دعوت کے پہلے ہی حکم میں خلافتِ الٰہیہ کا اعلان :- مفتی کلیم رحمانی

Share
مفتی کلیم رحمانی

دعوت کے پہلے ہی حکم میں خلافتِ الٰہیہ کا اعلان

مفتی کلیم رحمانی
8329602318 Mob:

قرآن مجید میں فرمان باری تعالیٰ ہے :
یَاَ یُّھَا الْمُدَثِّرْ قُمْ فَاَنْذِرْوَرَبَّکَ فَکَبِّر وَثِیَابَکَ فَطَھِّرْ وَالرُّجْزَ فَاَھْجُرْ وَلَا تَمْنُنْ تَسْتَکْثِرْ وَلِرَبِّکَ فَاصْبِرْ۔ (المدثر:۱تا۷)
’’ اے چادر اوڑھنے والے ! اٹھیے اور ڈرائیے اور اپنے رب کی بڑائی کا اعلان کیجئے اور اپنے کپڑے پاک رکھیے اور گندگی سے دور رہیے اور زیادہ چاہنے کے لئے احسان مت کیجئے اور اپنے رب کے لئے صبر کیجئے۔ ‘‘

مذکورہ سات آیات وہ ہیں جو آنحضور ﷺ پر دوسری وحی میں نازل ہوئیں ، پہلی وحی میں سورۃ علق کی چند ابتدائی آیات نازل ہوئی تھیں جس کی پہلی ہی آیت میں اللہ تعالیٰ نے حکومت الٰہیہ کی فکر کو پیش کر دیا تھا اس کے بعد ایک مدت تک وحی کا سلسلہ بند رہا جس میں آنحضور ﷺ بہت غمگین رہا کرتے تھے اسی مدت کا تذکرہ کرتے ہوئے حضور ﷺ نے فرمایا :
’’ایک مرتبہ میں راستہ سے چل رہا تھا تو میں نے آسمان سے ایک آواز سنی سر اٹھا کر اوپر دیکھا تو وہی فرشتہ جو غار حرا میں میرے پاس آیا تھا ، آسمان و زمین کے درمیان کرسی پر بیٹھا ہوا ہے میں خوف زدہ ہو گیا یہاں تک کہ میں زمین پر گر گیا ، میں گھر آیا اور کہا مجھ کو کپڑا اڑھا دو ، کپڑا اڑھا دو ، حضرت خدیجہؓ نے مجھ کو کپڑا اڑھا دیا ۔ پس اللہ تعالیٰ نے مذکورہ آیات نازل فرمائی۔ (بخاری مسلم )
دعوت کے حکم کے لحاظ سے یہ پہلی وحی ہے کیوں کہ اس سے پہلے جو وحی نازل ہوئی تھی اس میں دعوت کا حکم نہیں تھا ۔ مذکورہ آیات میں جو باتیں قابل توجہ ہیں ان میں سب سے پہلی بات یہ ہے کہ دعوت کا کا م اپنے ذاتی راحت و آرام کو قربان کر دینے اور ہر قسم کی گھبراہٹ سے بے نیاز ہو جانے کا متقاضی ہے ، چنانچہ یہ بات نزول وحی کی کیفیت میں پورے طور پر پائی جاتی ہے اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو یہ بات اس وقت بھی نازل کر سکتا تھا جب آنحضور ﷺ کسی قسم کی گھبراہٹ میں نہ
ہوتے اور نہ آرام فرما ہوتے ، لیکن اللہ تعالیٰ نے اس حالت میں یہ وحی نازل فرما کر آنحضور ﷺ اور امت مسلمہ کو گویا یہ واضح پیغام دے دیا کہ دعوت دین اور حکومت الٰہیہ کے قیام کا کام ذاتی راحت وآرام اور دنیا کے ہر قسم کے ڈرو خوف سے بے نیاز ہو جانے کا مطالبہ کرتا ہے ۔ اس سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ دعوت دین اور حکومت الٰہیہ کا کام ذاتی راحت و آرام اور ڈرو خوف کی پرواہ نہ
کر نے کی تعلیم دیتا ہے۔
دوسری آیت میں جو بات قابل توجہ ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضورﷺ کو مخاطب کرکے کھڑے ہونے کا حکم دیا، کھڑے ہونے کا لفظ کسی کام کے لیے ہمیشہ تیار رہنے اور دوڑدھوپ کے لیے بولاجاتا ہے، اس سے معلوم ہوا کہ دعوت دین اور حکومت الٰہیہ کا کام ہمیشہ تیاری اور دوڑ دھوپ کے بغیر یہ کام انجام نہیں پاسکتا۔
اسی آیت میں ایک اور بات جو قابل توجہ ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ڈرانے کا حکم
دیا اس کا مطلب یہ ہے لوگوں کو اللہ کے غضب اور عذاب سے ڈرایا جائے، اس سے معلوم ہوا کہ اسلام کی ابتدائی دعوت اور اللہ کے غضب و عذاب سے ڈرانے میں بہت گہرا تعلق ہے، جو شخص اسلام کی ابتدائی دعوت میں اللہ کے غضب و عذاب کے بجائے اس کے عفو و انعام کو پیش کرے تو دعوت کا یہ طریقہ اللہ کے تلقین کیے ہوئے طریقہ کے خلاف ہے، اللہ کا تلقین کیا ہوا طریقہ یہ ہے کہ نافرمانوں کے سامنے صرف اللہ کے غضب وعذاب کو پیش کیاجائے تاکہ ان کے اندر اللہ کا ڈر پیدا ہوسکے۔ یہی وجہ ہے کہ دورمکی میں جو قرآن نازل ہوا اس میں اللہ کے عفو وانعام کی بہ نسبت اللہ کے غضب و عذاب کا ذکر بہت زیادہ ہے، کیوں کہ اس دور میں اسلام کی دعوت ابتدائی مرحلہ میں تھی اور اولین مخاطبوں کی اکثیرت نافرمانیوں پر مشتمل تھی۔
اور آنحضوڑﷺ کو یہی حکم تھا کہ اللہ کے غضب و عذاب سے زیادہ سے زیادہ ڈرایا جائے اور اسی حکم کے مطابق آنحضورﷺ نے لوگوں کے سامنے اللہ کے غضب وعذاب کو زیادہ سے زیادہ پیش کیاچنانچہ جب اللہ تعالیٰ نے آنحضورﷺ کو مخاطب کرکے یہ حکم نازل فرمایا:
اَنْذِرً عَشِےًرَتَکَ الًاَقًرَبِےًنَ ( الشعراء : ۲۱۴)
یعنی ’’ اپنے خاندان کے قریبی لوگوں کو ڈرائیے۔ ‘‘
تو آنحضور ﷺ کوہِ صفا پر کھڑے ہوئے اور قریش کے مختلف قبائل کو آواز دی جب سب جمع ہوگئے تو آنحضور ﷺ نے فرمایا :
’’ بتلاؤ اگر میں تمہیں یہ خبر دو ں کہ پہاڑ کے اس جانب ایک لشکر ہے جو تم پر حملہ کرنا چاہتا ہے تو کیا تم سچ مانو گے ؟ تو سب نے کہا ہاں کیوں کہ ہم نے آپ کو ہمیشہ سچا پایا ہے ، تو حضور ﷺ نے فرمایا، سن لو میں تم کو سخت عذاب سے پہلے ڈرارہا ہوں تو ابو لہب کہنے لگا تیرے لئے ہلاکت ہو کیا تو نے ہم کو اسی لئے جمع کیا تھا۔ ( بخاری و مسلم )
مذکورہ حکم اور حضور ﷺ کے طریقہ دعوت میں دین کے داعیوں کے لئے ایک بہت بڑا پیغام موجود ہے وہ یہ کہ اسلام کی ابتدائی دعوت میں لوگوں کو اللہ کے غضب و عذاب سے زیادہ سے زیادہ ڈرایا جائے اور مثال بھی دی جائے تو ایسی دی جائے جس میں ڈر موجود ہو جیسا کہ حضور ﷺ نے لشکر کی مثال دی۔ کیونکہ دُنیاوی لحاظ سے سب سے بڑا ڈر لشکر کے حملہ کا ہوتا ہے۔ اور اس سلسلے میں کسی کی پرواہ نہ کی جائے اور نہ بدسلوکی سے ڈرایا جائے۔ لیکن بدقسمتی سے آج دعوتی میدان سے یہ دونوں ہی چیزیں غائب ہوچکی ہیں۔ اور وہ اس طرح سے کہ دین کے داعی لوگوں کو اللہ سے کم ڈراتے ہیں اور سبز باغ زیادہ دکھاتے ہیں اور صحیح طریقے سے دعوت پہنچانے کی فکر کم کرتے ہیں اور اپنے آپ کو بچانے کی فکر زیادہ کرتے ہیں جس کا نقصان یہ ہوا کہ نہ صرف غیر مسلم اسلام کے صحیح
پیغام سے محروم رہے بلکہ خود بہت سے مسلمان اسلام کی بیشتر تعلیمات سے نا واقف رہے خصوصاً وہ تعلیمات جو اسلام کے غلبہ سے متعلق ہیں۔
آنحضور ﷺ نے نہ صرف یہ کہ دعوت میں ڈرکے پہلو کو پیش کیا بلکہ اہلِ ایمان کی تعلیم و تربیت میں بھی ڈر کے پہلو کو غالب رکھا ۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ خلیفہ اوّل حضرت ابوبکر صدیقؓ جن کا شمار عشرہ مبشرہ میں ہوتا ہے۔ اور جو انبیاء کے بعد سب سے افضل انسان شمار ہوتے ہیں۔ اپنے متعلق کہتے ہیں کہ کاش میں کوئی درخت ہوتا کہ کاٹ دیا جاتا ۔ کبھی کہتے کاش میں کوئی گھاس ہوتا کہ جانور
اس کو کھا لیتے ۔ کبھی کہتے کاش میں کسی مومن کا بال ہوتا ۔ ایک مرتبہ باغ میں تشریف لے گئے۔ ایک جانور کو بیٹھا ہوا دیکھ کر ٹھنڈی سانس بھری اور کہا تو کس قدر لطف میں ہے کھاتا ہے پیتا ہے، درختوں کے سائے میں پھرتا ہے اور آخرت میں تجھ سے کوئی حساب نہیں۔ (تاریخ الخلفاء)
اس میں کوئی شک نہیں کہ قرآن و حدیث میں اللہ کے انعام و اکرام کی خوش خبری بھی ہے لیکن یہ ان لوگوں کے لئے ہے جو ایمان قبول کرکے اس کے تقاضوں کو پورا کرے۔
تیسری آیت میں جو بات قابلِ توجہ ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے آنحضور ﷺ کو مخاطب کرکے حکم دیا کہ اپنے رب کی بڑھائی بیان کیجئے۔ یہ حکم آپ کے توسط سے پوری اُمّتِ مسلمہ کے لئے ہے۔ جیسا کہ رب کی تعریف میں یہ بات آچکی ہے کہ رب کے معنی قانون ساز اور حکمراں کے ہیں۔ اس لئے اب مذکورہ حکم کا مطلب یہ ہوگا کہ اللہ کی قانون سازی اور بڑائی کا اعلان کیجئے اور اس میں یہ بھی مفہوم شامل ہے کہ اس زمین پر اللہ کی قانون سازی اور حکمرانی قائم کیجئے۔ اس سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ اسلام کی ابتدائی دعوت اور حکومتِ الٰہیہ میں بہت گہرا تعلق ہے۔ اگر اسلام کی ابتدائی دعوت حکومتِ الٰہیہ کی فکر و دعوت سے خالی ہو تو یہ ایک ناقص دعوت ہے۔ یہ دعوت کسی انسانی دین کی دعوت تو ہوسکتی ہے خدائی دین کی دعوت نہیں ہوسکتی ۔ اس حکم سے یہ بات بھی واضح ہوئی کہ پہلی وحی اور دوسری وحی میں بہت گہرا ربط ہے۔ وہ یہ ہے کہ پہلی وحی میں اللہ تعالی نے اِقْرَاْ بِاِسْمِ رَبَّکَ فرما کر حکومتِ الٰہیہ کی فکرکو پیش کردیا اور دوسری وحی میں وَرَبَّکَ فَکَبَّرْ فرما کر حکومتِ الٰہیہ کو قائم کرنے کا حکم دے دیا۔
اللہ تعالی نے حکومتِ الٰہیہ کی فکر اور اس کے قیام کے تصّور کو اسلام کی ابتدائی دعوت ہی سے اس لئے جوڑ دیا کہ کیوں کہ جس عقیدہ و عمل کے ساتھ کسی حکومت کی فکر و قوت نہ ہو وہ عقیدہ و عمل نہ دنیا میں قرار پا سکتا ہے اور نہ نشوونما اور نہ صحیح حالت میں باقی رہ سکتا ہے چاہے وہ عقیدہ و عمل کتنا ہی اچھا ہو، اسی طرح انسان کی بہت سی ضروریاتِ زندگی کا نظم کسی نہ کسی حکومت کی فکر و قوت سے جڑا ہوا ہے معلوم ہوا کہ کوئی بھی انسانی معاشرہ کسی حکومت کے وجود سے خالی نہیں ہوسکتا یا تو وہ
حکومت عادل ہوگی یا باطل ۔ اب حق پرستوں کے پاس کسی حکومت کی فکر و قوت نہ ہوتو لازماً انہیں اپنے بہت سے مسائل کے حل کے لئے باطل حکومت کا محتاج ہونا پڑے گا اور پھر باطل حکومت ضرور ان کے عقیدہ اور عمل پر اثر انداز ہوگی ۔ ایک دوسرے پہلو سے بھی حق پرستوں کے لئے حکومتِ الٰہیہ کی ضرورت نا گزیر ہوجاتی ہے۔ وہ یہ کہ دُنیا کی تاریخ بتاتی ہے کہ باطل حکومت نے ہمیشہ حکومتی فکر و قوت کے بل بوتے پر حق اور اہلِ حق کو دبانے اور مٹانے کی کوشش کی ہے۔ ظاہر ہے باطل حکومت کا مقابلہ کسی حکومت ہی سے کیا جاسکتا ہے۔ اور وہ حکومتِ الٰہیہ ہی ہوسکتی ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالی نے ابتداء ہی میں حکومتِ الٰہیہ کی فکر دے کر اہلِ ایمان پر بہت بڑا احسان کیا ہے تاکہ ایمان والے ایمان قبول کرنے کے ساتھ ہی حکومتِ الٰہیہ کی فکر سے جڑے رہے اور کسی باطل حکومت کے محتاج نہ بنے اور نہ اس کی فکر و قوت سے مرعوب ہوں لیکن یہ المیہ ہی ہے کہ آج لاکھوں مسلمان برسہا برس سے ایمان کی حالت میں ہونے کے باوجود حکومتِ الٰہیہ کی قوت کی فکر سے جڑنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے اور سالہا سال سے باطل حکومت کے محتاج بنے ہوئے ہیں اور اس کی فکر و قوت سے مرعوب ہیں اور ستم ظریفی یہ ھیکہ حکومتِ الٰہیہ کی فکر و قوت سے جڑنے کو دینوی فعل قرار دے کر اس سے دور رہنے کی کوشش کرتے ہیں اور جو اہلِ ایمان حکومتِ الٰہیہ کی فکر و قوت سے جڑنے کی بات کرتے ہیں ان پر لعنت و ملامت کرتے ہیں۔
کسی نظریہ و عمل کی برقراری و خاتمہ میں حکومت کی فکر و قوت کاکتنا زیادہ دخل ہوتا ہے دنیا کی تاریخ سے اچھی طرح سمجھا جاسکتا ہے۔ چنانچہ دنیا کی تاریخ بتاتی ہے کہ جن نظریات کے پاس حکومت کی قوت و فکر نہ تھی وہ دنیا سے سسکیاں لے کر دم توڑ گئے چاہے وہ نظریات اچھے رہے ہوں ۔ اور جن نظریات کے پاس حکومت کی فکر و قوت تھی دنیا میں ان کا جادو سر چڑھ کر بولا ہے چاہے وہ نظریات غلط رہے ہوں اور آج بھی دنیا میں باطل نظریات جو سرچڑھ کر بول رہے ہیں حکومت کی فکر و قوت کے بل بوتے پر بول رہے ہیں۔ اور آج جو اسلامی نظریہ و عمل کو انسانوں کی زندگیوں سے دور کیا جارہا ہے اور دنیا میں اسلام کو دبایا جارہا ہے ۔ حکومت کی قوت کے بل بوتے پر دبایا جارہا ہے کیونکہ باطل نظریات کے حاملین اچھی طرح جانتے ہیں کہ اسلامی نظریہ و عمل اتنا زیادہ حقانیت پر مبنی ہے جو بہت جلد انسانی ذہن و عمل میں جگہ بنا لیتا ہے۔ اور اگر اس کے ساتھ ذرا سی بھی حکومت کی قوت شامل ہوجائے تو باطل کا خاتمہ کردیتا ہے۔ چنانچہ دنیا کی تاریخ شاہد ہے کہ جب بھی مسلمان حکومتِ الٰہیہ کی فکر و قوت سے جڑے رہے دنیا میں اسلام غالب رہا اور باطل مغلوب اور مسلمان پوری دنیا کے امام بنے رہے۔ اور جب بھی حکومتِ الٰہیہ کی فکر وقوت سے مسلمانوں کی رشتہ ٹوٹا اسلام دنیا میں مغلوب ہوگیا ۔ باطل غالب آگیا اور خود مسلمانوں کی زندگیاں اسلامی تعلیمات سے محروم ہوگےءں اور باطل پرستوں نے مسلمانوں کو اپنی غلامی کے لائق بھی نہیں سمجھا اور ان کا یہ سمجھنا درست بھی تھا کیونکہ جو اپنے مالکِ حقیقی کی غلامی نہ کرسکے وہ غیر حقیقی مالک کی غلامی کیا کریں گے؟
اور آج بھی دنیا میں جو کروڑوں مسلمان اسلام کی بیشتر تعلیمات سے محروم ہوکر محکومیت اور مرعوبیت کی زندگی گذار رہے ہیں اس کی اصل وجہ حکومتِ الٰہیہ کی فکر و قوت سے اپنا رشتہ توڑ لینا ہے۔ اور جو تھوڑے مسلمان اسلام کی مکمل تعلیمات سے بہرامند ہوکر باطل کے لئے چلینچ بنے ہوئے ہیں۔ حکومتِ الٰہیہ کی فکر و قوت سے جڑنے کی بناء پر بنے ہوئے ہیں ۔ اس لئے ایک مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ حکومتِ الٰہیہ کی فکر کو اپنی فکربنائے اور اسکی قوت کو اپنی قوت بنائے اس کے بغیر نہ مسلمان کی فکر پختہ ہوسکتی ہے اور نہ اسکی قوت مضبوط ہوسکتی ہے۔
چوتھی اور پانچویں آیت میں اللہ تعالی نے آنحضور ﷺ کو مخاطب کرکے کپڑے پاک رکھنے اور گندگی سے دور رہنے کا حکم دیااور یہ حکم آپ ﷺ کے توسط سے پوری اُمّتِ مسلمہ کے لئے ہے اس سے معلوم ہواکہ اسلام میں پاکیزگی کی کتنی اہمیت ہے اور گندگی سے بچنا کتنا ضروری ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے کلام کی دوسری وحی میں دعوت اور حکومتِ الٰہیہ کے حکم کے ساتھ ہی اس کا حکم نازل فرمایا ۔ کپڑوں کو پاک رکھنے کا ایک مطلب زندگی کو پاک رکھنا بھی ہے۔ یعنی غلط عقائد و اعمال سے زندگی کو پاک رکھنا اور چونکہ اپنے آپ کو پاک رکھنے کے لئے گندگی سے دور رہنا
ضروری ہے اسلئے اللہ تعالی نے اس کے متصل ہی اس کا حکم دیا ، گندگی سے مراد ہر قسم کی گندگی ہے ، چاہے وہ عقائد و اعمال کی گندگی ہو یا نجاست و ناپاکی کی گندگی ہو ۔ چھٹی آیت میں اللہ تعالی نے حکم دیا کہ زیادہ چاہنے کے لئے احسان مت کیجئے یہ حکم بھی حضور ﷺ کے ذریعہ سے پوری اُمّتِ مسلمہ کے لئے ہے۔ مطلب یہ کہ کسی پر اس خواہش سے احسان مت کرو کہ دنیا میں زیادہ مال و عزّت حاصل ہوجائے بلکہ ہر احسان اللہ کی رضا و خوشنودی کے لئے کرو اور جب احسان کے ساتھ زیادہ مال و عزّت کے حصول کی خواہش ممنوع قرار دی گئی تو اس سے بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ دینی فرائض و ذمہّ داریوں کی ادائیگی میں زیادہ مال و عزّت کے حصول کی خواہش کتنی زیادہ ممنوع ہوگی دراصل یہ ایک اہم ہدایت ہے جس کے بغیر ایک قدم بھی اسلام کا راستہ طے نہیں کیا جاسکتا اس لئے کہ دینی فرائض و ذمہّ داریوں کی ادائیگی میں بسااوقات نہ صرف یہ کہ دنیا میں زیادہ مال و عزّت حاصل نہیں ہوتی بلکہ جو کچھ مال و عزّت ہے وہ بھی اس راہ میں قربان ہوجاتی ہے۔ خصوصاً اسلام کی مغلوبیت کے دور میں ساتویں آیت میں اللہ تعالی نے حضور ﷺ کو مخاطب کرکے اپنے رب کے لئے صبر کرنے کا حکم دیا ۔ یہ حکم بھی پوری اُمّتِ مسلمہ کے لئے ہے۔ صبر کے معنی ہے دعوتِ دین اور غلبہ دین کی راہ میں دشمنانِ اسلام کی طرف سے پہنچنے والی تکلیفوں کی پرواہ نہ کرنااور انہیں برداشت کرنا۔

Share
Share
Share