نور محمد نور کپور تھلوی کے کلام میں عصری آ گہی کا شعور
ڈاکٹراظہار احمد گلزار
نور محمد نور کپور تھلوی (۱۹۱۷ء۔۱۹۹۷ء) کا اصل نام جو والدین نے رکھا تھا وہ نور محمد تھا۔ بعد میں انھوں نے اپنے نام کے ساتھ نور کا اضافہ کر دیا اور اپنے جنم بھومی کی مناسبت سے نور محمد نور کپور تھلوی کے نام سے لکھنے لگے اور اسی قلمی نام نور محمد نور کپور تھلوی سے ہی معروف ہوئے:
’’کسے معلوم تھا کہ ۵ اگست ۱۹۱۷ء کو نور پور راجپوتاں میں جنم لینے والا ایک شخص علم اور ادب کا اتنا خدمت گار اور عظیم تخلیق کار بنے گا کہ اُس کا نام روشنی کا نور مینارہ بن کر ابد تک ذہنوں کی تطہیر اور تنویر کا وسیلہ بنے گا۔‘‘(۱)
نورمحمد نور کپور تھلوی اپنے حلقۂ احباب کی محفلوں کو زینت بخشتے تھے۔ نور محمد نور کپور تھلوی کی شاعری کا کینوس زیادہ تر سیاسی، معاشی اور اقتصادی پہلوؤں کی طرف رہا۔ وہ ایک عوامی شاعر تھے۔ بھلا کیسے وہ عوام پر ہونے والے ظلم و ستم کو خاموشی سے سہہ سکتے تھے ۔ اُنھوں نے ہمیشہ آمرانہ چالوں کو بے نقاب کیا اور تا حیات آمریت کے خلاف آواز اٹھائی ۔ وہ عوام کی خوش حالی کی ضامن جمہوری حکومت کو قرار دیتے تھے جس سے عوام کو معاشی اور اقتصادی خوش حالی نصیب ہو۔ وہ عوام کے حقوق کے بڑے علم بردار تھے۔ انھوں نے ہمیشہ سماجی انصاف کے لیے جدوجہد کی اور عوام کو اپنے حقوق کی طلبی سے روشناس کرایا۔ ان کی فکر کو مہمیز کیا تا کہ عوام ظلم و ستم کو سہنے کے عادی نہ ہو جائیں اور اپنے حقوق کی بات کریں۔ نور محمد نور کپور تھلوی کی شاعری کا کینوس بہت وسیع ہے۔ کسی ادبی تخلیق میں الفاظ کا انتخاب اور استعمال تمام تر شاعر کی شخصیت پر ہوتا ہے اور اسلوب میں انفرادیت کے پس منظر میں صاحبِ اسلوب کی شخصیت کارفرما ہوتی ہے۔ ا ن کے اسلوب میں شعور کی رو چلتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ نور محمد نور کپور تھلوی کے تخلیقی اسلوب کا اگر ہم تنقیدی سطح پر جائزہ لیں تو ہمیں اُن کی شاعری میں بیشتر مقامات پر شعور کا بہاؤ بڑی شدت کے ساتھ چلتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔
نور محمد نور کپور تھلوی کے اسلوب میں جگہ جگہ ان کا تاریخی شعور بھی اپنی جھلک دکھاتا ہے۔ اُن کے اندازِ بیان میں جہاں اور بہت سی خوبیاں ہیں وہیں علم تاریخ کی معلومات بھی اہمیت رکھتا ہے جو اُن کے اسلوب میں ضرور اس طرح رچ بس جاتا ہے جس کے بعد ان کا اسلوب تاریخی شعور اور شان و شوکت سے بھرپور دکھائی دیتا ہے۔ان کے تاریخی شعور کی حدیں صرف یہیں تک نہیں بلکہ ادبی تاریخ بھی ان کی شاعری کے ہر شعر کے ساتھ ساتھ چلتی ہے بلکہ بعض اوقات وہ ہمیں ایک مؤرخ کے طور پر دکھائی دیتے ہیں۔
نور محمد نور کپور تھلوی کائنات کو ایک دائرہ کی مانند قرار دیتے ہیں جس طرح دائرے میں کسی نقطے کی گنجائش نہیں ہوتی، اسی طرح نور محمد نور کپور تھلوی زندگی کو ایک سفر قرار دیتے ہیں۔ سفر مکمل ہونے پر ہر مسافر اپنی اصل منزل پر پہنچ جاتا ہے ۔ ان کی زندگی میں کوئی نقطہ کھُلا نظر نہیں آتا ، ہر پہلو سے ثابت قدم اور مصمم ارادہ رکھنے والے دکھائی دیتے تھے۔ الغرض یہ کہنا مناسب ہو گا کہ وہ ایک اچھے انسان اور اچھے شاعر تھے ۔ وہ اپنے زمانے کے کامیاب لوگوں کی صف میں نمایاں طور پر کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔
نور محمد نورؔ کپورتھلوی کا شمار عصر حاضر کے ان معروف اور کہنہ مشق شعرا میں ہوتا ہے جن کے فنی سفر کے پیچھے ان کا مشاہدہ اور تجربہ بولتا ہے۔انھوں نے باقاعدہ شاعری کا آغاز ۱۹۶۵ء کی جنگ کے موقع پر جنگی ترانہ سے کیا۔ بعد ازاں انھوں نے اردو اور پنجابی کے لیے دل کھول کر لکھااور،حمد ،نعت ،غزل، نظم ،رباعی اور دیگر اصناف میں خوب طبع آزمائی کی۔
نور محمد نورؔ کپورتھلوی اپنے عہد کا مزاج دان ہے لیکن روحِ عصر کے اس شعور کے ساتھ ساتھ اس ماضی سے ،جسے روایت کا نام دیا جاتا ہے،اس کا تعلق نہیں ٹوٹتا۔وہ ماضی اور اس کی اقدار کا تاریخی اور تہذیبی شعور بھی رکھتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ انھوں نے اپنے عہد کے فکری رویوں کو ماضی کے فکری رویوں کے تسلسل میں دیکھا ہے اور غالباً اسی تسلسل کا نتیجہ ہے کہ انھوں نے جبر کی قوتوں کے ساتھ کبھی سمجھوتہ نہیں کیا ۔اپنے عہد میں ہونے والے جبر اور استحصال سے خوف زدہ ہونے اور خدا اور رسول ﷺسے رجوع کرنے کا جواز یہی ہے کہ انھوں نے اس جبر اور استحصال کا ساتھ نہیں دیا ورنہ ان کا طبقہ اس عہد کے جبراور استحصال میں برابر کا شریک رہا ہے۔ شاید اس اجتناب کی ایک وجہ یہ بھی ہو کہ نور محمد نورؔ کپورتھلوی ذاتی سطح پر اس جدلیاتی عمل سے گزرے ہوں جو نہ صرف فرد کو بل کہ اجتماع کو بھی کھٹالی سے نکال کر کندن بنا دیتا ہے لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم نے اجتماعی سطح پر کبھی ماضی کے تلخ تجربوں سے سبق حاصل نہیں کیا اور نہ عصری حقیقتوں کا شعور حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔
انسان کے دماغی اور ذہنی اکتشافات کی تین نوعیتیں ہیں۔ ایک نوع فلسفے کی ہے ،جس کا کام ما بعد الطبیعات پر غور و فکر کے ذریعے مختلف اور متباین تصورات کو مربوط کرنا ہے۔ایک نوع سانئس کی ہے جو اشیاء کی تقسیم بندی ،تجربے اور تحلیل کے ذریعے کر کے ادراک حقیقت کرتی اور صداقتوں کی تلاش میں رہتی ہے اور تیسری اہم قسم ادب و فن کی ہے جس کا بڑا مقصد ادراک حیات اور شعور زیست کے بعد نئی حقیقتوں اور صداقتوں کی تخلیق بھی ہے۔نور محمد نورؔ کپورتھلوی نے فکری انکشاف کی تیسری نوع یعنی ادب و شعر کو اپنا ذریعہ اظہار بنایا ہے،لیکن پہلی دونوں انواع کو اس کے ساتھ ملا دیا ہے۔ان کے ادبی اور شعری تجربوں میں فلسفیانہ اور سائنسی رویے بھی ملتے ہیں،ان کے یہاں شعر کی رومانیت کے ساتھ ساتھ فلسفیانہ اور سانئسی شعور کی کار فرمائی بھی نظر آتی ہے۔ عام زندگی میں بھی وہ شعور بل کہ سائنسی شعور کو بڑی اہمیت دیتے ہیں ۔نورمحمدنورؔ کپور تھلوی کی شاعری کے بارے میں احمد ندیم قاسمی اپنے ایک مضمون ’’عالم انسانیت کی ترجمان شاعری‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’نور محمد نور کپورتھلوی کی شاعری عالم انسانیت کی ترجمان ہے اور اپنی سچائی کا ببانگِ دہل اظہار کرکے ایک ایسا مقام بنا رہی ہے جو اس سے پہلے معدودے چند شعرا کو ہی نصیب ہو سکا ہے۔نورمحمدنورؔ کپور تھلوی کی شاعری عصری تقاضوں کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے ان مسائل سے چشم پوشی نہیں کرتی جو اکثر مصلحت اندیش لوگ روارکھتے ہیں اور نہ ہی اس کتاب کا شاعر ان رویوں سے مصالحت کرتا نظر آتا ہے جو معاشرے کے بگاڑ اور اس کی شکست وریخت کا باعث ہیں۔شعر کی یہی ڈکشن ان کے افکار کی اعلیٰ ترجمان ہے کہ انھوں نے تمام عمر اپنی سوچ کو نئی جہت سے آشنا کرتے ہوئے ایک ایسی شعری روایت قائم کی ہے جس کو اپنانا ہر شاعر کے لیے باعث ترغیب ہے۔ان کے ہاں تخیل کی سر مستی اجتماعی احساس میں ڈھل کر ادب کا گراں قدر خزینہ بن کر سامنے آتی ہے ۔وہ محبت کی قابلِ بازیافت زمینوں کی جستجو میں ہیں اور حرف کی جمالیات سے مزین ان کی غزلوں کے ساتھ ساتھ ان کی نظموں میں بھی ایک حسن و خوبی کا جمال ہے۔(۲)
نور محمد نورؔ کپورتھلوی کی شاعری میں عصری آگہی کا عنصر معجزنما اثرات کا حامل نظر آتا ہے۔عصری آ گہی کا کرشمہ دل کا پلو کھینچ کر قاری کو حقیقتوں کی دنیا میں پہنچا دیتا ہے اور خوب صورت روپ اور نئے خیالات میں سجی سچائیوں کا اصلی روپ دیکھ کرزندگی کی معنویت کو سمجھ جاتا ہے۔ان کی فکر کا دائرہ نگر نگر سے وطن کا احاطہ کرتا کرتاآفاقی اور کائناتی انداز اختیار کر لیتا ہے۔ان کی شاعری زندگی کی ان قدروں سے مزین ہے جو زندگی کو ایک نیا ولولہ عطا کرتی ہے۔ حیات آفرین قدروں سے پیار اورمرگ آفرین رویوں سے نفرت ان کے اسلوب کا نمایاں وصف ہے۔ وہ خیر کی ترجمانی کرتے ہیں اور شر کے خلاف ہمیشہ سینہ سپر ہو جاتے ہیں۔
وہ ادب کے بارے میں ایک واضح نظریہ رکھتے ہیں ،حق گوئی اور بے باکی ان کا شعار ہے ۔وہ ایک نظریاتی تخلیق کار ہیں جو اصلاحی اور تعمیری مقاصد کے لیے ادب کو ایک مؤثر ترین وسیلہ سمجھتے ہیں ۔جبر کا ہر انداز وہ مسترد کر دیتے ہیں اور حریتِ فکر کی شمع فروزاں لے کر سفاک ظلمتوں میں بھی حوصلے اور اُمید کا پیغام سناتے ہیں۔کالی اندھیری راتوں میں راستہ بھول جانے والوں کے لیے ان کا شعلہ نوا قندیل کے روپ میں نظر آتا ہے جو دلوں کو مرکز مہر وفا کر کے حریم کبریا سے آشنا کرتا ہے:
ایسے لوگوں سے کیا کہا جائے
بِن کہے بھی تو نہ رہا جائے
ہے یہ لازم کہ احتجاج کرو
ظلم چُپ رہ کے کیوں سہا جائے
کچھ نہ بولو سیانے کہتے ہیں
نورؔ کیا دہن کو سیا جائے(۳)
نور محمد نورؔ کپورتھلوی کی شاعری حریت فکر کی للکار بھی ہے اور جبر کے خلاف پیکار بھی۔ان کے تینوں شعری مجمو عے ’’زنبیل سخن‘‘،’’جہان رنگ و نور‘‘ اور ’’تھوہر کے پھول‘‘افکار تازہ کی صورت میں جہان تازہ کا دل پذیر منظر نامہ سامنے لے آتے ہیں۔اسی طرح روحانی مسرت کا یہ منبع ذہنوں اور بصیرتوں کو نمو بخشتا چلا جاتا ہے۔مذہب کی ابد آشنا صداقتوں میں ان کا گہرا پیار ہے۔تنویر بخاری اپنے ایک مضمون’’نور محمد نور۔۔۔ایک پُر فکر شاعر‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’نورمحمدنورؔ کپور تھلوی عصر حاضر میں خوب صورت لب ولہجہ اور پُر فکر خیالات و احساسات کے شاعر ہیں ان کے فن کے پیچھے ان کا طویل فنی سفر اور مشاہدہ کار فرما ہے ۔وہ ایک جری تخلیق کار ہیں جو اپنے قلم کی طاقت سے برائیوں کوجڑ سے نکالنے کی سعی میں مصروف نظر آتے ہیں ۔وہ اللہ تعالیٰ کی توحید پر کامل ایمان رکھتے ہیں لیکن مختلف قسم کی خرافات اور توہم پرستی کے خلاف نبرد آزما رہتے ہیں۔نورمحمدنورؔ کپور تھلوی کے مجموعہ کلا م’’زنبیل سخن‘‘میں وہ تمام امکانات بدرجہ اتم موجود ہیں جو انھیں منفرد لہجے کا بڑا شاعر ماننے کی گواہی ہیں۔وہ اپنی شاعری کی تابناکی کے بل بوتے پر لمحۂ موجود اور مستقبل میں زندہ رہے گا اوران کی محبتیں ، خواب اور افکار بھی پائندہ رہیں گے۔‘‘(۴)
زندگی کی یہ متضاد کیفیتیں،پیچیدہ صورت حال نورمحمدنورؔ کپور تھلوی کو پریشان نہیں کرتی۔ اس دور کی فرسٹریشن اور انارکی اس کی جڑی ہوئی اور مربوط شخصیت کو پاش پاش نہیں کر سکتی اس لیے کہ وہ پرانے شاعروں کی طرح ’’تغزل‘‘ اور ’’خود رحمی‘‘کی گرفت میں اسیر نہیں اور نہ کئی ایک جدید تر شعر ا کی طرح کمپلیکسز کا شکار ہو کر ژولیدہ فکر اور تجریدی تجربوں کی نذر ہو جاتے ہیں بلکہ وہ بھر پور اور کھرے اسلوب میں تمام پیچیدہ تجربوں کو نہایت سہولت،آسانی اور ہمواری کے ساتھ پیش کر دیتے ہیں اور یہ وسیلہ اسے حقیقت اور سچائی کے آدرش سے حاصل ہوا ہے:
تیرا ہے نہ وہ میرا وہ رب کا رسول ؐ ہے
جو اس کے منہ سے نکلے خدا کو قبول ہے
لوگوں نے اس کو تاجِ نبوت نہ تھا دیا
جو مانتا ہے ایسا تو یہ اس کی بھول ہے
سرمہ سمجھ کے اس کے لگاؤ سب آنکھ میں
جو آمنہؓ کے لال کے قدموں کی دھول ہے(۵)
نور محمد نورؔ کپورتھلوی کو اسلامی تاریخ،تہذیب اور ثقافت سے بہت پیار ہے وہ اسلامی کلچر کو بقا کاوسیلہ سمجھتے ہیں ان کو یقین ہے کہ اس قوم کو شہرت عام اور بقائے دوام کے دربار میں اونچے منصب عطا کرتا ہے ۔قومی کلچر کا تعلق مذہب سے ہے اگر مذہب کی آفاقی صداقتوں کو حرزجاں بنا لیا جائے تو قومی وقار اور سر بلندی کا سفر کامیابی سے جاری رہ سکتا ہے اگر قومی کلچر ہی عنقا ہوجائے تو سمجھ لیں کہ قوم جغرافیے سے نکل کر تاریخ میں جارہی ہے۔
نورمحمدنورؔ کپور تھلوی دکھتی،بلکتی،سسکتی اور زخموں سے چُور انسانیت کے ہمدرد ہیں، وہ ان کے لیے امن و انصاف کے خواہاں ہیں، وہ اس دھرتی کو امن و آشتی کا گہوارہ دیکھنا چاہتے ہیں، وہ ایک صحت مند معاشرہ قائم کرنے کے خواہش مند ہیں کبھی مفاد پرست سیاست دانوں،کبھی اغیار کی چیرہ دستیوں سے نالاں ہیں تو کبھی معاشی زبوں حالی سے دست و گریباں،ظلم خواہ دنیا کے کسی گوشے میں ہو وہ اس کے خلاف ہیں۔وہ مظلوموں اور حق پرستوں کی ڈھال بن کر اپنی شاعری میں جلوہ گر ہوتے ہیں۔نورمحمدنورؔ کپور تھلوی زندگی سے بہت کچھ چاہتے ہیں ،انھوں نے عام زندگی کے تلخ مسائل کو موضوع بنایا ہے ،ان کی محبت کا مرکز وطن اور اس کے باسی ہیں،وہ ان سے پوری طرح محبت کرتے ہیں جس طرح کوئی اپنے محبوب سے کرتا ہے۔
ان کے تینوں شعری مجمو عوں ’’زنبیل سخن‘‘،’’جہان رنگ و نور‘‘ اور ’’تھوہر کے پھول‘‘کے مطالعہ کے بعد یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ نور محمد نورؔ کپورتھلوی کو اسلامی تاریخ اور تہذیبی ورثے سے دلی لگاؤ ہے ۔ان کا اس بات پر پختہ یقین ہے کہ ملت اسلامیہ کا تاریخی ورثہ اور قومی کلچر وہ قوت ہے جو ید بیضا کا معجزہ دکھانے پر قادر ہے۔وہ قوت پست کو بالا کر سکتی ہے اور پورے عالم میں اُجالا کر سکتی ہے اس کے اثر سے احساس اور شعور کو مثبت انداز میں مہمیز کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔نور محمد نورؔ کپورتھلوی کی شاعری میں تاریخی عمل کا ایک منفرد انداز جلوہ گر ہے۔ وہ اسلامی تاریخ،مذہبی اقدار ،مذہبی و ثقافتی عوامل اور قومی تشخص کو اس طرح اپنے فکر اور فن کی اساس بناتے ہیں کہ ان کا اسلوب ان کی شخصیت بن کر سامنے آجاتا ہے۔اسلوب کی چھلنی میں چھن کر ان کے الفاظ ان کی مقناطیسی شخصیت کا حقیقی رُوپ پیش کرتے ہیں:
آؤ مل کر آج ہم حسنین ؑ کی باتیں کریں
سیدہ زہرا ؑ کے دل کے چین کی باتیں کریں
خُلد میں سردار ہوں گے نوجوانوں کے حسین
مصطفی احمدؐ کے نورالعین کی باتیں کریں(۶)
نور محمد نورؔ کپورتھلوی کی شاعری میں تخیل اور شعور کا حسین امتزاج نظر آتا ہے ۔ان کی شاعری میں بے ساختگی کا عنصر نمایاں ہے۔ یہ بے ساختگی ان کے اسلوب کا اساسی پہلو ہے ۔وہ اپنے تجربات ،احساسات اور جذباتی کیفیات کو اس طرح الفاظ کے قالب میں ڈھالتے ہیں کہ انھوں نے جو طرزِ فغاں ایجا دکی وہ اندازِ بیاں قرار پا جاتی ہے۔ہر قسم کے حالات اور آزمائشوں میں وہ ثابت قدم نظر آتے ہیں۔ وہ زمانے ،حیات اور کائنات کے تقاضوں کو دیکھتے ہوئے ایسا رویہ اپناتے ہیں کہ زندگی کی تسبیح کے سارے دانے ایک تار میں پروئے جاتے ہیں۔
وہ اپنے آپ کو فکر دو عالم سے آزاد قرار دیتے ہیں۔فرضی فکریں ،وہم اور خوف کے سائے ان کے ادبی اُفق کو دُھندلا نہیں سکتے ۔زندگی کی تلخ حقیقتوں کا سامنا کرنے کے لیے وہ ہمیشہ تیار نظر آتے ہیں۔ان کی شخصیت کے سارے وصف ان کے کلام میں نظر آتے ہیں۔ان کی صحت مند شخصیت کا ثبوت یہ ہے کہ وہ مختلف مواقع پر حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے مناسب کردار ادا کرنے لیے کمر بستہ ہو جاتے ہیں بل کہ ان کی غزلوں اور نظموں میں نہ صرف ان کے ذاتی تجربات کا بیاں ہے بل کہ عصری تمازتیں اور وقت کی رفتار کا حقیقی پُر تو اپنے اندر سمو کر قاری کو مسحور کر دیتی ہیں:
گرچہ لوگوں نے کہا ہم سے وہ ہرجائی ہے
ہم نے تو رسم وفا عشق میں اپنائی ہے
بہہ گیازُہد گھڑی ایک میں پانی بن کر
کس قدر توبہ شکن شوخ کی انگڑائی ہے
وہ مجھے کر نہ سکا یادِ خدا سے غافل
گرچہ اس بُت سے مجھے گہری شناسائی ہے
چوں کہ وہ کرتا ہے ہر بزم میں سچی باتیں
نورؔ کو کہتے ہیں یہ لوگ کہ سودائی ہے(۷)
نورمحمدنورؔ کپور تھلوی نے جن معاشرتی قدروں کو ابھرتے ،غالب آتے، اور پھر ٹوٹتے ،بکھرتے اور شکست و ریخت کا شکار ہوتے دیکھا ہے ان میں اُنھوں نے ایک خاص سماجی شعور و ادراک حاصل کیا ہے اور اسی شعور کی روشنی ان کی شاعری میں نکھری ہوئی چاندنی کی طرح پھیلی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔زندگی کے بارے میں ایک مخصوص رجائی رویہ اسی شعور کی عطا ہے ۔ عاصی کرنالی اپنے ایک مضمون ’’نا انصافیوں کے خلاف صدائے احتجاج‘‘ میں نورمحمدنورؔ کپور تھلوی کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’نورمحمدنورؔ کپور تھلوی غزل سے زیادہ اپنی نظم میں کھلتے ہیں،ان کے ہاں خیال کا تسلسل ،جذبے کا تواتر اور اظہارو ابلاغ کا تاثر نظم میں شدت کے ساتھ موجود ہے ۔ وہ لمحہ موجود کا اسیر اور آئندہ موسموں کا سفیر ہے۔ان کی منظر نگاری میں کہیں شام ڈھلے پنچھی اپنے گھروں کوپُر امید لوٹتے نظر آتے ہیں،تو کہیں لہروں کو ڈھلتے سورج کی کرنیں سونا بناتی ہیں۔وہ گاؤں کے قدرتی مناظر کو شہروں کی آلودہ زندگی پر ترجیح دیتے ہو ئے فطرت کی نمائندگی کا حق ادا کرتے ،اکھڑتے ماحول ،بدلتے رویوں ، کھردرے لہجوں ،نا انصافیوں ،منافقتوں ،بد گمانیوں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کر کے ایک مکمل حساس فرد کا کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں۔‘‘ (۸)
نور محمد نورؔ کپورتھلوی نے جس ماحول کی کثافت میں آنکھیں کھولیں ،اسی ماحول کاگہرا تخلیقی شعور ان کے کلام میں جھلکتا ہے ۔نور محمد نورؔ کپورتھلوی دور حاضر کی بے حسی اور بے یقینی و افراتفری کے خلاف کھل کر لکھتے ہیں۔ وہ فضا جس میں نفرت ،بغض ، تعصب،سرد مہری، عناد اور بے مروتی نے ماحول کو آلودہ کر رکھا ہو ،فضاکی ایسی آلودگی سے نور محمد نورؔ کپورتھلوی کو بڑی کوفت ہوتی ہے وہ دیانت داری سے یہ سمجھتے ہیں کہ حریتِ ضمیر سے جینے کے لیے اسوۂ شبیر کے سوا کوئی اور راستہ نہیں۔
نیزے پر جو حق بولا تھا
ایک ہی ایسا سر دیکھا ہے
نورؔ چھُٹی دَر دَر کی دربانی
جب سے اُ ن ؑ کا در دیکھا ہے(۹)
نورمحمدنورؔ کپور تھلوی روایت زدہ شاعر بھی نہیں کہ اس کے لیے ہر نیا تجربہ اس کے قدم اکھاڑنے کا باعث بن جائے یا مقررہ نظام اخلاقیات یا ڈھلی ڈھلائی اقدار اُنھیں مجبور اور بے بس انسان بنا دیں۔وہ تو شان بے نیازی اور قلندری رنگ کے حامل ہیں۔وہ دنیا اور دنیا کے حقائق کا شاعر ہیں،جو محسوس کرتے ہیں اسے نہایت معصومیت اور سادگی سے پیش کر دیتے ہیں۔نورمحمدنورؔ کپور تھلوی کے یہاں زندگی کے ہمہ رنگ پہلو اجاگر ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔حمید اختر نورمحمدنورؔ کپور تھلوی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں:
’’ نورمحمدنورؔ کپور تھلوی نئی فکر اور جذباتی کروٹوں اور میلانات کا شاعر ہے۔۱۹۴۷ء میں تقسیم کے بعد حالات جس دھارے پر بہتے رہے اور ہماری سماجی زندگی پر اس کے جو مایوس کن اثرات پڑے نورمحمدنورؔ کپور تھلوی نے انھیں اپنی غزل کا موضوع بنایا ہے ۔ چناں چہ شہروں کی ویرانی ،اخلاقی اقدار کی پامالی،معاشرتی انتشاراور بے یقینی کے موضوعات نورمحمدنورؔ کپور تھلوی کے ہاں غزل کی رمز و ایما کی زبان میں ادا ہوتے ہیں۔ان کے یہاں غریب الدیاری ،بے مہری عالم کا گلہ،ستم رسیدگی کا اظہار ہے۔مضامین غزل میں ،روایتی غزل میں باز گشت کے بجائے ایسا تنوع ہے جو خوش گوار بھی ہے اور خوش آئند بھی۔پھر انھوں نے تراکیب ،تشبیہات،استعارات، علامات و اشارات میں بھی بڑی جدت طرازی سے کام لیا ہے۔ نیز اس دور میں فرد جس کرب کا شکار ہے اس کی جھلک نورمحمدنورؔ کپور تھلوی کے کلام میں نمایاں ہے۔‘‘(۱۰)
مری بستی ، مری ہستی ، ہنر میرا ، سخن گوئی
ہے وابستہ محمدؐ کی فقط ذاتِ گرامی سے
گدائی کوچۂ یثرب امیری سے بھی بہتر ہے
ہے شاہی ہیچ تر اصلاً محمدؐ کی غلامی سے(۱۱)
بحیثیت شاعرنورمحمدنورؔ کپور تھلوی رومان اور حیثیت کے سنگم پر کھڑا دکھائی دیتا ہے۔ان کے موضوعات میں اُداسی، دہشت ،اسرار ،خوف ،کرب اور کبھی کبھی ماورائیت کے عناصران کی شاعری کو رومانوی شاعری کے رنگ میں ڈھال دیتے ہیں۔ پھر ان کی علامتوں اور امیجز کا نظام بھی رومانیت کے رنگ سے عاری نہیں ہے۔وہ یقیناً ایک حقیقت پسند شاعر ہیں جن کے کلام میں زندگی کی تلخ اور گہری حقیقتوں سے پھوٹنے والے مضامین ہیں لیکن وہ ان مضامین کو محض خشک فلسفی کے انداز میں پیش نہیں کرتے بل کہ ان کی علامتوں،استعاروں اور خوب صورت تمثیلوں کی شکل میں دل کش و دل فریب بنا دیتے ہیں۔امین خیال، نورمحمدنورؔ کپور تھلوی کی شاعری کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’نورمحمدنورؔ کپور تھلوی ایک ایسے کہنہ مشق اور قد آور شاعر ہیں جن کی شاعری خوش گوئی و دلآویزی اور متانت،فکرو نفاستِ خیال کا جہانِ رنگ و نور ہے۔الفاظ کا دروبست اور معانی کے مزاج کو برتنے اور پرکھنے کا شعور جو ان کے حصے میں آیاہے وہ بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے۔ وہ اپنے عہد کے ایک پُر گو ،پُر فکراور پُر خیال شاعر ہیں ،جن کے یہاں بیان کی دلکشی ،زبان کی معنی آفرینی،خیال کی پختگی،شعور کی بلندی،فکر کی ہمہ جہتی اپنی پوری توانائی کے ساتھ نظر آتی ہے۔‘‘(۱۲)
نور محمد نورؔ کپورتھلوی کا اب تک جو شعری سرمایہ سامنے آیا ہے اسے وقیع اور قابلِ رشک نہ کہنا ادبی دیانتداری کے ساتھ نا انصافی ہو گی وہ ایک قادرالکلام شاعر ہیں،ان کی غزلوں میں کلاسیکی روایت کی جلوہ سامانیاں بھی ہیں اور جدید غزل کی تمام تر خصوصیات اور تخلیق کاریاں بھی:
عمل تخلیق رُک نہیں سکتا
لمحہ لمحہ جہاں میں جاری ہے
اب کہاں رہ گیا ہے حسن سلوک
سب تصنع ہے دنیا داری ہے(۱۳)
نورمحمدنورؔ کپور تھلوی نے غزل کے مخصوص مزاج اور سانچے میں رہتے ہوئے تجربات کے تنوع اور تلون سے اس میں سادگی کا رس سمایا ہے ۔ زندگی ،موت ،وقت ،حسن ، فطرت اور انسان۔۔۔۔ان سب کے بارے میں انھوں نے ایک خاص نقطہ نظر بیان کیا ہے،لیکن کسی خشک فلسفی کی طرح نہیں،خالصتاً ایک شاعر کی طرح۔۔۔۔ ایک عام انسان کی طرح جو اپنے خلوص اور عوامی لب و لہجے کی بدولت لوگوں میں اپنی صداقتیں بانٹتا ہے۔ایسا فنکار اس بڑے انسان سے بہتر ہے جو علمیت کے پیڈسٹل پر کھڑے ہو کرخلاؤں میں پرواز کرنے یا خود ساختہ علامتوں اور تجریدیت کے عمل سے لوگوں پر جلداکھڑ جانے والا پینٹ کرنا چاہتا ہے۔اقبال صلاح الدین اپنے مضمون ’’حقیقت اور حق گوئی کے علمبردار‘‘ میں نورمحمدنورؔ کپور تھلوی کے فن کے بارے میں رقمطراز ہیں:
’’نورمحمدنورؔ کپور تھلوی کی فطری افتادطبع انھیں انسانیت کے دکھ درد میں شریک ہونے اور اسے نئی سے نئی بلندیوں تک پہنچانے کی سعی کے میدان میں کھلتی نظر آتی ہے۔ ان کی شاعری میں ظلم و استبداد اور استحصال کے خلاف بغاوت کا جذبہ ملتا ہے۔ان کے اکثر موضوعات انسان کی عظمتِ فن اور اس کے مقاصد اور حقیقت پرستی سے تعلق رکھتے ہیں۔مجھے ان کا کلام پڑھ کر خوشی ہوئی ہے کہ ان کے جذبات و خیالات کا حسن ،صداقت و سچائی ،حق گوئی و بے باکی میں مضمر ہے جس کا اظہار نورمحمدنورؔ کپور تھلوی نے بلا خوف وخطر اپنے شعروں میں کیا ہے ۔‘‘ (۱۴)
نور محمد نورؔ کپورتھلوی ایک صاحبِ بصیرت و بصارت دانشور ہیں اور ان کی فکر بصیرت و بصارت کی دولت سے مالا مال ہے اور یہ دولت ان کی شاعری میں ہر جگہ درخشاں ہے ۔وہ ایک ایسے قلم کار ہیں کہ انھوں نے اپنے افکار و جذبات کو مذکورہ متضاد کیفیات میں اپنی خوش کلامی کو متاثر نہیں ہونے دیا اور اپنی تخلیقات کی دنیا میں سموم و صبا کو یکساں مقام دیا ہے اور اپنی محبت کی کائنات کادائرہ وسیع سے وسیع تر رکھا ہے ۔
آج دین مصطفی پھر طالب امداد ہے
دیتے ہیں مومن دہائی حیدرِ کرار کی
کوفیوں نے حسب عادت اپنی قسمیں توڑ کر
کرسیاں سنبھال لی ہیں وقت کے دربار کی
اپنی طاقت پر ہے نازاں آج پھر ابن زیاد
ہے حمایت آج حاصل اس کو ہر غدار کی(۱۵)
______
صبرو شکر کا ہاتھ سے دامن نہ چھوڑ کر
رکھ لی تھی لاج شاہ زہرا ؑ کے شِیر کی(۱۶)
نورمحمدنورؔ کپور تھلوی کو شعور کا جو لمحہ نصیب ہوا ہے وہ محض ایک لمحہ نہیں بل کہ ماضی کے تجربوں ،حال کی حقیقتوں اور مستقبل کی امیدوں کا حاصل ہے۔اس لیے ان کی غزل میں یہ لمحہ پھیل کر کئی سطحوں پر ابھرتا ہے۔اس لمحے میں اندھیرے اجالے کا کھیل ہے، سیاست کی قلا بازیاں ہیں،اقتصادی اونچ نیچ کا کاروبار ہے، معاشرتی ناہمواریوں کا عمل ہے،تہذیبی اقدار کا انتشار اور اخلاقی کھوکھلے پن کا نظارہ ہے اور یہی سب کچھ ان کے شعروں میں ڈھل کر تجربوں کے تنوع اور تلون کے باوصف ایک معنوی وحدت کا باعث بنتا ہے۔اس لیے یہ تجربات مختلف ہونے کے باوجود اکائی بن جاتے ہیں اور یہ اکائی زندگی کی کثرت میں وحدت کا انعکاس پیدا کرتی ہے۔ غزل کی ریزہ خیالی میں یہ معنوی ربط اور اکائی نورمحمدنورؔ کپور تھلوی کا منفرد عمل ہے۔نورمحمدنورؔ کپور تھلوی کی شخصیت اور ان کے فن پر اخلاق حیدر آبادی روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں:
’’نورمحمدنورؔ کپور تھلوی ایک روشن خیال شاعر تھے۔ان کی گفتگو میں ایک سبق ہوتا تھا۔انھوں نے اپنی زندگی کا زیادہ عرصہ علم کے موتی چُننے میں گزارا۔اپنے محلے اور محلے کے باہر ہمیشہ علم دوست احباب میں ان کا بیٹھنا ،اٹھنا زیادہ تھا۔ان کی شاعری میں خوبصورت غزلیں ،نظمیں قطعات اور اشعار پڑھنے کو ملتے۔ان کی شاعری کو پڑھنے سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ نورمحمدنورؔ کپور تھلوی محبت کے شاعر تھے۔انسانیت اور انسانی زندگی کی بقاکے علمبردار اور محبت کی تلاش میں سرگرداں اپنے دوستوں ،چارہ گروں اور مہربانوں کی بے اعتنائی پر ماتم کناں ہو جاتے تھے۔‘‘ (۱۷)
زندگی حقیقت میں ایک نہ ختم ہونے والا جاودانی سلسلہ ہے ۔اس کے کچھ لمحات الفاظ و تراکیب میں مقید ہو کر اک خلش اور کسک کی کیفیت پیدا کرتے رہتے ہیں۔نور محمد نورؔ کپورتھلوی نے تینوں شعری مجموعوں کو ساتھ ملا کر ایک تسلسل پیدا کیا ہے۔حالاں کہ تسلسل نظم گوئی کے لیے ضروری ہے غزل گوئی کے لیے اس کی قطعاً ضروت نہیں ۔غزل کے اشعار جذبات کے بہاؤ کی نشاندہی کرتے ہیں اور جذبات کا بہاؤ کبھی یکساں انداز میں نہیں ہوتا ،یہ حرکتِ قلب کے نشیب و فراز کے ساتھ بدلتا ہے:
خدا جانے کس حال میں اب وہ ہوں گے
جنھیں دیکھنے کو ہیں آنکھیں ترستی
منازل سے پڑتا ہے سب کو گزرنا
نہیں ایک دن میں کوئی بستی بستی(۱۸)
نور محمد نورؔ کپورتھلوی ایک کہنہ مشق شاعر ہیں ۔ان کے کلام میں نغمگی ،تاثیر اور لطافت کوٹ کوٹ کربھری ہے۔ زبان کی صحت اور محاورے کی درستی کا سختی سے خیال رکھتے ہیں۔ صحت مند روایات کی پوری پابندی کرتے ہیں لیکن جمود کے قائل نہیں ۔اگر کوئی بعینہ ایجاد ممکن ہو تو روایت پرستی پر اصرار بھی نہیں کرتے ۔اشعار میں عشق و سر مستی کا ایک کیف اور جوش پایا جاتا ہے۔ مجاز و حقیقت دونوں سے آشنا ہیں اسی لئے آپ کا کلام ادبی حلقوں میں پسند کیا جاتا ہے۔
نورمحمدنورؔ کپور تھلوی کو اپنے عہد کا شعور حاصل ہے ۔اس شعور میں اس لمحے کو بہت دخل ہے جس کی اہمیت سے نورمحمدنورؔ کپور تھلوی آگاہ ہیں۔وہ جانتے ہیں کہ زیست ان گنت اور مسلسل لمحوں کی گرفت میں ہے۔اس کا ایک سرا معلوم ہے تو دوسرا سرا نامعلوم۔وہ معلوم سے نا معلوم اور نا معلوم سے معلوم کا سفر کرنا جانتے ہیں۔اسی لیے تو ان کی شاعری میں سوچ کا سمندر متلاطم ہے۔ان کے شعری تجربے میں لمحے کا ادراک اور شعور اپنے پورے سیاق و سباق سے ابھرتا ہے۔گویا نورمحمدنورؔ کپور تھلوی کے یہاں لمحہ مکمل حوالہ بن جاتا ہے۔اس حوالے میں ماضی ،حال اور مستقبل کی حدیں مل جاتی ہیں۔دوریاں سمٹ جاتی ہیں،کل جزو میں اور جزو کل میں سمٹ آتا ہے اور پھر ایک لمحہ زمان و مکان پر محیط ہو جاتا ہے کہ یہی لمحہ ہی تو نورمحمدنورؔ کپور تھلوی کے شعری اور تخلیقی تجربے کا مرکزہ (Nucleus)ہے۔
نور محمد نور کپور تھلوی کے ہاں موضوعات کا تنوع تو خیر ملتا ہی ہے البتہ ان کے ہاں لہجوں کا تنوع بھی قابل ستائش ہے۔اگرچہ دورِ جدید تک آتے آتے وہ اپنا ایک شعری اسلوب متعین کرلیتے ہیں۔مگر پھر بھی ان کے اسلوب میں مختلف لہجوں کو برتنے کا احساس ملتا ہے ۔ایک طرف تو وہ لہجہ ہے جو دورِ اول کی روایتی علامات میں سر مستی کی کیفیت کو ظاہر کرتا ہے تو دوسری طرف طنزیہ لہجے کو بھی انھوں نے اختیار کیا ہے۔تیسری طرف احتجاج کی لَے ایک اور ہی لہجے کو ظاہر کرتی ہے پھر ان کے ہاں مذہبی احساس ایک اور نوعیت کے لہجے کو اجاگر کرتا ہے ۔دھرتی اور دھرتی پر بسنے والوں سے گہرا تعلق ان کے لہجے کوپر تیقّن بنا دیتا ہے۔یہی لہجہ غمِ زمانہ سے نبرد آزمائی میں اپنے الگ تیور رکھتا ہے ،عشق و محبت کا موضوع ان کے لہجہ میں سوز کی کیفیت پیدا کر دیتا ہے۔ پھر فکری موضوعات میں ان کا لہجہ تفکر کی سطح کو چھونے لگتا ہے ۔ نور محمد نور کپور تھلوی کی غزلوں میں روح عصر کا اظہار جس طرح اور جس انداز سے ہوا ہے اس کی مثالیں بھی ہم عصر شعرا کے ہاں بہت کم ملیں گی۔اپنے عہد کے باطن میں اتر کر انھوں نے اپنے عہد سے ایک ایسا رشتہ استوار کیا ہے کہ اس کی شاعری میں روح عصر بہ آواز بلند بول اٹھتی ہے۔
حوالہ جات
——-
۱۔ غلام شبیر رانا، تھوہر کے پھول، لاہور: شاہین پبلی کیشنز، ۱۹۸۹ء، ص:۲۰
۲۔ احمد ندیم قاسمی،عالم انسان کی ترجمان شاعری،مشمولہ:زنبیلِ سخن،ازنور محمد نور کپورتھلوی، شیخوپورہ:پنجابی کلچرل سنٹر کڑیال کلاں، ۹۸۳اء، ص:۱۲۔۱۱
۳۔ نور محمد نور کپورتھلوی،تھوہر کے پھول،ص:۷۸
۴۔ تنویر بخاری،نور محمد نور۔۔۔ایک پُر فکر شاعر،مشمولہ:زنبیلِ سخن، ص:۱۳
۵۔ نور محمد نور کپورتھلوی،تھوہر کے پھول،ص:۲۴
۶۔ ایضاً،ص:۹۹
۷۔ ایضاً،ص:۶۰
۸۔ عاصی کرنالی،نا انصافیوں کے خلاف صدائے احتجاج،مشمولہ: زنبیلِ سخن،ص:۱۷
۹۔ نور محمد نورؔ کپور تھلوی،زنبیلِ سخن،ص:۱۰۵
۱۰۔ حمید اختر،اختتامیہ،مشمولہ:جہانِ رنگ ونور،ازنور محمد نور کپورتھلوی، لاہور:احمد پبلی کیشنز ، ۹۸۵اء،ص:۱۱۳
۱۱۔ نور محمد نور کپورتھلوی،تھوہر کے پھول،ص:۱۰۵
۱۲۔ امین خیال،اختتامیہ،مشمولہ: جہانِ رنگ ونور،ص:۱۱۲
۱۳۔ نور محمد نور کپورتھلوی،جہانِ رنگ و نور،ص:۵۷
۱۴۔ اقبال صلاح الدین،حقیقت اور حق گوئی کے علمبردار، مشمولہ: جہانِ رنگ ونور، ص:۹
۱۵۔ نور محمد نورؔ کپور تھلوی،زنبیلِ سخن،ص:۳۰
۱۶۔ ایضاً،ص۳۱
۱۷۔ اخلاق حیدر آبادی،نور محمد نور کپور تھلوی اور ان کی شاعری،مشمولہ: عوام،روزنامہ،فیصل آباد، ۲۶/ اکتوبر ۱۹۹۷ء،ص:۲
۱۸۔ نور محمد نور کپورتھلوی،جہانِ رنگ و نور،ص:۷۹
*۔۔۔*۔۔۔*
Dr. Izhar Ahmad Gulzar,
Faisalabad-Pakistan.