کراچی میں اردو غزل اور نظم
ایک مطالعہ
مصنف : پروفیسر شاہد کمال
مطالعہ : عبدالعزیز ملک
لیکچرار،شعبہ اردو، جی سی یونیورسٹی فیصل آباد
پروفیسر شاہد کمال طویل عرصے سے اردو ادب کی تدریس ،تحقیق ،تنقیداور تخلیق سے جُڑے ہوئے ہیں،اس کا ثبوت ان کی کتب اور مضامین ہیں جو طباعت کے مرحلے سے گزر کر قارئین کی داد وصول کر چکے ہیں ۔ان کا شمار ان اشخاص کی فہرست میں ہوتا ہے جو صاحبِ مطالعہ ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی ذاتی رائے بھی رکھتے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ ان کے مضامین اور کتب ادبی ناقدین کے چبائے ہوئے نوالے نہیں بلکہ افکارِ تازہ ہیں۔
ان میں اتنی اخلاقی جرات موجود ہے کہ وہ بے لاگ اور دوٹوک رائے دینے میں باک محسوس نہیں کرتے،اسی لیے ان کی تحریروں میں خوشامدانہ اور بے جا تعریفی انداز نظر نہیں آتا۔’’کراچی میں اردو غزل اور نظم‘‘ بھی ان کی ایک ایسی ہی کتاب ہے جو انجمنِ ترقی اردو ہند ،نئی دہلی سے ۲۰۱۶ء میں شائع ہوئی ہے ۔اس کتاب میں مصنف نے کراچی میں شاعری کی تاریخ کوناقدانہ انداز میں قاری کے سامنے لانے کی کوشش کی ہے اوراس میں وہ بہت حد تک کامیاب بھی رہے ہیں۔
’’کراچی میں اردو غزل اور نظم‘‘ تین ابواب پر مشتمل ہے ۔باب اوّل’’تاریخی و ادبی پس منظر‘‘ کے عنوان سے کتاب میں شامل ہے ۔اس باب میں کراچی میں پروان چڑھنے والے شاعری کے اسالیب،شہر کی سماجی صورتِ حال ،تاریخی پس منظر اور تقسیمِ ہند کے بعد کراچی کی معاشرتی صورتِ حال کا تجزیہ پیش کیا گیا ہے۔بقول مصنف کراچی کی شعری روایت میں تین اسالیب نمایاں ہیں،روایتی اسلوب ، نیم روایتی اسلوب اور نثری نظم کی روایت ،سوائے سارا شگفتہ،افتخارجالب اور ذیشان ساحل کی نثری نظموں کے، مصنف نثری نظم کی صورت حال سے غیر مطمئن ہیں جب کہ غزل اورنظم کی ہئیت میں ہونے والی شاعری ان کے لیے کسی حد تک اطمینان بخش ہے۔ تقسیم ہند سے قبل کراچی شہر کی سماجی بنت اور انسانی رویوں کاتجزیہ بھی کیا گیا ہے جس کے تحت کراچی کا معاشرہ تین طبقات میں منقسم ہے۔’’۱۔ہندوستان کے مختلف علاقوں سے ہجرت کر کے آنے والے لوگ ،۲۔وہ لوگ جو اندرون سندھ ،پنجاب یا سرحد ،بلوچستان سے یہاں آکر آباد ہوئے ۔۳۔وہ لوگ جو یہاں کے مقامی باشندے تھے اور جن کی تعداد بہت معمولی تھی۔‘‘لیکن قیامِ پاکستان کے بعد اس صورتِ حال میں یکسر تبدیلی رونما ہوئی اور ہندوستان کے مہاجرین کی کثیر تعدادکراچی میں رہائش پذیر ہوئی ۔نئے مہاجرین متنوع تہذیبوں سے علاقہ رکھتے تھے ،جن میں دلی، لکھنو اور علی گڑھ کے علاقے نمایاں ہیں ۔ مختلف جغرافیے اور متنوع تہذیبوں سے متعلقہ آبادی اپنے اپنے تہذیبی ورثے کی حفاظت میں جٹی رہی جس کے باعث کراچی کی مشترکہ تہذیب پروان نہ چڑھ سکی جس کا نقصان یہ ہوا ہے کہ نصف صدی سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود کراچی کی تخلیقی سر گرمیوں میں کوئی مجموعی تاثر نہیں ابھرا جو اس شہر کی خاص پہچان بن سکتا ۔کتاب کے پہلے باب میں زبان کی تاریخی صورتِ حال کاجائزہ بھی پیش کیا گیا ہے۔اس ضمن میں محمد بن قاسم کی آمد ،سندھ سے دیگر اقوام کے تجارتی تعلقات ،مغلوں کے دورِ حکومت میں فارسی اور عربی زبانوں کے سرکاری زبان کا درجہ اختیار کرنے پر سندھ کی زبان پر اثرات ، سندھی کے رسم الخط کا عربی رسم الخط سے متاثر ہونا اورکراچی کا ساحلی بندر گاہ ہونا جیسے عوامل کو زیرِ بحث لایا گیا ہے ۔مزید براں کراچی اور اس کے ملحقہ علاقوں کے شعرا کوقدیم اردو سے متاثر دکھایا گیا ہے اور اس حوالے سے اشعار کی مثالیں بھی پیش کی گئی ہیں ۔ پرانے دور کے نمایندہ شعرا میں میر صابر محمود ،محمد عظیم الدین عظیم ، حاجی محمد فضل ماتم ،مرزا مراد علی بیگ بڈھل ، میر عبدالحسین سانگی اور مرزا قلیچ بیگ کے نام شامل ہیں ۔ یہ شعرا ادب کے دہلوی دبستان سے متاثر ہیں۔
دوسرا باب ’’روایت سے تصوف تک ‘‘ کے زیرِ عنوان کتاب میں شامل کیا گیا ہے۔اس باب میں اردو شاعری کے روایت سے تصوف تک کے سفر کو بیان کیا گیا ہے۔اس سلسلے میں تقسیمِ ہندوستان کے بعد کراچی میں جن شعرا نے اردو غزل اور نظم کو فروغ دیا ان میں عارف جلالی،قمر جلالوی اوربہزاد لکھنوی کے نام نمایاں ہیں ۔ان کی شاعری میں کلاسیکی روایت کا رنگ جدت کی نسبت زیادہ نمایاں ہوا ہے ۔ انھوں نے معاشرتی مسائل کو مخصوص استعارات اور تشبیہات کے پیرائے میں نظم کیا ہے۔تقسیمِ ہند کے کچھ عرصے بعدتخلیق کاروں کی زندگی سے آزادی کی سر شاری کا عنصر کم ہونے لگااور زندگی کے جملہ شعبہ جات میں شناخت کا احساس شدت اختیار کر گیا۔خواب و خیال کی دنیا کو خیر باد کہ کرحقیقت سے تعلق استوار کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی ۔اس احساس کے علم بردار محشر بدایونی ،رئیس امروہی اور تابش دہلوی ہیں۔یہ وہ شعرا ہیں جن کو روایتی اور نیم روایتی اسالیب کا نمایندہ شاعرکہا جا سکتا ہے۔ان کے اشعار ماضی کی تصویر کشی کے ساتھ ساتھ مستقبل کے آئینہ دار بھی ہیں ۔محشر بدایونی نے اپنے مخصوص استعاروں میں مذکورہ صورتِ حال کو پیش کیا ہے مثلاً ان کے ہاں ’’دیے‘‘ کا استعارہ بار بار استعمال ہوا ہے جو مختلف جگہوں پر مختلف معانی کا حامل ہے۔رئیس امروہی کی شاعری میں روایتی مضامین کے ہمراہ فلسفیانہ مسائل اور تصوف سے متعلق مضامین کثرت سے موجود ہیں وہ خدا اور بندے کے تعلق ،عظمتِ آدم اور کائنات کی دیگر حقیقتوں سے پردہ کشائی کرتے ہیں ۔تابش دہلوی نے اپنی شاعری میں میر کے سوز و گداز ،سودا کی گھن گرج اور درد کے عارفانہ مضامین کو مہارت سے پیش کیا ہے۔ نظم اور غزل کے علاوہ انھوں نے گیت ،سلام ،منقبت اور بھجن بھی تحریر کیے ہیں۔کراچی کی اس شعری روایت کو شکیل احمد ضیا نے برقرار رکھا ۔یوں تو ان کا شعری سفر آزادی سے پہلے ہی شروع ہو گیا تھا لیکن ان کی بطور شاعر شناخت تقسیم کے بعد ابھری ۔ان کی غزل میں کلاسیکیت بھی ہے اور جدید فکری احساس بھی ہے۔نیم سیاسی اور نیم رومانوی رجحانات کے دور میں جس شاعر نے سیاست اور رومانویت کو الگ الگ دائروں میں قید کر کے دیکھا وہ سراج الدین ظفر تھا ،ان کی شاعری کے جہاں مضامین میں انفرادیت تھی وہیں وہ منفرد لفظیات کے استعمال میں بھی ماہر ہیں ۔سراج الدین ظفر کی اس روایت کو صبا اکبر آبادی نے برقرار رکھا انھوں نے غزل کہنے کے ساتھ ساتھ مرثیہ ایسی صنف میں بھی خامہ فرسائی کی جہاں مشاقی کے باوجود تخلیقیت اپنے عروج پر دکھائی دیتی ہے۔ان کی شاعری میں قنوطیت نہیں بلکہ رجائیت کا عنصر نمایاں ہے،اسی لیے وہ اپنے عہد کے جبری نظام کے خلاف بغاوت کا علم بلند کرتے ہیں ۔کراچی کی تخلیقی فضامیں جون ایلیا کا نام اور کام اسقدر ہے کہ اس سے صرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا۔اس کی شاعری نے قرطاسِ وقت پر اتنے گہرے اثرات مرتسم کیے ہیں کہ دیگر جملہ مباحث اس کے سامنے ہیچ ہو کر رہ جاتے ہیں ۔جون ایلیا نے اس دور میں اپنی شناخت کو مستحکم کیا جب غزل روایتی انداز سے اپنا دامن بچاتی ہوئی کمیونزم اور سیکولرزم کے تجربات سے اپنے مزاج کو مستحکم کر چکی تھی،غزل میں عصرِ حاضر کے سیاسی ،سماجی اور اقتصادی مسائل کا بیان زور و شور سے جاری تھا۔انھوں نے اپنی شاعری میں جدت کے ساتھ ساتھ کلاسیکیت سے بھی رابطہ استوار رکھا ،ان کی شاعری میں زبان و بیان کے ہمراہ محاورہ بندی تک جملہ اوصاف کلاسیکی شاعری کی غمازی کرتے ہیں۔ان میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ زندگی کے حقائق کووجود کی کسک سے ہم آہنگ کر کے بیان کرتے کرتے قاری کو حیرت زدہ کر دیتے ہیں۔میر کے اسلوب کا حامل شاعر رسا چغتائی بھی کراچی کے تخلیقی منظر نامے میں اہم نام ہے۔ چھوٹی سے چھوٹی بحر میں وسیع تر کیفیات کو بیان کرنے کی مثال کسی ہی اور شاعر کے ہاں ملتی ہو۔لفظوں کو تخلیقی سطح پر ایسے استعمال کرتے ہیں کہ ان کی معنوی وسعت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ان کی شاعری میں معاشرتی شکست و ریخت عصری حسیت سے مملو ہو کر احساسات کو انگیخت کرتی ہے یہی چیز ان کی شاعری میں پر اسراریت اور ڈرامائیت کا باعث بھی بنی ہے۔رسا چغتائی نے میر کے اسلوب کو اپنا یاتو عزیز حامد مدنی کے ہاں غالب کا رنگ غالب رہا۔ ان کی شاعری میں خیالات اس قدر مربوط ہوتے ہیں کہ ان غزل کے بارے میں کلیم الدین احمد کی رائے کہ غزل’’ نیم وحشیانہ‘‘ صنفِ سخن ہے،جھوٹ معلوم ہوتی ہے۔ان کی شاعری کی نمایاں خوبی یہ ہے کہ ان کے شعری موضوعات کسی بھی طرح لفظیات کے زیرِ اثر نہیں آتے ۔غزل کے لہجے اور غزل کی لفظیات میں نظم کہنے کا رواج جو اردو شاعری میں موجود رہا ہے اس روایت کو عزیز حامد مدنی نے برقرار رکھا ہے۔
اردو میں متصوفانہ روایت کی حامل شاعری کا فقدان نہیں ہے اس کا سلسلہ اردو کے آغاز سے شروع ہوگیا تھا مختلف زمانوں کاسفر کرتایہ سلسلہ دورِ حاضر میں داخل ہو چکاہے۔امیر خسرو،ولی دکنی ،خواجہ میر درداور کبیر داس سے لے کرمہر علی شاہ،ذہین شاہ تاجی اور عنبر وارثی تک پھیلا ہوا ہے۔کراچی کی شعری روایت تصوف کی روایت سے خالی نہیں ہے،بابا ذہین شاہ تاجی کا اس ضمن میں قابلِ قدر کام ہے۔انھوں نے غزل اور نظم دونوں اصناف میں طبع آزمائی کی اور محبوب و محب کے تعلق کو اس ڈھنگ سے پیش کیا کہ تصوف کے رموز قاری کی ذہن پر اپنا نقش چھوڑ جاتے ہیں ۔اسی سلسلے کو آگے بڑھانے میں عنبر وارثی نے اساسی کردار ادا کیا انھوں نے کراچی کے ادبی منظر نامے میں اس وقت اپنی شناخت بنائی جب ذہین شاہ جیسا شاعر اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے اظہار میں نقطہ عروج پر تھا۔عنبر وارثی کی شاعری کہیں کہیں بیدم وارثی کی شاعری سے متاثر معلوم ہوتی ہے اور کائنات کو محض وحدتِ مطلق کے حوالے سے دیکھتے ہیں ۔بقول مصنف ان کی شاعری کی خاص بات یہ ہے کہ وہ مشکل سے مشکل مضمون کو بھی سہل اور رواں انداز میں بیان کرنے کی صلاحیت سے مالا مال ہیں جو ان کی شاعری کو تادیر زندہ رکھے گی ۔
کتاب کا تیسرا باب’’ نیم روایت سے جدیدیت تک ‘‘ کاعنوان لیے ہوئے ہے۔اس باب کے آغاز میں جوش ملیح آبادی کی شاعری کو زیرِ بحث لایا گیا ہے،ان کی شاعری لکھنوی دبستان کی عکاس ہے جہاں انیس و دبیر جیسے نظم گوشعرانے نظم نگاری کی ٹھوس بنیادیں استوار کیں ۔بقول مصنف جوش کی شاعری میں عورت کے مختلف روپ دکھائے گئے ہیں جن میں جامن والیاں ،کوہستان کی عورتیں ،مالن ،خاتونِ مغرب اور خاتونِ مشرق کے نام بطورِ خاص لیے جاسکتے ہیں ۔وہ جس انداز سے عورت کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں وہ ایک خاص طرز کی تہہ داری لیے ہوئے ہے۔کراچی کی شعری فضا کو مصطفا زیدی نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں سے وسعت بخشی ،ان کی شاعری میں جمالیاتی احساس کا اظہار مشاہدے اور تجربے کی گہرائی سے ملو ہو کر سامنے آتا ہے یوں وہ شعر میں اپنے وجود کے ساتھ موجود ہوتے ہیں۔انھوں نے جہاں غزل کی صنف کو ذریعہ اظہار بنایا وہاں نظم نگاری میں بھی وہ خاص مقام رکھتے ہیں ۔ان کی نظموں میں ’طیارہ‘،’ائیر ہوسٹس‘،’گانے والیاں ‘،’فراق اور دوسری نظمیں ‘ نے شہرت حاصل کی ۔مزید براں ان کی محبوبہ ’شہناز‘سے متعلق پانچ نظمیں بھی قابلِ ذکر ہیں ۔’چاند چہرہ ستارہ آنکھیں‘ سے شہرت پانے والے عبید اللہ علیم بھی کراچی کے شعری منظر نامے کا نمایندہ نام ہیں ۔انھوں نے بھی غزل اور نظم دونوں اصناف کو اپنا ذریعہ اظہار بنایا۔ان کی شاعری میں بے گھری ،مغائرت،بدنی حوالے اورسیاسی تبدیلیوں کا بیان پوری شدت کے ساتھ موجود ہے جو کراچی کے مکینوں کے حالاتِ زندگی کا آئینہ دار ہے۔ان کی شاعری میں ’چاند‘ اور’خواب‘ کا استعارہ بار باراور منفرد انداز میں استعمال ہوا ہے۔ساقی فاروقی اپنے طور پر منفرد اور عمدہ اسلوب کے حامل شاعر ہیں وہ نہ صرف پڑھے لکھے بلکہ کشادہ ذہن کے مالک ہیں اور یہ خصوصیات ان کی شاعری میں بھی موجود ہیں ۔ان کی نظموں قیدی، کالا پانی ،روتی مٹی ،برف باری،مکڑا اور شاہ صاحب اینڈ سنزان کی فنی اور فکری وسعتوں پر دال ہیں۔رئیس فروغ نے اپنی شاعری کی بنیاد احساسات اور محسوسات پر رکھی جو انسانی فطرت کے لازمی اجزا ہیں ،ان کی شاعری کا انحصار داخلی اور خارجی دونوں عوامل پرہے۔وہ زبان کے چٹخارے اور تخیل کی کارفرمائی تک خود کو محدود نہیں رکھتے بلکہ قاری کو دعوتِ فکر دیتے ہیں۔ان کی شاعری کی امیجری اس بات کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے کہ وہ مغربی ادب سے متاثر ہیں ۔رئیس فروغ کے ہم عصر شاعرفرید جاوید کی شاعری کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتاانھوں نے انسانی نفسیات کوسہل انداز میں اشعار کی صورت پیش کیا ہے۔اسی دور میں اطہر نفیس نے بھی تخلیقی صلاحیتوں کو منوایا ان کے ہاں کیفیات کو پر کیف بنانے کے لیے جذبات اور وارفتگی کی بنیاد فراہم کی گئی ہے۔وہ تنہائی کی آگ سے روشنی لے کراندر کے موسموں کی تصویر کشی کرتا ہے۔رضی اختر شوق نے انسانی کیفیات کو تخلیقیت سے مملو کر جس خوش اسلوبی سے قاری کے سامنے پیش کیا ہے وہ قابلِ داد ہے۔ان کی شاعری کراچی کی باطنی اور خارجی دونوں حالات کی آئینہ دار ہے۔وہ جس طرح کے بھی مسائل بھی بیان کریں ان کے پس منظر میں محبت کا جذبہ پوری طاقت سے موجود ہے۔سرور بارہ بنکوی کو شاہد کمال نے کراچی کے سنہرے دور کا شاعر کہا ہے اس لیے کہ ان کے دور میں بڑے بڑے شاعر موجود تھے اور پورے جمالیاتی ذوق کے ساتھ ادب کی مانگ میں افشاں سجا رہے تھے ۔ان کی شعرا کی موجودگی میں خود کو تخلیقی سطح پر منوا لینا قابلِ تحسین بھی ہے اور قابلِ قدر بھی۔انھوں نے غزل اور نظم کے ساتھ ساتھ فلمی گیت بھی لکھے جو یاد رکھے جائیں گے۔محسن بھوپالی کا نام اردو شاعری سے شغف رکھنے والوں کے لیے جانا پہچانا ہے انھوں نے اپنی تخلیقات کے عناصر کو معاشرتی فضا سے اکٹھا کر کے خیال کی روح پھونکی ہے جس سے ان کی شاعری زیست کی نمایندہ بن کر سامنے آئی ہے۔انھوں نے ہماری زندگی کی محرومیوں اور ان کے نتیجے میں پیدا ہونے والے کرب اور ناانصافیوں کو پر اثر انداز میں پیش کیا ہے۔زندگی کو پیش کرنے کا اندازصہبا اختر کے ہاں بھی موجود ہے۔بقول مصنف صہبا اختر کی شاعری اپنے اندرزندگی کی حقیقتوں سے ایک رشتہ رکھتی ہے جس نے ان کی شاعری کوزندگی کی تصویر بنا دیا ہے اس حوالے سے ’’سمندر‘‘،’’ترانہ زندگی ‘‘،’’محبت‘‘،’’بھوکی دنیا کی آواز‘‘،’’دیواریں ‘‘ اور ’’کتابیں‘‘جیسی نظموں کو بطور مثال پیش کیا جا سکتا ہے جس میں زندگی کے مسائل کو خوب صورتی سے پیش کیا گیا ہے۔کراچی میں نظم نگاری کے حوالے سے ایک اور اہم نام قمر جمیل کا ہے،جنھوں نے منفردتشبیہات و استعارات سے اردو شاعری کا دامن وسیع کیا ۔ پھول ،آئینہ اور خواب کے استعارات ان کی شاعری میں جا بجا ملتے ہیں ۔مصنف نے ان کی شاعری کو خوابوں کی شاعری قرار دیا ہے جو خواب دکھانے کے بجائے اسے لفظوں میں ڈھا ل کرقاری کے خوابوں تک منتقل کر دیتے ہیں ۔فہمیدہ ریاض کی شعری کا ئنات نے عورت کی تصویر کشی کے لیے ایسے رنگ استعمال کیے ہیں جن کے لیے ہمت کی ضرورت ہوتی ہے۔یہی وجہ ہے انھیں پہلی کتاب ’’پتھر کی زبان‘‘ سے ہی مخالفت کا سامنا کرنا پڑااور یہ سلسلہ ان کی بعد میں آنے والی کتب تک جاری رہتا ہے۔انور خالد کو تجریدی نظموں کا شاعر کہا جاتا ہے ان کی نظموں سے حظ کشید کرنے کے لیے قاری کو درونِ ذات صلاحیتوں کو کام میں لانا پڑتا ہے۔سلیم احمد کی شاعری معاشرتی مایوسیوں اور احساسِ محرومی کی آئینہ دار ہے۔ سحر انصاری نے کلاسیکی روایت سے جڑے ہونے کے باوجود عصرِ حاضر سے بھی خود کو ہم آہنگ رکھا ہے جو انھیں دیگر شعرا سے ممیز کرتا ہے۔زبان و بیان کی پختگی،اسلوب کی تازہ کاری اور تخیل کی کارفرمائی ان کی شاعری کی نمایاں خصوصیات ہیں ۔افتخار عارف نے عصرِ حاضر کی سچائیوں کو بے ساختگی کے ساتھ اپنے منفرد استعاراتی و تلمیحاتی نظام کے ذریعے قاری کے سامنے پیش کیا ہے۔سہل ممتنع کی جس روایت کا چلن میر سے شروع ہوا تھا اسے انور شعورنے آگے بڑھایا۔ان کی شاعری کی بنیاد زندگی کی آفاقی اقدار اورحقائق پر رکھی گئی ہے جنھیں وہ سادہ اور عام فہم انداز میں قاری کے سامنے پیش کر دیتے ہیں۔خواتین شاعرات میں پروین شاکر کو شہرت اور قبولیت میسر آئی وہ کم کم شعرا کو نصیب ہوتی ہے۔ان کی غزلیں روایتی انداز کی حامل ہونے کے ساتھ گیتوں کے آہنگ کو اپناتی ہیں اسی لیے ان میں غنائیت کا عنصرنمایاں ہو جاتا ہے۔انھوں نے خوشبو کے استعارے کو بار بار اپنی شاعری میں استعمال کیا ہے کہ یہ استعارہ ان کی تخلیقات میں پیوست ہو کر رہ گیا ہے۔کراچی کے شعری منظر نامے میں ثروت حسین نے کم وقت میں ادبی دنیا میں اپنے نقوش ثبت کیے۔ڈرامائیت، مجذوبیت اوربے یقینی ان کی شاعری کی خاص پہچان بنتے ہیں ۔ صابر ظفر ، سلیم کوثر اور جمال احسانی کا خمیر تو پنجاب کی مٹی سے اٹھا لیکن انھوں نے کراچی شہر کی مٹی کا قرض دلجمعی اور مہارت سے اتارا کہ وہ قابل داد ٹھہرے۔کراچی کی شعری فضا میں جاوید صبا نے ہجر و وصال کے متنوع زاویوں سے شعری کائنات تخلیق کی ہے جن کا ذکر کتاب کے تیسرے باب کے آخر میں کیا گیا ہے۔
کتاب کے آخر میں ’’متعلقات‘‘ کے عنوان کے تحت شعرا کے نام اور ان کے شعری مجموعے درج کیے گئے ہیں ،مزید براں اشاریہ بھی کتاب کا حصہ بنا ہے۔مجموعی طور پر دیکھا جائے تو کتاب میں محض شعرا کے کوائف اکٹھے نہیں کیے گئے بلکہ شعرا کے کلام کا تجزیاتی مطالعہ پیش کیا گیاہے جو پروفیسر شاہد کمال کی تنقیدی بصیرت پر دال ہے ۔یوں محسوس ہوتا ہے کہ مصنف نے مذکورہ شعرا کی شاعری کا بالاستیعاب مطالعہ کیا ہے اور اس کے بعد ان پر رائے قائم کی ہے،بصورتِ دیگرسطحی رائے تو دی جا سکتی ہے لیکن شاعری کے باطن میں اتر کر اس کی بصیرت سے قاری کو روشناس نہیں کرایا جا سکتا۔یہاں شاہد کمال بصیرت افروز نقاد ہی نہیں بلکہ محنتی محقق کے طور پر بھی سامنے آئے ہیں ۔ اس کتاب کی اشاعت نے کراچی کے ادبی منظر نامے کا تعارف ان قارئین تک پہونچا دیا ہے جو کراچی سے دور ہیں لیکن کراچی کے تخلیقی منظر نامے سے باخبر رہنا چاہتے ہیں ۔
——-