کالم : بزمِ درویش
حضرت رابعہ بصری ؒ
پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ای میل:
خالقِ کائنات نے جب اِس دھرتی پر حضرت انسان اپنے خلیفہ کو اتارنے کا ارادہ کیا تو ملائکہ نے عرض کی اے رب تیری عبادت کے لیے ہم ہی کافی ہیں ‘ جو دن رات تیری عبادت کر تے ہیں ہم نفوسِ قدسیہ ہیں ہما ری موجودگی میں پیکر شر اورنفس کے محتاج آدم خاکی کو توکیوں پیدا کر نا چاہتا ہے ۔
جس کی فطرت میں شر برائی دنگا فساد قتل و غارت جھوٹ تکبر غرور ملاوٹ شہوت لالچ لوٹ مار خیانت دوسروں کو حقیر جاننا ہے تو اے رب تو کیوں زمین پر اِس فسادی کو بھیج کر فساد پیداکر نا چاہتا ہے تو بصیر و خبیر خالقِ کائنات نے فرمایا جو میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے ‘ میں نے اِس کی تخلیق میں نیکی و شر دونوں رکھ دئیے ہیں جب بھی کو ئی انسان عبادت ریاضت مجاہدے سے شر کی قوتوں کو پامال کر دے گا تو تم بھی اُسی پر رشک کرو گے انسانوں کے اِس ہجوم میں تمہیں ایسے لوگ بھی ملیں گے جنہیں میری راہ میں فنا ہو کر بقا ملے گی جو سوز و ساز عشق خلوص اخلاص صدق و صفا لطف و عطا کے ایسے نورانی پیکر ہوں گے جن کی رگوں میں خون کی جگہ عمل توکل قناعت صبر شکر تسلیم و رضا ہو نگے ‘ زندگی کی مشکل ترین گھڑیوں میں بھی تسلیم و رضا سجدہ شکر بجا لانا اُن کا شیوہ ہو گا ‘ تقوی و طہارت اِن کا اوڑھنا بچھونا ہو گا اِن کے نزدیک شریعت کی حدود سے باہر نکلنا کفر اور خدا کی محبت میں جان دینا عین اسلام ہو گا اور پھر حق تعالیٰ کی یہ بات سچ ثابت ہو ئی کرہ ارض کے تقریبا ہر خطے میں جب ایسے متلاشیانِ حق آفتاب کی طرح روشن ہو ئے تو جہالت کفر کی صدیوں پر محیط تاریکیاں اجالوں میں بدلتی چلی گئیں‘ عشق الٰہی کے یہ مسافر جب سوزِ عشق الٰہی سے گزرے کثافت لطافت میں بدلی تو قدرت نے اِن کے اندر بلا کی جاذبیت غضب کی کشش پیدا کر دی کہ مخلوق خدا پروانوں کی طرح اَن مشعل نور بستیوں کے گرد سمٹ آئے پھر اِن مشعل نور پیکر ہستیوں کے قرب کی وجہ سے مخلوق خدا کے جہالت و کفر کے اندھیرے دور ہو ئے ‘ خوش قسمت ہوتے ہیں وہ زمانے علاقے اور معاشرے جہاں پر خالق خدا ایسے عظیم نفوس قدسیہ کو اتارتا ہے جن سے پھر زمانے فیض پاتے ہیں ایسی عظیم گھڑی اہل بصرہ پر بھی آئی جب ۹۷ ھ میں بصرہ کے ایک نیک شریف گھر میں بے چینی پائی جارہی تھی ‘ تین بچیاں ماں کی تکلیف سے بے خبر گہری نیند میں سوئی ہو ئی تھیں ماں دردِ زہ میں شدید تکلیف سے کراہ رہی تھی بچیوں کا باپ اسماعیل بے بسی لاچارگی میں اندھیرے میں بیوی کے پاس کھڑا تھا ‘ گھر کی غربت کا یہ عالم تھا کہ گھر میں روشنی کے لیے تیل تک نہ تھا تاکہ چراغ میں ڈال کر اُسے جلا کر کمرے کی تاریکی کو دور کیا جا سکے ‘ بیوی درد کی وجہ سے تڑپ رہی تھی درد کی شدت سے تڑپ کر بولی ‘ اسماعیل اگر دایہ کا انتظام نہیں کرسکتے تو خدا کے لیے کہیں سے تھوڑا تیل ہی مانگ لاؤ تا کہ اندھیرے کی سیاہ چادر ہٹ سکے ‘ مجھے اِس تاریک اندھیرے سے وحشت ہو رہی ہے جاؤ پڑوس سے کسی سے تیل لے کر آؤ‘ ورنہ یہ اندھیرا مجھے اور تکلیف دے گا خاوند نے حوصلہ دیتے ہو ئے کہا تم پریشان نہ ہو خدا بہت مہربان کار ساز ہے وہ ہمارا امتحان لے رہا ہے کامیاب وہی لو گ ہوتے ہیں جو خدا کی دی ہو ئی ہر آزمائش میں سر خرو ہو تے ہیں ‘ بیوی کراہتے ہوئے بولی تکلیف میری برداشت سے باہر ہو رہی ہے مجھے ڈر ہے اِس تکلیف سے کہیں میں مر ہی نہ جاؤں لیکن میں مرنے سے پہلے اپنی بچیوں کا چہرہ دیکھنا چاہتی ہوں ‘ پتہ نہیں پھر مجھے موقع ملے نہ ملے لیکن مر نے سے پہلے مجھے اپنی بچیوں کا چہرہ ہی دکھا دو ‘ بچیاں ماں باپ کی اِس بحث سے بے خبر نیند کی گہری وا دی میں نیند کے جھولے لے رہی تھیں ‘ خاوند دل میں یہ سوچ رہا تھارات گہری ہو چکی ہے آس پاس کے لوگ سو چکے ہو نگے آخری پہر رات کے کسی کی نیند میں خلل ڈالنا مناسب نہیں ‘ انسان اپنی تکلیف کی انتہا پر تھامگر دوسروں کے آرام کا سوچ رہا تھا ایک طرف شریک حیات موت و حیات کی کشمکش میں موت کی دہلیز پر روشنی کی بھیک مانگ رہی تھی دوسری طرف خاوند کو زندگی کے اِس انتہائی نازک موڑ پر بھی دوسروں کے آرام کا خیال آرہا تھا جب بیوی کہتی اسماعیل خدا کے لیے کہیں سے تیل کی چند بو ندیں لے آؤ تو وہ صبر کی انتہا پر بار بار کہتا خدا بہت رحیم ہے وہ تم پر رحم کرے گا تمہیں تکلیف سے نکال دے گا تم صبر کے چند لمحے اور گزار لو لیکن بیوی درد کی شدت سے چلا کر بو لی میں زندہ انسان ہوں پتھر یا لکڑی کی چیز نہیں ہوں درد میری برداشت سے باہر ہو رہا ہے درد کی شدید لہر اٹھی بیوی درد سے نڈھال ہوکر نیم بے ہوش ہو گئی لیکن بے ہوش ہوتے ہوئے بولی اسماعیل خدا کے لیے تھوڑا تیل کہیں سے لے آؤ بیوی کی یہ حالت آخر اسماعیل کے صبر کی حد توڑ گئی ‘ اٹھتے ہوئے بولا میں کو شش کر تا ہوں کہیں سے تیل کی چند بو ندیں اگر مل جائیں تو لے کر آتا ہوں ‘ اسماعیل گھر سے باہر نکلا تو چاروں طرف اندھیرے کا سنا ٹا طاری تھا اسماعیل پڑوسی کے دروازے پر گیا لیکن دستک دینے سے پہلے صبر و تسلیم کا پہاڑ پھر لرز گیا پروردگار سے التجاکی اے میرے رب تو بخوبی واقف ہے میں نے زندگی بھر کبھی کسی انسان کے سامنے دستِ سوال دراز نہیں کیا آج میری شریک حیات زندگی و موت کی کشمکش میں پڑی ہے اس کی یہ حالت مُجھ سے دیکھی نہیں گئی لہٰذا میں دستِ سوال دراز کر نے آگیا جب کہ تومیرے استغنا اور میری قانع اور راضی بہ رضا فطرت سے خوب واقف ہے ‘ اے میرے رب جب یہ ہاتھ کسی اور کے سامنے آج تک دراز ہی نہیں ہوا تو آج میں کس طرح کسی انسان کے سامنے ہاتھ پھیلاؤں اے جہانوں کے خدا تو ہی میری مشکل آسان فرما میری بیوی کو اِس تکلیف سے نجات دے ‘ یہ سوچ کر اسماعیل دروازے پر دستک دئیے بغیر ہی واپس آگیا آکر بیوی سے کہا میں نے بڑی کو شش کی لیکن میرے اندر وہ ہمت پیدا ہی نہیں ہوئی کہ میں دستک دے کر تھوڑا سا تیل مانگ سکوں اِس لیے میں دستک دیئے بنا ہی واپس آگیا۔ بیوی نے سن کر کہامیں بھی خدا سے صبر شکر کی درخواست کرتی ہوں اور ساتھ یہ دعا بھی کہ اِس بار اللہ تعالی ہمیں بیٹا دے کیونکہ تین بیٹیاں تو پہلے سے گھر میں موجود ہیں اور پھر خدا کے کرم سے نیا وجود اِس جہاں رنگ و بو میں آگیا ‘ بچے کے رونے کی آواز سے اسماعیل کی جان میں جان آئی ماں درد کی شدت سے نیم بے ہوش تھی اسماعیل ڈرا سہما بیوی کی طرف بڑھا وہ جاننا چاہتا تھا نیا وجود لڑکی ہے یا لڑکا ‘ جب پتہ چلا وہ لڑکی ہے تو چکرا گیا جب بیوی نے بار بار پو چھا تو بولا ہمارے آقا نبی کریم ﷺ کی بھی تو بیٹیاں ہی تھیں بیوی نے درد میں بھی مسکرانا چاہا اور بو لی یہ بھی خدا کی رحمت ہے اُس نے جو دیا ہم نے خو شی سے قبول کیا اُسی رات اسماعیل نے خواب میں دیکھا رسول کریم ﷺ تشریف لاتے ہیں اور فرماتے ہیں اسماعیل پریشان مت ہو تیری یہ بیٹی تصوف کے آسمان پر چاند بن کر چمکے گی اِس کی شفاعت سے ایک ہزار افراد بخشے جائیں گے ‘ اسماعیل نے عرض کی یارسول اللہ ﷺ مجھے غربت تنگدستی نے بے حال کر دیا ہے میری خودداری کہ میں کسی کے سامنے دستِ سوال دراز بھی نہیں کر سکتا آقا کریم ﷺ میں نے آج تک کسی انسان کے سامنے اپنا دامن نہیں پھیلایا لیکن اب حالات میری برداشت سے باہر ہیں ‘ بچیوں کی بھوک اور زندگی کو قائم رکھنے میں مشکل پیش آرہی ہے آقا کریم میری مدد فرمائیں ‘ میری گھر سے غربت کی تاریکی دور کرنے میں میری مدد فرمائیں تو یتیموں کے آسرے نبی دوجہاں شافع محشر محبوب خدا سرور کونین ﷺ نے شفقت بھرے لہجے میں فرمایا تو والی بصرہ کے پاس یہ تحریر لے کر جا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے تو ہر دن مجھ پر ایک سو بار درود شریف بھیجتا ہے جمعہ کی شب چار سو بار لیکن آج جمعہ کی رات تو مُجھ پر درود شریف بھیجنا بھول گیا لہٰذا کفارے کے طور پر حامل ہذا کو چار سو دینار دے دو ‘ جاگنے پر اسماعیل فرطِ مسرت سے رونے لگے کہ آقا کریم ﷺ خواب میں تشریف لائے پھر والی بصرہ کے نام تحریر لکھی اور جا کر دربان کو دے دی ‘ تحریر کا والی بصرہ تک پہنچنا تھا کہ محل میں زلزلہ سا آگیا اُس نے فوری فرمان جاری کیا نبی رحمت ﷺ کی یاد آوری کے شکرانے کے دس ہزار درہم اِسی وقت فقراہ میں تقسیم کر دئیے جائیں اور چار سو درہم اُس عظیم نیک شخص کو دے دئیے جائیں ‘ جو یہ تحریر لے کر آیا ہے اِس کے بعد والی بصرہ خود بھی بنفسِ نفیس غلاموں کی طرح اسماعیل کے در پر حاضر ہوا اور انتہائی درخواست گزار لہجے میں درخواست کی آپ کو جب بھی کسی چیز کی ضرورت ہو تو آپ مجھے حکم کر دیا کریں میں تعمیل کیا کروں گا ‘ نیک غیرت مند اسماعیل کی یہ فطرت نہ تھی جس بچی کی پیدائش پر نبی دو جہاں ﷺ اسماعیل کے خواب میںآئے وہ اپنے وقت کی سب سے بڑی قلندرہ مجاہدہ مریم ثانی خاصان خدا سوختہ عشق الٰہی اُم الخیر حضرت رابعہ بصری ؒ تھیں جنہوں نے زندگی بھر خدا سے صرف خدا کو ہی مانگا ۔