کالم : بزمِ درویش
کشمیر کا مجذوب (قسط اول)
پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ای میل:
عشقِ مجازی سے عشقِ حقیقی تک کا سفر‘ اگر ہم تاریخ تصوف کے آسمان پر نظر ڈالیں تو حق تعالیٰ نے ہر دور میں جہالت گمراہی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں غرق انسانوں کے ریوڑ کو گمراہی سے نکالنے کے لیے روشنی کے مینار‘ ایسے لوگ ہر دور میں روشن ستاروں کی طرح آسمان تصوف پر روشن منور کر تا ہے کہ ان کی روشنی سے کہکشاوں نے بھی روشنی کی بھیک مانگی ‘
ایسے انمول ستاروں کے وجود میں آنے سے ستاروں کے جھرمٹ میں نور کے دریا بہنے لگے ‘ اِن ستاروں میں رب ذوالجلال نے مختلف زبانوں علاقوں کے لیے رشد وہدایت کی روشنی رکھی ہوتی ہے ‘ کچھ ستارے تو اِس شان سے طلوع ہو تے ہیں کہ قیامت تک کے لیے آسمانِ تصوف جگمگا اٹھتا ہے کچھ ایسے ستارے بھی معرض وجود میں آئے ہیں جو کچھ عرصے کے لیے کسی خاص علاقے یا ملک کے زنگ آلود ہ اذہان و قلوب کو اخلاق حسنہ کی روشنی دے کر ہمیشہ کے لیے غروب ہو جاتے ہیں ‘ کچھ گمنام ستارے ایسے بھی ہیں جو چند لمحوں کے لیے چمکتے ہیں لیکن ان چند لمحوں میں ہی وہ اجالوں کی سوغات بانٹ کر چلے جاتے ہیں ‘ ایسے لوگ دھرتی پر اپنے اپنے وقت پر انسانی شکل میں جنم لیتے ہیں پھر اُس علاقے کے بھاگ جاگ جاتے ہیں ‘ تاریخ انسانی کے اِن عظیم نفوسِ قدسیہ کا اگر ہم مطالعہ کریں تو یہ دنیا کے چپے چپے پر اپنے وقت میں آئے ‘ زنگ آلود ذہنوں کے زنگ کو اجالے میں بدلا اور چلے گئے یہ لوگ بڑے شہروں کے ساتھ ساتھ گمنام قصبوں میں سورج کی طرح طلوع ہو تے ہیں کہ اُن کی عظمت اور شان کے پیش نظر خود چاند ستارے سورج اُن کا طواف کرتے نظر آتے ہیں ‘ ہوائیں فضائیں اِیسے لوگوں کے بوسے لیتی ہیں ‘ ترقی یافتہ شہروں سے سینکڑوں میل دور کچی بستیوں میں اِن ہیرے جواہرات جیسے لوگوں کو پالا پوسا ‘پتھریلی ‘ٹیٹرھی میڑھی ‘ناہموار پگڈنڈیوں نے لاکھوں انسانوں کو معرفت کی روشنی عطا کی ‘ وہاں کے ٹنڈ منڈ درختوں نے بہاروں کا پیغام دیا ‘ شکستہ تنگ و تاریک جھونپڑوں نے رنگ و نور کے چراغ روشن کئے ‘ صحراؤں نے مہذب تہذیبوں کو جنم دیا ‘ گارے مٹی کے حجروں نے شاہی محلوں کو شرمانے پر مجبور کر دیا ‘ اگر آپ قدرت کے رازوں کا مطالعہ کریں تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ میلوں پر پھیلے کروڑوں انسانوں کے شہر ‘برقی فانوسوں سے روشن سڑکیں ‘ فلک بوس عمارتیں ‘ بین الاقوامی تجارتی منڈیاں ‘ یونیورسٹیاں ‘ مدرسے و خوشحال اور علم و دولت میں غرق انسان علم کے زعم اور دولت کی چکا چوند میں غرق ایسے مادی جانور پیدا کر تے رہے جبکہ کام کے آدمی جو پیدا ہو ئے وہ کسی دور افتادہ گاؤں بلند بوس پہاڑوں کے دامن میں گھاس پھونس کی جھونپڑیوں خاک اڑاتی بستیوں اونچے نیچے ناہموار کچے راستوں بے آب و گیاہصحراؤں گارے کی مٹی کے حجروں بدویانہ ماحول سر کنڈے کیکر کے درختوں بڑے شہروں سے گھنٹوں کی پیدل مسافت پر جہاں نہ بجلی نہ سکول نہ بنیادی سہولتیں وہاں پیدا ہوتے ہیں ‘ قدرت اپنے عظیم پلان کے تحت ایسے انسانوں کو دھرتی کے بنجر بے آب گیاہ علاقوں میں بھی پیدا کر تی ہے ‘ ایسے انسان ایسے ستارے جو اُن بستیوں کے تاریک اندھیرے دورکرتے ہیں ۔ قدرت کا یہ عجیب انداز ہے کہ کھردرے علاقوں سے نفیس انسان پیدا کر تی ہے دور دراز بنجر خطوں سے دلوں کو اخلاق کے اجالے دینے والے آدمی لاتی ہے ‘ بنجر زمینوں سے شاداب جاندار انسان نمودار کرتی ہے ۔گمنام ویران قصبوں سے شہرت یافتہ انسان پیداکرتی ہے ‘ ایسا ہی ایک خاص بچہ آج سے پچاس سال قبل مظفر آباد (کشمیر ) سے میلوں دوردھنی نو سری سے بلگراں موضع جبڑا کلگراں میں پیدا ہوا ‘ اِس بچے نے غربت کے ظلمت کدے میں آنکھ کھولی ایسا بچہ جس کی تخلیق میں عشق کی مٹی کو استعمال کیا گیا جو پھر عمر بھر گیلی لکڑی کی طرح سلگتا رہا ‘ جس کی رگوں میں خون نہیں بلکہ خون کی ایک ایک بوند میں عشق تھا جس کی زندگی ہر لمحہ عشق عشق الٰہی تھا جو عشق کی بھٹی میں سلگتا رہا ۔جس کے وجود میں کثافت کی بجائے لطافت تھی جس کی روح تلاش حق کے لیے بھاگتی رہی روح کی تلاش نے اُسے ساری عمر مضطرب رکھا ‘ اِسی باطنی اضطراب نے ساری زندگی اُسے چین سے بیٹھنے نہیں دیا ‘ اندر کا یہ اضطراب بے قراری اُس کے جسم کے انگ انگ سے چھلکتی تھی ‘ قدرت نے اِس عاشق کے لیے جو علا قہ چنا وہ آج پچاس سال بعد بھی سڑک تک سے محروم ہے ‘ جہاں پر آج بھی جانے کے یے دو گھنٹے پیدل سفر کرنا پڑتا ہے تو پچاس سال پہلے اِس علاقے کا کیا حال ہو گا ‘ غربت کی آغوش میں آنکھ کھولنے والے اِس بچے کانام عزیز الحسن ناصر رکھا گیا جو بعد میں جا کر ناصر کشمیری کے نام سے بزمِ جہاں میں معروف ہوا ‘ جس گھرانے میں بچے نے آنکھ کھو لی وہ خاندان صدیوں سے جانوروں کی طرح بے یار و مددگار زندگی گزار رہا تھا جس گھر پر سالوں سے فاقوں کا راج تھا ماہ و سال کی حرکت سے بچہ پانچ سال کا ہو اتھا تو کئی میل دور پرائمری سکول میں داخل کرا دیا گیا غربت کی چکی میں پستے ہوئے یہ بچہ پانچ جماعتیں پاس کر گیا ‘ قدرت نے اِس کے آگے کا سبب اِسطرح پید اکیا کہ مظفر آبا د میں انسا ن دوست سکول ٹیچر کے گھرمیں پہنچ گیا ‘ اُس اچھے انسان کی زندگی کا مقصد یہ تھاکہ تعلیم کے نور کو عام کیا جائے اِس مشن کے لیے وہ بے سہارا بچوں کو سکول میں داخل کرا تا پھر اُن کے سارے اخراجات برداشت کر تا تھا پھر یہ بچہ زندگی کے زینے چڑھنے لگا یہاں پر وہ گھر کے کام کاج کے ساتھ تعلیم کے سلسلے کو بھی چلاتا چلا گیا ‘ اب یہی بچہ میڑک کر لیتا ہے تو پھر قدرت نے اِس بچے کے لیے جس شہر کا انتخاب کیا ہو تا ہے اُس شہر کو ہ مری میں لے جاتی ہے ‘ ناصر نے یہاں تک آنے کے لیے زندگی کے ہر سانس کی بھر پور قیمت ادا کی تھی ‘ محنت مزدوری گھر کے کام کاج دوسروں کے ٹکڑوں سے پیٹ کے دوزخ کو بھرتا رہا کیونکہ بچپن سے ہی گھر والوں کے لاڈ پیار سے محروم ہو چکا تھا ‘ دوسروں کے ٹکڑوں پر پلنے کی وجہ سے زندگی کا اصل چہرہ دیکھ چکا تھا ‘ فطری خصوصیات کے ساتھ دوسروں سے محبت و تعاون ناصر کی زندگی کا حصہ بن چکا تھا ۔ مری میں ناصر بھی کسی نیک اور مخیر انسان کے گھر آگیا تھا اب اس شہر میں زندگی اپنی تلخ حقیقتوں کے ساتھ دستانے پہنے اُس کی منتظر تھی ‘ اب یہاں اُس نے زندگی کے دن پورے کر نے کے لیے پھرمحنت مزدوری کا سفر شروع کیا ‘ دس سال کی عمر میں گھر سے نکلنے والا بچہ اب نوجوانی کی دہلیز پرآپہنچا تھا ‘ ناصر کی تخلیق میں عشق کی مٹی تھی عشق بے قرار ہو تا ہے اسی بے قراری نے اُسے چین سے نہ بیٹھنے دیا‘ اب وہ ایک کام سے دوسرا کام کر تا چلا جارہا تھا ‘ بچپن سے مختلف لوگوں اور گھروں میں رہنے کی وجہ سے ناصر کو اٹھنا بیٹھنا بو لنے کا ڈھنگ آگیا تھا ‘ فطری ذہانت بھی اُس کے ساتھ ساتھ تھی ، زندگی کے کچے دھاگے کو قائم رکھنے کے لیے وہ محنت اور مزدوری کر تا‘ پلمبر یا الیکڑیشن کا کام کرتا‘ رولنگ سٹون ہونے کی وجہ سے وہ بہت سارے کام سیکھ چکا تھا ‘ فطری شرافت رگوں میں دوڑتا صوفی عشقیہ خون جس کی وجہ سے وہ ہر قسم کی برائی سے دامن بچاتا آرہا تھا ‘ بچپن سے ماں باپ کے جھولے سے کیا گرا کہ پردیسی ہو کر رہ گیا ‘ عشقیہ مزاج اِس لیے جس سے بھی ملتا اُسے خوب عزت اور محبت دیتا خو دبھی محبت کا بھو کا تھا جو خاندان اُس کو پیار کے دو لفظ بو ل دیتا اُس کا بے دام غلام بن جاتا ‘ صوفی روح کی وجہ سے استغنیٰ کی چاشنی میں رنگا ہوا تھا ‘ بے نیازی اُس کی رگ رگ میں بھری ہو ئی تھی اُس کے کردار گفتگو سے بے نیازی چھلکتی تھی ہر انسان کے کام آنا دوسروں کی زندگی میں خوشیوں کے رنگ بھرنا اُ س کی فطرت کا خاص رنگ تھا ‘ قدرت ناصر کو اُس کام کی طرف لانا چاہ رہی تھی جس کے لیے اُسے پیدا کیا گیا تھا اب ناصر اپنی زندگی کیخاص حصے میں داخل ہو نے والا تھا جہاں سے اُس کی اصل زندگی کا آغاز ہو نا تھا اِس مشیت کے تحت چند سال بعد جب ناصر جوانی کے دور میں داخل ہوا تو مری آرٹس کونسل میں بھرتی ہوگیا اب وہ ایک خوبصورت سمارٹ جوان تھا جیسے بولنے ‘ اچھا لباس پہننے کا آرٹ آگیاتھا ‘ پینٹ شرٹ میں وہ ایک خوبرو جوان تھا جو دیکھتا اُس سے متاثر ہو ئے بنانہ رہ سکتا ‘ مری آرٹس کونسل میں اُس کی نوکری کا دور جاری تھا کہ وہ لمحہ اُس کی زندگی میںآگیا جس نے اُس کی زندگی کو بدل کر رکھ دینا تھا ناصر جوان تھا تھوڑا پڑھا لکھا بھی تھا اچھا لباس پہنتا اور بولتا بھی اچھا تھایہاں پر اُسے عشق مجاز کے پل صراط سے گزر کر عشقِ حقیقی کی پر خار وادی میں ننگے پاؤں چلنا تھا ‘ یہاں پر ایک لڑکی کو یہ دل دے بیٹھا اور لڑکی اِس کی شخصیت کے سحر میں گرفتار ہو گئی ‘ ناصر کے خمیر میں عشق تھا دبی چنگاری سلگ کر آگ کا بھانبھڑ بن گئی ‘ رگوں میں خون کی جگہ عشق کی بوندیں رقص کر نے لگیں ۔(جاری ہے )