افسانہ : ابلیس کا ساتھی :- محمد ارشد کسانہ

Share
محمد ارشد کسانہ

افسانہ :
ابلیس کا ساتھی

محمد ارشد کسانہ (جموں،پونچھ)
پی ایچ۔ ڈی اسکالر دہلی یونی ورسٹی

سورج کو غروب ہوئے کوئی بیس منٹ گذرے تھے۔محلے کی مسجدسے اذان کی آواز آرہی تھی ۔ میں نماز مغرب کے لئے وضوبنانے جا رہا تھا۔ دروازے سے باہر نکلتے ہی میرے کانوں میں کچھ عجیب و غریب آوازوں نے جنم لیا۔اس طرح کی آوازیں اس سے قبل میں نے کبھی نہ سنی تھیں۔

کافی خوفناک تھیں اور ایسا لگ رہا تھا گویا جنگ کا آغاز ہونے کو ہے۔ گھر کی چار دیواری کی وجہ سے میں ارد گرد کا جائزہ نہیں لے سکا اس لئے چھت پر چلا آیا۔ میں نے پورے محلے کا ایک سرے سے دوسرے سرے تک بڑے غور سے جائزہ لیا مگر کچھ سمجھ میں نہ آیا۔ اب آوازیں بھی ختم ہو چکی تھیں۔ میں پلٹ کر اندر جانے کو تھا کا کہ اچانک میں نے دیکھامحلے کے باہر جہاں سے جنگل کا آغاز ہوتا ہے ایک عجیب قسم کی بلا خاموشی سے زمین پر بیٹھ رہی ہے۔ منظر خوفناک تھا مگر مجھے ڈرنے کی عادت نہ تھی۔ وہ کیا چیز تھی کوئی جہاز،بھوت یا پھر کوئی شرارا ‘ اس کا اندازہ لگانا مشکل تھا ۔مگر میرے ذہن میں زیادہ شبہ جہاز پر تھا۔ لیکن اس کے ساتھ نہ کوئی لائٹ تھی، نہ پنکھے اور نہ ہی مشینری والی کوئی آواز۔ بالکل ایک سایے کی مانند وہ مجھے زمین پر بیٹھتے ہوئے دکھا۔
کافی وقت گذر گیا تھا وہاں کوئی حرکت نہ ہوئی۔ میں نے جلدی سے اپنا موبائل اور بندوق اٹھائی اور جنگل کی طرف روانہ ہوگیا۔ میں سائنس کا ایک ریسرچ اسکالر تھا اس لئے اس طرح کے نظاروں کی کھوج کرنا میری عادت بھی تھی اور شوق بھی۔ لگ بھگ دس منٹ کے بعد میں اس جگہ کے قریب پہنچا۔ وہ جگہ جہاں وہ شے بیٹھی تھی ابھی بیس تیس قدم دور تھی۔ارد گرد میں گھنے پیڑ اور جھاڑیاں ہونے کی وجہ سے میرا اس جہاز کو دیکھ پانا ابھی مشکل تھا ۔ لیکن اب میں چوکنا ہو چکا تھا۔ میں آہستہ آہستہ خاموشی سے اور چار آنکھوں کے ساتھ آگے بڑھ رہا تھا۔ آس پاس میں نہ کوئی حرکت ہو رہی تھی اور نہ ہی کسی قسم کی کوئی آواز موجود تھی۔ میرے ذہن میں کئی طرح کے سوالات جنم لے رہے تھے۔ یکدم میں نے اپنے قدم روک لئے۔ مجھے خیال آیا کیوں نا پولیس کو خبر دے دی جائے۔ ہوسکتا ہے کسی بیرونی ممالک کا یہ کوئی منصوبہ ہو اور میں اپنے پاگل پن کی وجہ سے بلی کا بکرا بن جاوں۔ میں کچھ قدم پیچھے ہٹا اور اپنا موبائل نکالا۔ موبائل میں نیٹ ورک نام کی کوئی چیز نہ تھی۔ میں نے اپنا موبائل جیب میں ڈالا اور تیزی سے جہاز کی طرف بڑھنے لگا۔ ہاتھ میں بندوق تھی اور زبان پر کلمہ۔
میں بالکل وہیں جا پہنچا جہاں وہ شے بیٹھی تھی۔ ارد گرد نظریں دوڑائی مگر وہاں کچھ بھی نظر نہ آیا۔ اچانک ایک گھنی جھاڑی میں سے لال رنگ کی پتلی سی روشنی میری آنکھوں پر پڑی۔ شام ڈھل چکی تھی اور تاریکی آہستہ آہستہ جنگل کے ہر ذرے پر قابض ہو گئی تھی۔ میں اسی تاریکی میں آہستہ آہستہ اس روشنی کی طرف بڑھا۔ خاموش قدموں کے ساتھ میں نے بالکل جھاڑی کے پاس اپنے موبائل کی روشنی جلائی۔ میرے سامنے کسی بڑے پہاڑ کی مانند ایک عجیب سی شے تھی۔ اس کا پورا جائزہ لینے کے بعد معلوم ہوا کہ وہ کوئی واقعی جہاز ہے۔ مگر میں نے اس طرح کا جہاز اس پہلے کبھی نہ دیکھا تھا۔ وہاں ارد گرد کوئی موجود نہ تھا اور اس کی کھلی کھڑکی کو دیکھ کر میں اپنے موبائل کی روشنی کے سہارے اس کے اندر داخل ہوگیا۔ اندر ونی حصہ کافی پھیلا ہوا تھا۔ وہاں بیٹھنے کی بھی بڑی شاندار جگہ تھی۔ میں نے اپنی توجہ کو ادھر ادھر سے کھینچا اور ایک بار پھر کوشش کی کہ پولیس کو خبر کردوں مگر نٹورک اب بھی نہ تھا۔میری توجہ ابھی موبائل کی ہی طرف تھی کہ اچانک ٹک ٹک کی سی آواز میرے کانوں میں گونجی۔ میں نے یک دم کھڑکی کی طرف دیکھا جو بند ہو چکی تھی۔ جلدی سے بے چینی میں اٹھا اور کھڑکی کو کھولنے کی کوشش کی مگر وہ تو ایسے چپک گئی تھی کہ گویا بے جوڑ ہو۔ اسی اثنا میں جہاز کے اندر رنگ برنگ کی روشنیاں جل پڑیں اور ہلکی ہلکی سی آوازیں بھی نمودار ہونے لگیں۔ مگر میں جہاز سے نکلنے کی لگاتار کوشش کرتا رہا ۔ کچھ ہی دیر کے بعد وہ جہاز زمین کو چھوڑ کر حلا میں گول گول گھومنے لگا۔ اب میری ساریں امیدیں اور ساری ہمت ختم ہو گئی ۔ میں نے سوچ لیا کہ میں اپنی زندگی جو تھی وہ جی چکا ہوں۔ اب جو لمہے بچے ہیں وہ موت کے دیدار کی نظر ہیں۔ میں بالکل ہمت ہار کر ، آنکھوں میں آنسوں لئے اور ذہن میں کئی ادھوری خواہشوں کا دکھ لئے ایک کونے میں بیٹھ گیا۔کچھ دیر بعد میرے سامنے والے حصے سے ایک دروازہ کھلا اور تین عجیب و غریب قسم کے انسان نمودار ہوئے۔ میں دیکھتے ہی ان کو ڈر گیا۔ معلوم نہیں کہ سچ مچ میں انسان تھے یا جانور۔ ہاں مگر ڈانچہ انسانوں کے جیسا تھا۔ جسم پر کپڑے کا نام و نشان نہیں تھا مگر پورے جسم پر گھنے بالوں کی چادریں ضرور تھیں۔ چہرے تو انسانوں کی مانند تھے مگر کان بڑے بڑے ،ہونٹ بھی قدرے بڑے، دانت نہایت ہی پتلے اور سر اور داڑھی کے بال بھی لمبے مگر سنوارے ہوے نظر آرہے تھے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ گو یا انسان ہی بگڑ کر نئی شکل اختیا ر کئے ہوئے ہیں ۔ کچھ دیر تک تو میں ان کو دیکھتا رہا پھر یقین ہوگیا کہ یہ جان نکالنے والے فرشتے ہیں۔ ان میں سے ایک میرے قریب آکر بیٹھ گیا ۔ میں نے دیکھا اس کے ہونٹ پھڑپھڑا رہے تھے اور اس کی نظریں مجھ پر ٹھہری ہوئی تھیں۔ میں نے کلمہ پڑھنا شروع کردیا تھا کہ اچانک اس نے میرے منہ پر پھوک ماری ۔ جلد ہی میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا۔ بس اس کے بعد میرے ساتھ کیا ہوا مجھے کچھ پتہ نہیں۔
جب میری آنکھیں کھلی تو میں ایک روشنی سے بھرے ہوئے کمرے میں تنہا پڑا ہو ا تھا۔ کمرے کی دیواروں پر کئی ٹی وی اسکرین اور جگہ جگہ تاریں بکھریں ہوئی تھیں۔ میری سمجھ میں کچھ بھی نہ آ رہا تھا۔ میں نے اٹھنے کی ہمت کی تو محسوس ہوا جیسے مجھے کس کے باندھا ہوا ہے۔ میں نے سامنے کی چمکتی ہوئی دیوار پر اپنا عکس دیکھنے کی کوشش کی۔ مجھے واقعی ہی باندھا ہوا تھا اور میرے سر اور ہاتھوں پر بڑی بڑی مشینیں لگی ہوئی تھیں۔ میں اپنی یہ حالت دیکھ کر زور سے اٹھنے لگا کہ دروازہ بھی کھل گیا۔ چار پانچ اسی قسم کے لوگ آئے اور آتے ہی مجھے کھلنے لگے۔ کچھ ہی دیر میں انہوں مجھے آزاد کردیا۔ اس کے بعد وہ مجھے وہاں سے باہر لے آئے اور ایک بڑے سے ہال میں چمکتی ہوئی ایک شاندار کرسی پر بیٹھایا۔ وہ ہال اس قسم کے انسانوں سے بھرا ہوا تھا اور سب کے سب مجھے خرانگی سے دیکھ رہے تھے۔ کچھ ہی دیر کے بعد ایک شحص میرے دائیں طرف کے کونے سے گونجنے لگا ۔ یہ لوگ جو مجھے خیرت سے دیکھ رہے تھے اب اس کی طرف متوجہ ہونے لگے۔ یہ سلسلہ کافی دیر تک چلتا رہا اور میں اس ماجرے کو سمجھنے کی کوشش کرتا رہا۔ آ خر بے بس ہو گیا۔ میرے صبر کا پیمانہ ٹوٹ گیا اور میں زور زور سے چلانے لگا۔ وہ سارے میرے ارد گرد جمع ہوگئے اور میری طرف ہاتھ ہلانے لگے۔ میں چلا چلا کر ان کو پوچھ رہا تھا کہ تم کون ہو ۔ آگے سے وہ بھی چلا رہے تھے مگر میری سمجھ میں کچھ بھی نہ آ رہا تھا۔ تھوڑی ہی دیر کے بعد وہ لوگ مجھے وہاں سے کسی دوسرے کمرے میں لے گئے ۔ مجھے ایک کرسی پر بیٹھایا اور میرے کانو ں میں ایرفون کی مانند کوئی چیز لگائی۔ ان میں سے ایک نے اسی طرح کا ایرفون لگایا اور میرے سامنے بیٹھ گیا۔ ’’ سلام میرا نام ماقین ہے ،کیا تم میری باتیں سمجھ رہے ہو‘‘ اس کی زبان اردو میں تبدیل ہوکر ایرفون کے ذریعے میرے کانوں میں سنائی دے رہی تھی۔ ’’ ہاں سمجھ رہا ہوں‘‘ میں نے جواب دیا۔
’’ تم پریشان نہ رہو، یہاں تم بالکل با خفاظت ہو‘‘
’’ آپ لو گ کون ہو اور میں کہاں ہوں‘‘
’’ ہم بھی تمہاری طرح انسان ہیں مگر ہمارا سیارہ آپ سے الگ ہے۔ تم اس وقت زہرہ نامی سیارے پر ہو‘‘
میں یہ بات سنتے ہی خیران رہ گیا چونکہ میں سمجھتا تھا کہ میں مر چکا ہوں ۔ میرے اندر اب خوف داخل ہوچکا تھا کیونکہ میں جان چکا تھا کہ اگرچہ میں زندہ ہوں مگر ان کے جال میں پھنس چکا ہوں ۔ میں نے اب کی بار ڈرتے ہوے کہا’’ میں زندہ ہوں اور یہاں؟‘‘
’’ ہاں تم بالکل زندہ ہو اور جس طرح اور جہاں سے تم کو لایا گیا تھا وہیں خفاظت سے چھوڑ دیا جائے گا ‘‘
’’ لیکن مجھے یہاں لانے کا مقصد کیا ہے‘‘
’’ ہمیں زمینی انسان پر کچھ تجربے کرنے تھے اور بہت سارے رازوں کو سمجھنا تھا ،خاص طور پر انسان کو سمجھنا تھا اس لئے تم پر کچھ مشینی ٹیسٹ کیے اور بہت سی اطلاعت حاصل ہوئیں اب تمہارا یہاں کوئی کام نہیں۔ ‘‘
میرے ذہن میں اس وقت کئی سوالات طوفان مچا رہے تھے مگر خوف کی وجہ سے میرا منہ کھل نہیں رہا تھا۔ میں نے گبھراتے ہوئے ایک اور بے تکا سا سوال کیا۔ ’’ آپ ہماری دنیا کی اطلاعت مجھ سے زبانی بھی پوچھ سکتے تھے نا؟‘‘
’’ بالکل ! مگر ہم کوئی خطرہ نہیں چاہتے تھے۔ہر جاندار جانتا ہے کہ تم لوگ اپنے فائدے اور نقصان کے لئے کچھ بھی بول سکتے ہو ۔ جو چیز تمہاری عظمت ہوا کرتی تھی اب ختم ہوچکی ہے۔اب جو ہیں وہ ابلیسی اوصاف ہیں اس لئے ہمیں یہی کرنا تھا۔‘‘
’’ ابلیسی اوصاف اور ہم میں! کیا مطلب؟‘‘
’’ ہاں سارے جانداروں میں تو یہی ہا ہا کار ہے اور ہمارے سیارے والوں نے تو اس پر باقاعدہ تجربے بھی کئے ہیں۔ نتیجہ ہر ایک کا یہی ہے کہ تمہارے سیارے پر اب ابلیس کی حکومت ہے‘‘
یہ سنتے ہی میں خاموش ہوگیا۔ وہ بھی کافی دیر تک میرے چہرے کو دیکھتا رہا اور پھر ’’ چلو تمہارا واپس جانے کا وقت ہوگیا‘‘ کہتے ہی اٹھ کھڑا ہوا۔ مجھے ان لوگوں نے اپنے ساتھ لیا اور محل سے باہر نکل آئے جہاں ہزاروں کی تعداد میں لوگ جمع تھے۔ یہ سب شائد میرے دیدار کو ہی آئے تھے اسی لئے مجھے دیکھتے ہی سب حیرت زدہ ہوکر میرے قریب آنے کی کوشش کر رہے تھے۔ وہ جہاز جس پر میں آیا تھامیرے سامنے کھڑا تھا اور تین چار آدمی مجھے پکڑے ہوئے اس کی طرف لے جا رہے تھے۔ میں جہاز کے پاس پہنچتے ہی کھڑکی کو کھلی دیکھ کر اندر داخل ہوگیا۔ میں سیٹ پر بیٹھ ہی رہا تھا کہ اچانک بند ہوتی کھڑکی سے بھیڑ کا ایک نعرہ ایرفون کی ذریعے میرے کانوں سے ٹکرایا’’ ابلیس کا ساتھی‘‘ اسی اثنا میں جہاز نے زہرہ سے زمیں تک کا سفر شروع کردیا۔
——
Mohammed Arshad Kassana
Research Scholar , Delhi University
7006909305

Share
Share
Share