وادی جن،مدینہ المنورہ
Wadi e Jinn, Madina Munawara
( جہاں گاڑی کا انجن بند ہونے کے باوجود موٹر گاڑی چڑھاؤ پر ڈوڑنے لگتی ہے)
ڈاکٹر عزیز احمد عرسی ورنگل
گذشتہ مہینے بفضلہ تعالیٰ عمرہ ادا کرنے کا موقع ملا۔ مکہ میں ایک ہفتہ قیام کے بعد مدینہ المنورہ پہنچے ۔ ہمارے رہبر حافظ فیاض علی تھے،جنہوں نے مدینہ میں مقدس مقامات کی زیارت کا اہتمام بھی کیا تھا۔ان ہی کی رہبری میں ہم شہر مدینہ سے تقریباً 30 تا 35 کلو میٹر دور واقع ’’ وادی جن‘‘ یا ’’وای بیضاء‘‘ بھی گئے جو مدینہ کے شمال مغربی جانب واقع ہے۔ یہ وادی عقل کو ماؤف کرنے والی ہے ۔ عام طور پر دوسرے گروپس کے رہبر ان مقام کو زیارتوں میں شامل نہیں کرتے لیکن حافظ فیاض علی کو ’’وادی جن ‘‘کی زائرین کو زیارت کروانے سے بہت زیادہ دلچسپی تھی جس کے لئے انہوں اس کا اہتمام کیا، معمول سے ہٹ کر کروائی گئی ا س زیارت کے لئے انہوں نے زائرین سے زیادہ پیسے بھی طلب نہیں کئے بلکہ یہی کہتے رہتے ہیں قدرت کے اس انوکھے مظاہرے کو دیکھ کر اپنے یقین کی کیفیت میں اضافہ کیجئے اور مجھے دعاؤں میں یاد رکھئے۔ان ہی کی کوششوں سے ہم وادی جن پہنچ گئے جہاں لوگوں کے کہنے کے مطابق ’’جن ‘‘ رہتے ہیں۔چونکہ جن دکھائی دینے والی مخلوق نہیں ہے اسی لئے ہم سب ڈرے ہوئے سہمے ہوئے تھے کیونکہ پتہ نہیں کب کس جن کو غصہ آجائے اور کھڑے کھڑے ہمیں لے کر چلتا بنے ۔ ہم نے بچپن میں جِنوں کی بہت ساری کہانیاں سنی تھیں
جنوں کے کسی پر عاشق ہونے کی کہانیاں، مسجد میں لوگوں سے ملنے کی کہانیاں وغیرہ۔بچپن میں ہماری مسجد کے موذن صاحب نے ہمیں سنایا تھا کہ وہ ایک دفعہ اس راستے میں سو رہے تھے جو جنوں کی رہگذر ہے تو انہوں نے ہمیں اٹھا کر مسجد کے ایک کونے میں سلا دیا اور ہمیں پتہ بھی نہ چلا۔بہر حال جنوں کے نام ہی سے تمام بس میں ایک اضطراب کی کیفیت پھیلی ہوئی تھی۔تمام بس کے افراد ظاہراً ہمت کا مظاہرہ کر رہے تھے لیکن اندر سے ان کی کیا حالت تھی وہ میں بخوبی جانتا تھا۔میری اہلیہ میرے بازو بیٹھی جل تو جلال تو ۔ آئی بلا کو ٹال تو ۔ کا ورد کرتی جارہی تھی۔میں نے چھیڑنے کے انداز میں میری اہلیہ سے کہا ’’ انسان ہوکر ’’جن‘‘ سے ڈرتے ہو۔‘‘ تب میری بیوی نے میری جانب خشمگیں نظروں سے دیکھا اور کہنے لگی کہ انسان ہوں اسی لئے تو ڈرتی ہوں آپ کی طرح کوئی جن نہیں جو نہ ڈروں۔ بہر حال ہم سب ڈرتے ڈرتے وادی جن پہنچے جہاں اگر کوئی ’’جن‘ کسی گاڑی کو کھڑا دیکھتے ہیں تو انہیں ڈھکیل کر اپنی وادی سے نکال باہر کر دیتے ہیں’’وادی جن‘‘ بڑی عجیب و غریب جگہ ہے، میں اس موڑ پر وثوق سے نہیں کہہ سکتا کہ اس وادی میں ’’جن ‘‘ رہتے ہیں یا نہیں لیکن میں اس وادی کی شہرت کی سائنسی توضیح بیان کرنے ی کوشش ضرور کروں گا۔
وادی جن ، مدینہ کے شہریوں کا ’’پکنک اسپاٹ‘‘ ہے بیشتر افراد معہ اہل و عیال اس وادی میں آکر وقت گذارتے ہیں اور شام ہوتے ہوتے وادی سے چلے جاتے ہیں۔اس وادی میں سڑک تقریباً درمیان سے اور وادی کی تہہ سے گذرتی ہے۔ جیسے کہ بتایا گیا ہے کہ وادی جن میں ہر طرف پہاڑ ہیں جن کے دامن میں کہیں کہیں کھجور کے درخت دکھائی دیتے ہیں،درختوں کے سوکھے پتوں سے دھوپ چھن کر سیاحوں کو انوکھے احساس میں مبتلا کرتی ہے،ان درختوں کے بے نام سائے میں کچھ خاندان سستاتے نظر آتے ہیں، اس منظر میں عجیب چاشنی ہوتی ہے کہ کہیں موٹر گاڑی ٹہری ہوئی ہے کہیں فرشی بچھی ہوئی ہے ، کہیں بچے پہاڑوں پر کھیل رہے ہیں ۔اس علاقے میں آبادی نہیں کے برابر ہے لیکن دو ایک ٹینٹ ہاؤز ہیں جہاں اس علاقے میں کسی سیاح کے قیام کے ارادے کو ممکن بناتے ہیں۔ان’’ ٹینٹ ہاؤز س ‘‘کے بارے میں حافظ فیاض علی از راہ مذاق یہ کہتے ہیں کہ جب ’’ جنوں‘‘ کی شادی ہوتی ہے تو اسی ٹینٹ ہاؤز سے سامان حاصل کیا جاتا ہے۔اس وادی میں ہر طرف منفرد انداز کے پہاڑ ہیں کہ جن کو دیکھنے سے جی نہیں بھرتا ۔ مسلسل ایسا محسوس ہوتارہتا ہے جیسے یہ پہاڑ ہم سے کچھ کہہ رہے ہیں ایک پر اسرار زبان میں ۔ ایک انوکھے لہجے میں ۔ میرااحساس ہے کہ یہی زبان اور لہجہ پہاڑوں سے نکل کر مقناطیسی لہروں کی صورت میں ہمارے وجود تک پہنچتاہے اور ہماری نظروں کو فریب نظر کی کیفیت سے دوچار کردیتا ہے کہ ہماری نظروں کے لئے نشیب فراز اور فراز نشیب بن جاتا ہے اور ہمارا دل اس صناعی قدرت سے متاثر ہوکر خدا کے مزید قریب ہوتا چلا جاتا ہے۔ وادی جن ایک گول وادی ہے یا یوں کہہ لیجئے کہ یہ وادی ایک پیالے کی طرح نظر آتی ہے،بعض لوگوں نے اس کو انڈے کی شکل کی وادی قرار دیا ہے اسی لئے شاید اس کو وادی بیضاء بھی کہا جاتا ہے۔ منفرد انداز کی قدرتی خوبصورتی کی حامل اس وادی کی حیرت انگیز بات ’’ موٹر گاڑی ‘‘ کا بند حالت میں سڑک کی اونچائی پر چڑھ جانا ہے۔نہ صرف موٹر گاڑی بلکہ پانی کا بوتل، تربوز، وغیرہ بھی سڑک کی اونچائی کی طرف کھنچتے چلے جاتے ہیں ، حتیٰ کہ سڑک پر بہایا گیا پانی بھی ڈھلان کی بجائے اونچائی کی جانب بہتا ہوا دکھائی دیتا ہے ۔ یہ سمجھ میں نہ آنے والا معاملہ ہے کہ کیسے کوئی شئے اپنی فطرت اور کشش ثقل کے خلاف اونچائی کی جانب بڑھ جاتی ہے۔ شاید اسی لئے بیشتر افراد نے اس نامعلوم اور متحیر عمل کے بارے میں کہہ دیا کہ ’’ یہ جنوں کی حرکت ہے‘‘ اور اس وادی کو ’’وادی جن‘‘ سے موسوم کر نے کی غالباً وجہہ بھی یہی ہے ،چونکہ بچپن سے ہمارے دادا دادی اور نانا نانی نے جنوں کے بہت سارے قصے سنائے تھے اسی لئے کبھی کبھی تو ہمارا دل بھی اس کو جنوں کی حرکتسمجھنے لگتا ہے ورنہ کسی شئے کا اونچائی پر چڑھ جانا کیا مطلب۔
وادی جن کی نہ صرف مدینہ بلکہ سعودی عرب کے بیشتر علاقوں میں کافی شہرت ہے اور عام طور پر مشہور ہے کہ یہ’’ جنوں ‘‘کی جائے پناہ ہے۔حالانکہ یہ ایک چھوٹا سا قدرتی مظہر ہے جو دوسرے قدرتی مظاہر کے ساتھ خدا کے وجود کو ثابت کرتا رہتا ہے۔سنریھم آیاتنا فی الافاق و فی انفسھم(41-53) ۔ ہم عنقریب ان کو اطراف عالم میں بھی اور خود ان کی ذات میں بھی اپنی نشانیاں دکھائیں گے(فصلٰت)۔ اس سے قبل کہ میں اس کی سائنسی حقیقت سے آگاہ کروں میں مقناطیسی پہاڑوں (Magnetic Hills) کے بارے میں بتانا چاہوں گا۔ان پہاڑوں کو’’ گریویٹی ہلز‘‘Gravity Hillsبھی کہا جاتا ہے یہ پہاڑ عربی میں ’’تلۃ مغناطیسیۃ‘‘ کہلاتے ہیں ۔ مقناطیسی پہاڑوں کو پراسرار پہاڑ بھی کہا جاتا ہے۔ یہی وہ سیاہی مائل پہاڑ ہیں جو نظروں کو دھوکے میں ڈالتے ہیں اسی کی وجہہ سے ’’التباس بصارت ‘‘پیدا ہوتی ہے ۔ اس کو انگریزی میںOptical illusion کہا جاتا ہے اس کو عربی میں خداع بصری اور فارسی میں خطا ی دید کہا جاتا ہے۔ یعنی ان پہاڑوں کی مقناطیسیت کے باعث اشیاء اپنی حقیقی صورت میں نظر نہیں آتیں یعنی یہ علاقہ انسانوں میں فریب نظر پیدا کرتا ہے ۔
نظروں کو فریب دینے والے یہ پہاڑ صرف وادی جن ہی میں نہیں پائے جاتے بلکہ دنیا کے بہت سارے مقامات پر موجود ہیں ۔ خود ہندوستان کے دو علاقوں میں ایسے پہاڑ موجود ہیں جو نظروں کو فریب میں مبتلا کردیتے ہیں اور سڑک کے در حقیقت ڈھلان کو اونچائی میں ظاہر کرتے ہیں۔جس کی وجہہ سے سڑک کا حقیقی ڈھلان بھی اونچا دکھائی دیتا ہے چونکہ اونچی دکھائی دینے والی سڑک پر موٹر گاڑی بند ہونے کے باوجود چڑھتی چلی جاتی ہے اسی لئے اس کو دنیا جنوں کی حرکت قرار دیتی ہے۔
ہندوستان میں علاقہ لداخ کے مقام’’ لیہہ‘‘ (Leh) سے تقریباً 50کلو میٹر دور سمندر سے 11000فٹ کی اونچائی پر موجود ’’لیہہ کارگل سری نگر ہائی وے‘‘پر یہ علاقہ ہے جہاں انجن کے بند ہونے کے باوجود موٹر گاڑی اونچائی پر چڑھ جاتی ہے اور کچھ لمحوں بعد تیزی اختیار کرکے بھاگنے لگتی ہے۔
ہندوستان کی ریاست گجرات کے علاقہ تلسی شیام Tulsishyam ، ضلع امریلی (Amreli)میں بھی گذشتہ برسوں ایسی سڑک دریافت ہوئی ہے جہاں گاڑی کا انجن بند ہونے کے باوجود موٹر گاڑی کشش ثقل کے برخلاف Up Hillپر چڑھنے لگتی ہے۔
Lake Wales فلوریڈا میں Spook Hillsہیں جنہیں Magnetic Hillsکہا جاتا ہے اس علاقے میں بھی اشیاء الٹی جانب جاتی ہیں اسی لئے امریکہ کی عوام انہیں بد روحوں کا مسکن یعنی Spook Hillکہتی ہیں۔
کینڈا میں نیاگرا آبشار کے قریب Ontario کے Burlington میں بھی ایسے پہاڑ واقع ہیں جہاں کی سڑکوں پر موٹر کار الٹی جانب یعنی نشیب سے فراز کی جانب سفر کرتی ہے۔
رچمنڈRichmond آسٹریلیا کے Mountain Bowen روڈ پر ایسے پہاڑ موجود ہیں جہاں قدرت کی نشانیوں کو دیکھا جاسکتا ہے تاکہ اس کی خلاقی پر ایمان لاسکیں ۔ اس سڑک پر صرف 50 میٹر کا علاقہ ہی ایسا ہے جہاں موٹر گاڑی اونچائی کی جانب چلنے لگتی ہے
ان کے علاوہ امریکہ کے علاقہ Shullsburg, Wisconsin کے مقناطیسی پہاڑ، یونان کے MountPenteli، اسکاٹ لینڈ کے Electric Braeپہاڑ،مشی گن امریکہ کا Mystery Spot وغیرہ بھی شہرت رکھتے ہیں۔دنیا کے سینکڑوں مقامات پر ہمیں ایسے پہاڑ مل جائیں گے جہاں نظروں کا دھوکا حقیقت کو بدل دیتا ہے اور سچ جھوٹ کے پردے میں گم ہوجاتا ہیجس کی وجہہ سے ڈھلان سڑک بھی اونچی دکھائی دینے لگتی ہے اور عام آدمی کو اچھنبے میں ڈال دیتی ہے۔میں یہاں بالخصوص ایک جدید سائنسی تجربے کا ذکر کرونگا جو ہمارے ذہنوں کو کھول کر اس میں حقیقت شناسی کے جذبے کو بھر دیتا ہے۔یہ تجربہ عراق کی سلیمانی یونیورسٹی میں کیا گیا۔ عراق کی ایک ریاست خردستان ہے جہاں کے علاقہ ’’کویا‘‘(Koya)میں بھی ایسے پہاڑ موجود ہیں،ان پہاڑوں پر سلیمانی یونیورسٹی کے ریسرچ اسکالر Perykhan M.Jaf نے تحقیق کی اور ثابت کیا کہ کسی بھی Magnetic Hillsکے اطراف موٹر گاڑی کی کشش ثقل کے خلاف محیر العقل حرکت نظروں کا دھوکہ ہے ۔ان کے پیش کردہ مقالے میں کافی وضاحت سے التباس بصری اور مقناطیسی پہاڑوں کو سمجھایا گیا، اس محقق نے کئی اقسام کے التباس بصری یعنی فریب نظر
کا ذکر بھی کیا ہے جو ہماری عام زندگی سے متعلق ہیں جیسے Illusions of length اور Illusions of shape وغیرہ
مدینہ کی وادی جن عجیب و غریب خوبصورتی رکھنے والی جگہ ہے۔گول پہاڑوں سے گھرا ہوا یہ علاقہ زائد از سات میل کے علاقے پر پھیلا ہوا ہے۔یعنی اس علاقے کی سات کلو میٹر لمبی سڑک ہمیں فریب نظر میں مبتلا کرتی ہے ایسی خصوصیت رکھنے والی اس قدر لمبی سڑک دنیا کے دوسرے مقامات پر بہت کم دکھائی دیتی ہے ۔ وادی میں سڑک کی آخری حد تک جانے کے لئے موٹر گاڑیاں بڑی زور آزمائی کے ساتھ گذرتی ہیں۔ یہاں غور کرنے کی بات یہ ہے کہ بہ ظاہر آنکھوں کو ڈھلان دکھائی دینے والی اس سڑک پر موٹر گاڑی یا بس (Bus) کے انجن کو بڑی محنت کرنی پڑتی ہے جو خود اس بات کا ثبوت ہے کہ ڈھلوان دکھائی دینے والی سڑک در حقیقت ڈھلوان نہیں ہے اور جب وادی کی آخری حد سے یہ’’بس‘‘ پلٹتی ہیں تو بس کا ڈرائیور موٹر گاڑی کے انجن کو چالو رکھتاہے لیکن ایکسلیٹر (Accelerator)سے پاؤں اٹھا لیتاہے، گاڑی نیوٹرل گیر(Neutral Gear) میں آگے بڑھتی چلی جاتی ہے یعنی دوسرے الفاظ گاڑی کا انجن بند ہوتا ہے لیکن گاڑی چلتی رہتی ہے اور یہ یقیناً تعجب خیز بات ہے کہ ایکسلیٹر پر پاؤں کا دباؤ نہ ہونے کے باوجود گاڑی سڑک کے نشیب و فراز میں تیزی سے آگے بڑھتی جاتی ہے رفتہ رفتہ بس(Bus) کی رفتار میں مسلسل اضافہ ہوتا رہتا ہے، یہ خود میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ بس (Bus) کی رفتار ایک مرحلے پر ایک سو پچاس تک پہنچ گئی تھی اور ڈرائیور کے پیر ایکسلیٹر پر رکھے ہوئے نہیں تھے بلکہ وہ اپنے پیروں کو سکوڑ کرسیٹ پر رکھے ادب سے بیٹھا اسٹیرنگ کنٹرول کر رہاتھا۔ہاں۔ کبھی کبھی جب رفتار حد سے بڑھ جاتی تو ڈرائیور کے پیر بریک پر پہنچ جاتے اور وہ گاڑی کے بریک لگا دیتاتاکہ گاڑی قابو میں رہے۔
نظروں کا دھوکہOptical illusion دراصل حسی تجربات یا حس کو سمجھنے کی غلطی کا نتیجہ ہیں یعنی دکھائی دینے والی شئے سے متعلق آگاہی (Perception) کی غلطی غیر حقیقی صورت حال کو پیدا کرتی ہے۔وادی جن میں بھی انسانی دماغ کی’’ ادراکی صلاحیت‘‘ حقیقت سے بعید ہوجاتی ہے ۔ آنکھوں کے ذریعہ حاصل کی جانے والی معلومات کا جب دماغ میں تجزیہ انجام پاتا ہے تو دماغ اور آنکھوں کے مابین کشمکش بصری قوت پر اثر انداز ہوتی ہے اور ان مقناطیسی پہاڑوں سے نکلتی لہروں کے جلو میں انسان تذبذب کا شکار ہوجاتا ہے ، اس کا ادراک صحیح فیصلہ نہیں کرپاتا کہ وہ کیا دیکھ رہا ہے اور وہ بالآخر غلط دیکھنے لگتا ہے ، وادی جن میں بھی یہی اصول کارفرما ہے علاوہ اس کے اس علاقے میں پائے جانے والے مقناطیسی پہاڑوں کے پھیلاؤ اور رفعت کے باعث افق(Horizon)واضح نظر نہیں آتا جو انتشار بصری کی اہم وجہہ ہے(Horizonیعنی وہ واضح خط جو زمین کو آسمان سے جدا کرتا ہے) اسی لئے اس علاقے میں سڑک ڈھلان ہونے کے باوجود بھی اونچائی کی طرف جاتی ہوئی نظر آتی ہے۔اس کیفیت سے انسان عجیب عقیدت میں ڈوب جاتا ہے اور ان پہاڑیوں پر اس کو اللہ کے حروف دکھائی دینے لگتے ہیں،کہیں زایر ایسا محسوس کرنے لگتا ہے جیسے پتھر سجدہ ریز ہیں ۔نظر کے اس دھوکے کو طبعیات کے سادہ اصولوں سے بآسانی سمجھا جاسکتا ہے۔ہم زندگی میں نظروں کے دھوکے کی کیفیت سے کئی ایک بار دو چار ہوتے ہیں۔ جیسے اونچا درخت جو کھڑا ہوا ہے لمبا دکھائی دیتا اگر اسی درخت کو کاٹ کر زمین پر رکھ دیں تو زمین پر رکھا ہوا درخت نسبتاً چھوٹا دکھائی دیتا ہے۔
جہاں تک وادی جن مدینہ المنور کی بات ہے نہ صرف سائنسداں بلکہ عام افراد نے بھی اس کی حقیقت جاننے کے لئے تجربات کئے ہیں۔اگر ہم ’’گوگل ارتھ‘‘ کے ذریعہ اس علاقے کا مشاہدہ کریں تو ایسی خصوصیت رکھنے والی یہ سڑک تقریباً 7کلو میٹر لمبی نظر آئے گی اور ان 7 کلو میٹر فاصلے کے دوران سڑک کے ڈھلان کا زاویہ 11.5ڈگری ہوگا اور سڑک کے دونوں حدوں کے بیچ 310میٹر ڈھلان موجود ہوگا۔لیکن ۔واہ۔ رے۔ قدرت کہ اس قدر ڈھلان کے باوجود انسانی آنکھ کو یہ ڈھلان اونچائی بن کر دکھائی دیتا رہتا ہے۔اسی لئے ایسی وادیاں یا ’’وادی جن‘‘ مافوق الفطرت اور پراسرار قوتوں کا مرکز دکھائی دیتی ہیں حالانکہ یہ خدا کی نشانی ہے جو لوگوں کے دلوں میں خالق کی عظمت کے در وا کرتی ہے اور ہر اس بندے کو رب کی بندگی کی طرف بلاتی ہے جو یہ جان لیتا ہے کہ اللہ ہر شئے پر قادر ہے اور ہر چیز سے خبر دار ہے۔ ***