خلافتِ الٰہیہ کی ذمّہ داریاں :- مفتی کلیم رحمانی

Share
مفتی کلیم رحمانی

خلافتِ الٰہیہ کی ذمّہ داریاں

مفتی کلیم رحمانی
8329602318 Mob:

حکومتِ الٰہیہ کی ذمّہ داریوں سے مراد حکومتِ الٰہیہ کے سربراہ ، عہدیداران اور کارکنان کی ذمّہ داریاں ہیں۔ یوں تو اسلام میں ہر شخص کچھ نہ کچھ ذمّہ داریوں کا مکّلف ہے، لیکن حکومتِ الٰہیہ کی ذمّہ داریاں بہت اہم اور وسیع ہیں ، کیوں کہ جو شخص جتنے اہم عہدے پر فائز ہوتا ہے وہ اتنا ہی اہم ذمّہ داریوں کا مکّلف ہوتا ہے،

چونکہ حکومتِ الٰہیہ کا عہدہ بہت اہم ہے اس لئے اس کی ذمّہ داریاں بھی بہت اہم ہیں۔
حکومت الٰہیہ کی اولین ذمہ داری یہ ہے کہ دنیا کے جس ملک اور شہر میں اللہ کا دین اخلاقی اور سیاسی لحاظ سے غالب ہے اس کے غلبہ کو قائم رکھے، اور جس ملک و شہر میں اللہ کا دین اخلاقی اور سیاسی لحاظ سے غالب نہیں ہے وہاں اس کو غالب کرے۔
کسی ملک میں دین کے غلبہ کا مطلب یہ ہے کہ اس ملک میں اسلامی سیاست و قوانین کی حکمرانی ہو، اور غیر اسلامی سیاست و قوانین ممنوع ہوں۔ لیکن ظاہر ہے دین کا یہ غلبہ صرف تمنا سے قائم نہیں ہوگا ، بلکہ اس کے لیے کوشش شرط ہے اور اس کی ابتدا پہلے اپنی ذات سے کرنی ہوگی، اور وہ اس طرح کہ پہلے اپنے دل و دماغ کو باطل افکار نظریات کی غلامی سے آزاد ہی نہیں بلکہ باغی کرلے، اور دل و دماغ کو اسلامی افکار و نظریات کا صرف پابند ہی نہیں بلکہ عاشق کرلے۔
باطل سے بغاوت اور اسلام سے محبت دراصل حکومت الٰہیہ کا بیج ہے، اور جب تک یہ بیج دل و دماغ کی زمین میں داخل نہیں ہوتا تب تک کسی بھی انسان کی زندگی میں حکومت الٰہیہ کا پودا نہیں اگ سکتا اور جس کی زندگی حکومت الٰہیہ کے پودے سے محروم ہو اس کی زندگی دوسروں کو کیا حکومت الٰہیہ کا سایہ اور پھل دے سکتی ہے۔ لیکن جس کے دل و دماغ میں حکومت الٰہیہ کا بیج داخل ہوگیا ضرور اس میں پودا آئے گا اور یہ پودا ضرور ایک دن تناور درخت بنے گا جس سے لوگ سایہ اور پھل حاصل کریں گے۔
دوسری ذمہ داری یہ ہے کہ اپنے قول و فعل کو باطل کی غلامی سے بالکل آزاد کرکے اسلام
کی غلامی میں دیدے اور باطل سے بغاوت اور اسلام سے محبت صرف اپنی ذات تک محدود نہ رکھے بلکہ اس زمین سے باطل کی حکمرانی کو ختم کرنے اور اسلام کی حکمرانی کو قائم کرنے کی مسلسل کوشش کرے۔ ظاہر ہے جب باطل حکمرانی کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے گی تو باطل پرست، طاقت و قوت سے اس کوشش کو دبانے کی کوشش کریں گے تو ایسی صورت میں طاقت و قوت سے ان کا مقابلہ کرنا بھی حکومت الٰہیہ کی ذمہ داری ہوگی۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں اہل حکومت کی چند ذمہ داریاں یوں بیان فرمائی :
اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّکَّنَّا ھُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوْا الَّلٰوۃَ وَآتَوُا الزَّکٰوۃَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَھَوْا عَنِ الْمُنْکَرِ وَ لِلّٰہِ عَاقِبَۃُ الْاُمُوْرِ (الحج : ۴۱)
’’اگرہم ان لوگوں کو زمین میں اقتدار دے تو وہ نماز قائم کریں گے اور زکوٰۃ دیں گے اور بھلائی کا حکم دیں گے اور برائی سے روکیں گے، اور اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہے کاموں کا انجام۔‘‘
مذکورہ آیت کے اولین مصداق انحضورﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم ہیں کیوں کہ انہیں نزول قرآن کے وقت ہی زمین کا اقتدار حاصل ہوچکا تھا، اور انہوں نے آیت میں بیان شدہ کاموں کو بحسن و بخوبی انجام دیا، لیکن اللہ کا یہ وعدہ صرف آنحضورﷺ اور صحابہ کرامؓ کے لیے نہیں ہے بلکہ قیامت تک آنے والے اہل ایمان کے لیے ہے بشرط یہ کہ غلبہ دین کے لیے اسی طرح خون پسینہ بہایا جائے جس طرح آنحضورﷺ اور صحابہ کرامؓ نے بہایا۔
مذکورہ آیت میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کو زمین کا اقتدار دینے کی بات کہی، اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کے نزدیک ایمان والوں کے لیے زمین کااقتدار بہت پسندیدہ چیز ہے ، لیکن یہ المیہ ہی ہے کہ آج بہت سے دین کے دعویدار افراد ایمان والوں کے لیے زمین کے اقتدار کو بڑا سمجھتے ہیں۔
اس میں شک نہیں کہ جس اقتدار کے ذریعہ دین کو غالب نہ کیا جائے وہ اقتدار اللہ کے نزدیک بہت ناپسندیدہ ہے لیکن جہاں تک اسلامی اقتدار کی بات ہے تو اللہ کو صرف پسند ہی نہیں بلکہ اہل ایمان سے مطلوب بھی ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا :
وَلَقَدْ کَتَبْنَا فِی الزَّبُوْرِ مِنْ م بَعْدِ الذِّکْرِ الْاَرْضَ یَرِثُھَا عِبَادِیَ الصَّالِحُوْنَ۔
(انبیاء : ۱۰۵)
’’ اور تحقیق ہم نے لکھ دیا زبور میں نصیحت کے بعد کہ زمین کے حقیقی وارث میرے نیک بندے ہوں گے۔‘‘
مطلب یہ کہ اس زمین پر حکومت کرنے کا صحیح اور جائز حق اللہ کے نیک بندوں کا ہے، لیکن اگر اللہ کے نیک بندوں نے اپنے اس حق کو حاصل نہیں کیا تو اللہ کے نافرمان اس حق کو غضب کرلیں گے کیوں کہ یہ فطری امر ہے کہ جو شخص اپنے حق سے غافل ہوجاتا ہے تو اس کا حق چھین جاتا ہے، چنانچہ اسی کا نتیجہ ہے کہ آج زمین کے زیادہ تر حصہ پر اللہ کے نافرمان بندے حکومت کررہے ہیں ، اس کی اصل وجہ یہی ہے کہ اہل ایمان زمین پر حکومت کرنے کے حق سے غافل ہوگئے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ مسلمان اپنے اس حق کو پہچانیں اور اس کے حصول کی جدوجہد کریں کیوں کہ جو حق غضب ہوجاتا ہے وہ بغیر جدوجہد کے حاصل نہیں ہوتا۔
مذکورہ آیت میں اہل ایمان کا پہلا کام نماز قائم کرنا بیان کیا گیاہے ، یوں تو نماز ہر مسلمان پر فرض ہے لیکن اس سلسلہ میں اہل حکومت کی ذمہ داری بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے اور وہ یہ کہ خود بھی نماز کا اہتمام کریں اور مسلم معاشرہ میں نماز کو قائم کرنے کا نظام قائم کریں کہ کوئی مسلمان نماز چھوڑنے نہ پائے اور یہ تب ہی ممکن ہے جب کہ حکومت کی جانب سے نماز چھوڑنے پر سزا مقرر ہو۔
چنانچہ اس سلسلہ میں ائمہ کرام نے جان بوجھ کر نماز چھوڑنے والے کے لیے جو سزا
مقرر کی ہے وہ اس طرح ہے۔ امام شافعیؒ اور امام مالکؒ کا مسلک یہ ہے کہ پہلے نماز چھوڑنے والے کو توبہ کے لیے کہا جائے گا اگر توبہ نہ کرے تو بطور سزا قتل کردیا جائے گا، امام ابو حنیفہؒ کا مسلک یہ ہے کہ اس کو قتل نہیں کیا جائے گا بلکہ اس کو سزا دی جائے گی اور قید کردیا جائے گا یہاں تک کہ وہ نماز پڑھنے لگے۔ (تدبر حدیث ۱۶۵)
مذکورہ آیت سے یہ بات واضح ہوئی کہ اہل حکومت کا پہلا کام مسلم معاشرہ میں مکمل طور پر نماز کی ادائیگی کا نظام قائم کرنا ہے، وہیں یہ بات بھی واضح ہوئی کہ مسلم معاشرہ میں مکمل طور پر نماز کی ادائیگی کا نظام قائم کرنے کے لیے حکومت الٰہیہ کا قیام ضروری ہے، کیوں کہ بغیر حکومت کے کسی جرم پر سزا جاری نہیں ہوتی، لیکن افسوس ہے کہ بہت سے دین کے دعویدار ،مسلمان یہ چاہتے ہیں کہ مسلمان سو فیصد پنچ وقتہ نمازوں کے پابند بن جائیں۔ لیکن پھر بھی وہ حکومت الٰہیہ کے قیام کی ضرورت محسوس نہیں کرتے جبکہ حکومت الٰہیہ کے قیام کے بغیر سو فیصد مسلمان نماز کے پابند بن ہی نہیں سکتے، مذکورہ آیت میں اہل حکومت کا دوسرا کام یہ بیان کیا گیا کہ وہ زکوٰۃ ادا کریں گے، یوں تو زکوٰۃ ہر صاحبِ نصاب مسلمان پر فرض ہے، لیکن اہل حکومت پر مسلم معاشرہ میں زکوٰۃ کی ادائیگی و وصول یابی کا نظام قائم کرنا بھی فرض ہے ، کیوں کہ مسلم معاشرہ میں مکمل طور پر زکٰوۃ کی ادائیگی و وصول یابی کا نظام حکومت الٰہیہ کے بغیر قائم نہیں ہوسکتا ، اس سے معلوم ہوا کہ زکوٰۃ کی مکمل ادائیگی اور حکومت الٰہیہ میں بہت گہرا تعلق ہے، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سورہ توبہ کی آیت ۶۰ میں زکوٰۃکے جو آٹھ مصارف بیان کیے ہیں ان میں ایک مصرف عاملین بھی ہیں یعنی زکوٰۃ وصول کرنے والے، اور عاملین حکومت مقرر کرتی ہے۔ آنحضورﷺ کی وفات کے بعد رونما ہونے والے حالات میں خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیقؓ کے اقدام سے بھی زکوٰۃ کی ادائیگی میں حکومت الٰہیہ کی اہمیت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے، آنحضورﷺ کی وفات کے فوراً بعد عرب کے کچھ نو مسلم قبائل
نے زکوٰۃ دینے سے انکار کردیا تو حضرت ابوبکرؓ نے اس فتنہ کو حکومت کے ذریعہ سے ہی دبایا اور ان کے خلاف جہاد کیا۔
آیت مذکورہ میں اہل حکومت کا تیسرا کام یہ بتایا گیا کہ وہ معروف کا حکم دیں گے اور منکر سے روکیں گے، ہر وہ چیز معروف ہے جس کے کرنے کا حکم اللہ اور اس کے رسولﷺ نے دیا ہو، اور ہر وہ چیز منکر ہے جس سے اللہ اور اس کے رسولﷺ نے منع کیا ہو۔ اسلام میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی بہت زیادہ اہمیت ، یہاں تک کہ اس کو اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کی بعثت کا اصل مقصد قرار دیا جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے :
کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَامُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُوْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ۔ (اٰل عمران : ۱۱۰)
’’ تم بہترین امت ہو تمہیں لوگوں کے لیے نکالا گیا ہے، تم معروف کا حکم دیتے ہو اور منکر سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔‘‘
یوں تو معروف کا حکم دینا اور منکر سے روکنا ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے ، لیکن مسلمانوں میں ایک ایسی جماعت کا ہونا لازم و ضروری ہے جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضہ کو بطور خاص انجام دے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا :
وَلْتَکُمْ مِنْکُمْ اُمۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلٰی الْخَیْرِ وَیَامُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَاُوْلٰٓءِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۔ (اٰل عمران : ۱۰۴)
’’ اور تم میں ایک جماعت ایسی ضرور ہونی چاہیے جو خیر کی طرف بلائے اور معروف کا حکم دے اور منکر سے روکے اور یہی لوگ کامیاب ہیں۔‘‘
اور ظاہر ہے یہ فریضہ پورے طور پر بحسن و خوبی مسلمانوں کی وہی جماعت انجام دے سکتی ہے جس کے پاس حکومت کی طاقت و قوت ہو۔ اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ امر بالمعروف
کا اور نہی عن المنکر کا حکومت الٰہیہ سے بہت گہرا تعلق ہے۔
ماضی قریب کے ایک جلیل القدر عالم دین حضرت علی میاں ندویؒ کی ایک تحریر سے بھی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضہ میں حکومت الٰہیہ کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے جو آپ نے اپنی معرکۃ الآراء کتاب ’’ سیرت سید احمد شہید‘‘ میں تحریر فرمایا ہے : چنانچہ سورہ اٰل عمران کی مذکورہ آیت ۱۰۴ کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
’’ لیکن یہ یاد رہے کہ امر (حکم) اور نہی (ممانعت) کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں، اہل علم جانتے ہیں کہ امر و نہی کے لفظ میں اقتدار و تحکم کی شان ہے ، یہ نہیں فرمایا کہ وہ بھلائی اختیار کرنے کے لیے درخواست و عرض کریں گے، پس امر و نہی کے لیے سیاسی اقتدار اور مادی قوت کی ضرورت ہے اور امت کا فریضہ ہے کہ وہ اس کا انتظام کرے۔‘‘ (منقول : سیرت سید احمد شہید، صفحہ ۵۷)
اہل حکومت میں احساس ذمہ داری پیدا کرنے کے لیے آنحضورﷺ نے بہت سی ہدایات دی ہیں ان میں چند یہ ہیں۔
عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَؓ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِﷺ مَا مِنْ اَمِیْرِ عَشَرَۃٍ اِلَّا یُوْتیٰ بِہٖ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ مَغْلُوْلاً حَتّٰی یَفُکَّ عَنْہُ الْعَدْلُ اَوْ یُوْبِقَہُ الْجَوْرُ۔ (دارمی، مشکوۃ)
’’ حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو کوئی دس افراد کا بھی امیر ہوگا تو قیامت کے دن اس کو طوق پہنا کر لایا جائے گا یہاں تک کہ عدل اس سے طوق کو اتار دے گا یا ظلم اس کو ہلاک کردے گا۔‘‘
مذکورہ حدیث سے بخوبی سمجھا جاسکتا ہے کہ آنحضورﷺ نے کیسے تنبیہی انداز میں حکومت الٰہیہ کے سربراہان و عہدیداران کو احساس ذمہ داری سے آگاہ کیا، اس سے معلوم ہوا کہ حکومت الٰہیہ کی سربراہی وہ عہدیداری کوئی پھولوں کی سیج نہیں بلکہ یہ ایسا راستہ ہے جس کے ایک
طرف عدل ہے اور دوسری طرف ظلم ہے ، جہاں قدم عدل کی طرف سے ہٹا وہ ظلم کے گڑھے میں گرا، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس راستے سے گزرے بغیر دین اسلام دنیا میں غالب نہیں آسکتا اور نہ امت مسلمہ دنیا کی قائد و امام بن سکتی ہے۔
ایک دوسری حدیث میں آنحضورﷺ نے فرمایا : عَنْ اَبِی اُمَامَۃَ عَنِ النَّبِیِّﷺ قَالَ اِنَّ الْاَمِےْرَ اِذَا ابْتَغیٰ الرَّےْبَۃَ فِیْ النَّاسِ اَفْسَدَھُمْ(ابوداؤد ، مشکوۃ)
’’ حضرت ابو امامہؓ نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا جب امیر لوگوں میں شک کی بات تلاش کرتا ہے تو ان کو خراب کردیتا ہے۔ ‘‘
مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ حکومتِ الٰہیہ کے سربراہ اور عہدیدار کو لوگوں میں غیر ضروری شکوک و شبہات تلاش نہیں کرنا چاہئے ، اس لئے کہ امیر یا کوئی عہدیدار عوام کے متعلق بے جا شکوک و شبہات میں پڑے گا تو اس سے عوام میں حکومت کے متعلق بدظنی پیدا ہوگی اور یہ بدظنی حکومت کی کمزوری کا سبب بنے گی۔
ایک اور حدیث میں آنحضورﷺ نے فرمایا :
عَنْ اَبِیْ اَلسَّمَاخِی الْاَزْدِیِّی عَنِ ابْنَ عَمَّ لَہ‘ مِنْ اَصْحَابِ النَّبِیِّ ﷺ اَنَّہ‘ اَتیٰ مَعَاوِیَۃَ فَدَخَلَ عَلَیْہِ فَقَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِﷺ یَقُوْلُ مَنْ اَمْرِ النَّاسِ شَیْءًا ثُمَّ اَغْلَقَ بَابَہ‘ دُوْنَ الْمُسْلِمِیْنَ اَوُالْمَظْلُوْمِ اَوْ ذِیْ الْحَاجَۃِ اَغْلَقَ اللّٰہُ دُوْنَہ‘ اَبْوَبَ رَحْمَتِہٖ عِنْدَ حَاجَتِہٖ وَفَقْرِہٖ اَفْقَرَ مَایَکُوْنُ اِلَیْہِ (رواہ البیھقی، مشکوۃ)
’’حضرت ابو سماخ ازدی اپنے چچا کے بیٹے سے روایت کرتے ہیں کہ جو نبیﷺ کے اصحاب میں سے تھے وہ حضرت معاویہؓ کے پاس آئے اور کہا میں نے نبی ﷺ کو فرماتے سُنا جو شخص لوگوں کے اُمور میں سے کسی امر کا ذمہّ دار بنے پھر وہ مسلمانوں پر اپنا دروازہ بند کرلے یا کسی مظلوم یا ضرورت مند کے لئے دروازہ بند کرلے تو اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کے دروازے اس کے لئے
اس کی ضرورت کے وقت بند کرلے گا جب کہ وہ اس کا بہت محتاج ہوگا ۔ ‘‘
مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ حکومتِ الٰہیہ کے سربراہ یا عہدہ دار کو مسلمانوں محتاجوں اور مظلوموں کے لئے ہمیشہ اپنے دروازے کُھلے رکھنا چاہیے ، ورنہ وہ اللہ کی رحمت سے محروم ہوجائے گا اور جو اللہ کی رحمت سے محروم ہوجائے وہ ہر بھلائی سے محروم ہوگیا۔ خلیفہ دوّم حضرت عمرفاروقؓ کے طرزِ حکومت سے بھی اہل حکومت کی ذمّہ داریوں کا پتہ چلتا ہے، چنانچہ روایت میں ہے :
عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابَ اَنَّہْ کَانَ اِذَا بَعَثَ عُمَّالَہٗ شَرَطَ عَلَےْھِمْ اَنْ لَّا تَرْکَبُوْا بِرْذَوناََ وَلاَ تَاءْ کَلُوْا نَقِیَّا وَلاَ تَلْبِسُوْا رَقِےْقََا وَلاَ تَغْلِقُوْا اَبْوَابَکُمْ دُونَ حَوَاءِجِ النَّاسِ فَانْ فَعَلْتُمْ شَےْئاََ مَّنْ ذٰلِکَ فَقَدْ حَلَّتْ بِکُمُ الْعُقُوْبَۃَ ثُمَّ ےُشَیَّعُھُمْ ) بیہقی، مشکوٰۃ)
’’ حضرت عمرؓ بن خطاب سے روایت ہے کہ جب وہ اپنے کارکنوں کو بھیجتے تو ان پر شرط لگاتے کہ ترکی گھوڑوں پر سوار نہ ہو ، میدہ کی روٹی نہ کھائیں ، باریک کپڑے نہ پہنیں اور لوگوں کی
ضرورتوں پر دروازے بند نہ کریں ، اگر تم نے ان میں سے کسی بات کا ارتکا ب کیا تو تمھیں سزا ملے گی ، پھر ان کو رُخصت کرنے کے لئے تھوڑی دور تک ساتھ جاتے ۔‘‘
حضرت عمرؓ کے مذکورہ طرزِ عمل سے جہاں یہ بات واضح ہوئی کہ آپ نے کیسے سادگی پر مبنی حکومت کی ، وہیں یہ بات بھی واضح ہوئی کہ حکومتِ الٰہیہ کے سربراہان، عہدیداران اور ملازمین کی ذاتی زندگی کیسی ہونی چاہئیے۔ لیکن یہ المیہ ہی ہے کہ آج کی جمہوری و بادشاہی حکومتوں کے سربراہان، عہدیداران اور ملازمین کی زندگیوں میں سادگی کا یہ تصّور محال ہے۔ اس
کی اصل وجہ یہی ہے کہ جمہوری و بادشاہی حکومتوں کے سربراہان ، عہدیداران اور ملازمین کے پیشِ نظر انسانی غلبہ اور اپنا ذاتی فائدہ ہوتا ہے ، جب کہ حکومتِ الٰہیہ کے سربراہان، عہدیداران اور ملازمین کے پیشِ نظر اسلامی غلبہ اور انسانی فائدہ ہوتا ہے او راسی مقصد کے حصول میں وہ اپنی ذاتی بڑائی اور ذاتی فائدے کو بھُلا دیتے ہیں۔

Share
Share
Share