کالم : بزمِ درویش – مشعل نور :- پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

Share
پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

کالم : بزمِ درویش
مشعل نور

پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ای میل:
ویب سائٹ: www.noorekhuda.org

عارفہ حق قلندرہ بے مثال سوختہ عشق میں غرق حضرت رابعہ بصری ؒ خدا کے عشق میں عبادت ریاضت مجاہدے تزکیہ نفس غور و فکر کے بعد اپنی جسمانی کثافت کو لطافت میں بدل کر نقطہ کمال تک پہنچ چکی تھیں ‘ ہر وقت خدا کے عشق جذ ب مستی میں غرق خدا کی ہی یاد باقی ‘ ہر قسم کی سوچ سے آزاد ہو چکی تھیں ایک بار لوگوں نے سنا آپ ؒ اس طرح خدا کے سامنے گڑ گڑا کر دعا مانگ رہی تھیں ‘

اے میرے محبوب اگر میں تیری عبادت جہنم کے خوف سے کرتی ہوں تو مجھے دوزخ میں ڈال دینا اور اگر میری راتوں کے سجدے حصولِ جنت کے لیے ہیں تو تو جنت مجھ پر حرام کر دے اور اگر میں تیری عبادت صرف تیرے لیے تیری رضا کے لیے کر تی ہوں تو مجھے اپنے دیدار سے محروم نہ کر نا کیونکہ میں نے دنیا سے جو منہ موڑ لیا ہے ‘ زندگی کا ہر سانس تیری عبادت کے لیے وقف کر دیا ہے تو میری طلب صرف اور صرف تیری رضا اور تیرا دیدار ہے ‘ یہی وہ حالت عشق اور عبادت کا مقام تھا جس نے حضرت رابعہ بصری ؒ کو ولایت کے بلندترین مقام تک پہنچا دیا کہ آپ ؒ کی عبادت ریاضت سے بعض لوگ حسد بھی کر تے ‘ ایک بار کچھ ایسے ہی حاسدین آپ ؒ کی مجلس میں حاضر ہو ئے اور کہنے لگے خدا نے مرد کو عورت پر فضیلت بخشی ہے ہمیشہ مرد کو ہی نبی بنا کر بھیجا آج تک کسی عورت کو یہ مقام نہیں ملا چاہے وہ جتنی بھی عبادت کر لے تو قلندرہ بے نیازی سے بولی بے شک خالق کا یہی دستور ہے مگر یہ بات بھی سن لو کہ مردوں نے ہی خدا ہو نے کا دعوی کیا ہے کسی عورت نے آج تک ایسی حماقت یا دعویٰ نہیں کیا ‘ عارفہ کا اشارہ فرعون مصر کی طرف تھا جو خدائی کے دعوے کر تا تھا اورپھر دریا ئے نیل میں نشا ن عبرت بن گیا آپ ؒ ساری زندگی تزکیہ نفس کے کڑے مجاہدے میں رہیں ایک بار سا ت دن کا روزہ صرف پانی سے افطار کیا ‘ گھر میں کھانے کے لیے روٹی کا ایک لقمہ بھی نہیں تھا افطار کا وقت قریب آیا تو حضرت رابعہ بصری ؒ پر بھوک نے غلبہ پانے کی کو شش کی ‘ نفس نے درخواست کی ‘ اے رابعہ ؒ تو کب تک مجھے اِسی طرح سزا دیتی رہے گی ابھی نفس نے یہ بات کی ہی تھی کہ دروازے پر کسی سوالی نے دستک دی آپؒ تشریف لائیں تو نیاز مند کھانے کی طشت کے ساتھ حاضر تھا عارفہ حق نے کھانا لے لیا اور نفس سے مخاطب ہو کر بولیں میں نے تیری فریاد سن لی ہے کو شش کرتی ہوں تجھے مزید تکلیف نہ دوں کھانا فرش پر رکھ کر خود چراغ جلانے اندر چلی گئیں ‘ واپسی پر دیکھا ایک بلی نے کھانے کے برتن کو گراد یا ‘ زمین پر گرا ہوا کھانا بلی کھا رہی تھی نیک رابعہ ؒ نے منظر دیکھا تو مسکرا کر بولیں شاید کھانا تیرے لیے ہی بھیجا گیا تھا ‘ تم آرام سے کھانا کھاؤ افطاری کا وقت ہوا تو رابعہ نے پائی سے روزہ افطار کر نا چاہا اتنے میں ہوا کا تیز جھونکا آیا اور سارا پانی زمین پر گر گیا جب پانی بھی نہ رہا تو عارفہ صابرہ بولیں خدا یا یہ کیا ماجرہ ہے تیری رضا کیا ہے میں عاجز تیرا ارادہ نہیں جانتی تو صدائے غیب گونجی اے میری محبت کا دم بھرنے والی اگر تم یہ چاہتی ہو کہ تیرا گھر دنیا کی نعمت سے بھر دوں اور پھر تیرے دل سے اپنا غم ہجر گداز واپس لے لوں کیونکہ میرا غم دنیا اور دنیا کی نعمتیں ایک ہی دل میں جمع نہیں ہو سکتیں اے میری عاشق تیری بھی ایک مراد ہے اور میری بھی ایک مراد ہے ‘ اب تو ہی بتا دونوں مرادیں ایک جگہ کیسے رہ سکتی ہیں ۔عارفہ حق فرمایا کر تی تھیں اُس آواز کے بعد میں نے دنیا اور دنیا کی آسائشوں سے ہمیشہ کے لیے منہ موڑ لیا اور ساری امیدیں خم کر دیں اس کے بعد ہر نماز کو آخری نماز سمجھ کر ادا کیا ۔ ایک بار آپؒ نے کسی شخص کو چند سکے دے کر بازار بھیجا کہ میرے لیے کمبل خرید لاؤ تو اُس شخص نے سوا ل کیا آپ ؒ کو سفید کمبل لا کر دوں یا کہ سیا ہ تو حضرت رابعہ بصری ؒ نے ناگواری سے کہا مجھے پیسے واپس کردو ابھی کمبل خریدا نہیں اور سیا ہ سفید کا جھگڑا شروع ہو گیا ‘ پھروہ پیسے لے کر خادمہ سے کہا جاؤ جا کر دریا برد کر آؤ ‘ ایک بار کسی نے آپ ؒ سے پو چھا آپ ؒ کہاں سے آئی ہیں ؟ تو عارفہ قلندرہ بولیں اُس جہاں سے، یہاں سے کہاں جائیں گی اُس شخص نے پھر پو چھا تو آپ ؒ بولیں اُسی جہاں میں دوبارہ ‘ پوچھا گیا اِس جہاں میں کیا کرتی ہیں تو فرمانے لگیں میں افسوس کے سوا کچھ بھی نہیں کر تی تو پوچھا گیا آپ افسوس کس بات پر کرتی ہیں تو معرفت سے لبریز لہجے میں بولیں اِس جہاں کی روٹی کھا کر اُس جہاں کا کام کرتی ہوں پھر کسی نے پوچھا آپ ؒ کی زبان میں خاص مٹھاس ہے آپ ؒ مسافر خانے کی محافظت کے لائق ہیں تو آپ ؒ نے جواب دیا میں یہی کا م تو کر تی ہوں جو کچھ میرے اندر ہے اسے باہر کر تی ہوں اور جو باہر ہے اُسے اندر آنے نہیں دیتی ‘ کون آتا ہے کون جاتا ہے مجھے اِس کی فکر نہیں میں ہمیشہ دل کو محفوظ رکھتی ہوں نہ کے مٹی کے اِس جسم کو‘ اللہ تعالی نے آپ ؒ کی ذات سے ایسی ایسی کرامات سر زد کرائیں جو بہت کم اولیائے کرام کو نصیب ہوئیں آپ ؒ اپنے دور کی قافلہ سالار اور یکتائے روزگار تھیں ایک رات آپ ؒ کے گھر پر چور چوری کر نے آیا اُس کا خیا ل تھا یہاں امرا اور روسا آتے ہیں گھر ہیرے جواہرات سے بھرا ہوا ہو گا مگر گھر کا کونہ کونہ چھا ن مارا کچھ بھی نہ ملا تو مایو س ہو کر واپس جانے لگا تو رابعہ بصری ؒ نے چورکو مخاطب کیا کہ تم چور ہو واپس کیوں جا رہے ہو ۔ یہاں سے خالی ہاتھ مت جانا تو چور غصے سے بولا میں تو خالی ہا تھ ہی جا رہا ہوں ‘ یہاں پر لے جانے کے لیے رکھا ہی کیا ہے میں تو سونا چاندی لو ٹنے والا ہوں جبکہ یہاں تو کچھ بھی نہیں ہے رابعہ بصری شفیق تبسم سے بولیں وضو کر کے میرے حجرے میں دونفل پڑھ لو تم اِس حجرے سے اتنا کچھ لے جاؤ گے کہ ساری عمر ختم نہیں ہو گا اور ایسا قیمتی مال تمہیں تمہاری ساری زندگی میں نہیں ملا ہو گا جوآج رات لے کر جاؤ گے چور نے لالچ میں وضو کیا اور نوافل شروع کر دئیے ادھر رابعہ بصری نے خدا کے حضور ہاتھ اٹھا دئیے اے رب میں اِس چور کوتیری بارگاہ میں لے آئی ہوں اب اِس کوتوُ ہی سنبھال خدا کا پیمانہ رحمت چھلک پڑا چور کو عبادت میں وہ سرور آیا جو زندگی بھر نہ آیا تھا اُس نے اور نوافل پڑھنا شروع کر دئیے وہ پڑھتا جا رہا تھا سرور مستی میں ڈوبتا جارہا تھا چور کو اتنا سرور آیا کہ ساری رات عبادت کر تا رہا صبح رابعہ ؒ نے دیکھا وہ سجدے میں سسک سسک کر اپنے گناہوں کی معافی مانگ رہا تھا خدا نے معاف کیا اِس طرح چور رابعہ کے حجرے سے ولی بن کر نکلا ‘ رابعہ بصری ؒ نے زندگی کا زیادحصہ گوشہ نشینی میں گزارا آپ ؒ فرمایا کر تی تھیں میں کبھی بھی اکیلی نہیں ہوتی میرا رب میرے ہمراہ ہو تا ہے میں خدا کے جلوؤں میں مست رہتی ہوں ‘ حضر ت حسن بصری ؒ اپنے زمانے کے کامل ولی تھے اُن کے وعظ کی شہرت چاروں طرف تھی لاکھوں لوگ آپ ؒ کا وعظ سننے آتے لیکن جب تک رابعہ ؒ نہ آتیں آپ ؒ وعظ شروع نہ کرتے ‘ ایک بار لوگوں نے پوچھا لاکھوں افراد پر ایک بڑھیا کو ترجیح دیتے ہیں تو آپ ؒ نے فرمایا ہاتھی کا شربت چیونٹی کے برتن میں کیسے سما سکتا ہے ایک بار خدا کا عشق بہت غلبہ پا گیا تو حج اور دیدار کعبہ کے لیے مکہ مدینہ کا سفر اختیار کیا راستے میں گدھا مر گیا لوگ چھوڑ گئے تو خداکی قدرت سے گدھا زندہ ہو گیا اُس پر سوار ہو کر مکہ معظمہ میں داخل ہو ئیں تو کعبہ نظر نہ آیا وہاں ٹہرا نہ گیا ویرانے میں نکل گئیں اور جا کر خدا کو پکارا جب تو جانتا ہے میری تخلیق مٹی سے اور کعبہ بھی پتھر سے بنا ہے مجھے کعبہ نہیں کعبہ کا مکین چاہیے تو میرے اور اپنے درمیان سے کعبہ نکال میں براہ راست ملنا چاہتی ہوں ‘ ایک عرصہ بعد دوبارہ حج کرنے گئیں تو خانہ کعبہ استقبال کرنے خود حاضر ہو گیا انہی دنوں حضرت ابراہیم بن ادھم ؒ بھی حج پر آئے ہو ئے تھے خانہ کعبہ کو غائب دیکھا جو عارفہ قلندرہ رابعہ ؒ کے استقبال کو گیا تھا ۔ رابعہ بصری ؒ کے مختصر سامان میں کفن ہر وقت تیار ملتا تھا آخری ایام میں کھانا پینا بلکل چھوڑ دیا بہت کم سوتیں اینٹوں کے چبوترے پر ہی نماز پڑھتیں اسی پر آرام کر کے پھر عبادت میں مشغول ہوجاتیں ۔ لیکن محبت کا یہ چشمہ معرفت اٹھاسی سال تک روحانی فیض متلاشیان حق میں بانٹتا رہا 185ہجری میں درس معرفت دے رہی تھیں کہ اچانک مسکرا کر کہا فرشتوں کے لیے راستہ چھوڑ دو ‘ اب محبوب سے ملاقات کا وقت آگیا ہے سب لوگ باہر چلے گئے تو آپ ؒ نے اٹھ کر دروازہ بند کر دیا کچھ دیر تک حجرے سے آوازیں آتی رہیں پھر آوازیں بند ہو گئیں لوگوں نے دروازہ کھولا تو محبت کا نغمہ سرمدی ہمیشہ کے لیے خاموش ہو چکاتھا آپ ؒ نے ساری زندگی خدائی شان میں کوئی گستاخی نہ کی مخلوق خدا سے تو درکنار ساری عمر خدا سے بھی کچھ طلب نہ کیا ۔

Share
Share
Share