ذرائع ابلاغ — ماضی اور حال :- ڈاکٹرسید فضل اللہ مکرم

Share

ذرائع ابلاغ — ماضی اور حال

ڈاکٹرسید فضل اللہ مکرم
شعبہ اردو ‘ یونیورسٹی آف حیدرآباد

(نوٹ : یہ مضمون ماہنامہ ’’کتاب نما‘‘ نئی دہلی کے ۱۹۹۱ کے کسی شمارے میں شائع ہوا تھا۔ یہاں صرف آخری پیراگراف کا اضافہ کیا گیا ہے۔)
حضرت انسان کو جب بھی کوئی ٹھیس پہنچتی ہے یا کوئی تکلیف محسوس ہوتی ہے تو اس کی زبان سے لفظ’’آہ ‘‘ یا آنکھ سے آنسو نکل پڑتے ہیں یا پھر کسی خوشی یا مسرت کے موقع پر لبوں پر مسکراہٹ رینگنے لگتی ہے ۔

یہ جذبات و احساسات اس کی فطرت میں شامل ہیں ۔ اس کا ایک ہی مقصد ہے وہ یہ کہ انسان اپنی تکلیف یا مسرت کو دوسروں تک پہنچائے یا پھر دوسروں کی تکلیف و خوشیوں سے واقف ہو ۔ یہی اظہار ذرائع ابلاغ یا ترسیل کی پہلی کڑی ہے جو دنیا میں حضرتِ انساں کے ساتھ ہی وجود میں آئی ہے ۔
انسان ترقی پسند واقع ہوا ہے اس نے جیسے جیسے ترقی کے مدارج طئے کئے۔ اپنی زندگی کے دائرے کو وسیع تر کرنے کی کامیاب کوشش کی ۔ ضرورت ایجاد کی ماں ہوتی ہے ۔ اسی ضرورت نے انسان کو جستجو و کھوج اور تفتیش کی طرف مائل کیا اور لاشعوری طور پر ابلاغ کے مختلف ذرائع ایجاد ہونے لگے۔
’’ابلاغ‘‘ عربی لفظ ’’بلغ‘‘ سے نکلا ہے جس کے معنی پہنچانا، کے ہیں۔ انگریزی لفظ COMMUNICATION کا مادہ لاطینی لفظ COMMUNUS سے ہے جس کے معنی اطلاع دہی، آمد و رفت ، خط و کتابت کے ہیں ۔ ذرائع ابلاغ کے دو بڑے شعبے ہیں بلکہ اب تین شعبے بن گئے ہیں۔
۱۔ پرنٹ میڈیا PRINT MEDIA
۲۔ الکٹرانکس میڈیا ELECTRONICS MEDIA
۳۔ سوشیل میڈیا SOCIAL MEDIA
یہ دونوں شعبے صحافت کے دائرے میں آتے ہیں ۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ صرف پرنٹ میڈیا ہی صحافت ہے جو سراسر غلط ہے ۔ آج کے دور میں واقعات یا حقائق سے راست آگہی کا نام صحافت ہے ۔ صحافت کی جان انکشاف ہے ۔ واقعات و حوادث کے انکشافات پر ہی صحافت کے قصر کی تعمیر ہوتی ہے ۔ عوام کو بغیر کسی آمیزش کے واقعات سے باخبر رکھنا صحافت کا پہلا فرض ہے اور جب تک صداقت اور راست بازی سے یہ فرض انجام پاتا رہے گا صحافت کی قوت میں کوئی کمی نہیں پیدا ہوسکتی ۔ ہر ملک کی صحافت وہاں کے باشندوں کے جذبات و احساسات کا آئینہ دار ہوتی ہے ۔ اگر قوم ترقی یافتہ اور آزاد خیال ہے تو صحافت بھی ترقی یافتہ اور آزاد ہوگی ۔ جس قوم کی صحافت کا نصب العین حریت اور آزادی ہے وہ قوم آسمانوں کی بلندیوں کو چھونے لگے گی جس پر ساری دنیا کی نظریں ہوں گی اوراس قوم کے عروج کاستارہ ہمیشہ ہمیشہ بلند ہوکر رہے گا ۔ آج ہمارے سامنے پرنٹ میڈیا کے جو نمونے ہیں وہ سائنسی ایجادات کے رہین منت ہیں ۔ اس سے قبل یعنیٰ برسوں پہلے ابلاغ کے ذرائع اور وسائل کیا کیا تھے اس پر بھی ایک نظر ڈالیں ۔
ابتداء میں انسان اپنے ارتقائی سفر میں بہت سست واقع ہوا ہے ۔ چونکہ اپنے جذبات ، احساسات و خیالات کو دوسروں تک پہنچانا اس کی بنیادی ضرورت تھی ۔ اس لئے اس کے ذہن میں کھوجنے ، تفتیش کرنے اور کچھ کر دکھانے کی دھن سوار تھی ۔ وہ ابھی جنگلوں میں برہنہ اس درخت سے اس درخت پر اچھلتا کودتا رہا تھا ۔ اس کے باوجود وہ اپنی مخصوص آوازوں سے اپنے خیالات کو دوسروں تک پہنچانے لگا ۔ مختلف آوازوں کے ذریعہ وہ آنے والے حادثے یا خطرے سے اپنے قبیلے کو آگاہ کرتا یا کوئی خوشی کا پیغام ارسال کرتا ۔ کچھ عرصہ بعد اس نے ڈھول یا نقارے جیسی چیزیں استعمال کرنے لگا جس پر ضرب لگاکر وہ مختلف آوازیں پیدا کرتا اور ان آوازوں کے زیروبم میں ایک خاص مفہوم پوشیدہ ہوتا تھا جس سے قبیلے کے لوگ واقف ہوتے ۔ یہ ایک طرح سے منادی کا طریقہ تھا جسے آگے چل کر بادشاہوں نے بھی اس طریقے کو اپنایا ۔
انسانی سوچ کی کوئی حد نہیں ہے وہ جتنا سوچتا ہے اس کی فکر کا دائرہ اتنا ہی وسیع ہوتا جاتا ہے ۔ ابتداء میں اشاروں اور کنایوں کا دور تھا ۔ پھر آوازوں نے اس کی جگہ لی ۔ الفظ بننے لگے اور بولیوں کا وجود عمل میں آنے لگا ۔ پھر انسان نے سوچا کہ آواز اور خیالات کو مستقل روپ دیا جائے۔ چنانچہ تصویروں کا دور شروع ہوا کئی برسوں تک یہی حال رہا ۔ آوازوں کے بنیادی عناصر کو حروف کا روپ دیا جانے لگا چونکہ یونانیوں کا ذہن زیادہ زرخیز واقع ہوا ہے اس لئے انہوں نے حروف کو سادہ صورت دے کر لکھنے پڑھنے کا کام آسان کردیا ۔ پھر رفتہ رفتہ دنیا کے مختلف حصّوں سے رسم الخط ایجاد ہوئے ان میں تین بڑے رسم الخط ہیں ۔ سب سے پرانا اور زندہ جاوید رسم الخط چینی اور جاپانی کاہے جن میں اب بھی تصویری عناصر موجود ہیں ۔ دوسرا رسم الخط رومن ہے اور تیسرا یعنی جدید ترین رسم الخط عربی اور فارسی کا ہے ۔
جب رسم الخط وجود میں آیا تو ایک سوال پیدا ہوا کہ کس پر لکھا جائے ؟ کسی نے درخت کی چھال استعمال کی اور کسی نے پتوں اور مومی تختیوں پر اپنے خیالات منتقل کئے ۔ کوئی ساڑھے چار ہزار سال قبل مصریوں نے پانی کے اندر اُگنے والے درخت پے پی رس کی چھال اُتار کر، اس کے ٹکڑوں کو آپس میں جوڑ کر ایک پلندہ سا بنالیا اور اس پر لکھنے لگے ۔ پھر بھیڑ بکریوں کی کھال سے پارچے تیار کئے جانے لگے اس طرح سے لاشعوری طور پر ذرائع ابلاغ میں اضافہ ہونے لگا ۔
کہا جاتا ہے کہ چین میں ایک ذہین اور طباع شخص، سائی لون بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ ریشم کی کتابوں پر بہت لاگت آتی ہے جس نے یہ تدبیر سوچی ہے کہ پھٹے پرانے کپڑوں، درخت کی چھال اور ماہی گیری کے نکمّے جالوں کو کوٹ کر گودا بنالیا جائے ۔ گودے کو ہموار سطح پر پھیلا دیا جائے اور اسے اچھی طرح دبایا جائے اور جب خشک ہوجائے تو اس پر کتابت کرلی جائے ۔ اس طرح سے کاغذ کی پہلی شکل نمودار ہوئی جو تبلیغ کا بہت بڑا ذریعہ بن گیا۔
اس امر میں کوئی اختلاف نہیں رہا کہ سب سے پہلا چھاپہ خانہ چین میں ایجاد ہوا ۔ کب ہوا ۔۔۔؟ یہ بات تحقیق طلب ہے لیکن یہ بات تو واضح ہے کہ سب سے پہلی کتاب ۸۶۸ء میں چین میں چھاپی گئی ۔ ڈاکٹر عبدالسلام خورشید اپنی تصنیف ’’ داستان صحافت ‘‘ کے ص ۱۰؂ پر رقم طراز ہیں کہ :
’’۔۔۔چین کے صوبہ کانسو میں دنیا کی قدیم ترین کتاب دریافت ہوئی اس میں لکھا تھا کہ اس کتاب کو دانگ چی اے نے ۱۱مئی ۸۶۸ء کو مفت تقسیم کرنے کیلئے چھاپا تھا تاکہ اس کے والدین کی یاد کو دوام حاصل ہو۔۔۔‘‘
چین میں تانگ خاندان حکمراں تھا ۔ اس کے ماتحت ایک گزٹ ’’ٹی پاؤ‘‘(محل کی خبریں) کے نام سے جاری ہوا جسے دنیا کا پہلا مطبوعہ اخبار کہا جاتاہے اور یہ ۹۶۰ء کی بات ہے ، اس کے بعد دنیا کے مختلف ملکوں میں چھاپے خانے قائم ہونے لگے اور اخبارات کی اجرائی عمل میں آنے لگی ۔ یہ تھا ، دنیا میں ذرائع ابلاغ کی ابتدائی شکلوں کا سرسری جائزہ ۔ آےئے دیکھیں کہ ہندوستان میں ذرائع ابلاغ کا معیار کیاتھا اور کیاہے ؟ ۔
ہندوستان میں انگریزوں نے پہلا چھاپہ خانہ ۱۶۷۴ء میں بمبئی میں قائم کیا ۔ اٹھارویں صدی کے اوآخر میں مدراس اور کلکتہ میں چھاپے خانے قائم کئے گئے ۔ ۲۷مارچ ۱۸۲۳ء میں اردو کا پہلا مطبوعہ اخبار ’’جام جہاں نما‘‘ کے نام سے کلکتہ سے منشی سدا سُکھ نے جاری کیا ۔ اس سے قبل قلمی اخباروں اور پمفلٹوں کا رواج تھا اور اس سے قبل سب کچھ زبانی جمع خرچ کے دائرے میں آتا ہے ۔
یورپ کی تاریخ کے صفحات شاہد ہیں کہ وہاں ایک حویلی سے دوسری حویلی، ایک محل سے دوسرے محل اور ایک بادشاہ سے دوسرے بادشاہ تک خبریں لے جانے والے گشتی درویش تھے ۔ جو مستقل طور پر یہاں سے وہاں نئی معلومات کی ترسیل کا کام خوش اسلوبی سے انجام دیتے تھے ۔ بعض مخبر ایسے بھی تھے جو ناچ گاکر نغمات کی شکل میں تازہ ترین اہم معلومات کی تشہیر کرتے تھے ۔ عموماً یہ گانے اور ناچنے والے عجیب و غریب طرز کی بانسری بجاتے ہوئے گلی گلی گھوما کرتے تھے اور اطمینان سے نئی نئی باتیں معلوم کرتے تھے جس کے عوض امراء و بادشاہ انہیں انعام واکرام سے نوازا کرتے تھے ۔
ہندوستان میں خبر رسانی کی سب سے قدیم شکل ہم کو منومہاراج کے دور میں ملتی ہے اس دور میں خبر رسانی کا جو طریقہ رائج تھا وہ اس طرح تھا۔
۔۔۔’’گانو کا چودھری اپنے گانو کے نیک و بد کا پتا دس گاوں کے چودھری کو دے اور دس گانو والا بیس گانو والے چودھری کو دے اور بیس والا سو والے کو اور سو والا ہزار والے کو اطلاع دے ۔۔۔‘‘ ( بحوالہ ہندوستانی اخبار نویسی، از محمد عتیق صدیقی بار اول ۲۲)
خبررسانی کا یہ طریقہ اپنے دور کی ضرورت کو پورا کرتا تھا چوں کہ اس زمانے میں سواری وغیرہ کا انتظام نہ تھا اس لئے کسی گانو میں کوئی حادثہ پیش آتا تو کئی دنوں کے بعد دوسرے لوگوں کو سادھوؤں، درویشوں اور مسافروں کی زبانی اس کی اطلاع ملتی تھی ۔ پھر ہر کاروں اور قاصدوں کا دور شروع ہوا ۔ قدیم دور کے کتبے اور ستون جو حال میں بازیافت ہوئے ہیں ، ان پر لکھی گئی تحریر قدیم خبررسانی طریقے کی اعلیٰ مثال ہے ۔ اشوک کے زمانے میں ستونوں اور چٹانوں پر ایسی عبارتیں کندہ کی جاتی تھیں جو سرکاری قوانین ، مذہبی احکام یا اخلاقی درس پر مبنی ہوا کرتی تھیں ۔ کچھ دنوں بعد تانبے کے پتروں سے تبلیغ کا کام لیا جانے لگا۔
تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ بادشاہوں نے اپنی سلطنت کو صحیح ڈھنگ سے چلانے کیلئے اپنے ملک کے مختلف حصوں میں جاسوس چھوڑ رکھے تھے ۔ ان کے ذمہ یہ کام تھا کہ وہ یہ معلوم کریں کہ آیا عوام میں کسی بغاوت یا انقلاب کے آثار تو نہیں ہیں ۔ کہیں کوئی حاکم ظلم تو نہیں کررہاہے ۔ کہیں رعایا پریشان حال تو نہیں ہے ؟ الغرض یہ جاسوس رعایا کے درمیان رہ کر پل پل کی خبریں بادشاہ کی خدمات میں پیش کرتے تھے ۔ صرف بادشاہ ہی نہیں بلکہ بڑے بڑے بیوپار ی یا تاجر اپنے اپنے مخبروں کو مختلف علاقوں میں پھیلائے رکھتے تھے تاکہ بازاروں کے بھاؤ اور دوسری متعلقہ خبریں اپنے مالکوں کو بھیجتے رہیں ۔
برصغیر کے ہر دور کی تاریخ میں خبررسانی اور جاسوسی کا مقام تھا ۔ شیرشاہ کے عہد میں جاسوسی اور خبررسانی کے ساتھ ساتھ ڈاک کا مکمل نظام تھا ۔ ہر ضلع میں کوئی نہ کوئی اخبار نویس یا وقائع نگار ہوتے تھے ۔ مخبروں کو غلط خبریں ارسال کرنے پر پھانسی پر لٹکایاجاتاتھا جس کی وجہ سے خبر بالکل صحیح صحیح اور پوری صحت کے ساتھ وقت کے اندر اندر بادشاہ تک پہنچائی جاتی تھی ۔ مغل حکمرانوں کے دور میں وقائع نگار، سوانح نگار خفیہ نویس اور ہرکاروں کے ذریعہ خبریں موصول ہوتی تھیں۔
پچھلی صدی میں بھاپ کی ایجاد نے دنیا میں تہلکہ مچا دیا۔ وہ آسانیاں پیدا کیں کہ بیان نہیں کیا جاسکتا، جس سے قوموں اور انسانوں کے درمیان زیادہ گہرا رشتہ استوار کیا ۔ جس کی بدولت صحافت نے بھی ترقی کی ۔ اس نئی ایجاد سے سمندری جہاز ، ریلیں ، پریس وغیرہ چلنے لگے اور کام میں تیزی آتی گئی ۔ مہینوں کا کام ہفتوں میں اور ہفتوں کا کام گھنٹوں میں پایہ تکمیل کو پہنچنے لگا ۔ خبررساں ادارے قائم ہوئے ، تار برقی اور ٹیلی فون کی ایجاد نے صحافتی دنیا میں انقلاب برپا کردیا ۔ خبررساں اداروں کے بارے میں ڈاکٹر عبدالسلام خورشید نے اپنی معرکتہ الاراء تصنیف ’’ صحافت پاکستان و ہند ‘‘ کے ص ۲۷۱ پر لکھتے ہیں ۔
’’خبررساں اداروں کا آغاز تو حقیقت میں اسی وقت ہوگیا تھا جب ایشیائی حکمرانوں نے اپنی مملکتوں کے گوشے گوشے سے وقائع نگار مقرر کئے اور ان کی وساطت سے وہ تمام خبروں سے مطلع ہونے لگے ۔۔۔‘‘ تین سو سال بعد پیرس اور لندن کے مشہور تجارتی ادارے راتھس یابیلڈز نے خبروں کی بہم رسانی کیلئے پیغامبر کبوتروں کا استعمال کیا اس کے ذریعہ سے انہیں واٹرلو میں ولنگٹن کی شاندار فتح کی خبر سب سے پہلے ملی ۔‘‘
اس طرح سے یورپ میں پہلی باقاعدہ خبررساں ایجنسی ’’اژانس ھانحاس‘‘ کے نام سے ۱۸۳۶ء میں پیرس میں قائم ہوئی ۔ ۱۸۴۹ء میں لندن میں رائٹر نے اپنا دفتر کھولا اور تھوڑے ہی عرصہ میں دنیا کی خبروں کا اجارہ دار بن گیا ۔ ہندوستان میں پہلی خبررساں ایجنسی کا قیام شملہ میں ہوا جس کا نام ’’ایسوسی ایٹیڈ پریس آف انڈیا‘‘ تھا ۔ اس کے بعد سے ملک میں کئی ایک خبررساں ادارے قائم ہوئے جن کا کام تازہ خبریں بہم پہنچانا ہے ۔ آج دنیا میں ابلاغ کا سب سے بڑا اور موثر ذریعہ اخبار اور میگزین ہیں ۔ یونیسکو کی تحقیق کے مطابق دنیا میں ہفتہ وار اخباروں کے علاوہ روزناموں کی بائیس کروڑ کاپیاں شائع ہوتی ہیں ۔ امریکہ میں ۹۰ فیصد لوگ اخبار پڑھتے ہیں ۔ برطانیہ اور جرمن میں بھی یہی تناسب ہے جب کہ فرانس میں ۵۶ فیصد ، اٹلی میں ۳۹ ، جاپان میں ۷۰ اور مشرق وسطیٰ میں ۵۰ سے ۷۰ فیصد لوگ اخبار کا مطالعہ کرتے ہیں ۔ ہندوستان میں اردو اخبار کی اہمیت کو بتانے کیلئے ایک دو حوالہ دینا چاہتا ہوں جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ذرائع ابلاغ میں اخباروں کی کیا اہمیت ہے خواہ کسی بھی زبان میں ہو ۔ ۱۸۵۵ء میں پادری لانگ نے ہندوستانی اخباروں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا۔
’’ہندوستانی اخباروں کی ظاہری شکل حقیر سی ہوتی ہے لیکن قومی گیتوں کی طرح وہ ہر اس موقع پر کامیاب ہوتے ہیں جہاں قانون ناکام رہتا ہے اور طوفان میں بہتے ہوئے تنکے کی طرح وہ بہاؤ کے رُخ کی نشان دہی کرتے ہیں ۔۔۔ اور مطبوعات کے مقابلے میں دیسی اخباروں کی اشاعت کم ہوتی ہے لیکن ان کا حلقہ اثر بہت وسیع ہے ۔ ‘‘ ( مشمولہ ہندوستانی اخبار نویسی ۱۱۱)
دیسی صحافت کی حق گوئی و بیباکی سے متاثر ہوکر اس زمانے میں لارڈ کینگ نے کہا تھا :
’’اس بات کو لوگ نہ جانتے ہیں اور نہ سمجھتے ہیں کہ گذشتہ چند ہفتوں میں دیسی اخباروں نے خبریں شائع کرنے کی آڑ میں ہندوستانی باشندوں کے دلوں میں دلیرانہ حد تک بغاوت کے جذبات پیدا کردےئے ہیں ۔ یہ کام بڑی مستعدی، چالاکی اور عیاری کے ساتھ انجام دیا گیا‘‘ ۔( مشمولہ ایضاً ۲۵۷)
الکٹرانکس میڈیامیں سب سے پہلے موثر اور کامیاب میڈیاریڈیوہے ۔ ریڈیو کو زندہ اخبار کہا جاتا ہے جو آواز کے ذریعہ اپنے پیغام کو دوسروں تک پہنچاتا ہے اور اخبارات کی طرح رائے عامہ تشکیل کرنے میں ممدومعاون ثابت ہوتا ہے ۔ ریڈیو سے ایک فائدہ یہ ہے کہ ایک ناخواندہ بھی خبریں سن کر اپنے دور کے حالات سے باخبر رہتا ہے ۔ آج کل ریڈیو کی اتنا مقبول ہے کہ بعض ریڈیو اسٹیشن ۲۴ گھنٹے کام کرتے ہیں ۔ ریڈیو ابلاغ کا وہ موثر ذریعہ ہے جو منٹوں میں ایک جگہ کی خبر ساری دنیا میں پہنچاسکتا ہے ۔ کسی زمانے میں دنیا میں تقریباً ۳۵ کروڑ ریڈیو سیٹ خبریں سناتے رہے ۔ ہندوستان میں ریڈیو کے ذریعہ آبادی کا تقریباً ۸۹فیصد حصہ اور رقبہ کا تقریباً ۷۸فیصد حصہ اس سے مستفید ہوتا رہا ۔
سائنس کی ترقی اور ایجادات و اختراعات نے وقت اور فاصلے کے تصور کو بالکل ہی مٹادیا ہے ۔ وہ زمانہ اور تھا جب خبریں صرف لکھی پڑھی اور سنی جاتی تھیں ۔ آج خبریں دیکھی جاتی ہیں ۔ گھر میں بیٹھے ہوئے بیجنگ میں ہونے والے کھیل کود کے مقابلے دیکھ سکتے ہیں ۔ عراق اور سعودی عرب کا میدان کارزار کا بصری جائزہ لیا جاسکتا ہے ۔ ایران میں آئے ہوئے زلزلے کے اثرات کو دیکھا جاسکتا ہے ۔ سیٹلائٹس کے ذریعہ آج سب کچھ ممکن ہوگیا ہے ۔ دیدوشنید کی یکجائی نے ٹیلی ویژن صحافت کو تکنیکی طور پر ریڈیائی صحافت سے کہیں زیادہ آسان اور موثر بنادیا ہے ۔ ٹی وی پر پیش ہونے والی خبروں کے علاوہ فوکس، منی میٹرس ، اسپورٹس راؤنڈاپ، بحث و مباحثے ، انٹرویوز ، شخصی ، سماجی ، سیاسی، معاشی، تہذیبی و تمدنی فیچرز ، نیوز ریلیز وغیرہ تمام پروگرامس ابلاغ عامہ ہی تو ہیں ۔
جدید دور میں فلم ابلاغ عامہ کا انتہائی موثر اور دلچسپ ذریعہ ہے ، فلم میں کہانی کا بہانہ لیکر تہذیب و تمدن، معاشرت و فنونِ لطیفہ ، ادب ، سیاسی، سماجی، معاشی حالات انتہائی دلچسپ انداز میں دکھائے جاتے ہیں ۔ ناظرین فلم کی افکار و نظریات کو قبول کرتے جاتے ہیں ۔ ایک فلم سے ہزاروں بلکہ لاکھوں لوگ مستفید ہوتے ہیں ۔ فلم اپنے زمانے کی عکاس ہوتی ہے ۔ ناظرین اپنے زمانے کو دیکھ کر خود میں سدھار لانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ڈراما، قوالیاں ، فلمی نغمے ، ڈانس ، داستانیں سب کچھ ذرائع ابلاغ ہی تو ہیں ۔ کچی پوڈی اور کتھکلی ڈانس میں ہاتھوں کی مخصوص حرکات اور چہرے پر تاثرات پوری داستان بیان کرتے ہیں ۔
جدید دور میں پرنٹ میڈیا کے تحت ہینڈبلز ، پمفلٹس ، پوسٹرس ، سلوگنس ہزاروں کی تعداد میں شائع ہوتے ہیں اور اجتماعات و تفریحات کے موقع پر لاکھوں میں گشت کرائے جاتے ہیں ۔ حتی کہ اشتہارات بھی ذرائع ابلاغ کا کردار ادا کرتے ہیں ۔ موجودہ ذرائع ابلاغ ، سائنسی ایجادات کی مرہون منت ہیں ۔ جدید پرنٹنگ مشینری ، تار ، برقی ، ٹیلی فون ، وائرلیس ، ٹیلی پرنٹنگ ، آڈیو گرافی، ویڈیو گرافی، فوٹو گرافی، کارٹوگرافی، کمپیوٹر ، سیٹلائٹس ، پوسٹرز وغیرہ وغیرہ یہ تمام ایجادات ذرائع ابلاغ کے اہم کردار ہی تو ہیں۔
اس وقت کئی خبررساں ایجنسیاں ابلاغ عامہ کی خدمت میں مصروف ہیں ۔ جن میں اے ایف جی، رائٹر ، انٹرنیشنل نیوز ایجنسی ، فلش نیوز ، یونائٹیڈ پریس انٹرنیشنل ، مڈل ایسٹ نیوز ایجنسی، عرب افریقین نیوز ایجنسی، ایسوسی ایٹ پریس آف امریکہ ، ایسوسی ایٹیڈ پریس آف انڈیا ، پریس ٹرسٹ آف انڈیا ، یونائٹیڈ نیوز آف انڈیا ، پریس انفارمیشن بیورو ، انڈیا نیوز اینڈ فیچرالائنس، کنگ فیچرس سنڈیکیٹ اور تصاویر ارسال کرنے والی ایجنسیوں میں گلوب فوٹو امریکہ ، انٹرنیشنل نیوز فوٹوز ، لیونگ اسٹون ، نیوز اینڈ فوٹو سرویس وغیرہ وغیرہ کئی ایک ایجنسیاں ہیں جو ابلاغ عامہ کی خدمت میں فریضہ انجام دے رہی ہیں ۔
انٹرنیٹ اور ای اخبار و رسائل کے علاوہ سوشیل میڈیا نے ذرائع ابلاغ کے تمام تصورات کو یکسر بدل کر رکھ دیا ہے۔کوئی سوچ نہیں سکتا تھا کہ آج کے دور میں آزاد سوشیل میڈیا اس قدر لوگوں کی زندگی کا حصہ بن جاے گا۔فیس بک ‘ ٹوئٹر‘ واٹس ایپ ‘ گوگل پلس ‘ انسٹاگرام‘لنکڈن اور دوسرے کئی ایک سوشیل میڈیا ذرائع ابلاغ میں تہلکہ مچا رکھا ہے۔
اس طرح سے ہم دیکھتے ہیں کہ جس طرح ذہن انسانی کا ارتقاء عمل میں آیا اسی طرح ذرائع ابلاغ میں پھیلاؤ آتا گیا ۔ عقل حیران ہے کہ کب کونسی چیز سائنس ایجاد کردے اور ابلاغ عامہ کو ایک اور اہم ذریعہ فراہم کردے ۔
(نوٹ : یہ مضمون ماہنامہ ’’کتاب نما‘‘ نئی دہلی کے ۱۹۹۱ کے کسی شمارے میں شائع ہوا تھا۔ یہاں صرف آخری پیراگراف کا اضافہ کیا گیا ہے۔)

Share
Share
Share