کالم : بزمِ درویش – کشمیر کا مجذوب ( پانچویں آخری قسط ) :- پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

Share
پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

کالم : بزمِ درویش
کشمیر کا مجذوب (پانچویں آخری قسط)

تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ای میل:

عشقِ مجازی کا کھلاڑی اب اپنے اصل میدان عشقِ حقیقی کی طرف بڑھ رہا تھا ‘ مرشد کے حکم پر ناصر نے اپنے مجازی عشق کی قربانی اِس شان سے دی کہ پھر کبھی مڑ کر مجاز کی گلیوں میں نہ بھٹکا ‘ کو چہ مجاز سے کو چہ حقیقت کا سفر شروع ہو گیا کیونکہ تخلیق ہی عشق کے لیے ہو ئی تھی رگوں میں خون کی جگہ عشق کی بوندیں دیوانہ وار رقص کرتی تھیں اِیسے لوگوں کو ہر حال میں ایک محبوب چاہیے ہوتا ہے پھر مجازی محبوب کی خامیوں کو دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ میرا محبوب تو خامیوں سے پاک ہے

اِس لیے دنیاوی محبوبوں کی بے وفائیاں دیکھ کر پیدائشی عاشق پھر عشقِ حقیقی حق تعالیٰ کے عشق میں ڈوب جاتے ہیں اب ناصر نے اپنا نیا محبوب اپنا مرشد بنا لیا تھا کیونکہ اُس کی تخلیق ہی عشق کی کے لیے ہو ئی تھی اُس کی پور پور میں عشق تھا مرشد سے عشق کیا تو ساری حدیں کراس کر گیا ‘ اب ناصر کی سانسوں اور رگوں میں خون کی بجائے مرشد کا عشق دوڑتا تھا اُس کا اول آخر اُس کا مرشد بن چکاتھا ۔ اب مرشد نے ناصر کو راہ حق کے وظائف اور چلے شروع کروا دئیے جو سالک کی روحانی ترقی کے لیے بہت ضروری ہو تے ہیں ‘ عبادت ریاضت تزکیہ نفس مراقبہ جات ساری ساری رات کے وظائف کلمے شریف کی ضربیں حبس دم کی مشقیں پرہیزی کھانے مرشد حکم کرتا گیا ناصر سر تسلیم خم کر کے مانتا گیا ‘ کثرت عبادت اور مجاہدوں کے طفیل ناصر میں روحانی تبدیلیاں رونما ہو نا شروع ہو گئیں تھیں ‘ پہلے خوابوں کا سلسلہ شروع ہوا پھر جب حجابات اٹھنا شروع ہوئے تو باطن کے نظارے شروع ہو گئے کثرت ذکر عبادات اور مجاہدوں کے نتیجے میں اب جسم لاغر اور روح طاقتور ہو نا شروع ہو گئی ‘ باطن میں دبی نور کی چنگاریاں سلگ اٹھیں کثافت لطافت میں ڈھلنے لگی تو عبادت اور نو رکی شدت سے ناصر پر حالت جذب و سکر طار ی رہنے لگی مشاہدات شروع ہو گئے نور کی شدت مٹی کا جسم برداشت نہ کرتا اب جذب و سکر ہیجان اضطرابی حالت طاری رہنے لگی جس میں جلال کا رنگ بھی شامل ہو گیا تھا نیک ہستیوں کی زیارات شروع ہو گئیں مشاہدات سے مرشد پر یقین بڑھتا چلا گیا اب روح کی سیر بھی شروع ہو گئی روح کی بیداری اور کثر ت عبادت سے اب ناصر دن رات مری کی سڑکوں پر جنگلوں میں دیوانہ وار پھرتا مری کا ایک ایک راستہ درخت پتے جڑی بوٹیاں ندیاں نالے آبشاریں ناصر کی دیوانگی اور ذکر کے گواہ ہیں اُسے جو بھی ملتا اُس کو رات کو جنگل میں لے جاتا ‘ گھنٹوں خدا اور اپنے مرشد کی باتیں کرتا ‘ انوارات کی تجلیاں اُس پر پڑتیں کثافت لطافت میں ڈھلتی تو اُس کا جنون اور بھی بڑھ جاتا ‘ مرشد نے اُسے جس راستوں پر لگایا تھا یہ اُس کی منزل تھی اب مچھلی سمندر میںآگئی تھی جو اُ سکی منزل تھی ۔ مرشد کے عشق میں اُس نے اپنی ذات فنا کر دی تھی اُس کے لیے اول آخر اُس کا مرشد تھا ‘ مرشد سے عشق کے بعد اُس کی دیوانگی کی حد یہ تھی کہ مرشد کے خاندان کو اپنا خاندان مرشد کے باقی چاہنے والوں کو اپناپیر بھائی اگر کو ئی بھی کبھی مری مرشد کے حوالے سے چلا جاتا تو اِس طرح غلاموں کی طرح خدمت کر تا کہ مہمان پریشان ہو جاتے کہ ناصر ہم تمہارے مرشد نہیں ہیں تم ہماری اتنی مہمان داری عزت نہ کرو تو وہ معصومیت سے جواب دیتا مجھے آپ سے مرشد کی خوشبو آتی ہے سارا دن بازاروں میں گھومتا مرشد کے لیے انگوٹھیاں تسبیحاں مرشد کے خاندان بچوں کے لیے اُن کی پسند کی چیزیں تلاش کرتا ‘ مرشد کے قریبی لوگوں کے لیے تحفے بھیجنا سوشل میڈیا کا دور آیا تو اُس پر مرشد کے نعرے اُس کا دل کر تا تھا پوری کائنات اور اربوں انسان اُس کے مرشد کے نعرے لگائیں باقی لوگوں کو فون کر کے کہتا کہ مرشد کا احترام اسطرح کیا کرو اور اگر کبھی مرشد مری جاتا تو وہ پروانوں کی طرح مرشد کے اردگرد دھمال ڈالتا نظر آتا ‘ اُسے حفظ ہو گیا تھا مرشد کو نسا پھل چیز شوق سے کھاتا ہے کونسی دوائی لیتا ہے اُس کے لیے ہر بار نیا تولیہ رضائی صابن شیمپو بر ش لیتا مرشد کے آنے سے پہلے جا کر اُس گھر یا کمرے کو چیک کرتا اور پھر جب مرشد نے آنا تومرشد کے پاؤں میں سر جھکائے بیٹھے رہنا‘ رات کو مرشد نے جب سو جانا تو قدموں میں سر رکھ کر سو جانا ‘ بار بارایک فقرہ سرکار میری کروڑوں جانیں ہوں تو ہر پل آپ پر وارتا چلا جاؤں ‘ بلھے شاہ کو پڑھا تو پاؤں میں گھنگھرو باندھ کر مرشد کے سامنے آگیا ‘ رانجھے کا قصہ پڑھا تو گلے میں زنجیریں ڈال کر ہاتھ میں کشکول تھامے مرشد کے سامنے آکھڑا ہوا ۔ مرشد حج پر جانے لگا تو بڑی رقم لے کر حاضر ہو نا کہ آپ کا بیٹا ہو ں تو میرا حق بنتا ہے آپ میرے پیسوں سے حج کریں ‘ مرشد کو باپ اورمرشد کی بیوی کو ماں کامقام دیا اور پھر ساری زندگی اِس کو کر کے دکھایا کیونکہ مرشد اور اُس کی بیگم بر ملا کہتے تھے کہ جتنی عزت ہماری ناصر کر تا ہے اتنی تو ہماری اولاد بھی نہیں کر ے گی ‘ مظفرآباد کے خوفناک زلزلے میں جب ماں بہن حادثے کا شکار ہوئے ‘ پھر بعد میں باپ بھی نہ رہا تو پرسکون لہجے میں کہتا میرے ماں باپ تو لاہور میں مرشد اور اُس کاخاندان ہے ‘ مرشد سے عشق کا یہ لیول کہ جو مرشد کا دوست وہ ناصر کا دوست جو مرشد کو ناپسند کر تا تھا اُس سے ساری عمر کے لیے قطع تعلقی ‘ تیرے نام سے شروع تیرے نام پر ختم والی بات مرشد تو کئی سال پہلے مری چھوڑ گیا تھا لیکن مرشد کے چاہنے والوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر پکڑتا انہیں ہوٹل میں لے جا کر کھانا کھلاتا چائے پلاتا پھر کہتا آؤ مرشد کی باتیں کرتے ہیں کسی کو جنگل لے جاتا اور کہتا مرشد کی باتیں کرتے ہیں لاہو رسے جانے والے مہمانوں سے بھی گھنٹوں مرشد کی باتیں کرتا جہاں پر مرشد بیٹھ کر لوگوں سے ملتا تھا اکثر وہاں جاکر بیٹھ جاتے ‘ گھنٹوں مرشد کی یادوں کو تازہ کر تا ‘ مرشد کے لیے تو سارا سال چیزیں تلاش کر تا ہی تھا اُس کے بچوں کے لیے بھی یہی دیوانگی جاری تھی اگر کو ئی شخص غلطی سے بھی مرشد کی شان میں ایک لفظ بھی بول دیتا تو ساری عمر کے لیے وہ اگر معافیاں بھی مانگتا تو بات نہ کرتا اُس کی سانسوں کی ڈور چلتی ہی مرشد کے عشق سے تھی ‘ بلھے شاؒ ہ عنایت قادری کا واقعہ پڑھا تو ناصر نے نیا نعرہ مارا کہ اب میں رانا ناصر نہیں ہوں بلکہ میرا نام ناصر عبداللہ بھٹی ہے جو اُس کے مرشد کا نام تھا خاندان اور دوستوں نے بہت مذاق اڑایا کہ تم یہ کیا کر رہے ہو تو کہتا میں اب مرشد کا بیٹا ہوں ‘ خاندان والوں نے اعتراض کیا تو بولا جو میرے مرشد کو مانے گا وہ میرا رشتہ دار ہے جو مرشد کو نہیں تو وہ میرا کچھ نہیں لگتا ‘ مرشد سے عشق و ادب کا یہ مقام کہ مرشد سے بات کرتے ہوئے شدت ادب احترام سے جسم لرزنے لگتا ‘ زبان لڑکھڑانے لگتی مرشد کے اشاروں کو سمجھتا اگر کسی دوسرے سے پتہ لگتا کہ مزاج مرشد یہ ہے تو جان کی بازی لگا کر پوری کر تا ‘ اولیا کرام سے محبت کا یہ عالم کہ آوارہ گردی میں مری کے اطراف میں کوئی دربار قبر شکستہ نظر آتی تو ٹائلیں لگواتا ‘ جاکر مرشد کے غریب مریدوں کی مالی مدد اِس خاموشی سے کرتا کہ مرشد کو بھی پتہ نہ چلنے دیتا ‘ مرشد کی زندگی میں ہزاروں عاشق آچکے ہیں لیکن ایک بھی مرید ایسا نہیں جس نے مرشد کے کہنے پر مجازی محبوب چھوڑ دیا ہو اور پھر ساری عمر اُس کانام تک نہ لیا ہو ‘ یہ اعزاز صرف اور صرف ناصر کشمیری کو حاصل ہے کہ مرشد کے عشق میں وہ اپنی ذات فنا کر تا چلاگیااور پھر مرید کو ہر طرف مرشد ہی نظر آتا تھا پھر مریدکی زندگی کا ایک ہی مقصد کے مرشد کی ایک ایک ادا پر جان کس طرح قربان کرنی ہے پھر حق تعالیٰ نے ناصر کی عبادات اور فنا فی الشیخ کے بعد اُس کے سارے حجابات اٹھا دئیے پھر اُس کو ظاہری حالت میں اولیا ء کرام نبیوں کی زیارات کرائیں اورپھر اپنے نور کا بھی مشاہدہ کرا یا پھر مرید مشاہدہ حق کی منازل طے کرتا چلا گیا جہاں خدا کا نور تھا اور دیوانے مجذوب کشمیری کے غوطے پھر اس عظیم جانباز ناصر کشمیری نے جائے نماز پر خدا کے ذکر کے دوران ہی حالت جذب و سکر میں اپنی جان حق تعالی کے سپر د کر کے عشق حقیقی کا حق ادا کر دیا ‘ مرشد دیوانے مرید کے جنازے میں وادی نیلم موضع چیڑا کلگراں پہنچا جہاں سارا وقت اُس کی آنکھوں کے کنارے بھیگتے رہے لیکن لاہور واپس جاکر آنکھوں کے چھپڑ کھول کر کئی دریا دیوانے مرید کے لیے بہا چکا ہے ‘ مرشد کی اداسی غم جدائی نقطہ عروج پر ہے اور وہ یہ شعر گلو گیر لہجے میں سارا دن پڑھتا ہے ۔
ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم

آسمان تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزہ نورستہ اِس گھر کی نگہبانی کرے

Share
Share
Share