بچوں کے ادب کی تاریخ :- مصنف: ڈاکٹر اسرارالحق سبیلی :- تبصرہ: ڈاکٹر صفیہ بانو .اے.شیخ

Share
ڈاکٹر صفیہ بانو.اے.شیخ

بچوں کے ادب کی تاریخ

مصنف: ڈاکٹر اسرارالحق سبیلی
تبصرہ : ڈاکٹر صفیہ بانو .اے.شیخ

بچوں کے ادب کی تاریخ نامی کتاب ڈاکٹر سیّد اسرارالحق سبیلی کی ہے ڈاکٹر سیّد اسرارالحق سبیلی ۳ ستمبر ۱۹۷۲ء کو پیدا ہوئے ۔ اپنی زندگی میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ معلم اردو ۔ضلع پریشد ہائی اسکول مومن پیٹ رنگا ریڈی سے وابستہ رہے اور ابھی فی الحال شعبۂ اردو گورنمنٹ ڈگری کالج سدّی پیٹ میں جونیر لکچررہے ۔ ان کے دو مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں (۱) بچوں کا ادب اور اخلاق ۔ ایک تجزیہ (۲) بچوں کی باتیں ( کہانیوں کا مجموعہ )لہٰذا ان کی یہ کتاب ان کی تحقیقی مقالہ کا روپ ہے

کتاب کے فرنٹ کور پر جو تصویر دی گئی کہ کُھلی ہوئی کتاب اور موم بتّی سلگتی ہوئی جو قلم کے زور کی علامت ہے جس کے سبب یہ کتاب کا وجود ہوا ۔کتاب کا فرنٹ کور بہت اچھا ہے اُسی سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کتاب کوئی نایاب اور تاریخی کتاب معلوم ہوتی ہے البتہ اس با ت کو یوں کہنا بہتر ہوگا کہ جس طرح کسی خط کے لفافے کو دیکھ کو خط کے موضوع کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے اُسی طرح کتاب کا فرنٹ کور اس بات کی دلیل کو پختہ کرتا ہے کتاب کتنی اہمیت کی حامل ہوگی ۔
صفحہ ۱ ) پر کتاب سے جڑی معلومات درج گی گئی ہے جس سے پتہ لگایا جاسکتا ہے یہ کتاب کس نے لکھی ہے اور کہاں سے شائع ہوئی ہے ۔صفحہ ۲) پر کتاب کی مکمل تفصیل دی گئی ہے یہ کتاب ۲۰۱۶ء میں شائع ہوئی ۔حالانکہ اس بات کا خلاصہ نہیں کیا گیا کہ یہ کتاب کا پہلا ایڈیش ہے یا نہیں ۔ اس صفحہ پر کتاب کی قیمت اور ناشر اور مطبع کا ذکر ملتا ہے ۔صفحہ ۳) پر انتساب لکھا ہے مصنف نے اُسے ادیب ، مصنف ، فقیہ اور اپنے استاذحضرت الاستاذ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی حفظہ اللہ کے نام منسوب کیا ہے ۔صفحہ ۴) خالی ہے ۔ صفحہ ۵) پر فہرست دی گئی ہے۔ یہ فہرست بہت طویل ہے اسلئے یہ صفحہ ۵ سے لے کر صفحہ ۲۱ تک ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کتاب بڑی اہمیت والی ہے اور مصنف کی محنت و مشقت اور علمی گیرائی اور گہرائی کا بھی اندازہ ہوتا ہے ۔یہ کتاب پورے ۳۷۴ صفحات پر مشتمل ہے ۔ صفحہ ۲۲) خالی ہے ۔ صفحہ ۲۳) پر پیش رس ہے ۔ پیش رس کے لغوی معنی وہ پھل جو پہلے پکے ۔جس کو انگریزی میں Premature کہتے ہے ۔ دراصل ہم اکثر و بیشتر کتابوں میں پیش رفت ، پیش لفظ وغیرہ دیکھنے کو ملتے ہے لیکن یہ کتاب بچوں کے حوالے سے لکھی گئی ہے اسی لیے اس کو پیش رس لکھا ہے اس پیش رس کو ڈاکٹر سید فضل اللہ مکرم نے تحریر کیا ہے انہوں نے پیش رس کاآغاز بچے کے حوالے کیا ہے جو بہت خوبصورت ہے یہی نہیں انھوں نے تعلیم کو اہمیت کو جتاتے ہوئے ماہر تعلیم کی عمدہ مثال پیش کی ہے البتہ بذات خود استاد رہے ہے اسلئے انھیں اندازہ تھا کہ یہ کام کتنا محنتی اور مشکل ہے اسلئے انہوں نے مصنف کے تحقیقی و تنقیدی کام کو سراہا ہے جو قابل تعریف ہے۔کتاب کے حوالے سے انہوں نے بچوں کے ادب کے ادوار کی مختصر اًمعلومات دی ہے جس سے قاری کو یہ کتاب پڑھنے میں اور اپنا مواد حاصل کرنے میں آسانی ہوجائے ۔ صفحہ ۳۱ ) پر ڈاکٹر اسرارالحق سبیلی نے ’’ اپنی بات ‘‘ کے حوالے سے اپنے بچپن ،تعلیم،کے بارے میں لکھا ہے اس کے علاوہ انہوں نے اس کتاب میں شامل تمام مضامین کا سرسری خلاصہ بیان کیا ہے تاکہ قاری کو پڑھنے میں دلچسپی پیدا ہوجائے ۔
ڈاکٹر اسرارالحق سبیلی نے کتاب میں بچوں کا ادب : تعریف ،ضرورت اور مسائل ‘ سے ابتداء کی ہے ان کا یہ مضمون بہت ہی معلوماتی ہے جس میں انہوں نے مختلف ادیبوں کے حوالے سے بچوں کے ادب کی تعریف بیان کی ہے جس سے یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ بچوں کا ادب کہ جس میں بچوں کے ادب سے ایسی منظوم اور نثری تحریریں منتخب کرنی ہوں گی جن کی تعلیم کے نتیجے میں بچے رذائل اخلاق سے پاک ہو تے چلے جائیں،اور اخلاقِ حسنہ سے آراستہ ہوتے چلے جائیں ۔
ڈاکٹر سید اسرارالحق سبیلی نے اس کتاب کے بچوں کا ادب نامی باب کے ذیلی عنوان ’’ بچوں کے ادب کی ضرورت ‘‘ میں تحریر کیا ہے ’’ کسی دانشور کا قول ہے :” Child is the father of the man ” بچے آدمی کے باپ ہوتے ہیں ‘ ‘‘ ۱؂ (ص ۔ ۵۵)
یہ ایک ایسا جملہ ہے جو ابہام پیدا کرتا ہے میرے اپنے مطالعہ کے مطابق یہ انگریزی زبان کے معروف شاعر
William Wordsworth’s کی مندرجہ ذیل کی نظم : ” MY Heart Leaps Up When I Behold” سے ماخوذ کچھ اس طرح ہے :
” The Child is father of the man ; (verse : 7) ” ۲؂
( http://www.bartley.com/145/ww194.html)

بچوں کا ادب نامی باب میں ضمنی عنوان ’’ بچوں کا ادب اور عمر کے مختلف مدارج ‘‘ اس بات کی پوری طرح سے وضاحت کرتا ہے بچوں کا ادبی شوق کس عمر سے شروع ہوتا ہے اور اُس میں کون کونسی تبدیلیاں رونماں ہوتی ہے پر روشنی ڈالی ہے جس کو میں مختصراً لکھ رہی ہوں۔(۱) شیر خوارگی کا دور (پیدائش تا ڈھائی سال) : جیسے سمعی یعنی سننا اور بصری یعنی دیکھنا کا دور کہا جاتا ہے لوری سننا اور ماں کو دیکھنا اور اس کے احساس کو محسوس کرنا۔ (۲) ماقبل مدرسہ کا دور (ڈھائی یا حال ۵ سال) یہ دور بچوں کی ذہنی ترقی کا بہت اہم دور ہوتا ہے کوئی بھی چیز کو جاننے کا شوق ہوتا ہے۔(۳)تخیلی دور (۵ یا ۱۰ سال ) اس دور میں بچے تحقیقی دور سے مراجعت کرکے تخیلی دور میں داخل ہوتے ہیں اور حقیقت بیانی میں یعنی مشاہدے کی آئی ہوئی چیزوں کے بیان میں کم دلچسپی لیتے ہیں ۔(۴) مُہماتی دور (۱۰ تا ۱۲ سال ) اس عمر میں بچے کو تخیل سے زیادہ فطرت میں دلچسپی ہونے لگتی ہے ۔(۵) عنفوانِ شباب کا دور (۱۳ تا ۱۶) جسے جوانی کے آغاز کا دوربھی کہہ سکتے ہے نفسیاتی اعتبار سے یہ بڑا ہیجانی دور ہوتا ہے ‘ اس دور میں ذہنی تناؤ اور دباؤ فطری طوفان اور تصادم کا رجحان ہوتا ہے ۔
ڈاکٹر سید اسرار الحق سبیلی نے بچوں کے ادب کے حوالے سے ان کے نفسیات اور ان کے مسائل اور ان کا حل پر مثالیں دیکھ کر اُس کو بہترین طریقے سے سمجھایا ہے یہ اور بات ہے کہ جملے بہت بڑے بڑے ہے ۔جس کے سبب بھی قاری کی دلچسپی پر اثر پڑھ سکتا ہے یہ تو وہی بات ہوگئی کہ کسی مصور نے تصویر بنائی لیکن اُس میں رنگ نہ ہونے کے سبب اُس تصویر کی خوبی کم ہوگئی ۔ ایسا ہی کتاب میں لکھا گیا مسودہ بہت اچھا ہے لیکن طویل جملوں کے سبب بیان کی گئی بات کی خوبی کو کم کردیتا ہے ۔
ڈاکٹر اسرارالحق نے اردو ادب اطفال کو چار ادوار میں تقسیم کرکے پیش کیا ہے (۱) پہلا دور : ابتدا ء تا ۱۸۵۷ء : اس پہلے دور میں انھوں نے عالمی سطح پر بچوں کے ادب کی ابتداء پر اچھی طرح سے روشنی ڈالی ہے یہی نہیں انھوں نے نہ صرف انگریزی زبان کے بچوں کے ادب کے بارے میں تفصیل پیش کی ہے بلکہ سنسکرت زبان میں لکھی گئی تصنیف پر بھی روشنی ڈالی ہے جو کہ تعریف کے قابل ہے جس سے قاری کو دنیا کے بچوں کے ادب کی بھی معلومات فراہم ہوجاتی ہے ۔ اسی کے ضمنی باب میں انھوں نے اردو اور خاص طور سے ہندوستان میں اس کی ابتدا ء کب ہوئی اور کونسی کتاب لکھی گئی اور کس نے لکھی وغیرہ پر بہترین معلومات فراہم ہوتی ہے ۔ (۲) بچوں کے ادب کا دوسرا دور ۱۸۷۵ء تا ۱۹۴۷ء : اس باب میں انھوں نے سب سے پہلے ۱۸۷۵ء کی جنگ کے بعد سیاسی و سماجی حالات کا جائزہ لیا ہے جس کے سبب نہ صرف بچوں کا ادب متاثر ہوا بلکہ دنیا میں تبدیلی کا دور شروع ہوا ۔ایک طرف سرسید احمد خاں اور دوسری طرف برہمو اور آریہ سماج کی تحریک نے بیداری کے کام انجام دئیے۔ اس باب میں ان تمام ادیبوں کا ذکر ملتا ہے جو بچوں کے ادب کو مستقبل کا ادب قرار دے رہے تھے ۔ اس دور کو بچوں کے ادب کا سنہری دور کہنا مناسب ہوگا کیونکہ جس طرح اسمعٰیل میرٹھی نے بچوں کے ادب کی بنیادی چیزوں کا سمویا وہیں اقبال ، حالی ،ڈپٹی نذیر احمد، منشی پریم چند، تلوک چند محروم ، صالحہ عابد حسین ،ذاکر حسین جواہر لال نہرو وغیرہ نے بچوں کے ادب کو ہمیشہ کے لیے زنادہ و جاوید بنا دیا ۔ حالانکہ ابھی بھی بہت سے ایسے ادیبوں کے نام رہ گئے ہیں جنہوں نے اپنے قلم کے صرف اور صرف بچوں کے ادب کے حوالے تک محدود رکھ دیا ہے ۔ (۳) بچوں کے ادب کا تیسرا باب ۱۹۴۷ء تا ۲۰۰۰ء : اس باب میں انھوں نے سب سے پہلے سن عیسوی ۱۹۴۷ء کے سیاسی و سماجی حالات کا جائزہ لیا ہے جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ تقسیم ہند ایک ایسا سانحہ ہے جس نے ہر ایک کو متاثر کرکے رکھ دیا ،یہاں تک کہ بچوں کا ادب بھی اس تقسیم ہند کے اثر سے باقی نہ رہ سکا ۔ اس کے علاوہ انہوں نے ان ادیبوں کے ادب کا جائزہ بھی لیا جو بچوں کے حوالے سے تحریر کر رہے تھے ۔ (۴) بچوں کے ادب کا چوتھا دور ۲۰۰۰ء تا حال : اس باب میں انہوں نے انیسویں صدی کے بعد جو تبدیلیاں ہوئی ان سب کا جائزہ لیا ہے ۔ ساتھ ہی ان رسالوں کے وجود اور ترقی کا بھی جائزہ لیا ہے یہی نہیں انھوں نے ہندوستان کی مختلف ریاستوں کے ادیبوں کی تخلیقات کا جائزہ بھی لیا ہے ۔ کتاب کے آخری حصے میں کتابیات کی تفصیل دی گئی ہے ۔
مختصراً یہ کتاب ایک بہترین کتاب کہلانے کے مستحق ہے اس کتاب میں جو تحقیقی کام ہوا ہے وہ قابل تعریف ہے ۔ بچوں کے ادب کے حوالے سے یہ ایک بنیادی اور نایاب کتاب ہے۔ ایسی کتابوں کے مانگ سال ہا سال ہوتی ہے مگر اس کتاب کو منظر عام پر آنے میں جتنا وقت نہیں لگا جتنا وقت اس کتاب کو تحریر کرنے میں لگا ہوگا ۔ایسی بنیادی کتابوں کے سبب تحقیقی کام کرنے والوں کو حوصلہ ملتا ہے اور قاری کو بھی تحقیقی کام کرنے کی طرف گامزن کرتا رہتا ہے۔ ڈاکٹر اسرارالحق سبیلی کو نہ صرف مبارک باد پیش کرتی ہوں بلکہ وہ اپنے قلم کو جاری رکھے ایسی امید ر رکھتی ہوں ۔
—–

Share
Share
Share