افسانہ
تماشا
مینا یوسف
سینٹرل یو نی ورسٹی آف کشمیر
’’میں تو ایک نیک اور سیدھا سادا سا آدمی ہوں مجھے بھلا برائی سے کیا لینا دینا۔ کیا میرے اندر بھی کوئی خامی ہوسکتی ہے؟ ‘‘تھوڑی خاموشی کے بعد’’ارے میں بھی پتہ نہیں کیا کیا سوچتا رہتا ہوں‘‘
میں کرسی سے اٹھ کر برآمدے میں چلا گیا اور سڑک کی طرف دیکھنے لگا۔ سڑک کے ایک کنارے سے میری نظریں گھومتی ہوئی دوسری طرف جوں ہی پہنچی لوگوں کی ایک بڑی بھیڑ پر جاکر رک گئیں۔ بڑی تعداد میں لوگ مایوسی کے عالم میں گھیرا بنائے ہوئے تھے۔ یہاں سے بھیڑ کے اندر جھانک کر حقیقت کو معلوم نہیں کیا جاسکتا تھا۔ آخر کار میں برآمدے سے نکل کر سیڑھیوں کے سہارے در وازے تک پہنچ گیا۔ لیکن جو ہی میں دروازے سے نکلاتو اذان کی آواز میرے کانوں میں گونجنے لگی۔میں وقت پر نماز پڑھنے کا عادی تھا۔اس کے باوجودمیں نے بھیڑ کی طرف جانا مناسب سمجھا۔ وہاں سینکڑوں کی تعداد میں لوگ جمع ہو چکے تھے۔بس ایک شور اور کسی خطرناک حادثے کی آوازیں چاروں اور سے سنائی دے رہی تھیں۔ میرے دل پر خوف سا طاری ہونے لگا۔ میں اس حادثے کو دیکھ بھی نہیں سکتا تھا اور دیکھے بنا رہ بھی نہیں سکتا تھا۔ میں نے بہت کوشش کی کہ بھیڑ کے درمیان جاکر دیکھوں آخر کیا ہوا ہے؟ مگر سب بے سود۔ ہجوم کے اند جا نا محال تھا ۔ میں نے ارادہ کرلیا کہ جب تک یہ بھیڑ کم نہیں ہو جاتی تب تک میں ایک طرف بیٹھ کر انتظار کروں گا۔ کچھ دیر تک وہیں بیٹھا رہا ۔ اچانک درد سے بھری ہوئی ایک چیخ میرے کانوں میں داخل ہوئی۔ اس چیخ نے مجھے اندر سے ہلا دیا تھا۔ میرا صبر کا پیمانہ ٹوٹ گیا اور میں پھر بھیڑ کی طرف چلا گیا۔ اس بار مجھے ہر حال میں بھیڑ کے اندر گھسنا تھا۔اس لئے میں نے بڑی ہوشیاری کے ساتھ لوگوں کو ادھر ادھر کرنے کی کوشش کی جبکہ میری ہی وجہ سے بھیڑ میں ہلچل مچ گئی۔ دھکہ مکی شروع ہوگئی اسی بیچ کسی نے مجھے دھکہ دیا اور میں وہی ڈھیر ہوگیا۔ نجانے کتنے لوگوں کے پاوں میرے سینے سے گزرے ہوں گے ۔میں درد سے چلانے لگا پھر کسی نیک انسان کی نظر مجھ پر پڑی اور مجھے گھسیٹ کر باہرنکال لایا۔ میں کچھ دیر تک ویسے ہی سڑک پر پڑا رہا ۔ایک بڑھیا نے میری حالت دیکھ کر مجھے پانی پلایا ۔کچھ دیربعد ہوش میں آیا تو گھر کی طرف لڑکھڑاتے ہوئے جانے لگا۔ اچانک اسی طرح کی درد ناک آوازیں پھر سے اس بھیڑ کے درمیان سے ابھرنے لگیں۔ مجھ سے رہا نہ گیا اور پھر الٹے پاوں واپس بھیڑ کی طرف دوڑنے لگا۔ اس بار میری حالت کافی دردناک تھی ۔ لوگ مجھے دیکھ کر خود راستہ دینے لگے۔ میں بھیڑ کو چیرتا ہوا بالکل درمیان میں پہنچ گیا۔ اچانک میری نظریں سڑک پر بکھرے ہوئے خون پر پڑیں گویا کوئی لال چادر ہو۔ اس کے ساتھ ہی ایک اسی نوے سال کا بزرگ سڑک پر پڑا تھا۔ ساتھ بیٹھی ایک بڑھیا چلا چلا کر رو رہی تھی۔ میں نے دیکھاکہ ابھی اس کی سانسیں چل رہی تھیں۔ میں نے جلدی سے اس کو اٹھانے کی کوشش کی مگر اٹھا نہ پا یا ۔لوگ اپنی جگہ کھڑے چہ مگوئیاں کررہے تھے ۔ اس سے پہلے کہ میں دوسری کوشش کرتا اس نے اچانک لڑکھڑاتی ہوئی زبان سے مجھے کہا۔
’’میرے ہاتھ میں ایک کھلونا ہے یہ میری بچی تک پہنچا دینا۔وہ میرا انتظار کررہی ہے‘‘
بس اس کے بعد وہ کچھ نہیں بول پایا۔
Meena Yousuf