اسلام میں خلافتِ الٰہیہ کی اہمیت
مفتی کلیم رحمانی
8329602318 Mob:
دین اسلام میں حکومت الٰہیہ کا وہی مقام ہے جو انسانی جسم میں قوت کا مقام ہے، جس طرح انسانی جسم قوت کے بغیر معطل ہوجاتا ہے اس طرح اسلام حکومت الٰہیہ کے بغیر معطل ہوجاتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ کے نزدیک اصل مقصود دین اسلام کاقیام ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ حکو مت الٰہیہ اس مقصود کے لیے لا زمی شرط ہے ،
حکومت الٰہیہ کے بغیر دین اسلام پوری طرح قائم ہی نہیں ہو سکتا ، جیسے نماز ایک مقصودی عبادت ہے لیکن اس کے لئے وضو یا تیمم کا ہونا لازمی شرط ہے ، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ حکومت الٰہیہ کے قیام کے بغیر دین کا کوئی کام نہ کرے بلکہ حکومت الٰہیہ کے بغیر دین کے جتنے کام کئے جا سکتے ہیں انہیں ضرور کرے لیکن اس کے ساتھ حکومت الٰہیہ کے قیام کی کوشش بھی ضرور کرے تا کہ اس کے ذریعہ دین کو پورے طور پر قائم کیا جا سکے ۔ یہ المیہ ہی ہے کہ بہت سے اہل ایمان دین اسلام کا قیام چاہتے ہیں لیکن اس کے لئے حکومت۱ الٰہیہ کے قیام کی ضرورت محسوس نہیں کرتے جب کہ دین اسلام کا قیام حکومت الٰہیہ کے قیام سے جڑا ہوا ہے ۔
اسلام میں حکومت الٰہیہ کی کتنی زیادہ اہمیت ہے اللہ کے ایک فرمان سے بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے آنحضور ﷺ پر ہجرت کے وقت نازل فرمایا تھا چنانچہ ارشاد ربانی ہے:
وَ قُلْ رَبِّ اَدْخِلْنِیْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَّ اَخْرِجْنِی مُخْرَجَ صِدْقٍ وَّاجْعَلْ لِی مِنْ لَّدُنْکَ سُلْطَاناً نَصِیْرًا ۔ (بنی اسرائیل :۸۰)
’’ اور (اے محمد ﷺ ) کہہ ! اے میرے رب داخل کر مجھ کو سچائی کے ساتھ داخل کرنا اور نکال مجھ کو سچائی کے ساتھ نکالنا اور عطا کر مجھ کو اپنے پاس سے حکومت کی مدد۔‘‘
مذکورہ آیت کی تفسیر میں مولانا شبیر احمد عثمانی ؒ فاضل دیو بند نے جو کلمات تحریر فرمائے وہ ملاحظہ ہوں ۔ ’’ غلبہ اور تسلط عنایت فرما جس کے ساتھ تیری مدد و نصرت ہو ۔ تاکہ حق کا بول بالا
رہے اور معاندین ذلیل و پست ہوں ۔ دنیا میں کوئی قانون ہو سماوی یا ارضی اس کے نفاذ کے لئے ایک درجہ میں ضروری ہے کہ حکومت کی مدد ہو ۔ جو لوگ دلائل و براہین سننے اور آفتاب کی طرح حق واضح ہو چکنے کے بعد بھی ضدو عناد پر قائم رہیں ان کے ضرر و فسا د کو حکومت کی مدد ہی روک سکتی ہے۔ ‘‘ (منقول : مترجم شیخ الہند ۳۸۵)
حکومت الٰہیہ کی اس سے بڑھ کر اور کیا اہمیت ہو گی کہ اللہ نے اپنے آخری کلام میں آخری نبی ﷺ کو اس کے حصول کے لئے دعا کرنے کا حکم دیا ۔ اس سے یہ بات بھی واضح ہوئی کہ حکومت الٰہیہ کے حصول کی دعا اور اس کے قیام کے لئے جدو جہدعظیم و مبار ک عمل ہے ۔ اس لحاظ سے بڑے مبار ک ہیں وہ اہل ایمان جو اس کے قیام کے لئے اپنا خون پسینہ بہائیں۔ لیکن یہ المیہ ہی ہے کہ کچھ ایمان والے حکومت الٰہیہ کے قیام کو دنیوی فعل قرار دے کر اس کی اہمیت و ضرورت سے انکار کرتے ہیں ، اور ستم ظریفی یہ کہ جو اہل ایمان حکومت الٰہیہ کے قیام کی جدو جہد میں مصروف ہیں انہیں دنیا دار کہہ کر ان پر لعنت ملامت کرتے ہیں۔
برصغیر پاک و ہند کے فکری و علمی رہنما شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ کی تحریر سے بھی حکومت الٰہیہ کی اہمیت و ضرورت اچھی طرح واضح ہوتی ہے جو آپ نے اپنی شہرہ آفاق کتاب حجتہ اللہ البالغہ میں تحریر فرمایا ہے ، چنانچہ فرماتے ہیں :
اِعْلَمْ اَنَّہ‘ یَجِبُ اَنْ یَّکُوْنَ فِی جَمَاعَۃِ الْمُسْلِمِیْنَ خَلِیْفَۃً لِمَصَالِحٍ لاَ تَتِمُّ اِلَّا بِوُجُوْدِہِ وَھِیَ کَثِیْرَۃ’‘ جِدًّا یَجْمَعُھَا صِنْفَانِ،اَحْدُھُمَا مَا یَرْ جِعُ اِلٰی سِیَاسَۃِ
الْمَدِیْنَۃِ مِنْ دَبِّ الْجُنُوْدِ الَّتِیْ تَغْفُرُوْھُمْ وَتُقَھَّرُھُمْ وَ کَفِّ الظَّالِمِ عَنِ الْمَظْلُوْمِ وَفَصْلِ الْقَضَاےَا وََغَےْرِ ذَالِکَ وَقَدْ شَرَحْنَا ھٰذِہِ الْحَاجَاتِ مِنْ قَبْلُ۔ وَثَانِےْھُمَا مَاےَرُجعُ اِلیٰ الْمِلَّۃِ وَ ذٰلِکَ اَنَّ تَنْوِےْۃِ دِےْنِ الْاِسْلاَمِ عَلیٰ سَاءِرِ الْاَدْےَانِ لاَےُتَصَوَّرُ اِلاَّ بِاَنْ یَّکُوْنَ فِی الْمُسْلِمِےْنَ خَلِےْفَۃََ ےُنْکِرُ عَلیٰ اِفْتِرَاضِہٖ اَشَدَّ الْاِنْکَارِ وَےُذِلُّ اَھْلَ سَاءِرِ الْاَدْےَانِ وَےَأَخُذَ مِنھُمُ الْجِزْےَۃَ عَنْ ےَدِِ وَھُمْ صَاغِرُوْنَ وَ اِلَّا کَانُوْا مُتَسَاوِےْنَ فِی الْمَرْتَبَۃِلاَ ےَظْھَرُ فِےْھِمِ الرُّجُحَانُ اِحْدَالْفِرْقَتَےْنِ عَلیٰ الْاُخْرٰی وَلَمُ ےَکُنْ کَابِحّ ےَکْبَحُ ھُمْ عَنْ عُدْوَانُھِمْ ( حجۃ اللہ البالغہ : جلد دوم، صفحہ ۳۷۰)
’’ جان لے کہ مسلمانوں کی جماعت میں کئی مصلحتوں کی وجہ سے ایک خلیفہ ہونا واجب ہے کہ اس کے موجودگی کے بغیر یہ مصلحتیں پوری نہیں ہوسکتی اور یہ مصلحتیں کئی ہیں ان کی دو قسمیں ہیں ایک وہ قسم ہے جو کہ شہری ریاست کی طرف لوٹتی ہیں۔ یعنی افواج کا دفاع کرنا جو کافروں سے جنگ کریں اور ان کو مغلوب کریں اورظالم کو ظلم سے روکنا اور جھگڑے چکانا وغیرہ ہم ان حاجات کی پہلے وضاحت کرچکے ہیں۔ مصلحتوں کی دوسری قسم وہ ہے جو کہ ملت کی طرف لوٹتی ہے اور وہ یہ کہ دین اسلام کا دوسرے تما م ادیان پر عظمت ظاہر کرنا اور یہ تب ہی ہوسکتا ہے جب کہ مسلمانوں میں ایک خلیفہ ہو جو ملت سے خروج و بغاوت کرنے والے کو روکے۔ دین میں جس کو حرام قرار دیا گیا ہے اس کے ارتکاب کرنے والے پر سختی کرے ، اور جو فرض قرار دیا گیا ہے اس کے چھوڑنے والے پر سختی سے باز پرس کرے۔ دوسرے تمام ادیان کو نیچا دکھائے اور ان سے جزیہ وصول کرے اور وہ ذلیل ہوں ۔ اگر ایسا نہ ہوا تو کافر و مسلم درجہ میں برابر ہوجائیں گے اور ان دونوں فرقوں میں سے کسی ایک کی ترجیح و افضلیت ظاہر نہ ہوگی اور نہ انہیں کوئی سرکشی سے روکنے والا ہوگا۔ ‘‘
یہاں یہ بات واضح رہے کہ شاہ ولی اللہ ؒ کی مذکورہ تحریر میں جس خلفیہ کا ذکر ہے اس سے مراد وہ خلیفہ نہیں ہے جس کا تصّور بعض دینی حلقوں میں اپنی ذاتی اصلاح و تربیت کے لئے کسی کے ہاتھ پر بیعت کرنے کا پایا جاتا ہے اور جو اسلامی نظام کے قیام کی طاقت و قوت سے بالکل
عاری ہوتا ہے ، بلکہ مذکورہ تحریر میں جس خلیفہ کا ذکر ہے اس سے مراد وہ خلیفہ ہے جس کے پاس اسلامی نظام کو قائم کرنے اور باطل نظام کو مٹانے کی طاقت و قوت ہو، جیسا کہ شاہ ولی اللہ ؒ نے مذکورہ تحریر میں خلیفہ کے فرائض بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’ وہ شہری سیاست کا انتظام سنبھالے اور افواج کا انتظام کرے جو کافروں سے جنگ کرے اور ان کو مغلوب کرے، ظالم کو ظلم سے روکے، جھگڑوں کا فیصلہ کرے اور دینِ اسلام کو دوسرے تمام دینوں پر غالب کرے‘‘ وغیرہ لیکن یہ المیہ ہی ہے کہ کچھ دین دار اپنی ذاتی اصلاح و تربیت کے لئے کسی کو اپنا خلیفہ بنا کر اسی پر مطمئن و قانع ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم نے خلافت سے جڑنے کا حق ادا کرلیا ، جب کہ شرعی لحاظ سے یہ عمل خلافت سے جڑنے کی تعریف میں آتا ہی نہیں۔
حکومتِ الٰہیہ کی اہمیت و ضرورت ماضی قریب کے ایک مفّکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی ؒ کی تحریر سے بھی اچھی طرح واضح ہوتی ہے جو آپ ؒ نے اپنی معرکۃ الآراء کتاب ’’ سیرت سید احمد شہید ‘‘ میں تحریر فرمایا ہے : چنانچہ اس کتا ب کے چند صفحات کی عبارت قارئین کی خدمت میں من و عن پیش ہے۔
’’ رسول اللہ ﷺ کا دُنیا میں ایک بہت بڑا کام اور آپ ﷺ کی بعثت کا ایک اہم مقصد انسانوں پر اللہ کی حکومت اور شریعت کا قائم کرنا، زمین میں آسمانی نظام سیاست و اخلاق و معاشرت کا جاری کرنا تھا ، پشاور کے فاتح اور ۱۳ ویں صدی کے امیر المومنین کی زندگی میں اتباع نبوی کی یہ حیثیت بہت نمایاں نظر آئے گی اور اسی چیز نے مشائخ اُمّت میں اس جوان کا سر اُونچا کردیا ہے۔ مصلحین اور علماء و مشائخ نے بے شبہ اسلام کی گراں قدر خدمات انجام دی ہیں، اور دے رہے ہیں ، ہزاروں بندگان خدا کو ان سے ہدایت ملی، ہزاروں کو ان کی وجہ سے کلمہ نصیب ہوا، ہزاروں کے خاتمے اچھے ہوئے، آج بھی رسول اللہ ﷺ کا یہ فیض ان سے جاری ہے لیکن ان سب کے حلقے اور عمل کے دائرے محدود ہیں۔ سید صاحب ؒ نے اس نکتہ کو اچھی طرح سمجھا کہ حکومت الٰہی کے قیام اور اسلامی نظام حیات و قوانین و حدود کے اجرا اور ماحول کی تبدیلی کے
بغیر یہ سب کوششیں ’ کندہ و کاہ برآوردن‘ ثابت ہوں گی صرف چند خاص لوگوں کی اصلاح ہوگی، لیکن ضرورت فضا بدلنے اور جڑ مضبوط کرنے کی ہے، آپ ؒ اسی نقشہ پر کام کرنا چاہتے تھے جس پر رسول اللہ ﷺ اور آپ ﷺ کے خلفاء راشدینؓ نے کیا ، اور تجربہ یہ ہے کہ سب سے زیادہ اور پائدار کامیابی اسی کو ہوئی اور قیامت تک اسلام کی ترقی کے لئے وہی نظام عمل ہے ۔ اسلام صرف خواص کا مذہب نہیں اور چند منتخب لوگوں کا ان پر عمل کرنا کافی نہیں ، اسی طرح اسلام عیسائیت کی طرح چند عقائد و رسوم کا نام نہیں، وہ پوری زندگی کا نظام ہے، وہ زمانے کی فضا، طبیعت بشری کا مذاق اور سواداعظم کا رنگ بدلنا چاہتا ہے اور عقائد کے ساتھ ساتھ اخلاق و معاشرت زندگی کے مقاصد و معیار، زاویہ نظر اور انسانی ذہنیت کو بھی اپنے قالب میں ڈھالنا چاہتا ہے، یہ اسی وقت ہوسکتا ہے کہ اس کو مادی و سیاسی اقتدار حاصل ہو، صرف اسی کو قانون سازی اور تنقیذ کا حق ہو، اسی سے صحیح نمائندے دنیا کے لئے نمونہ ہوں ، اسلام کے مادی اقتدار کا لازمی نتیجہ اس کا روحانی اقتدار اور صاحب اقتدار جماعت کے اخلاق و اعمال کی اشاعت ہے، اسی حقیقت کو قرآن نے اس طرح بیان کیا ہے :
اَلَّذِےْنَ اِنْ مَّکَّنّٰھُمْ فِی الْاَرضِ اَقَامُوْا الصَّلٰوۃَ وَ آتَوُا الزَّکوٰۃَ وَ اَمَرُوْا بِالمعٰرُوْف وَ نَھَوْا عَنِ الْمُنْکَرِ وَ لِلِّٰہِ عَاقِبَۃُ الْاُمُوْرِ۔ (۲۲:۴۱) ’’ یہ مظلوم وہ ہیں کہ اگر ہم نے زمین میں انھیں صاحبِ اقتدار کردیا ( یعنی انکا حکم چلنے لگا ) تو نماز قائم کریں گے ادائے زکوٰۃ میں سرگرم ہونگے ، نیکیوں کا حکم دیں گے، بُرائیوں سے روکیں گے اور تمام باتوں کا انجام کاراللہ ہی کے ہاتھوں میں ہے۔
ایک نہایت اہم بات یہ ہے کہ شرعی حکومت کے بغیر شریعت پر پورا عمل بھی نہیں ہوسکتا ، اسلام کے نظمِ عمل کا ایک مستقل حصہ ایسا ہے جو حکومت پر موقو ف ہے۔ حکومت کے بغیر قرآن مجیدکا ایک پورا حصہ ناقابلِ عمل رہ جاتا ہے۔ خود اسلام کی حفاظت بھی قوت کے بغیر بھی ممکن نہیں ، مثال کے طور پر اسلام کا پورا نظام مالی و دیوانی و فوج داری معطل ہوجاتا ہے، اسی لئے قرآن غلبہ و
عزّت کے حصول پر زور دیتا ہے ، اور اسی لئے خلافتِ اسلامی بہت اہم اور مقدس چیز سمجھی گئی۔ اور اسکو اکابر صحابہؓ نے رسول اللہ ﷺ کی تجہیز و تکفین پر مقدم رکھا ، جسے بہت سے کوتاہ نظر نہیں سمجھتے اور اسی کی حفاظت کے لئے حضرتِ حُسینؓ نے اپنی قربانی پیش کی تاکہ اسکا مقصد ضائع نہ ہو اور وہ
نا اہل ہاتھوں میں نہ جانے پائے۔ امربالمعروف اور نہی عن المنکر اسلام میں جس قدر اہم فریضہ ہے ، وہ اس سے ظاہر ہے کہ اُمّت کی بعثت کا مقصد یہی بتایا گیا ہے ۔
کُنْتم خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ (۳:۱۱)
’’ تم بہترین قوم ہو جو لوگوں کے لیے ظاہر کی گئی ہے تم بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو۔‘‘اور قیامت تک کے لیے مسلمانوں پر یہی فرض قرار دیا گیا ہے:
وَلْتَکُمْ مِنْکُمْ اُمَّۃُ یَّدْعُوْنَ اِلیٰ الْخَیْرِ وَیَاْمَرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ (۳:۱۰۴)’’ تم میں ایک ایسی جماعت رہنی چاہیے جو بھلائی کی طرف دعوت دیتی رہے، نیکی کا حکم کرتی رہے اور برائی سے روکتی رہے۔‘‘
لیکن یہ یاد رہے کہ اس کے لیے امر (حکم ) اور نہی (ممانعت ) کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں، اہل علم جانتے ہیں امر ونہی کے لفظ میں اقتدار اور تحکم کی شان ہے ، یہ نہیں فرمایا کہ وہ بھلائی اختیار کرنے کے لیے درخواست و عرض کریں گے ، پس امر ونہی کے لیے سیاسی اقتدار اور مادی قوت کی ضرورت ہے اور امت کا فریضہ ہے کہ وہ اس کا انتظام کرے ۔
صحیحین کی مشہور حدیث ہے : مَنْ رَأی مِنْکُمْ مُنْکَراً فَلْیُغَیِّرْہُ بِیَدِہٖ فَاِنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِہٖ فَاِنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِہٖ وَذٰلِکَ اَضْعَفُ لْاِیْمَانِ ہ
’’تم میں سے کوئی شخص کوئی برا کام دیکھے ، اسے ہاتھ سے روک دے اگر ہاتھ سے نہ روک سکے تو زبان سے روکے، اگر زبان سے بھی نہ روک سکے تو دل سے برا سمجھے اور یہ آخری درجہ ایمان کا سب سے کمزور درجہ ہے۔‘‘
ظاہر ہے تَغْیِیْرِ بِاْلیَدِ (ہاتھ سے بدل دینے اور عملی اصلاح) کے لیے قوت و اقتدار کی ضرورت ہے، زبان سے روکنے کے لیے قوت و آزادی کی ضرورت ہے، اگر یہ کچھ نہیں تو تیسرے درجہ پر قناعت کرنی پڑے گی، جو ایمان کا آخری درجہ ہے اور جس کے بعد بعض روایات کے مطابق ایک ذرہ برابر بھی ایمان نہیں رہ جاتا، مشاہدہ اور تجربہ ہے کہ غلامی میں دل سے برا سمجھنا اور زشت و نیک کا احساس بھی جاتا رہتا ہے۔‘‘
(منقول : سیرت سید احمد شہید، جلد اول صفحہ ۵۶ تا ۵۹)
حضرت مولانا علی میاں ندویؒ کی مذکورہ تحریر سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوگئی کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضہ کو انجام دینے کے لیے سیاسی اقتدار ضروری ہے اور یہ سیاسی اقتدار حکومت الٰہیہ کے ذریعہ ہی قائم ہوسکتا ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہوئی کہ جو ایمان والے حکومت الٰہیہ کے بغیر لوگوں کے سامنے معروف و منکر کو بیان کرتے ہیں یا معروف کے اختیار کرنے اور منکر سے بچنے کی تلقین کرتے ہیں، ان کا یہ عمل امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے زمرے میں نہیں آتا ، کیوں کہ جس حکم کے ساتھ نفاذ کی طاقت نہ ہو اسے حکم نہیں کہتے بلکہ درخواست یا عرض کہیں گے، اور اللہ نے معروف کا حکم دینے اور منکر سے روکنے کا حکم دیا اور یہ تب ہی ممکن ہے جب کہ حکومت الٰہیہ کا قیام ہو۔ لیکن یہ المیہ ہی ہے کہ کچھ مسلمان لوگوں کے سامنے معروف و منکر کو بیان کرکے یا معروف کا اختیار کرنے اور منکر سے بچنے کی تلقین کرکے سمجھتے ہیں کہ ہم نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضہ کو ادا کردیا۔
حکومت الٰہیہ کے بغیر لوگوں کو اسلام کی دعوت تو دی جاسکتی ہے اور ضروردی جانی چاہیے۔ لیکن یہ حقیقت بھی سامنے رہنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کو صرف اسلام کی دعوت کے لیے پیدا نہیں کیا، بلکہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اس امت کا مقصد وجود قرار دیا۔ اور تجربہ و مشاہدہ کی روشنی میں دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ اسلام کی دعوت میں مضبوطی اور عمومیت بھی حکومت الٰہیہ کے غلبہ کے بعد ہی پیداہوتی ہے۔ اس حقیقت کو سمجھنے کے لیے آنحضورﷺ کی نبوی
زندگی کے دونوں دور کے فرق پر ایک سرسری نظر ڈال لینا کافی ہے۔ آنحضور ﷺ کا دور مکی جو ۱۳ سال پر مشتمل ہے، یہ دعوتی دور کہلاتا ہے، ساتھ ہی یہ دور حکومت الٰہیہ کی مغلوبیت کا دور شمار ہوتا ہے ، ان ۱۳ سالوں میں آپ ﷺ نے مسلسل لوگوں کے سامنے اسلام کی دعوت پیش کی ، لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ ان ۱۳سالوں میں آپ ﷺ کی دعوت کے نتیجہ میں جو لوگ اسلام میں داخل ہوئے ان کی تعداد چار ، پانچ سو سے زیادہ نہیں ہے۔ اور بے ثباتی کا یہ عالم کہ جو شہر اس دعوت کا مرکز تھا یعنی مکہ ،خود اس شہر کے رہنے والے اہل ایمان کا اپنے گھروں میں رہنا دوبھر ہوگیا اور انہیں ہجرت کرکے مدینہ جانا پڑا۔
اس کے برخلاف دور مدنی کو دیکھیے جو دس سال پر مشتمل ہے یہ دور حکومت الٰہیہ کے غلبہ کا دور شمار ہوتا ہے اور اس کا مرکز شہر مدینہ تھا جو تمام اہل ایمان کے لیے پناہ گاہ تھا، اس دور کی دعوتی عمومیت کے لیے یہ کافی ہے کہ دس سال کے اندر اندر تقریباً پورے عرب پر حکومت الٰہیہ قائم ہوچکی تھی اور جب آنحضور ﷺ نے دس سال کے بعد اپنا آخری حج اد ا کیا تو آپﷺ کے ساتھ تقریباً ڈیڑھ لاکھ اہل ایمان کا مجمع تھا جو آپﷺ کے ایک اشارے پر اپنی جان دینا زندگی کی سب سے بڑی سعادت سمجھتا تھا ۔ دعوت کی یہ مضبوطی وعمومیت دراصل حکومت اسلامیہ کے غلبہ کا نتیجہ تھی۔
دور مکی اور دورمدنی کے اس فرق کو بخوبی سمجھا جاسکتا ہے کہ کہاں ۱۳ سالہ محنت کا نتیجہ چار، پانچ سو افراد کا اسلام میں داخل ہونا اور کہاں دس سالہ محنت کا نتیجہ لاکھوں افراد کا اسلام میں داخل ہونا۔ اسی حقیقت کو اللہ نے قرآن میں یوں بیان فرمایا :
اِذَا جَآءَ نَصْرُ اللّٰہِ وَالْفَتْحُ ۰ وَرَاَیْتَ النَّاسَ یَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ اَفْوَاجاً ۰ فَسَبَِّح بِحَمْدِ رَبَّکَ وَاسْتَغْفِرْہُ ۰ اِنَّہُ کَانَ تَوَّابا ۰ (سورۃ النصر)
’’جب آچکے اللہ کی مدد اور فتح اور تو دیکھے لوگوں کو داخل ہوتے ہوئے دین میں غول کے غول تو پاکی بیان کر اپنے رب کی خوبیوں کے ساتھ اور مغفرت چاہ بے شک و ہ معاف کرنے والا ہے۔
مذکورہ سورت میں لوگوں کے جوق درجوق دین میں داخل ہونے کا اہم سبب اللہ کی مدد اور فتح کو قرار دیا گیا اور اللہ کی مدد بھی دراصل غلبہ دین کی مدد کرنے پر آتی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ عام لوگوں کے دین میں داخل ہونے اور دین کیطرف متوجہ ہونے کا اہم سبب اسلام کا سیاسی غلبہ ہے، اسلام کے سیاسی غلبہ کے بغیر عام لوگوں کو دین کی طرف متوجہ نہیں کیاجاسکتا ۔ لیکن بدقسمتی سے آج کچھ اہل ایمان یہ تصور رکھتے ہیں کہ پہلے تمام لوگوں کو دین کی طرف متوجہ کردیا جائے بعد میں اسلام کے سیاسی غلبہ کی کوشش کی جائے جب کہ یہ ناممکن ہے۔
لیکن کسی کو یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ اہل ایمان کی جو بھی جماعت اسلام کے سیاسی غلبہ کے لیے اٹھے اس کے لیے مظلومیت و مغلوبیت کے دور سے گزرنا ناگزیر ہے، لیکن بہت فرق ہے مظلومیت و مغلوبیت سے گزرنے اور مظلومیت و مغلوبیت کو قبول کرنے میں آج زیادہ تر اہل ایمان نے مظلومیت و مغلوبیت کو قبول کرلیا ہے اور اسی پر راضی و مطمئن ہیں، اور اس مغلوبیت کو غلبہ سے بدلنے کی کوئی سنجیدہ و منظّم کوشش نہیں ہے، اور ستم ظریفی یہ ہے کہ بہت سے اہل ایمان ، اسلا م کے سیاسی غلبہ کی کوشش کو دینی کوشش سمجھتے ہی نہیں ، جب کہ یہ عین دینی کوشش ہے ، اس حقیقت کو مولانا علی میاں ندویؒ نے اپنی کتاب ’’ سیرت سید احمد شہید‘‘ میں یوں تحریر فرمایا :
’’ اسلام کی خدمت اور نوع انسانی کی سعادت کا ایک ہی لائحہ عمل ہے ، جو اس کتاب میں بتایا گیا ہے اور وہ وہی ہے جس کے مطابق جناب رسول اللہ ﷺ اور آپﷺ کے خلفاء راشدین اور بعض مجددین امت نے عمل کیا ، یعنی دنیا میں اسلامی شریعت اور خلافت کا صحیح نظام قائم کرنا اور اسلام کے اخلاقی ، روحانی ، مادی، سیاسی غلبہ کی کوشش کرنا۔ اسی طرح سے مسلمانوں کی منزل مقصود کا بھی صرف ایک راستہ ہے ، اور وہ وہی راستہ ہے جس سے امت کا پہلا قافلہ منزل تک پہنچا ہے۔ لَنْ یُصْلِحَ آخِرَ ھٰذِہِ الْاُمَّۃِ اِلَّا مَا اَصْلَحَ اَوَّلَھَاْ ’’ اس امت کے پچھلوں کی اصلاح صرف وہی چیز کرسکتی ہے جس نے اس کے اگلوں کی اصلاح کی تھی یعنی دین خالص اور اس کی پیروی ۔ ‘‘ (منقول : سیرت سید احمد شہید ، جلد اول ۴۳)
مولانا علی میاں ندویؒ کی مذکورہ تحریر سے یہ بات واضح ہوگئی کہ آنحضورﷺ کے دور میں اہل ایمان کی تعلیم و تربیت کا جو ذریعہ تھا وہی قیامت تک آنے والے ایمان والوں کے لیے رہے گا۔ اسی طرح آنحضورﷺ کے دور میں دین کے کام کرنے کا جو طریقہ تھا وہی طریقہ قیامت تک کے آنے والے ایمان والوں کے لیے رہے گا، اور یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ آنحضورﷺ کے دور میں اہل ایمان کی تعلیم و تربیت کا ذریعہ صرف قرآن اور آپﷺ کے ارشادات تھے اور دین کے کام کرنے کا طریقہ ، کفار و مشرکین اور یہود و نصاری کے سامنے اسلام کی دعوت پیش کرنا اور اسلام کے سیاسی غلبہ کے لیے دشمنانِ اسلام سے جنگ کرنا تھا۔ لیکن یہ المیہ ہی ہے کہ آج بہت سے ایمان والے ایمان کی تعلیم و تربیت کے لیے قرآن کی تعلیم کی ضرورت محسوس نہیں کرتے اور نہ کفار و مشرکین ، یہود و نصاری کے سامنے اسلام کی دعوت پیش کرنے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں ، اور نہ اسلام کے سیاسی غلبہ کے لیے دشمنان اسلام سے جنگ کرنے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔
حکومت الٰہیہ کی اہمیت ۱۳ ویں صدی ہجری کے مجاہد اسلام ، سید احمد شہیدؒ کے ایک فرمان سے بھی اچھی طرح واضح ہوتی ہے، اس فرمان کو مولانا علی میاں ندویؒ نے اپنی کتاب ’’سیرت سید احمد شہیدؒ ‘‘ میں متن و ترجمہ کے ساتھ تحریر فرمایا ہے چنانچہ اس کا ترجمہ ملاحظہ ہو :
’’ دین کا قیام سلطنت سے ہے ، اور وہ دینی احکام جن کا تعلق حکومت سے ہے، سلطنت کے نہ ہونے سے صاف ہاتھ سے نکل جاتے ہیں اور مسلمانوں کے کام کی خرابی اور سرکش کفار کے ہاتھ سے ان کی ذلت ، نکبت اور شریعت مقدسہ کے شعائر کی بے حرمتی اور مسلمانوں کے معابد و مساجد کی جو تخریب ہوتی ہے وہ بخوبی ظاہر ہے۔‘‘ (سیرت سید احمد شہید ؒ صفحہ ۴۲۲)
آنحضورﷺ کی ایک حدیث سے بھی حکومت الٰہیہ کی اہمیت بخوبی واضح ہوتی ہے چنانچہ فرمان رسول ہے : عَنْ اَبِی ھُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ ﷺ قَالَ کَانَتْ بَنُوْ اِسْرَاءِیْلَ تَسُوْسُھُمُ الْاَنْبِیَآءُ کُلَّمَا ھَلَکَ مِنْھُمْ نَبِیٌّ خَلَفَہ‘ نَبِیٌّ وَاِنَّہ‘ لَا نَبِیٌّ بَعْدِیْ وَسَیَکُوْنُ خُلَفَاءُ فَیَکْثِرُوْنَ۔۔۔ (بخاری و مسلم)
’’ حضرت ابو ہریرہؓ نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں آپﷺ نے فرمایا بنی اسرائیل کی قیادت انبیاءؑ کرتے تھے جب ان میں سے کوئی نبی فوت ہوتا تو دوسرا نبی اس کا جانشین بن جاتا، اور میرے بعد کوئی نبی نہیں ، اور عنقریب خلفاء ہوں گے ، پس زیادہ ہوں گے۔‘‘
مذکورہ حدیث سے یہ بات واضح ہوئی کہ امت مسلمہ کی قیادت و سیاست، خلافت سے جڑی ہوئی ہے اس لیے یہ امت مسلمہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ خلافت کے قیام کی کوشش کرے، خلافت کے قیام کے بغیر امت مسلمہ کی قیادت صحیح نہیں ہوسکتی لیکن یہ افسوس کی بات ہے کہ آج بہت سے مسلمان خلافت کے قیام کی کوشش کرنے کے بجائے غیر اسلامی سیاست کے قیام و بقاء کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔
حکومت الٰہیہ کے قیام کی اہمیت و ضرورت علامہ سید سلیمان ندویؒ کی ایک تحریر سے بھی اچھی طرح واضح ہوتی ہے جو آپ نے اپنی کتاب ’’ سیرت النبی‘‘ کی ساتویں جلد میں تحریر فرمائی ہے۔ چنانچہ وہ تحریر قارئین کی خدمت میں من وعن پیش ہے :
’’ کسی جماعت کو منظم جماعت بنانے اور اس کی حفاظت کے لئے کسی قانون کو چلانے اور پھیلانے کے لئے ایک قوت عاملہ یاقوت عامرہ کی ضرورت فطرت انسانی کا تقاضہ ہے، اسی لئے جب سے انسانی تاریخ معلوم ہے، کوئی ایسی جماعت نہیں بتائی جاسکتی جو کسی سردار کے بغیر وجود میں آئی ہو، انسانی گروہ جب محض ایک خاندان تھا تو خاندان کا بڑا اس کا سردار تھا، اور اس کی زبان کا ہر حکم قانون تھا، جب خاندان نے جماعت کا روپ بھرا تو جماعت کا چودھری اس کا حاکم و آمر بناء، پھر جماعت نے آگے بڑھ کر قوم کی صورت اختیار کی تو باداشاہوں اور راجاؤں نے جنم لیا۔ ‘‘ ( منقول : سیرت النبی ، جلد ہفتم صفحہ : ۹۷)
اِنَّ اللَّہَ لَےَزَعُ بِالسُّلْطَاَنِ مَالاَ ےَزَعُ بِالْقُرْآنِ
’’ یعنی اللہ تعالیٰ اقتدار کے ذریعہ وہ کرتا ہے جو قرآن کے ذریعہ نہیں ہوتا۔ ‘‘
مطلب یہ کہ جو لوگ قرآنی نصیحت سے نہیں مانتے انہیں اسلامی اقتدار کے ذریعہ ماننے
پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔
مذکورہ ارشاد خلیفہ سوّم حضرت عثمان غنیؓ کا ہے۔ ( مجاہد کی اذان، صفحہ ۳۴۹، حسن البناؒ )
اس سے بھی حکومت الٰہیہ کی اہمیت معلوم ہوتی ہے۔ ایک مشہور و معروف قول :
اَلنَّاسُ عَلٰی دِےْنِ مُلُوْکِھِمْ۔
’’ یعنی لوگ اپنے بادشاہوں کے طریقے پر ہوتے ہیں۔ ‘‘
سے بھی حکومت الٰہیہ کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔ یہ ایک قول ہی نہیں بلکہ ایک حقیقت کا اظہار ہے، اور تاریخ و تجربہ سے اس حقیقت کا بخوبی ثبوت ملتا ہے۔ یہ اسی کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ آج بہت سے مسلمان بہت سے غیر اسلامی حکمرانوں کے طریقہ پر فخر کرتے ہیں۔ اور یہ بھی اسی کا اثر تھا کہ ماضی میں اسلامی خلافت کے دور میں غیر مسلم افراد مسلم حکمرانوں کے طریقہ پر فخر کیا کرتے تھے۔
غرض یہ کہ دُنیا کے عام انسان اپنے حکمرانوں کا بہت زیادہ اثر قبول کرتے ہیں، اس لئے اسلام نے حکومت الٰہیہ کے قیام پر بہت زیادہ زور دیا تا کہ دُنیا کے مسلمان اور غیر مسلم ، اسلامی حکمرانوں کا اثر قبول کریں۔ اور وہ غیر اسلامی حکمرانوں کے اثر سے محفوظ رہیں۔ لیکن یہ المیہ ہی ہے کہ آج مسلمانوں کے ذہن سے حکومت الٰہیہ کے قیام کا تصور اتنا اوجھل ہوگیا کہ وہ اسے ایک لا یعنی چیز سمجھتے ہیں۔ جب کہ ایک مسلمان کا جینا اور مرنا حکومت الٰہیہ کے قیام ہی کے لئے ہوتا ہے۔ اس لیے ہر مسلمان کو اسی فکر و عمل کے ساتھ جینا چاہئیے اور اسی فکر و عمل پر مرنا چاہیے، کیوں کہ مسلمانوں کی دُنیا و آخرت کی کامیابی اسی فکر و عمل کے ساتھ جڑی ہوئی ہے، ساتھ ہی اس فکر و عمل کو چھوڑنے میں مسلمانوں کی دُنیا اور آخرت کی رسوائی ہے۔