کائنات کا اصل حکمراں اللہ ہے
مفتی کلیم رحمانی
8329602318 Mob:
جس طرح کائنات کا خالق و مالک اللہ ہی ہے اسی طرح وہ کائنات کا اصل حکمراں بھی ہے ۔ اور یہ عین عدل ہے کہ جو جس کا خالق و مالک ہو وہی اس کا حکمراں بھی ہو اور یہ عین ظلم ہے کہ خالق و مالک تو کوئی اور ہو اور حکمراں کوئی اور ۔ جب یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ کائنات کا اصل خالق و مالک اللہ ہے تو یہ بھی مسلمہ حقیقت ہے کہ اصل حکمراں بھی وہی ہے ۔
چنانچہ اس حقیقت کو اللہ تعالی نے قرآن میں یوں بیان فرمایا ۔
اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اَللّٰہَ لَہٗ مُلْکُ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ (البقرۃ ۱۰۷)
یعنی ’’ کیا تجھے معلوم نہیں کہ زمین و آسمانوں کی بادشاہت اللہ ہی کے لیے ہے۔‘‘
اور زمین کا حقیقی بادشاہ اللہ ہے تو زمین پر بسنے والی تمام مخلوقات کا حقیقی بادشاہ بھی وہی ہے اور جو مخلوقات زمین پر بستی ہیں ان میں سے ایک مخلوق انسان بھی ہے لہٰذا انسانوں کا حقیقی بادشاہ بھی اللہ ہے، چنانچہ اسی حقیقت کو قرآن میں اللہ نے یوں بیان فرمایا:
مَلِکَ النَّاسِ (الناس ۲) یعنی ’’ (اللہ) لوگوں کا بادشاہ ہے۔‘‘
اسی تصور کو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں جگہ جگہ بیان فرمایا تاکہ انسانوں کے دلوں میں حکومت الٰہیہ کا تصور مضبوطی کے ساتھ بیٹھ جائے، ایک جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
اَلاَ لَہٗ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ (اعراف ۵۴)
یعنی ’’ سن لو اسی کے لیے ہے مخلوق اور حکم‘‘
مطلب یہ کہ مخلوق اسی کی ہے اور اس پر حکمرانی بھی اسی کا حق ہے۔
ایک اور جگہ ارشاد ربانی ہے :
اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ (انعام : ۵۷)
یعنی ’’ حکم صرف اللہ ہی کے لیے ہے۔‘‘
مطلب یہ کہ قانون بنانا اور حکم دینا اللہ ہی کا حق ہے، اس سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ کوئی بھی شخص قانون بنانے اور حکم دینے میں آزاد اور خودمختار نہیں ہوسکتا، بلکہ ہر شخص اللہ کے قانون کا پابند ہے اگر کوئی شخص قانون بنانے اور چلانے میں اللہ کے قانون کی پابندی نہ کرے وہ سب سے بڑا باغی ہے، اور ایسے باغی کو اللہ کی زمین پر رہنے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے، ایک اور جگہ اللہ نے اپنی حکمرانی کی بالادستی کو یوں بیان فرمایا :
اَلَیْسَ اللّٰہُ بِاَحْکَمُ الْحَاکِمِیْنَ (التین ۸)
یعنی ’’ یعنی کیا اللہ تمام حاکموں سے بڑا حاکم نہیں ہے؟‘‘
مطلب یہ کہ تمام حکمرانوں سے بڑا حکمراں اللہ ہے لہٰذا اس کو سب سے بڑا حکمران سمجھو، اور اللہ نے انسان کو پیدا ہی اس لیے کیا تاکہ وہ اس زمین پر اللہ کا بندہ بن کر رہے اور اللہ کی حکمرانی کو خود بھی تسلیم کرے اور زمین پر بسنے والے تمام انسانوں پر اللہ کی حکمرانی کو قائم کرے۔
اس سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ اس زمین پر ان ہی لوگوں کو حکومت کرنے کا حق حاصل ہے، جو اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور اللہ کے احکام کے مطابق دنیا کا نظام چلاتے ہیں، ساتھ ہی اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ان لوگوں کو اس زمین پر حکومت کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے جو نہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور نہ اس کے احکام کے مطابق دنیا کا نظام چلاتے ہیں لیکن یہ المیہ ہے ہی ہے کہ آج دنیا میں زیادہ تر وہی لوگ حکمراں بنے ہوئے ہیں جو نہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور نہ اللہ کی مرضی کے مطابق دنیا کا نظام چلاتے ہیں۔
اس روش میں جہاں ان کی بغاوت و سرکشی کا دخل ہے وہیں اہل ایمان کی دینی غفلت کو بھی دخل ہے کیوں کہ ایمان والوں کی یہ دینی ذمہ دری ہے کہ اس زمین پر اللہ کے دین کی حکومت قائم کریں اور اللہ کے باغیوں کاقلع قمع کریں اور دنیا کا نظام اپنے ہاتھوں میں لے کر اللہ کے دین کے مطابق چلائیں،لیکن مسلمان اس فرض منصبی سے اتنے غافل ہوچکے ہیں کہ ان کے نزدیک حکومت الٰہیہ کا قیام ایک دینوی فعل ہوکر رہ گیا ہے، چنانچہ آج جو تھوڑے مسلمان اس سرزمین پر حکومت الٰہیہ کے قیام کی با ت کرتے ہیں یااس کے لیے جدوجہد کرتے ہیں ہیں تو انہیں بہت سے مسلمان بے دین اور دنیا دار کہتے ہیں جب کہ حکومت الٰہیہ کا قیام ایمان کے بنیادی تقاضہ میں داخل ہے، کیوں کہ حکومت الٰہیہ کے بغیر اسلام کے بہت سے احکام پر عمل نہیں ہوسکتا خصوصاً وہ احکام تعزیرات سے تعلق رکھتے ہیں۔
ایک مسلمان کے لیے جس طرح اسلامی حکومت کے قیام کی کوشش ضروری ہے اسی طرح ایک مسلمان کے لیے غیر اسلامی حکومت کے خاتمہ کی کوشش بھی ضروری ہے، کیوں کہ اسلامی حکومت کا قیام غیر اسلامی حکومت کے خاتمہ سے جڑا ہوا ہے، جب تک غیر اسلامی حکومت کا خاتمہ نہیں ہوتا تب تک اسلامی حکومت کا قیام نہیں ہوسکتا۔
اس سے یہ بات واضح ہوئی کہ غیر اسلامی حکومت ایک ملعون چیز ہے اور اسلام کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور شیطان کا سب سے بڑا ہتھیار ہے، اس لیے ایک مسلمان کے لیے کسی بھی صورت میں یہ ہرگز جائز نہیں ہے کہ وہ غیر اسلامی حکومت کے چلانے میں کسی بھی طرح شریک ہو یا کسی بھی طرح تعاون کرے لیکن افسوس ہے کہ آج بہت سے مسلمان غیر اسلامی حکومت کے صرف کل پرزے ہی نہیں بلکہ انجن بنے ہوئے ہیں، چنانچہ بہت سے مسلم ممالک میں غیر اسلامی حکومت کی گاڑی یہی نام نہاد مسلمان کھینچ رہے ہیں، اور غیر مسلم ممالک میں بھی بہت سے مسلمان غیر اسلامی حکومت کے پہیے اور پرزے بنے ہوئے ہیں اور ستم ظریفی یہ کہ اس پر فخر محسوس کرتے ہیں۔
جب کہ غیر اسلامی ملک میں ایک مسلمان کو شرعی لحاظ سے اسی صورت میں زندگی گذارنے کا حق پہنچتا ہے جب کہ وہ اپنے بس بھر غیر اسلامی حکومت کے خاتمہ اور اسلامی حکومت کے قیام کی مسلسل جدوجہد کرے، چاہے اس جدوجہد میں اس کی جان چلی جائے، لیکن اس کو امت مسلمہ کے لیے ایک سانحہ ہی کہنا چاہیے کہ آج بہت سے مسلمان غیر اسلامی حکومت کے قیام اور بقاء کے لیے اپنی جان کھپانے کو تیار ہیں، مگر اسلامی حکومت کے قیام کے لیے خون و پسینہ کا ایک خطرہ بھی بہانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
یہ بات پورے یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ آج مسلمان غیر اسلامی سیاست و حکومت کے لیے جتنا مال ووقت صرف کررہاے ہیں ، اگر اتنا مال ووقت وہ اسلامی سیاست و حکومت کے لیے صرف کریں تو اسلامی حکومت قائم ہونے میں زیادہ دن نہیں لگیں گے۔ لیکن اس کے لیے سب سے پہلے مسلمانوں کواپنی فکر صحیح کرنی ہوگی اور اپنے آ پ کو غلط فکر سے نکالنا ہوگا، جس میں وہ آج مبتلا ہیں۔ مسلمانوں کی صحیح فکر یہ ہے کہ وہ اللہ ہی کے بندے اور غلام ہیں اور صرف نماز و روزہ کی حد تک ہی نہیں بلکہ سیاست و حکومت میں بھی اللہ کے بندے اور غلام ہیں، اور دنیا کی سیاسی امامت و قیادت بھی مسلمانوں ہی کا حق اور فریضہ ہے۔ دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ جب تک مسلمان اس فکروعمل سے جڑے رہے تو دنیا کی امامت و قیادت ان کے ہاتھ میں رہی، اور جب بھی مسلمانوں کا اس فکر وعمل سے رشتہ ٹوٹا دنیا کی غلامی و ذلت سے ان سے چمٹ گئی۔
آج بھی عالمی سطح پرمسلمانوں کی گردنوں میں جو باطل کی غلامی کا طوق پڑا ہوا ہے، اس کی اصل وجہ بھی مسلمانوں کا فکری وعملی انحطاط ہی ہے۔ ویسے دیکھا جائے تو کسی بھی قوم کی پستی کا اصل سبب اس کی فکری و عملی پستی میں مضمر ہوتاہے اور کسی بھی قوم کی بلندی اس کی فکری و عملی بلندی میں ہوتی ہے ۔
جیسا کہ ایک شاعر نے فکر و عمل کے کردار کو ایک شعر میں بڑی خوبی سے پیش کیا ہے۔
قوت فکر و عمل پہلے فنا ہوتی ہے
پھر کسی قوم کی شوکت پہ زوال آتا ہے
معلوم ہوا کہ اس وقت مسلمانوں کے لیے سب سے بڑا مسئلہ فکری و عملی کمزوری کا مسئلہ ہے ۔ اس لیے اس مسئلہ کو چیلنج کی حیثیت سے قبول کرکے اس کے ازالہ کی ضرورت ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اس مسئلہ کا ازالہ صرف اور صرف مسلمانوں میں قرآنی فکر و عمل کو عام کرکے ہی کیا جاسکتا ہے لیکن یہ المیہ ہی ہے کہ آج بہت سے مسلمان خود قرآنی فکر وعمل کو ہی مسئلہ سمجھے ہوئے ہیں۔ اور ستم ظریفی یہ کہ کچھ دین پسند افرادو جماعتیں بھی قرآنی فکر وعمل کو مسلمان کے لیے مسئلہ سمجھتی ہیں جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اسی قرآنی فکر وعمل کو چھوڑنے کی وجہ سے مسلمان ذلت و پستی کا
شکار ہیں، بعض مادہ پرست مسلمان موجودہ پستی کو مال ودولت کی کمی پر محمول کرتے ہیں، جب کہ یہ خیال سراسر لغو ہے ویسے اس وقت مسلمانوں کے پاس مال ودولت کی کمی نہیں ہے لیکن اگر مسلمانوں کے پاس واقعتا مال ودولت کی کمی ہوتی تو بھی یہ مسلمانوں کی پستی کا اصل سبب نہ بنتی ، اس حقیقت کو علامہ اقبال ؒ نے ایک شعر میں بڑی خوبی سے پیش کیا ہے :
سبب کچھ اور ہے جس کو تو خود سمجھتا ہے
زوال بندۂ مومن کا بے زری سے نہیں
چنانچہ اس وقت دنیا کے زیادہ تر مال دار مسلم ممالک اور افردباطل کا آلہ کار بنے ہوئے ہیں اور باطل ان کے مال سے اسلام اور اسلام پسندوں کو دبانے میں مدد لے رہا ہے۔ آج عالمی سطح پر مسلمان اس لیے بے بس نظر آتے ہیں کہ ان کے سر تو آزاد ہیں، لیکن ان کے سروں میں جو دماغ ہے وہ پورے طور پر باطل کی قید میں ہیں، چنانچہ باطل، مسلمانوں کے دماغ سے جو کام لینا چاہتا ہے آسانی کے ساتھ لے لیتا ہے، اس لیے مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے دماغ کو باطل کی قید و غلامی سے نکال کر اسلام کی قید و غلامی میں دے دیں۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ آج مسلمان اسلام کی غلامی اختیار کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں ، اور باطل کی غلامی بڑی خوشی سے قبول کیے ہوئے ہیں۔
غرض یہ کہ حکومت الٰہیہ کی جدوجہد ایمان کا بنیادی تقاضہ ہے، اور اس سے منہ پھیرنا ایمان کے بنیادی تقاضہ سے منہ پھیرنا ہے، اور جو ایمان کے بنیادی تقاضے سے منہ پھیردے وہ سچا مومن نہیں ہوسکتا یہ جدوجہد اگرچہ مشکل ضرور ہے ، لیکن اگر اس کے انعام اور نہ کرنے کے عذاب کو سامنے رکھا جائے تو یہ آسان معلوم ہوگی ،کیوں کہ اس کو انجام دینے کا انعام جنت ہے اور اس کام کو چھوڑنے کا انجام جہنم ہے۔ اور ایک مومن کو ہمیشہ جنت کی طلب میں رہنا چاہیے اور جہنم سے بچنے کی کوشش میں رہنا چاہیے، کیوں کہ مومن کی اصل کامیابی جنت میں دخول اور جہنم سے نجات ہے۔