سیکس ایجوکیشن پر اصرار،آخرکیوں؟
ابوعبدالقدوس محمد یحییٰ
گزشتہ کچھ عرصہ سے پاکستان میں طلبہ کے نصاب تعلیم میں جنسی تعلیم سے متعلق مواد داخل کرنے پر اصرارکیا جارہا ہے۔وقتاً فوقتاً جب بھی کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما ہوتا ہے تو یہ موضوع زباں زدعام ہوجاتاہے۔ پارلیمنٹ تک اس موضوع پر بحث کرچکی ہے۔ اورعنوان یہ قائم کیا جاتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں بڑھتی ہوئی بے راہ روی اوربچوں کے ساتھ نازیبا رویہ کے سد باب کے لئے بچوں کو اپنے دفاع کے لائق بنانا ہوگا۔
انہیں پہلے سے آگاہ کرنا ہوگا کہ۔۔۔ یہ کچھ کیفیات ہیں اگر ان سے واسطہ پڑے تو ہوشیارباش ! لیکن یہ نہ سوچا کہ کسی ہونے والے نقصان سے بچنے کے لئے پوری قوم خوف میں مبتلا کردی جائے۔ مثلاً جنگی حالات میں سائرن بجاکر لوگوں کو آگاہ کیاجاتاہے کہ وہ تمام کاروبارچھوڑ چھاڑ کر اپنی حفاظت کا سامان خود کرلیں۔ اگرچہ ایسا کرنے سے ملک کا بہت بڑا نقصان ہوتاہے لیکن ایمرجنسی میں ایسا کرناپڑتاہے۔چونکہ جنگ کی حالت میں اس سے بھی بڑے نقصان اورزیادہ جانی ومالی نقصان کا اندیشہ ہوتاہے اس لئے کیموفلاج تک کرکے چپ سادھ لی جاتی ہے۔ لیکن کوئی بھی اہل دانش واہل بصیرت شخص معمول کے حالات میں کیموفلاج کی تربیت اورتاکید نہیں کرے گا۔للعاقل تکفیہ الاشارہ۔عقل مند کے لئے اشارہ ہی کافی ہے!!!
حفظ ماتقدم:
اس پر ایک لطیفہ نہایت موزوں ہوگا۔ ایک شخص نے اپنے بچے کو دس روپے دے کر انڈہ لانے کا کہا اور حکم دیا کہ بہت احتیاط سے کام لینا اوردیکھو انڈہ ٹوٹنا نہیں چاہئے۔ بچہ جب جانے لگا اس شخص نے اسے بلایااور کہا ادھر آؤ۔ قریب آنے پر ایک زوردار طمانچہ اسے رسید کیا۔ بچہ روتے ہوئے انڈہ لینے چلاگیا۔ ساتھ بیٹھے آدمی نے پوچھا یہ تم نے کیا حرکت کی ۔ اس نے جواباًکہا اگر انڈہ توڑ کرلایا تو تھپڑ مارنے سے بھی میرے نقصان کی تلافی نہ ہوگی۔لہذا میں نےحفظ ماتقدم کے طور پر پہلے ہی اسے طمانچہ رسید کردیا!!!
یہ صرف لطیفہ ہی نہیں ہے بلکہ آج ہمارے معاشرتی رویوں اور فطرت کی بھرپور عکاسی کرتا ہے۔ ہم کسی گڑھے میں گرنے کے خوف سے اس سے بڑے گڑھے میں چھلانگ لگا کر خود کو محفوظ سمجھتے ہیں یعنی خوف کی وجہ سے کسی خطرے سے بچنے کے لئے اس سے بڑا نقصان ملکی سطح پر اٹھانے کے خواہاں ہیں۔ یا اسفا۔حالانکہ پہلے ہی انٹرنیٹ ،سوشل میڈیا پر خرافات کا ایک سیلاب موجود ہے۔ جس نے بچوں کی معصومیت اوربھولپن چھین لیا ہے۔
بچوں کی بالیدگی اور نشوونمابھی اللہ رب العزت کے ایک نظام کے تحت ہے ۔بتدریج آہستہ آہستہ اوردرجہ بدرجہ انسان نشوونما پاتاہے۔ اگر بچے کی ابتدائی نشووونما پر غورکیاجائے تو اس میں بھی ہمیں ایک حسن اورترتیب ملتی۔ابتدائی ایام میں بچوں کو ذہنی صلاحیتوں کی ضرورت زیادہ ہوتی ہے اس لئے عہد طفولیت میں ہی ذہنی صلاحیتوں کی نشوونما تقریباً 80 فیصد تک ہوجاتی ہے لیکن اس کے برعکس تولیدی نظام کی ابھی ضرورت نہیں ہوتی اس ان اعضاء کی نشوونما صرف بیس فیصد ہوتی ۔یعنی بالکل برعکس ۔یہی اللہ رب العزت کی شان ربوبیت اور تخلیق کی بہترین مثال ہے۔
ثانیاً کچھ امورکامستتر اور پردہ میں رہنا ہی بہتر ہے۔ کیونکہ وقت سے پہلے ان کا شعور ہونا نقصان دہ ہوسکتاہے۔مثلاً اگر کسی کو ایک سال پہلے اس کی موت کا وقت معلوم ہوجائے تو وہ پوراایک سال شاید کچھ نہ سکے۔خوف سے وہ روز مرے گا اورمرے گا۔اس کا جینا بھی مرنا بلکہ اس سے بدترہوگا۔ وقت آنے پر ہی پردوں کا اٹھنا صحیح ہے ۔
ثالثاًجنسی تعلیم کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوگا بچہ ہر وقت اوورکانشس (غیرمعمولی اورغیرضروری محتاط)ہوگا۔ اتفاقاً بھی اس سے مماثلت رکھنے والے امور اس کے ذہن کوغلط رخ پر موڑدیں گے۔
حفاظت کی ذمہ داری بہرحال بڑوں پر عائد ہوتی ہے ۔ اس لئے جو کام بڑوں کا ہے وہ بڑوں ہی کوکرناچاہئے۔ جنسی تعلیم دینے سے ہم بچوں کابھولپن اورمعصومیت ختم کرنے کے علاوہ اورکچھ حاصل نہ کرسکیں گے۔جیسا کہ قرآن مجید میں بھی پردہ کے ضمن میں ان بچوں سے پردہ کا حکم نہیں دیاگیا جنہیں عورات النساء کی خبر نہ ہو۔ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلَىٰ عَوْرَاتِ النِّسَاءِ(وہ بچے جو کم سِنی کے باعث ابھی عورتوں کی پردہ والی چیزوں سے آگاہ نہ ہوں) (سورہ نور:31)یعنی ابھی ان کا بھولپن اورمعصومیت قائم ہو۔
لیکن آج توشاید پری پرائمری کا طالب علم بھی ! آج حالات اتنے بگڑچکے ہیں کہ چوزہ انڈے سے نکلتا نہیں ہےلیکن انڈہ دینے کی فکر میں پریشان رہتاہے!!!ہربات بتانے کی ، ہر رخ دکھانے کا ، ہر نکتہ سمجھانے کا،اسی طرح ہر ممکن الوقوع امر قبل از وقت بیان کرنے کا بھی نہیں ہوتا۔اس کی مثال کچھ یوں ہے کہ بچوں سے سچ بولنے کا کہنا چاہئے اور جھوٹ کی ممانعت کرنی چاہئے۔لیکن بعض اوقات ہمیں یہ بھی بتانا پڑتا ہے کہ سچ بولیں لیکن ضروری نہیں کہ ہر سچ ضروربولا جائے۔ اگرکہیں خاموشی سے بات بنتی ہو اورسچ بولنے میں رسوائی ہو توکیا کیاجائے!
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی
والدین کو چاہئے کہ بچوں کو اتنی آزادی ضروردیں کہ ان سے ہر بات آزادانہ بغیر کسی ہچکچاہٹ وجھجھک کہہ سکیں۔ بالخصوص اگر واقعہ کا تعلق گھرکی چار دیواری سے باہرہو تو اسے قطعاً نظرانداز نہ کریں ۔ توجہ سے ان کی سنیں ، اگر کوئی تنگ کررہا ہے تواسباب جاننے کی کوشش کریں۔اورواقعہ کی کیفیت جاننے کی کوشش کریں کہ کوئی مجرمانہ ذہنیت رکھنے والا یا جرائم پیشہ فرد انہیں اپنا آلہ کار بنانے کی کوشش تونہیں کررہا۔کوئی اسے بلیک میل تونہیں کررہایا انہیں اپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال کرنا تونہیں چاہتا۔
جملہ معترضہ :
ایک اوراہم نکتہ مغرب کی ترقی کا راز خاص قسم کی مادر پدرآزاد معاشرتی اقدار اور نصاب میں اس قسم کی تعلیم سے نہیں بلکہ بہتر نصاب،بہتر نظام تعلیم، بہتر اساتذہ، بہتر طلبہ اور اپنے ملک اور ملت سے اخلاص ،محنت اوربہتر ٹیکنالوجی کے مرہون منت ہے۔ ان کے معاشرے میں ہر فرد اپنی ذمہ داریوں سے احسن انداز سے عہدہ برآں ہوتاہے۔ وہ اپنے فرائض قومی امانت سمجھ کر انجام دیتے ہیں قومی خیانت نہیں، فرض سمجھ کرادا کرتے ہیں قرض سمجھ کر نہیں کہ لوٹانے کا دل ہی نہ کرے!
ہمارے پارلیمنٹرین،دانشور،اہل علم حضرات ان امور کی طرف غور کیوں نہیں کرتےکہ طلباء کے لئے نظام تعلیم، نصاب تعلیم ،معلم کے کردار اورمعیار میں بہتری ترقی کی طرف گامزن کرے گی نہ کہ نصاب میں جنسی تعلیم۔فتدبر!
رہی بات مجرمین کی سرکوبی کی تو ملکی سطح پر معاشرے میں ایسے عناصرکا قلع قمع کرنا حکومتی اداروں کا کام ہے اورانفرادی سطح پر والدین کا۔اگر بچوں کے لئے کچھ کرنا ہی ہے تو انہیں جسمانی ورزش کے لئے کھیل کے میدان مہیاکئے جائیں۔انہیں سیلف ڈیفنس کے عنوان پر جوڈو کراٹے اور دیگر اس قسم کے کھیلوں کے ساتھ ساتھ ذہنی واعصابی طور پر قوی اور طاقتورکیا جائے۔ اوریہ باورکرایاجائے کبھی بھی کہیں بھی کسی بھی صورتحال میں وہ نروس نہ ہوں ،ہمت نہ ہاریں اورذہنی غلامی اختیار نہ کریں۔
قابل غور نکتہ:
اگر کوئی شخص یہ کہے کہ قرآنِ پاک عربی زبان میں عربوں پہ نازل ہوا اور عرب بچہ اس زبان کے معانی ، مطالب ومفاہیم سے بخوبی واقف تھا۔ چونکہ اسلام میں بچپن سے ہی قرآن کی تعلیم دی جاتی ہے تو وہ عرب بچہ اپنی زبان دانی کے باعث قرآن مجید کی وہ مخصوص آیات جو جنسی تعلیم سے متعلق ہیں، بچے بھی تو ان آیات کا مفہوم جان جاتے ہوں گے۔۔۔گویا جنسی تعلیم انہیں آغاز ہی سے مل رہی ہے۔تواب نصاب میں جنسی تعلیم شامل کئے جانے پر اعتراض کیوں؟
اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ قرآن کتابِ ہدایت ہے اس میں جو بات کہی گئی ہے اس میں تقدس کا پہلو ہے ،اس طرز تکلم کا فائدہ یہ ہے کہ یہ انداز برانگیختہ کرنے کے بجائے صرف تہذیبی،علمی اور تربیتی پہلو رکھتی ہے جب کہ اس انداز تکلم سے ہٹ کراگر کسی اور پیرائے میں بات کی جائے گی تو یہ بات دورتک جائے گی۔
دوسراقرآن مجید کنایات ،اشارات سے کلام کرتاہےجیسے قرآن مجید میں ہے عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں، اب بچہ ان الفاظ کے معانی ومفاہیم جاننے کے باوجود بھی اسے سمجھنے سے قاصرہوگا۔ الاشارۃ ابلغ من العبارۃ۔ اشارۃً کلام صراحۃً عبارت سے زیادہ بلیغ ہوتا ہےاوربعض اوقات صراحتاًبیان کرنےمیں جونقائص پیدا ہوسکتےہیں وہ کنایہ سےنقائص پیدانہیں ہوتےاورمقصدحاصل ہوجاتاہے۔
دوسرا ہر انسان کی ذہنی سطح مختلف ہے۔ ہرانسانی اپنی ذہنی سطح، قابلیت،توجہ اورمعاشرتی اقدار سے ایک بات کوخاص پیرائے میں سمجھتا ہے۔جب ایک لفظ بولاجاتا ہے اگر کسی شخص کا اس سے واسطہ پڑچکا ہو تو وہ اس کا مفہوم سمجھ سکتاہے لیکن جو بالکل نابلد ہو وہ اس کا صحیح مفہوم اخذ نہیں کرسکتاہے۔ مثلاً اگر کسی شخص نے صرف کنواں دیکھا ہو اس کے سامنے سمندر کا لفظ ادا کیا جائے تووہ اسے صحیح طورپر نہ سمجھ پائے گا برخلاف اس شخص کے جو سمندر دیکھ چکاہو۔جیسا کہ ذکرکیاجاچکا ہے قرآن کا اسلوب کنایہ کے انداز میں ہے ،عموما ہمارے معاشروں میں بچوں کوان آیات کی تعلیم کچھ خاص گہرائی سے نہیں دی جاتی جو ان کی توجہ اس جانب مبذول کرے۔ لہذا ایک بچہ جوجنسی امور کو قطعاً نہیں سمجھتا جب تک کہ اسے تفسیر وتعبیر وتشریح سے کھول کربیان نہ کیاجائے۔ جہاں تک قرآن مجید کا تعلق ہے تو قرآن نے انتہائی کنایوں میں اپنا موقف پیش کیا ہے۔عرب بچہ بھی قرآن کے ان الفاظ کو مکمل نہیں سمجھے گا۔ جب تک کہ اس کی توجہ خاص ان امورکی جانب کرکے اسے نہ سمجھایاجائے۔
خلاصہ کلام:
بچوں کا قدرتی حسن،بھولپن ،معصومیت اور شرارت جبراً ان سے نہ چھینی جائے کیونکہ یہی معصومیت، سادگی و برجستگی ہی تو بچپن کا حسن ہوتاہے۔اسی مخصوص بھولپن، معصومیت اور شرارتوں کی وجہ سے وہ مرکز نگاہ ہوتاہے۔ ان کے بغیر وہ بچہ نہیں بلکہ !!!
اس دور میں یہ سب سے بڑا ظلم ہوا ہے
بچوں میں وہ پہلی سی شرارت نہیں ملتی
بہرحال میری ناقص رائے میں جنسی تعلیم وتربیت کے بجائے بچوں کی جسمانی،ذہنی،معاشرتی اوراخلاقی تعلیم وتربیت کی اشد ضرورت ہے۔ بچوں کو بچہ رہنے دیں ۔ بچپن کو پچپن میں تبدیل نہ کریں۔جسے عرف عام میں کہا جاتاہے کہ انہیں بوڑھی باتوں میں نہ الجھائیں۔کیونکہ ہرقول کا ایک مقام ہوتاہے ۔ابھی ان سے اس قسم کی باتوں کا زمان و مکان نہیں۔ ایسا نہ ہو کہ ان کی شخصیت ہی ٹوٹ پھوٹ کاشکار ہوجائے۔بلکہ بتدریج ان کی تربیت اور رہنمائی کی جائے ۔ موقع ومحل کی مناسبت سے کبھی کبھی کا ہلکا پھلکا اظہاراورتربیت ہی کافی ہوگی ۔ اللہ رب العزت ملک کے تمام پھول جیسے بچوں کی حفاظت کرے۔