کالم : بزمِ درویش
مری اداس ہے
پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ای میل:
مجذوب کشمیر ناصر کی موت کی خبر میرے اور میرے گھر والوں کے لیے ایٹم بم سے کم نہ تھی ‘ میری زندگی کے سارے رنگ اڑ گئے ‘ سارے ذائقے پھیکے ہو گئے ‘ بہاروں کی جگہ خزاں ‘ نخلستان کی جگہ صحراؤں اور آگ برساتے ریگستانوں نے لے لی ‘ حزن ملال وحشت غم خوف کے عالم میں میری بیگم ناصر کی بھابھی ماں کا سسکیوں آہوں میں لپٹا مجھے فون آیا آپ کو مری سے کوئی فون آیا ہے ‘
وہ ناصر سے میری دیوانگی اور تعلق کو جانتی تھی اِس لیے بات ڈائریکٹ نہیں کر رہی تھی ‘ میں اُس کے ناصر سے ماں بیٹے والے تعلق کی شدت سے واقف تھا ‘ اِس لیے اُسے بتانے سے گریز کر رہا تھا لیکن کسی نے اُسے فون کر کے اُس کی جان ہی نکال لی ‘ وہ ایک ہی بات کہہ رہی تھی کہ آپ فوری گھر آجائیں ‘ میں گھر گیا تو اُس کا وجود آتش فشاں کی طرح تڑخ رہاتھا وہ ماتم کدے کی طرح پتھر کی مورتی کی طرح ساکت تھی چہرے پر کر بلا کے غم سے بھرے سیا ہ سایوں کا راج تھا ‘ مجھے دیکھتے ہی بلک بلک کر رونے لگی ‘ میں بھی پتھر کا بت بن کر ساکت ہو کر بیٹھ گیا اِس دوران بیٹا اور بیٹیاں بھی آکر بیٹھ گئیں ‘ جن کی آنکھوں سے غم کے موتی مسلسل ناصر کی یاد میں جھڑ رہے تھے ‘ میرا بیٹا بولا بابا ناصر اِس دنیا کا انسان نہیں تھا وہ فرشتہ تھا جو رب کے پاس واپس چلا گیا ‘ پھر وہ ماں اور اپنی بہنوں کو حوصلہ دینے لگا ‘ اب اُس کو دیکھ کر میرے مردہ اعصاب غم سے شکنہ جسم میں جان آنے لگی ‘ اب میں نے خاندان کا سر براہ ہو نے کے ناطے نارمل ہو نے کی اداکاری شروع کر دی ‘ اب بچے اور ماں ضد کر نے لگے کہ ہم نے ناصر کی آخری رسومات میں شامل ہو نا ہے تو میں نے روکا کہ مظفر آباد سے آگے کئی گھنٹے پید ل کا سفر ہے تو ناصر کی بھابھی ماں بو لی ٹھیک ہے آپ جاکر ناصر کے سارے آخری کام اپنی نگرانی میں کرائیں ‘ راستہ دیکھ آئیں میں بعد میں پھول اور چادر لے کر جاؤں گی ‘ جب میں آدھی رات کے وقت تڑپتا سلگتا بلکتا گھر سے کشمیر کے لیے نکلنے لگا تو میری بیٹی ناصر کی ڈاکٹر آپی جو میڈیکل کی سٹوڈنٹ ہے اشکبار آنکھوں اور لرزتے الفاظ سے بولی بابا نا صر بھائی کے لیے ہم کیا پڑھیں تا کہ اُن کی روح کو سکون مل سکے پھر جب میں کشمیر کے لیے گھر سے روانہ ہوا تو ناصر کے مرشد خانے میں اُس کی بھابھی ماں اُس کا چھوٹا بھا ئی آپی اور چھوٹی بہنیں وضو کر کے جائے نماز پر سجدے میں جاکر ناصر کو آنسوؤں اور دعاؤں کا نذرانہ پیش کر رہے تھے ‘ ناصر سے ان کا روحانی قلبی اور اٹوٹ تعلق دیکھ کر میری آنکھیں بھی سلگ رہی تھیں ‘ پچھلے سالوں میں میرے خاندان میں کئی اموات ہوئیں لیکن بچے اپنے بچپن اور گڈی گڈوں کھلونوں میں مست رہے لیکن ناصر کے بے پناہ پیار شفقت سے بچے نو عمری میں ہی اُس کے لیے سراپا دعا تھے ‘ گھر سے جب نکل رہا تھا بیٹا بیٹی جو دونوں ڈاکٹر بن رہے ہیں اپنی ماں سے وعدہ کر رہے تھے کہ ہم ساری زندگی ناصر بھائی کے نام پر مریضوں کو فری دیکھا کریں گے جن کا ثواب ناصر بھائی کی روح کو ملے گا ‘ ناصردنیا سے منہ موڑنے سے پہلے اپنے بہن بھائیوں کے دلوں میں اپنی یادوں اور پیار کے وہ چراغ روشن کر گیا تھا کہ ساری زندگی ان چراغوں کی لو اِن کی آنکھوں میں چمکتی رہے گی ‘ پھر پو ری رات کا طویل سفر کر کے صبح کی نماز ہم نے جاکر مظفر آباد میں پڑھی ‘ مری سے ہما رے ساتھ فاروق عباسی بھی شالل ہو گیا تھا وہ بھی مسلسل گیلی لکڑی کی طرح ناصرکی یاد میں سلگ رہا تھا ‘ فاروق بار بار ایک فقرہ کہہ رہا تھا جتنا میںآج رویا ہوں اتنا تو اپنے باپ اور بھائی کی وفات پر بھی نہیں رو یا ‘ یہی بات جلیل عباسی کر رہا تھا کہ جتنا میں ناصر کی جدائی پر بید مجنوں کی طرح تڑپ رہا ہوں ‘ اتنا تو میں باپ کے بچھڑنے پر بھی نہیں رویا تھا ‘ مری سے ناصر اور میرا ایک اور دوست یاسر قریشی بھی ہما رے ساتھ تھا ‘ جس سے ناصر گھنٹوں بیٹھ کر مرشد کی باتیں کیا کرتا تھا اُس کی آنکھیں بھی دریائے فرات کی طرح اچھلتی جارہی تھیں ‘ ناصر کی جدائی نے غم کی امر بیل کی طرح سب کو لپیٹا ہوا تھا ہر کوئی اُس کی جدائی میں تڑپ رہا تھا ‘ بلک رہا تھا ‘ شدت غم سے دھاڑیں مار رہا تھا ‘ ناصر کشمیری کے ایکس باس ابرار عالم سے جب فون پر بات ہوئی تو اُس کی آواز بھی آہوں اور سسکیوں میں دب رہی تھی اِسی راستے میں ہی ناصر کے پیر بھائی عدیل ‘ احسان ‘ آفتاب شاہ اور جنید کا پتہ چلا کہ انہیں جب ناصر کی موت کا پتہ چلا تو خود کو روک نہ پائے اُسی وقت کشمیر کے سفر پر نکل پڑے جس سے بھی بات ہو ئی اُس کے اندر کربلا مچا تھا ماتم اُس کی آواز سے چھلک رہا تھا ‘ مظفر آباد میں فجر کی نماز کے بعد ناصر کے جسدِ خاکی کے ساتھ اُس کے رفقاء سے ملاقات ہوئی ‘ ڈاکٹر عامر شکور صاحب ‘ اشرف میکند ‘ سرفراز صاحب اور زاہد جو اُس کی آخری رسومات کے لیے ناصر کے گاؤں جا رہے تھے جس کو بھی دیکھا ناصر کی جدائی کے غم میں نڈھال دیکھا جیسے کو ئی جگر کا ٹکڑا چلا گیا ہو ‘ جس نے بھی سنا تو اُسے یہی لگا تیز دھار خنجر اُس کے دل میں پیوست ہو گیا ہو ‘ جگر چھلنی چھلنی ہو گیا ہو ‘ چہروں پر وحشت غم کرب کی زردی چھائی ہو ئی تھی ‘ سب کا درد دکھ کے مارے براحال تھا جیسے گرم سیخ پر پرو کر آگ کے دہکتے کوئلوں پر رکھ دیاگیا ہو ‘ ناصر کے دوست ساتھی اُس کی آخری رسومات کے لیے اب فلک بوس پہاڑوں کے درمیان بل کھاتی سڑکوں پر جیڑا کیل گراں کی طرف بڑھ رہے تھے ‘ دوران گفتگو ناصر کی باتیں اُس کا تذکرہ اُس کی دیوانگی فرزانگی مجذہ بیت کے قصے مرشد سے والہانہ جنون کی حد تک عشق مرشد کے نام کی مالا دن رات سانسوں پر جپتے رہنا یہی ناصر کی زندگی تھی ‘ یہی مصروفیت تھی جو بھی ناصر کا ذکر کرتا اُس کی آنکھیں بھی چھلک چھلک جاتیں ناصر کا غم ہر ایک کی آنکھوں میں ساون بھادوں کی طرف کروٹیں لے رہا تھا باتوں کے دوران موقع پاکر کناروں سے اچھلنے لگتا ‘ مظفر آباد سے ٹیڑھے میڑھے بلند و بالا پہاڑوں کے ساتھ یہ کاروان شوق دھنی نو سیری بلگراں سے موضع جیڑ کیل گراں کی طرف بڑھ رہا تھا آخر کار تارکول کی ہموار سڑک ختم ہوئی تو آگے صرف پیدل راستہ تھایا پتھر یلا راستہ جس پر طاقتور جیپ سامان لانے لے جانے کے لیے کبھی کبھار استعمال ہو تی تھی ‘ برادر فاروق عباسی نے ہمارے آرام کی خاطر اُس کا پہلے سے اہتمام کیا ہوا تھا پھر ڈیڑھ دو گھنٹے جیپ کی اچھل کودکے ساتھ دریا کے کنارے کنارے ہم مجذوب کشمیرکے دور آفتادہ گاؤں پہنچ گئے جہاں پچاس سال پہلے اِس مجذوب درویش خدا مست نے جنم لیا تھا ‘ علا قہ آج پچاس سال بعد بھی زندگی کی تمام بنیادی ضرورتوں سے محروم تھا تو پچاس سال پہلے کیا حال ہو گا ‘ مجھے سارے راستے پتے پتے پتھر پتھر درخت درخت سے ناصر کی خوشبو آرہی تھی انہی سنگلاخ پہاڑوں کے دامن میں ناصر کا بچپن اور آنا جانا تھا مجھے ہر طرف ناصر ہی نظر آرہا تھا آج سمجھ آئی جب اُس کی ماں اور باپ کی وفات پر میں نے کہا کہ تمہارے گاؤں افسوس کے لیے آنا چاہتا ہوں تو وہ کہتا سرکار میں کبھی بھی آپ کو وہاں نہیں آنے دوں گا کیونکہ میرے گھر تک کئی گھنٹے پیدل چلنا پڑتا ہے ‘ میں خود آؤں گا تو آپ افسوس کر لینا ۔ دوسروں کو تکلیف نہ دینا اُس کی فطرت تھی ہم سب لوگ مری والے بھی زندگی میں پہلی بار اُس کے گاؤں جا رہے تھے پھر یہ سڑک ختم ہو گئی تو ہم اُس جگہ پہنچ گئے جہاں ناصر کی آخری آرام گاہ تیار ہو رہی تھی ۔ جنازے میں تین گھنٹے باقی تھے ‘ ناصر کی باتیں دیوانگی پر گفتگو جاری تھی جو بھی اُس کے بارے میں بات کرتا اُس کی آنکھیں چھلک چھلک جاتیں ہر ایک کی آنکھوں کے کنارے مسلسل گیلے ہو رہے تھے ‘ ناصر کی ایک عادت کا سب اقرار کر رہے تھے کہ اُس نے آج تک کسی سے چائے تک نہ پی ہر ایک کو خود چائے پلاتا ‘ کھانا کھلاتا مرشد کی گھنٹوں باتیں کرتا پھر جنازے کا وقت ہو گیا ‘ علاقے کی کثیر تعداد جنازے میں شریک تھی ہم لاہور والوں مری والوں کو خاص طور پر اگلی صف میں کھڑا کیا گیا ‘ جنازے کے بعد امام صاحب نے سب سے پہلے مُجھ فقیر کو چہرہ دیکھنے کو کہا تو میں جب آگے بڑھا تو ناصر کا چہرہ نور میں دھلے ریشم کی طرح سنہرا ہو رہا تھا ‘ پھر یہ چہرہ میرے دل کے فریم میںآکر فٹ ہو گیا جو قیامت تک ایسی شان سے چمکتا رہے گا ‘ یہاں پر میں دوباتوں کا ذکر ضروری سمجھتا ہوں کہ مری آرٹس کونسل کے تمام لوگ میرے لیے قابل احترام ہیں جنہوں نے اُس دیوانے کی دیوانگی محبت شفقت کو برداشت کیا اگر کبھی اُس دیوانے کی کسی بات سے مری والوں ‘ کشمیر والوں یا آرٹس کونسل والوں کا دل دکھا ہو تو میں بطور باپ اُن تمام لوگوں سے ہاتھ باندھ کر معافی کا خواستگار ہوں اور اگر کسی نے دوران زندگی ناصر مجذوب سے کوئی لین دین کیا ہو اور اگر کسی نے ناصر سے کچھ لینا ہو تو میں کھلے دل سے اُس کی ذمہ داری قبول کرتا ہوں میں خوشی سے دوں گا ‘ آخری بات ناصر کی روح کے لیے کہ ناصر مری آرٹس کونسل کے تمام ساتھی مری کے لوگ لاہور کے تمہارے بھائی تمہارے غم میں نڈھال ہیں مری کے درخت آرٹس کونسل کے درو دیوار مال روڈ اور جہاں جہاں تم جاتے اور بیٹھتے تھے سب تمہیں یاد کر تے ہیں اور ہمیشہ یاد کرتے رہیں گے ‘ تمہاری بھابی ماں اُس جگہ کو صاف کر تی ہیں جہاں تم جوتے اتار کر مرشد خانے میں داخل ہو تے تھے ‘ تمہاری بہنیں تمہارے دئیے ہوئے گفٹ روز سامنے رکھ کر تمہیں یاد کر تی ہیں ‘ روزانہ دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتی ہیں اور مجھے تمہارا چہرہ اور قبر مبارک جب بھی یاد آتی ہے تو یہ فقرہ ہونٹوں پر سرکنے لگتا ہے ۔
آخر گل اپنی خاک در میکدہ ہو ئی پہنچی وہی پہ خاک جہاں کا خمیر تھا
بچھڑا کچھ اس اداسے کہ رت ہی بدل گئی اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا