی پہلی خصوصیت اس کا اچھا ہونا بیان کی گئی ہے، چنانچہ یہ خصوصیت کلمہ طیبہ میں پورے طور پر پائی جاتی ہے اور وہ یہ کہ یہ کلمہ صرف اچھا ہی نہیں بلکہ سب سے اچھا ہے، اور اس کا نام ہی کلمہ طیبہ ہے یعنی اچھا کلمہ۔
اس سے یہ بات واضح ہوئی کہ جب اسلام کی ابتداء ہی اچھے کلمہ سے ہوئی تو برا کلمہ اسلام کا جز نہیں بن سکتا ، اور جب کوئی برا کلمہ اسلام کا جز نہیں بن سکتا تو کسی برے عمل کے اسلام کا جزبننے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس سے معلوم ہوا کہ کلمہ طیبہ انسانی زندگی کو ایک پاکیزہ فکر و عمل دینا چاہتا ہے، اور انسانی زندگی کو گندی فکر وعمل سے بچانا چاہتا ہے، اور چونکہ انسانی زندگی کا ایک اہم حصہ کسی نہ کسی حکومت کی فکروعمل سے تعلق رکھتا ہے اس لیے کلمہ طیبہ نے انسانوں کو اچھی حکومت کی فکروعمل دیا ہے اور بری حکومت کی فکروعمل سے بچایا ہے، اور اچھی حکومت، صرف حکومت الٰہیہ ہی ہے، اس کے علاوہ جو بھی حکومت ہے وہ بری حکومت ہے۔ اس لیے کلمہ طیبہ میں یہ دعوت شامل ہے کہ انسان حکومت الٰہیہ کی فکر وعمل کو اختیار کریں اور باطل حکومت کی فکروعمل سے اجتناب کریں اور جن انسانوں نے کلمہ طیبہ کا اقرار کیا ہے ان کے لیے تو یہ لازم آجاتا ہے کہ وہ حکومت الٰہیہ کی فکر وعمل سے جڑ جائیں اور باطل حکومت کی فکروعمل سے کٹ جائیں، لیکن یہ المیہ ہی ہے کہ بہت سے کلمہ گو افراد نہ صرف یہ کہ حکومت الٰہیہ کی فکر وعمل سے جڑتے نہیں بلکہ حکومت الٰہیہ کی فکروعمل سے جڑنے کی پر زور مخالفت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کلمہ طیبہ کا اسلامی سیاست و حکومت سے کوئی تعلق نہیں ہے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ کلمہ طیبہ سے اگر حکومت الٰہیہ کی فکرودعوت نکال دی جائے تو وہ ناقص ہوکر رہ جاتا ہے۔ اور ستم ظریقی یہ کہ یہی کلمہ گو افراد جن کو کلمہ طیبہ میں اسلامی سیاست و حکومت کی فکر دعوت نظر نہیں آتی ، ان کو اسی کلمہ طیبہ میں غیر اسلامی سیاست وحکومت کی نہ صرف فکر ودعوت نظر آتی ہے بلکہ غیر اسلامی سیاست و حکومت کی حمایت و پیروی نظر آتی ہے، چنانچہ آج بہت سے مسلمان اسلامی سیاست وحکومت کی مخالفت اور غیر اسلامی سیاست و حکومت کی حمایت اسلام سے ثابت کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ کلمہ طیبہ کو جس درخت سے تشبیہ دی گئی ہے اس کی دوسری خصوصیت یہ بیان کی گئی ہے اس کی جڑ مضبوط ہے، مطلب یہ کہ اس کی جڑ زمین کی گہرائی میں اتری ہوئی ہے کیوں کہ جس درخت کی جڑ زمین کی گہرائی میں ہوتی ہے وہ مضبوط ہوتی ہے، یہ خصوصیت بھی کلمہ طیبہ میں پورے طور پر پائی جاتی ہے اور وہ یہ کہ کلمہ طیبہ اپنے اندر ایسی مضبوط فکر ودعوت رکھتا ہے جس کو زمین سے ختم نہیں کیاجاسکتا اسی طرح جس انسان کے دل میں کلمہ طیبہ کا بیج پڑجاتا ہے وہ دل کی گہرائی میں اتر کر ایسا مضبوط ہوجاتا ہے جونکالنے سے بھی نہیں نکلتا ، یہ بات اور ہے کہ بہت سے انسان کلمہ طیبہ کا اقرار کرنے کے بعد بھی اس کو دل میں اترنے نہیں دیتے اس صورت میں اگر وہ دل میں مضبوط نہیں بیٹھتا ہے تو اس میں کلمہ طیبہ کا کوئی قصور نہیں ہے بلکہ کلمہ گو کا قصورہے۔
کلمہ طیبہ کی اس مضبوطی سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ اس میں حکومت الٰہیہ کی فکر ودعوت بھی شامل ہے کیوں کہ جس کلمہ میں حکومت الٰہیہ کی فکر ودعوت نہ ہو وہ مضبوط نہیں ہوسکتا ، بلکہ حقیقی طور پر دیکھا جائے تو اس کلمہ کو جو چیز مضبوط کرنے والی ہے وہ حکومت الٰہیہ کی فکرو دعوت ہی ہے، اس لیے کہ کلمہ گو کے سامنے اگر حکومت الٰہیہ کی فکر ودعوت کا تصور نہ ہو تو لازماً وہ کسی ایسے کلمہ سے متاثر ہوگا جس کے پاس کسی حکومت کی فکرودعوت کا تصور ہوگا، اور کلمہ طیبہ کے علاوہ کسی دوسرے کلمہ سے متاثر ہونا کلمہ طیبہ کی جڑ کو کمزور کرنا ہے، معلوم ہوا کہ کلمہ طیبہ کی اس دوسری صفت میں بھی حکومت الٰہیہ کی فکر ودعوت لازمی طور پر شامل ہے۔
کلمہ طیبہ کو جس درخت سے تشبیہ دی گئی ہے اس کی تیسری خصوصیت یہ بیان کی گئی ہے کہ اس کی ٹہنیاں آسمان میں ہیں یہ خصوصیت بھی کلمہ طیبہ میں پورے طور پر پائی جاتی ہے، وہ یہ کہ زمین سے لے کر آسمان تک اسی کلمہ طیبہ کی فرمانروائی ہے، ایسا نہیں ہے کہ آسمان والوں کے لیے کوئی اور کلمہ طیبہ ہے اور زمین والوں کے لیے کوئی او رکلمہ طیبہ ، بلکہ زمین وآسمان میں اسی ایک اللہ کی بادشاہی و کبریائی چلتی ہے جس کے معبود ہونے کا اعلان کلمہ طیبہ میں کیا گیا ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ جس طرح اس پوری کائنات کا خالق ومالک اللہ ہے تو اسی طرح اس پوری کائنات کا حقیقی دین بھی اسلام ہی ہے یعنی اللہ کی فرمانبرداری و اطاعت ۔ چنانچہ کائنات کی ہر چیز اللہ کی فرمانبرداری میں لگی ہوئی ہے، تاہم یہ بھی حقیقت ہے کے اللہ نے انسانوں اور جنوں کو زندگی کے ایک محدود دائرے میں اپنی فرمانبرداری اور نافرمانی کی قوت دے کر دنیا میں بھیجا تاکہ یہ معلوم ہوکہ کون انسان اور جن اس قوت کو اللہ کی فرمانبرداری میں لگاتے ہیں اور کون اللہ کی نافرمانی میں لگاتے ہیں ۔ درخت کی ٹہنیوں سے مراد اعمال صالحہ بھی ہیں جو دراصل کلمہ طیبہ کے تقاضے ہی ہیں، اور جب ان ٹہنیوں کو آسمان میں قرار دیا گیا ہے تو اس سے معلوم ہوا کہ اعمال صالحہ وہی ہیں جو اللہ اور اس کے رسولوں نے بیان کیا ہے۔ کلمہ طیبہ کی اس صفت سے بھی حکومت الٰہیہ کی دعوت کا پتہ چلتا ہے اور وہ یہ کہ کسی درخت کی ٹہنیوں کا بلند و بالا ہونا اس کی شان وشوکت کی علامت ہے اور کسی بھی چیزکی شان و شوکت کے پیچھے کسی نہ کسی حکومت کی قوت کارفرما ہوگی تو ظاہر ہے ۔ کلمہ طیبہ کو جس درخت سے تشبیہ دی گئی اس کی چوتھی خصوصیت یہ بیان کی گئی کہ وہ اپنے رب کی اجازت سے ہر وقت پھل دیتا ہے۔ یہ خصوصیت بھی کلمہ میں پورے طورپر پائی جاتی ہے، اور وہ یہ کہ کلمہ طیبہ اپنے پڑھنے والے کو ہمیشہ فائدہ پہنچاتا ہے یہاں تک کہ کلمہ طیبہ کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے دنیا میں جو مصیبتیں آتی ہیں ۔
وہ بھی اجروانعام میں اضافہ کرنے والی ہوتی ہیں۔ گویا جو شخص کلمہ طیبہ کے یقین وعمل کے ساتھ زندگی گذارتا ہے اس کی زندگی دنیا وآخرت کی نعمتوں سے مالامال ہوتی ہے۔ کلمہ طیبہ کی اس صفت میں عقیدہ کی مضبوطی اور اعمال صالحہ کی پختگی کی دعوت بھی پائی جاتی ہے، کیوں کہ جس درخت کو ہمیشہ پھل آتے ہیں یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس کی جڑ اور ٹہنیاں بہت ہری ھری ہیں، اگر جڑ اور ٹہنیاں ہری بھری نہ ہوں تو درخت کو ہمیشہ پھل آنا تو درکنار سال میں ایک مرتبہ میں پھل آنا بھی مشکل ہے۔ درخت کی جڑ سے مراد صحیح عقیدہ ہے اور ٹہنیوں سے مراد اعمال صالحہ۔
کلمہ طیبہ کی اس چوتھی صفت یعنی ہمیشہ پھل لگنے میں بھی حکومت الٰہیہ کی دعوت پائی جاتی ہے اور وہ اس طرح کہ جس درخت کو ہمیشہ پھل لگے ہوتے ہیں تو دیکھا یہ جاتا ہے کہ جہاں کچھ اس کے دوست ہوتے ہیں وہیں کچھ دشمن ہوتے ہیں ، ظاہر ہے دشمنوں سے درخت کی حفاطت کے لیے اس کے دوستوں کو کچھ نظم کرنا ہوگا اور ضرورت پڑنے پر قوت کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ اس لیے کلمہ طیبہ کے دوستوں کو بھی کلمہ طیبہ کے درخت کی حفاظت کے لیے کچھ نظم کرنا ہوگا اور ضرورت پڑنے پر قوت کا مظاہرہ بھی کرنا ہوگا، اور یہ نظم وقوت حکومت الٰہیہ ہی فراہم کرسکتی ہے۔
غرض یہ کہ سورہ ابراہیم کی مذکورہ دو آیات میں اللہ تعالیٰ نے کلمہ طیبہ کو جس درخت سے تشبیہ دی ہے۔ اس کی چاروں ہی خصوصیات سے حکومت الٰہیہ کی دعوت واضح ہوتی ہے، اور پھر مزید یہ کہ اسی سورت کی ستائسویں آیت میں اللہ تعالیٰ نے قول ثابت کے ذریعہ ایمان والوں کو مضبوطی عطا کرنے کا جو اعلان کیا اس سے تو کلمہ طیبہ میں حکومت الٰہیہ کی دعوت روزروشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے، قول ثابت سے مراد قرآن ہے جو دراصل کلمہ طیبہ ہی کی تشریح ہے، کیوں کہ اس سے بڑھ کر کوئی اورمضبوط قول نہیں ہوسکتا ہے۔
ارشاد ربانی ہے :
یُثَبِّتُ اللّٰہ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَفِی الاٰخِرَۃِ وَیُضِلُّ اللّٰہُ الظَّالِمِیْنَ وَ یَفْعَلُ اللّٰہُ مَایَشَآءُ (ابراہیم ۲۷)
ترجمہ : مضبوط کرتا ہے اللہ ایمان والوں کو مضبوط قول کے ذریعہ دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں اور بچلادیتا ہے ظالموں کو (یعنی کمزورکردیتا ہے) اور اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔‘‘
مطلب یہ کہ اللہ قرآن کے ذریعہ ایمان والوں کو دنیا اور آخرت میں مضبوطی عطا کرتا ہے اور اسی کے ذریعہ ظالموں کو کمزور کرتا ہے، اور ظاہر ہے ایمان والوں کی دینوی زندگی کی مضبوطی اور ظالموں کی کمزوری حکومت الٰہیہ کی قوت سے جڑی ہوئی ہے، معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے کلمہ طیبہ میں واضح طور پر حکومت الٰہیہ کی دعوت کو پیش کردیا ہے، اب اگر کوئی شخص کلمہ طیبہ کو قبول کرتا ہے لیکن حکومت الٰہیہ کو قبول نہیں کرتا تو دراصل اس نے پورے طور پر کلمہ طیبہ ہی قبول نہیں کیا، کلمہ طیبہ کو قبول کرنا اور حکومت الٰہیہ کو قبول نہ کرنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص کسی ملک کی شہریت قبول کرے لیکن اس ملک کی حکومت کے نظام کو تسلیم نہ کرے تو ظاہر ہے اس کو اس ملک کی شہریت نہیں مل سکتی ، کیوں کہ کسی ملک کی شہریت کا ملنااس ملک کی حکومت کے نظام کو تسلیم کرنے سے متعلق ہے۔ اس لیے کلمہ طیبہ کا اقرار کرنے والے پر یہ لازم آجاتا ہے کہ وہ حکومت الٰہیہ کی دعوت بھی قبول کرے۔
آنحضورﷺ نے بھی کلمہ طیبہ میں حکومت الٰہیہ کی دعوت کو واضح طور پر پیش کیا ، چنانچہ مسند احمد و نسائی کی روایت سے یہ بات واضح ہوتی ہے۔
عَنْ اِبْنِ عَبَّاسؓ وَتَکَلَّمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ فَقَالَ یَاعَمَّ اِنِّی اُرِیْدُھُم عَلٰی کَلِمٰۃٍ وَاحِدَۃٍ تَدِیْنُ لَہُمْ بِھَا الْعَرَبُ وَتُؤَدِّیٓ اِلَیْہِمْ بِھَا الْعَجَمُ الْجِزْیَۃُ فَفَزِعُوْا لِکَلِمَتِہٖ وَلِقَوْلِہٖ فَقَالَ الْقَوْمُ کَلِمَۃً وَّاحِدَِۃً ہ نَعَمْ وَاَبِیْکَ عَشْرًا فَقَالُوْا مَاہِیَ وَقَالَ اَبُوْ طَالِبٍ وَ اَیُّ کَلِمَۃٍ ھِیَ ےَا اِبْنِ اَخِیْ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ لاَ اِلہَ اِلَّااللّٰہُ (’’ مسند احمد، نسائی‘‘ سیرت ابن ہشام جلد ۱ ، صفحہ ۴۶۶)
حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے اپنے چچا ابو طالب سے کہا ’’ اے چچا ! میں ان ( قریش مکہ) سے ایک کلمہ کا مطالبہ کرتا ہوں ( اگر وہ اس کو قبول کرلیں تو ) اس کے ذریعہ عرب ان کے تابع ہوجائیں گے، اور غیر عرب ان کو اس کے ذریعہ ٹیکس ادا کریں گے، پس وہ اس کلمہ کے لئے بے چین ہوگئے اور کہنے لگے ایک کلمہ ؟ آپ کے باپ کی قسم دس ( پیش کیجئے ) بتاؤ وہ کلمہ کیا ہے اور ابو طالب نے بھی کہا اے بھتیجے ! وہ کونسا کلمہ ہے ؟ پس رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : وہ لَاالہَ اِلَّااللّٰہُ ہے۔ ‘‘
مذکورہ واقعہ دور مکّی سے تعلق رکھتا ہے اور یہ دعوت اللہ کے رسول ﷺ نے اس وقت پیش کی جب قریش کے چند سردار ابو طالب کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اور ان سے مطالبہ کررہے تھے کہ محمد ﷺ کو دعوتِ دین سے روکا جائے۔ لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ اتنی بڑی خوش خبری بھی سردارانِ قریش کو کلمہ طیّبہ کے قبول کرنے پر آمادہ نہ کرسکی، کیوں کہ وہ اچھی طرح جان رہے تھے کہ اس کلمہ کے ذریعہ محمد ﷺ جس حکومت کی بات کررہے ہیں وہ حکومتِ الٰہیہ ہے اور اس کو قائم کرنے کے لئے پہلے ہمیں جان و مال کی قربانی دینا ہوگی، اور اپنی من مانی سرداری کو ختم کردینا ہوگا، اور وہ اس کے لئے تیار نہ تھے۔ آنحضور ﷺ نے مذکورہ فرمان میں کلمہ طیّبہ کے ذریعہ اہلِ عرب کے تابع ہونے اور اہلِ عجم کے ٹیکس ادا کرنے کا ذکر کیا ہے اور ظاہر ہے ٹیکس کسی حکومت ہی کو ادا کیا جاتا ہے، اس سے معلوم ہوا کہ آنحضور ﷺ نے کلمہ طیّبہ ہی میں حکومتِ الٰہیہ کی دعوت کو شامل کردیا، اب جو مسلمان اسلامی سیاست اور حکومت کو کلمہ طیّبہ سے علٰیحدہ سمجھتے ہیں وہ دراصل اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی مخالفت کرتے ہیں۔