کالم : بزمِ درویش
مرشد اداس ہے
پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ای میل:
میری جان ‘میرا لاڈلہ ‘مجذوب ‘دیوانہ ‘سراپا فرزانگی ‘عشقِ الٰہی کی چلتی پھرتی تصویر ناصر کشمیری اِ س دار فانی سے منہ موڑ کر مٹی کی چادر اوڑھ کر خاک نشین ہو گیا ‘ چل چلا کا یہ اصول روز اول سے خالقِ کائنات نے وضع کر رکھا ہے جب سے پہلا ذی روح اِ س جہانِ سنگ و خشت میں بزم جہاں کی رونقیں بڑھا نے آیا آخر اُسے اپنا کردار اپنی خوشبوبکھیر کر جانا پڑا ‘
خدا کا پیغمبر ہو ‘ سکندر ہو ‘ سلطان ہو یا تہی دامن فقیر ‘ کسی کو اِس سے مفر نہیں ‘ مو ت کی گھاٹی سے گزرنا سب کے لیے واجب ٹہرا ‘ دنیا وی شہنشاہ ‘ عالم اور تاجدار بھی رخصت ہو گئے ‘ ستم رسیدہ روزگار کو بھی جانا پٖڑا ‘ دونوں ایک ہی منزل کے راہی ہیں ‘ کوئی پھولوں کی سیج ‘ عوام کے ہجوم سے ہو کر وہاں پہنچا تو کو ئی ناصر کی طرح پگڈنڈیوں کی خاک پھانک کر خاک نشین ہوا ‘ ریشمی شاہی لباس میں ملبوس اور پھٹے پرانے چیتھڑوں میں لپٹے ہوئے دونوں کا لباس دو گز لٹھا ہی ٹہرا ‘ اطلس و کمخواب اور گڈری کا فرق یہاں رائج ہے ‘ وہاں محمود و ایاز ی کوئی معنی نہیں رکھتی کسی پنجابی زبان کے باذوق شاعر نے کیا خوب کہا ہے ۔
ملک عدم توں ننگے پنڈے اِیس جہانے آؤندا اے
بندہ اک کفن دی خاطر کناں پینڈا کر دا اے
میرا لاڈلہ ناصر کشمیری اِسی پل صراط سے گزر کر بارگاہِ الٰہی میں پہنچ گیا جہاں ہم سب نے آگے پیچھے جانا ہے لیکن کشمیر کے مجذوب کی وفات ایک فرد کی وفات نہیں ہے بلکہ ایک ایسا دیوانہ مجذوب ہم سے بچھڑ گیا ہے جس کی یادیں مدتوں بھلائے نہیں بھولیں گی ‘ موت بھی اِس دھرتی کی کیا اٹل حقیقت ہے اِس بے رحمی سے اچانک وار کر تی ہے کہ سلطان وقت کو تاج و تخت سمیٹنے اور درویش کو مجذوب کو اپنا بوریا لپیٹنے کا موقع نہیں مل پاتا ‘ کوئی اقتدار کے ایوانوں میں شاہی مسند پر آخری ہچکی لے یا فٹ پاتھ پر دم توڑے آخری قیام گاہ وہی دو گز بھر زمین ‘ اوپر کوئی کچی مٹی کا لیپ دے دے یا گنبد مینار بنا دے ‘ بستر وہی خاک یا پتھریلی زمین ہی رہے گی سب کی تخلیق میں مٹی جو تھی کچھ لوگوں کے جانے کے بعد اُن کی قدر آتی ہے تو انسان پکار اٹھتا ہے ۔
لازم ہے زمانے پہ کرے قدر ہما ری
ہم لوگ قمر لوٹ کے آیا نہیں کرے
انسان جب اِ س عالم جہاں میںآتا ہے تو اپنی کوشش اور مقدر کو طے کر دہ راستوں پر زندگی کا طویل سفر طے کر تا ہے یہ سفر طویل اور پر ہیچ ہے جسے ہر ایک نے طے کرنا ہے ‘ سکندر تیمور چنگیز نے ساری عمر گھوڑے کی پیٹھ پر گزاری ‘ جمشیدجہاں نما کے اسرار میں ڈوبا رہا ‘ قیصر وکسری اقتدار کی مسند سے چمٹے رہے ‘ دیو جانس قلبی درویش نے ساری عمر ایک ٹب میں مراقب ہو کر گزاری ‘ منصور حلاج نے نعرہ حق بلند کر کے ہنس کر پھانسی کا پھندہ گلے میں ڈال لیا ‘ عاشقوں نے محبوب کے جلوؤں میں مست محبوب کے ابروئے چشم کے اشاروں میں غلام بن کر گزار دی ‘ مجنوں دیوانے صحراؤں کی خاک چھانتے رہے ‘ مادی انسان دولت کے انبار بلندکرتے رہے ‘ دولت مندوں بادشاہوں نے فلک بوس فصیلیں کھڑی کرکے موت کے وار سے بچنا چاہا پر وہ آکر رہی ‘ گداگروں نے چیتھڑے پہن لئے شائد موت ہمارا نوٹس نہ لے لیکن وقت نے انہیں بھی اُچک لیا ‘ موت نہ شاہی لباس دیکھتی ہے نہ کسی کی سادگی اور غربت ‘ کوچہ فنا سے گزرنا ہر ذی روح کے مقدر میں لکھ دیا گیا خوش قسمت ہو تے ہیں وہ لوگ جو موت کی آہٹ سن کر دبک نہیں جاتے بلکہ مسکرا کر موت کااستقبال کر تے ہیں ‘ وادی موت میں اتر کر فنا نہیں ہو تے بلکہ امر ہو جاتے ہیں یہ شیوا انبیاء شہدا ء صدیقین اولیا اللہ کا ہو تا ہے ۔ اِس میں کو ئی شک نہیں کہ موت بر حق ہے ہر ذی روح نے یہ جام پینا ہے لیکن مو ت کے مزاج اور انتخاب کی داد دینا پڑتی ہے کہ وہ گلستان ہستی کے اُس پھول پر حملہ آور ہو تی ہے جو سب سے زیادہ خوبصور ت ‘ تروتازہ ‘ نکھرا ہوا ‘ خوشبو دار ‘ جو پو رے گلشن کی رونق ہو تا ہے ‘ بزم عالم کا ایسا دیپ بجھاتی ہے جس کی روشنی سے وہ روشن ہو تا ہے ‘ معاشرے کے اُس فرد پر حملہ کر تی ہے جس سے انسانیت کا بھرم قائم ہو تا ہے ‘ محفل علم کے اُس فرد کو اُچک لیتی ہے جو محفل کی جان ہو تا ہے ‘ کہکشاں کے اُس روشن ستارے کو توڑتی ہے جس کی وجہ سے کہکشاں رنگ و نور میں غرق ہوتی ہے ‘ قوسِ قزح کی اُس لکیر کو مٹاتی ہے جو سب سے زیادہ شوخ اور رنگین ہو اور خاندان کے سر خیل اُس سربراہ پر حملہ آور ہو تی ہے جو قبیلے کی جان ہو تا ہے زمین کو اُس شخص سے محروم کر تی ہے جس کے زمانے سے دھرتی تھور زدہ بنجر ہو جاتی ہے ‘ اربوں کے اِس جہاں میں لاکھوں ایسے انسان ہیں جو دن رات گاجر مو لی کی طرح کٹ رہے ‘ مادی جانوروں کے ریوڑ فنا کے گھاٹ اتر رہے ہیں ‘ ایسے انسانوں کے آنے جانے سے زمانے کی سانسیں نہیں رکتی ‘ نبض کائنات اسی طرح رواں دواں رہتی ہے ‘ اِن کے جانے سے تو ساتھ والے گھر کو بھی پتا نہیں چلتا ہے جیسے گھاس کا تنکا راستے سے ہٹا دیا گیا جن کا ہونا نہ ہونا برابر ہے ان میں سے اکثر تو ایسے تھے کہ مائیں اِن کو جن کر پچھتائیں اِیسے لوگ تو دھرتی پر بو جھ بن کر آرام سے چلتے پھرتے ہیں لیکن دُکھ اُس وقت ہوتا ہے وہ عظیم لوگ جن کے جانے سے نبض کائنات تھم جائے ‘ ایسے لوگ روز روز پیدا نہیں ہو تے یہ لوگ خاص ماؤں کی کوکھ سے جنم لیتے ہیں ‘ خاص ہاتھوں میں پرورش لیتے ہیں یہ خاص لقموں پر پروان چڑھتے ہیں ‘ خاص زمانوں کے لیے مشعل نور کا کام دیتے ہیں ‘ ایسے لوگوں کے لیے آسمان صدیوں کی خاک چھانتا ہے ‘ اِن ہیرے جواہرات جیسے انسانوں کے لیے صدف کو سالوں سمندر کی پاتالوں میں مراقب ہو نا پڑتاہے ‘ یہ کروڑوں دعاؤں کا پھل ‘ لاکھوں آہوں کا اثر اور سینکڑوں دماغوں کا عطر ہو تے ہیں اِن کے حسنِ عمل سے معاشرے زندہ رہتے ہیں ‘ ناصر کشمیری ایسا ہی عظیم عشقِ الٰہی کا مسافر تھا اُس کے انتقال پر ان کے رشتہ داروں کے ساتھ افسوس کے ساتھ ساتھ ان کے ہر جاننے والے عقیدت مندکو خود اپنے آپ سے تعزیت کر نی چاہیے اِس لیے کہ ناصر کشمیری جیسے لوگ کسی خاص خاندان قبیلے کے فرد نہیں ہوتے یہ زمین کا نمک اور پہاڑی کا چراغ ہو تے ہیں ‘ یہ رہتے ایک گھر یا ایک محلے میں ہیں لیکن یہ کئی گھروں محلوں کی پہچان ہو تے ہیں یہ وہ لوگ جس کے بچھڑنے سے فقر و درویشی کے کو چے اُجڑ جاتے ہیں یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے جسم پر جیسے ہی کفن پڑتا ہے تو بزم جہاں کا رنگ پھیکا پڑ جاتا ہے ‘ یہی وہ لوگ ہو تے ہیں جو متاع فقیری میں لطف امیری لینے کے عادی ہو تے ہیں ‘ ناصر کشمیری راہ فقر کا مسافر تھا غربت کی کڑی دھوپ میں پلنے کے باوجود جس کی ساری زندگی عمر فاقوں کی کڑی دھوپ پڑتی رہی لیکن اُس کی زندگی میں ایک بھی ایسا کمزور لمحہ نہیں آیا جب فاقوں سے تنگ آکر یا کسی مجبوری کے تحت اُس کی نظر یا گردن کسی کے سامنے خم ہو ئی ہو ‘ مال و زر اُس کی ابر وئے فقر کا سودا نہ کر سکی ‘ مو ت نے جب میرے گلشن کے سب سے خوبصورت خوشبو دار پھول ناصر کشمیری پر حملہ کیا تو میں لاہور میں کسی فنکشن میں تھا ہوٹل کی رنگ و نور میں روشن راہداریاں اندھیروں میں ڈوب گئیں اچانک میرے مو بائل سکرین پر مری کے بے شمار دوستوں کے پیغامات آنے شروع ہو گئے کہ ہمارا پیارا ناصر اِس دنیا میں نہیں رہا ‘ پہلے تو مجھے بلکل بھی یقین نہیں آیا لیکن جب کئی قابل اعتبار دوستوں کے پیغامات آئے تو مجھے لگا کسی نے میری سانس کی نالی پر ہاتھ رکھ دیا ہو میرے اوپرکے ٹو پہاڑ رکھ دیا ہو‘ اندھیرا نظروں کے سامنے چھانے لگا میں سہارا لے کر الگ کونے میں جاکر بیٹھ گیا میرا دماغ جسم شل ہو چکا تھا زمین مفلوج سانسیں رکتی ہو ئی وہ میری زندگی کا لازمی حصہ دما غ کے سناٹے غم کی چادر تن چکی تھی میں زخمی پرندے کی طرح پھڑ پھڑا رہا تھا پھر میں دوڑ کر کھلے آسمان کے نیچے آگیامیرا سانس رک رہا تھا دماغ سائیں سائیں کر رہا تھا پھر میں نے تسلی کے لیے فاروق عباسی کو فون ملایا وہ دھاڑیں مار کر بلک بلک کر رو رہا تھا مجھے یقین ہو گیا میں نے فون بند کر دیا میرا جسم ماتم کدہ کربلا کا میدان بن چکا تھا میرا جسم پگھلنے لگا پھر ناصر کے غم جدائی موت کا غم میری آنکھوں سے موسلا دھا ر بارش کی طرح بہنے لگا میں پتھر کی مو رتی کی طرح کھلے آسمان کے نیچے بیٹھا تھا ‘ میری آنکھوں سے غم کے دریا تیز رفتاری سے بہہ رہے تھے ساری دنیا کے رنگ پھیکے روشنیوں کے اجالے سیاہ اندھیروں میں ڈھل گئے تھے ‘ پھر میں نے کیف کھوکھر کو فون کیا بیٹا تم جہاں بھی ہو آج رات ہم نے ناصر کشمیری کے جسد خاکی کے پاس جانا ہے ایک ہی خیال آرہا تھا ۔
بھیڑ میں دنیا کے جانے وہ کہاں گم ہو گئے
کچھ فرشتے بھی رہا کر تے تھے انسانوں کے ساتھ