کالم : بزمِ درویش
کشمیر کا مجذوب ( قسط سوئم )
پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ای میل:
سنگلاخ چٹانوں سے آیا نوجوان ناصر محبوب کے عشق میں گرفتار ہونے کے بعد اب اُسے پانے کے جنون میں مبتلا ہو چکا تھا ‘ عشق مجاز کے کھٹولے پر سوار ناصر مری کامرس کالج کے پروفیسر درویش کے پاس جا رہا تھا جس کی شہرت مری کے قرب و جوار میں آگ کی طرح پھیلتی جارہی تھی ‘
محبوب کے ساتھ سہانے مستقبل کے خواب آنکھوں میں سجائے ناصر درویش کے گھر کے قریب پہنچتا ہے تو وہاں کا منظر دیکھ کر بت کی مورتی میں ڈھل جاتا ہے کیونکہ وہ تو محبوب کو پانے کا راز درویش سے تنہائی میں کرنا چاہتا تھا لیکن وہاں پر تو تین چار ہزار انسانوں کا سیلاب آیا ہوا تھا ‘ وہ پہاڑ کی چوٹی سے نیچے جاتی سڑک کو دیکھ رہا تھا جس کے ا طراف میں ہزاروں لوگ بیٹھے اپنی اپنی باری کا کا انتظار کر رہے تھے سڑک کے ملحقہ چھوٹے سے میدان میں درویش بیٹھا زائرین میں فیض بانٹنے میں مصروف تھا ‘ ہزاروں انسانوں کے مجمعے نے جوان عاشق کے قدم روک لیے وہ شش و پنج کے ہچکولے کھانے لگاایک طرف محبوب کو پانے کی تمنا دوسری طرف محبوب کے راز فاش ہونے کا خوف اِسی دوران وہاں پر اُسے جاننے والا مل جاتا ہے تو پوچھنا ہے کہ تم یہاں کس لیے آئے ہو تو عاشق بہانا بنا دیتا ہے ساتھ ہی سوال کر تا ہے کہ اِس درویش میں کو ئی کرنٹ وغیرہ ہے یا ویسے ہی لوگوں کو پاگل بنایا ہوا ہے تو وہاں پر پھیلی ہوئی مبالغہ آمیزی کی باتیں اُس آدمی نے بھی دہرا دیں کہ درویش دل کی باتیں جان لیتا ہے سب کے سامنے دل کے راز کھول دیتا ہے ‘ یہ سننا تھا کہ عاشق کادل سہم گیا محبوب کی عزت اُسے اپنی جان سے بھی پیاری تھی لوگوں کے سامنے محبوب کا ذکر آئے یہ اُسے کسی بھی صورت میں گوارہ نہ تھا ۔ لہذا دل میں ہزاروں حسرتیں لیے ناصر وہاں سے واپس آگیا ۔ تین چار دن اِسی خوف میں گزر گئے کہ درویش اُس کے دل کی باتیں پڑھ لے گا ۔کبھی جانے کا ارادہ کر تا لیکن پھر تر ک کر دیتا پھر اُس نے ادھر اُدھر بابوں کے پاس جاکر اپنی دولت لٹانی شروع کر دی ذ ہر بابا ملنگ اُسے آسمان پربیٹھا دیتا کہ چند دنوں میں محبوب کے والدین مان جائیں گے خو دتمہیں بلا کر رشتہ دیں گے ‘ ان وعدوں لاروں پر بیچارہ ایک در سے دوسرے در پردھکے کھاتا رہا اِس دوران اُس کی توجہ کام سے بھی ہٹنے لگی تو اُس کے باس نے بلا کر اُس کی وجہ پو چھی اور ساتھ ہی وہ اُس کے عشق کی خوشبو سونگھ چکا تھا اُس کا ذکر کر دیا ‘ ناصربیچارہ مدد طلب نظروں سے دیکھ رہا تھا اُس سے اپنا راز شیئر کر دیا اورمدد مانگی ‘ باس جو اُس کے ساتھ مہربان تھا ہمیشہ اُسے اولاد کی طرح چاہا بولا یہ تم کس چکر میں پڑ گئے ہو تم اُس لڑکی کے اخراجات برداشت کر سکتے ہو ‘ جتنی تمہاری پو ری مہینے کی تنخواہ ہے اتنا اُس کا ایک دن کا خرچہ ہے فوری طور پر اپنا عشق کا بھوت سر سے اتارو ‘ یہ کام تمہارے بس کا نہیں ہے لہذا فوری عشق سے باز آجاؤ ‘ باس کی یہ نصیحت ناصرکو بالکل بھی پسند نہ آئی جس کے خمیر میں عشق ہو جس کی پور پور عشق میں گندھی ہو ئی ہو وہ کیسے عشق سے دور ہو سکتا تھا ‘ بچپن سے کشمیری جوان کی زندگی دوسروں کے رحم و کرم پر ہی گزری تھی ‘ معاشرے کا پسا ہوا نوجوان جو دوسروں کے ٹکڑوں پر پلتا آیا تھا کسی نے اُسے لائق توجہ بھی نہیں سمجھا تھا اِس لیے کسی نے بھی ناصر کو اِس قابل نہ سمجھا کہ اُس سے دوستی کرے یاپھر محنت مزدوری نے اُسے دوستی تعلقات بنانے کا موقع ہی نہیں دیا جب سے وہ عشق کی خار دار وادی میں کودا تھا خو د ہی اپنی محدود سوچ عقل و شعور پر اپنے مسائل اور عشق کو پروان چڑھانے کا جذبہ اور پلاننگ کرتا آیاتھا کہ اُسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کس طرح معاشرے کی طبقاتی تضاد اونچ نیچ کی خلیج کو پاٹ سکے وہ کیا کرے کہ محبوب کے گھر والے مان جائیں اورپھر وہ اپنے محبوب کے سنگ زندگی کا سہانا سفر شروع کر سکے ‘ ناصر بچپن سے غربت بے بسی لاچارگی کی چکی میں پستا آرہا تھا گھر سے وہ خشک پتے کی طرح ٹوٹ کر تند و تیز آندھیوں کے دوش پر ایک در سے دوسرے در تک اڑتا پھر رہا تھا ہ ایسی کٹی پتنگ تھا جس کی ڈور کب سے ٹوٹ چکی تھی اب مقدر کی ہوا اُسے جدھر لے جاتی وہ ادھر چلا جاتا ‘ امیر طاقتور بااثر خاندان والدین ہوتے تو ناصر اُن سے ضد کر کے اپنی زندگی کی سب سے قیمتی خواہش منوانے کی کو شش کر تا لیکن اپنے والدین کے حالات اور اُن کی کسمپرسی سے ناصر اچھی طرح واقف تھا ‘ اب عشق مجازی کا یہ کے ٹو اُسے اکیلے ہی اپنے ناتواں کندھوں پر اٹھا کر بے آب و گیاہ صحرا میں دہکتے کوئلوں پر ننگے پاؤں چلنا تھا ‘ مری شہر میں اُس کا اپنا تو کوئی بھی نہ تھا وہ اس شہرمیں پردیسی تھا ‘ سانسوں کی کچی ڈور کے قائم رکھنے کے لیے وہ دن رات محنت مزدوری کرتا آرہاتھا اُس کے پاس گھر تو دور کی بات ہے ایک مرلہ زمین نہیں تھی گاڑی تو دور کی بات ہے ایک سائیکل تک نہ تھی اور نہ ہی خاندانی وجاہت تھی جسکے سہارے وہ بات کرنے کے قابل ہو تا اگر وہ غور کرتا تو دماغ کاعرق نُچڑ جاتالیکن کوئی راستہ اُسے نظر نہ آتا ‘ زندگی کے سمندر کی طوفانی موجوں میں وہ تنہا ہاتھ پاؤں مار ہا تھا‘ سیا ہ اندھیرے میں اِدھر اُدھر ہاتھ مار رہا تھا لیکن روشنی کی ہلکی سی کرن بھی نظر نہیں آرہی تھی ۔ اسے جب کوئی راستہ نظر نہ آیا تو راولپنڈی کے بابوں روحانی لوگوں کے پاس جاناشروع کر دیا ‘ اب پھر وہ جو کما تا اُن فراڈی بابوں کی جیبوں میں ڈال آتا چند دن گزرنے کے بعد جب کامیابی کا کو ئیراستہ نظر نہ آیا تو پھر مایوسی کے سیا ہ اندھیرے جو دن رات اُسے نگل رہے تھے ‘ عشقِ مجازی اور باطنی اضطراب عروج پر تھا ‘ بے کلی بے قراری میں وہ ادھر اُدھر سارا دن پھرتا اُسے کسی پل قرار نہ تھا اِسی آوارہ گردی میں وہ پھر ایک دن پروفیسر درویش کے علاقے سے گزرتا ہے وہاں پر پھر وہ ہزاروں کارش دیکھ ٹھٹک کر رک جاتا ہے پھر امید کی تلاش میں اُس کے قدم مقناطیسی کشش کے تحت درویش کے مجمعے کی طرف اٹھنا شروع ہو جاتے ہیں ‘ ہزاروں کا مجمع دور دراز تک سڑک کنارے پھیلا ہوا تھا آج اُس نے فیصلہ کیا کہ اِس درویش سے ملتا ہوں ‘ شاید یہ میری مدد کر دے رش کے قریب پہنچا تو دو چار جاننے والے اُسے مل گئے ‘ یہ ڈر تاڈرتا پھر اُن لوگوں سے درویش کے بارے میں پوچھنے لگاکہ یہ کون ہے کہاں سے آیا ہے اور یہاں پر اِس کا طریقہ واردات کیا ہے ‘ یہاں پر لوگوں کے کام بھی ہوتے ہیںیا نہیں جب لوگوں نے درویش کے بارے میں اچھی رائے دی کہ پیسے وغیرہ بلکل بھی نہیں لیتا ‘ فی سبیل اللہ اللہ کی رضاکے لیے یہ درویش یہاں لوگوں کی خدمت کر رہاہے ۔اُس دن ناصر کئی گھنٹے اُس رش کے اردگرد گزار کر درویش کی کارروائی کو بغور دیکھتا ہے لیکن درویش کے گردرش کی وجہ سے کئی بار قریب جاکرپھر پیچھے ہو جاتا ‘ آج کافی وقت درویش کے پاس گزارنے کے بعد اس کے دل کو کچھ سکون مل رہا تھا ۔اُسے درویش کا اِس طرح اللہ کے لیے ڈیوٹی دینا بہت اچھا لگ رہا تھا اُس کے باطن میں صوفی روح کو یہ منظر بہت اچھا لگ رہا تھا ۔لیکن عشق کاراز فاش نہ ہوجائے اِس لیے کئی بار قریب جاکر بھی بات نہ کی اور پھر ملے بغیر ہی واپس آگیا اور پھر ناصر اِس کوشش میں لگ گیا کہ کسی طرح درویش سے اکیلے میں ملا جائے اور پھر جلد ہی اُسے وہ موقع مل گیا ‘ درویش کی عمر تیس سال سے کم تھی جوان درویش نے شفیق نظروں سے ناصر کو دیکھا ‘ اُس کے باطن کا مرض پڑھا اور بولا یہ عشق کا درد بندے کی جان لے لیتا ہے ‘ خدا دشمن کو بھی یہ سزا نہ دے درویش کی بات ناصر کے دل میں اُتر تی چلی گئی ‘ درویش کے ہاتھ پکڑ کہ چومے پھر آنکھوں کے چھپڑ کھول دئیے خوب رویا غم کا سمندر سارا نکال دیا ۔(جاری ہے )