اردو افسانہ اور کرشن چندر
یومِ پیدائش پر ایک خصوصی تحریر
ڈاکٹر سیّد احمد قادری
رابطہ: 9934839110
کرشن چندر نے پاکستان کے وزیر آباد میں ۲۳؍ نومبر ۱۹۱۴؍ کو آنکھیں کھولیں اور زندگی کے بہت سارے نشیب وفراز دیکھتے ہوئے افسانوی ادب پر بلا مبالغہ تقریباََ چار دہایوں تک حکمرانی کی ہے۔ کرشن چندر کا شماراپنے عہد کے بے حد مشہور افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے ۔
ترقی پسند تحریک سے وابستگی نے ان سے کئی اچھے بلکہ بے حد معیاری اور شاہکار افسانے لکھوائے ، جن پر آج بھی ترقی پسند ادب فخر کرسکتا ہے ۔ لیکن اشتراکیت کے شدّت اظہارسے ان کا فن مجروح ہوا ہے ، اور ایسے افسانوں سے کرشن چندرکی شہرت کو گہن بھی لگا ہے ۔
کرشن چندر کے بعض اہم افسانوں سے متاثر ہوکر قرۃ العین حیدر نے لکھا تھا:
’’ مجھے اب تک یاد ہے کہ ’’ دو فرلانگ لمبی سڑک، زندگی کے موڑ پر ، ان داتا، اور بالکونی‘‘ وغیرہ ہمیں کس قدر دل آویز اور انوکھی معلوم ہوتی تھیں ‘ ایک ہلکی ہلکی شعریت ‘ حسن کاری‘زندگی کا احساس اور پر خلوص مطالعہ‘ گویا لکھنے والے نے ایک طلسمی آئینہ اس زاویے سے بٹھایا کہ اس میں ہماری مانوس دنیا ایک مختلف رنگ میں نظر آنے لگی ‘ جو بہ یک وقت ان کا حقیقی اور آئیڈیل روپ تھا ‘ یہ نیا رویہ انسان دوستی اور اشتراکیت کہلا رہا تھا ۔ یہ دونوں اصطلاحات گھِس پِٹ کر خاصی بدنام ہوچکی ہیں ، مگر ان کی اہمیت اور صداقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔‘‘
(شاعر: کرشن چندر نمبر)
قرۃ العین حیدر کے اظہار خیال کے مطابق دونوں اصطلاحیں کس قدر گھِس پِٹ کر بدنام ہوچکی ہیں ، یہ بحث کا الگ موضوع ہے ،لیکن یہ ضرور ہے کہ کرشن چندر اپنے سیاسی نظریے میں اس قدر ڈوب چکے تھے کہ زود نویسی نے ان سے بہت سارے سطحی افسانے لکھوائے۔
کرشن چندر اپنے سیاسی نظریے کی وضاحت میں کس قدر اٹل تھے ، ان ہی کے الفاظ میں دیکھئے، جو انہوں نے ۱۹۴۴ء میں ترقی پسند مصنفین کی کانگریس کے خطبۂ صدارت میں پیش کیا تھا____
’’اب وقت آگیا ہے کہ ہر ادیب کھلم کھلّا اشتراکیت کا پروپیگنڈہ شروع کردے ۔ کیونکہ اب ہمارے سامنے دو ہی راستے ہیں ، آگے بڑھتی ہوئی رواں دواں اشتراکیت یا ساکن و جامد موت۔‘‘
کرشن چندر کی اشتراکیت کے پروپیگنڈہ کی ذہنیت یا سخت گیری کے باعث انھیں نقصان بھی ہوا ، اشتراکیت کے معدوم ہونے کے ساتھ ساتھ ترقی پسند تحریک کی کمزور پڑتی رفتار سے کرشن چندر کی شہرت دھیمی پڑتی گئی اور آج بعض نقاد اس امر کا اظہار کرتے ہوئے ذرا بھی نہیں جھجھکتیکہ کرشن چندر کی زود نویسی کے باعث ناقدین انھیں اردو کا کمزور افسانہ نگار تصور کرتے ہیں ، اس لئے اب تک کرشن چندر کے فن پر کوئی اچھی کتاب ، کوئی اچھا تنقیدی کام سامنے نہ آسکا۔
کرشن چندر کی زود نویسی کا عالم یہ ہے کہ اگر ساہتیہ اکادمی کے مونو گراف : ’’ہندوستانی ادب کے معمار: کرشن چندر ‘‘کی مصنفہ جیلانی بانو کی بات پر یقین کیا جائے تو ’’ انھوں (کرشن چندر)نے پانچ ہزار سے زیادہ افسانے لکھے ،جو تقریباً بائیس مجموعوں کی شکل میں شائع ہوئے۔‘‘(صفحہ ۱۷)،لیکن میرے خیال میں جیلانی بانو کی یہ بات صداقت سے پرے ہے۔ جیلانی بانو کرشن چندر کے بائیس مجموعوں کی بات کرتی ہیں اور ’ ’کرشن چندرکی تصانیف ’’عنوان کے تحت ۳۲ افسانوی مجموعوں کی فہرست پیش کرتی ہیں ۔ اس ضمن میں کلام حیدری کی بات پر بھروسہ کیا جاسکتا ہے کہ کرشن چندر نے تقریباً پانچ سو افسانے لکھے ہیں۔(ماہنامہ شاعر، کرشن چندرنمبر ۲، صفحہ ۷۶) ان پانچ سو افسانوں میں کتنے افسانے فکری و فنّی سطح پر اعلیٰ پیمانہ تک پہنچ سکے اور برطانوی استبداد ، ستیہ گرہ، قحط بنگال، آئی این اے کے مجاہدین آزادی، جہازیوں کی بغاوت، تقسیم ہند، فرقہ وارانہ فسادات ، آزادئ ہند، دیسی حکومت کی بدکاری ، سرمایہ داروں، اجارہ داروں کا ظالم شکنجہ، حسن و عشق اور کشمیر کی وادیاں وغیرہ جیسے موضوعات کو فنکارانہ طور پر برتا ہے ، یہ امر ایک طویل تنقیدی بحث کا متقاضی ہے۔
لیکن اتنا ضرور ہے کہ اس امر پر غور ہونا چاہئے کہ وہ کون سی مجبوریا ں تھیں کہ کرشن چندر کو اتنے ڈھیر سارے افسانے لکھنے پر مجبور ہونا پڑا ۔ ظاہر ہے اتنے سارے افسانوں میں کرشن چندر کی اعلیٰ فکری و فنّی صلاحیتیں پوری طرح ابھر کر سامنے کیسے آتیں ۔ لیکن جن افسانوں میں کرشن چندر کا اپنا مخصوص لب و لہجہ ، اسلوب ، آرٹ اور فن پورے آب و تاب کے ساتھ جلوہ گرہوا ہے، ان کے مطالعہ کے بعد یہ کہا جاسکتا ہے کہ کرشن چندرایسے خوش نصیب افسانہ نگار ہیں ،جنہوں نے اپنے اسلوب، آرٹ اور فن کے ساتھ ساتھ اپنے تجربے اور مشاہدے کے شاندار اظہار کی بنا پر اپنے پہلے ہی افسانہ کی اشاعت کے بعد شہرت حاصل کرلی ، جس سے متاثر ہو کر ان کے ہم عصر افسانہ نگار احمد ندیم قاسمی کو یہ کہنا پڑا___
’’ کرشن چندر اردو افسانہ کو داستان کے دور سے نکال کر مغربی ادب کے شاہکاروں کے دَور میں لے آیا ، وہ واحد افسانہ نگار ہے ، جس نے اپنے پہلے ہی افسانہ پر شہرت حاصل کرلی۔‘‘
کرشن چندر کے ابتدائی دور کے افسانوں میں بھی ان کا جو اسلوب ملتا ہے ، وہ ان کے ہم عصر افسانہ نگاروں سے مختلف اور منفرد تھا ۔ا ن کی شگفتگئ تحریر ، ان کے ہم عصر افسانہ نگاروں کے ساتھے ساتھ آنے والی کئی نسلوں کو متاثر کئے بغیر نہ رہ سکی ۔ اس سلسلے میں مشہور افسانہ نگار ، راجندر سنگھ بیدی لکھتے ہیں___
’’ اسلوب کے ایک حصّہ پر تو انہیں قابو تھا ، مثلاً منظر کشی ، تشبیہات ، استعارے اور احساس جمال ۔‘‘
’’ میں نے کتنا چاہا کہ کرشن کا قلم مجھے مل جائے اور میری لکنت دور ہوجائے۔‘‘
بیدیؔ کے اس اظہار خیال سے کرشن چندر کے اندر کی فنکارانہ صلاحیتوں کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے ۔
کرشن چندر کے افسانوی سفر کا باضابطہ آغاز افسانہ ’’یرقان ‘‘سے ہوتا ہے ، جو ادبی دنیا (لاہور) میں ۱۹۳۶ء میں شائع ہو کر مقبول عام ہوا تھا ۔ ابتدائی دور میں کرشن چندر رومانی افسانے لکھتے رہے ، حسن و عشق کی داستان اپنے حسین اور دل چسپ انداز میں بیان کرتے رہے ۔ لیکن جوں جوں ان کا سماجی شعور بیدار ہوتا گیا ، وہ رومانیت سے قدرے دُور ہو تے ہوئے حقیقت نگاری اور زندگی اور اس کے اسرار و رموز کو اپنے تمام تر احساسات و جذبات کے ساتھ فن کی بھٹی میں تپاکر افسانوی قالب میں پیش کرنے لگے۔اس ضمن میں انتظار حسین نے فرمایا تھا:
’’کرشن چندر کے ساتھ اردو افسانہ رومانیت کے چنگل سے نکلا اور رومانی حقیقت نگاری کی حدود میں داخل ہوا۔اس نئی روایت میں رنگی ہوئی ان کی حقیقت نگاری پورے عہد کو اپنے ساتھ بہا لے گئی۔ بس یوں سمجھو کہ کرشن چندر ایک فیشن بن گئے ۔جو نوخیز ذہن میں افسانہ آتا ، وہ کرشن چندر کے رنگ میں رنگا جاتا۔‘‘
ایک لکھنے والے کی اہمیت اس طرح بھی جانی جاتی ہے کہ اس نے اپنے ہم عصر وں کو اور بعد میں آنے والوں کو کس حد تک متاثر کیا ہے۔
کرشن چندر کے سحر کا زمانہ ۳۶ء کے ابتدائی دور سے شروع ہوتا ہے پھر ۴۷ء کے فسادات ہوتے ہیں ۔ اس کے بعد اردو افسانہ اس طرز احساس اور اسلوب بیان سے اکتا کر نئے رجحانات سے آشنا ہوتا نظر آتا ہے ۔مگر سچی بات یہ ہے کہ اردو افسانے میں نئے رجحانات اور نئے اسالیب کے عمل دخل کے باوجود کرشن چندر کے رنگ میں لکھا جانے والا افسانہ آج بھی اثر رکھتا ہے ۔ کرشن چندر کی رومانیت اپنے عہد کے مزاج سے نکلی تھی ۔ مگر انہوں نے اپنے زور تخلیق سے اس میں اتنی توانائی پیدا کی کہ وہ اگلے عہد تک چلی اور اس پر اثر انداز ہوئی۔
ادب محض خوش وقتی اور ذہنی عیاشی کا سامان نہیں بلکہ علم و دانش کا ایک حصّہ اور زندگی کا ایک اہم صحیفہ ہے ۔ ادب سے جہاں ہماری جمالیاتی حِس کی تسکین ہوتی ہے اور ایک خاص طرح کی مسرت سے ہم لطف اندوز ہوتے ہیں ۔ ادب ہماری فکری بصیرت اور ذہنی ارتقا کا وسیلہ بھی ہے اور اس امر کا احساس کرشن چندر کو شدت کے ساتھ ہمیشہ رہا اور یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ’’بالکونی‘ دل کسی کا دوست نہیں ، نغمے کی موت ، گل دان، چینی پنکھا، پالنا، جہلم میں ناؤ پر، سرخ پھول میں، اور گرجن کی ایک شام ‘‘ وغیرہ جیسے افسانے لکھے ، جن میں ان کا جمالیاتی حِس اور رومانیت پوری طرح اُجاگر نظر آتی ہے۔ مثال کے لئے ’’جہلم میں ناؤ پر‘‘ کا ایک اقتباس ملاحظہ ہو:
’’ بہر حال اس میں کوئی شک نہیں کہ میں بھی ایک حسین کی تلاش میں تھا ۔ میں نے ٹائی کی گرہ ٹھیک کی اور لاری کے اندر چاروں طرف نگاہ دوڑائی ، مگر آہ، اس مسافروں سے بھری ہوئی لاری میں جو اپنی زندگی کی منزل پر بے تحاشہ بھاگی جا رہی تھی ، مجھے کہیں بھی رومان نظر نہ آیا۔ دل برداشتہ چہرے تھے اور حقے یا پھر تھانیدار صاحب کا مورچھل ۔ میں نے ایک لمحہ کے لئے اپنی آنکھیں بند کرلیں اور دل ہی دل میں کہا کہ اس لاری میں سب کچھ ہے مگر حُسن ناپید ہے۔‘‘
لیکن آگے چل کر جیسا کہ میں نے اوپر لکھا ہے ، کرشن چندر کا جوں جوں سماجی شعور بیدا رہوتا گیا ، وہ رومانیت سے حقیقت نگاری کی جانب آتے گئے اور ’’یو کلپٹس کی ڈالی‘ ایک سیتا ایک مگرمچھ‘ ان داتا‘ دادر پُل کے بچے‘ مہالکشمی کا پُل‘ پشاور اکسپریس‘ خونی ناچ‘ دو فرلانگ لمبی سڑک‘ اور ’ایک آنہ‘ وغیرہ جیسے افسانے لکھ کر انھوں نے اردو افسانے میں بیش بہا اضافے کئے ۔ ان تمام افسانوں کے مطالعے سے کرشن چندر کے دھڑکتے ہوئے دل میں انسانیت کے دردوداغ اور جستجو و آرزو کے گہرے احساس کے ساتھ ساتھ ان کا مارکسی نقطۂ نظر واضح طور پر نظر آتا ہے ۔مثال کے طور پر کرشن چندر کا مشہور افسانہ ’’مہالکشمی کا پُل‘‘ پیش کیا جاسکتا ہے ، جس میں فرقہ وارانہ فساد کی شکار ایک لڑکی جب گِرتی ہے تو اس کے ہاتھ میں مارکسزم کی ایک کتاب ہوتی ہے ۔لیکن کرشن چندر کی افسانہ پر فنّی گرفت اتنی مضبوط ہے کہ کسی بھی جگہ ایسا محسوس نہیں ہوتا ہے کہ کرشن چندراپنے مارکسی نظریات کی تبلیغ کررہے ہیں ۔ کرشن چندر نے بیشتر افسانے ایسے لکھے ہیں جن میں انسان کی بے بسی ، مفلسی، بے کسی، تنگ
دستی، بد حالی ، اور استحصال کی تصویریں جیتے جاگتے کرداروں میں ملتی ہیں اس ضمن میں کرشن چندر کے چند افسانوں کے اقتباسات ملاحظہ ہو:
’’ وہ پیچش ٹھیک کردیتا تھا اور وہ پھر آجاتی تھی ۔ اس لئے نہیں کہ اس علاقے کے لوگوں کی آنتیں کمزور تھیں ۔بلکہ اس لئے کہ ان کی جیبیں کمزور تھیں ۔گھر اناج سے خالی تھے اور دیہات قحط سے روندے ہوئے تھے ۔ لوگ پتّے اُبالتے تھے اور درختوں کی چھال اُبالتے تھے ۔ اس لئے پیچش ضروری تھی ، اس قدر لازمی کہ اگر انسان کے جسم میں آنتیں نہ ہوتیں تو یہ پیچش معدے میں ہو جاتی یا پھر پھیپھڑوں میں ہوجاتی یا کان میں ہو جاتی، مگر ہوتی ضرور۔‘‘
(یوکلپٹس کی ڈالی)
’’پانڈے نے کہا آج دس روز سے ہم لوگ ہڑتال پر ہیں ۔ سنا ہے آج سے آٹھ روز کے بعد گورنر صاحب اس بلڈنگ کو کھولنے والے تھے ، لیکن اب یہ بلڈنگ نہیں کھلے گی ، اسے ہمارے سو اکوئی نہیں بنا سکتا۔ بلالیں کسی بڑے سے بڑے آدمی ، بڑے سے بڑے نیتا کواور اس سے یہ عمارت مکمل کرالیں ، ہم بھی دیکھیں گے ، یہ لوگ پتھر ڈھونا نہیں جانتے، خالی سونے کی قینچی سے ریشم کا فیتہ کاٹنا جانتے ہیں ۔‘‘
(ایک سیتا ایک مگر مچھ)
’’ روپئے کا کوئی مذہب نہیں ہوتا ، کوئی رنگ اور مزاج نہیں ہوتا ، اس کی کوئی قوم نہیں ہوتی اور اس کا کوئی ملک نہیں ہوتا۔ اس کی کوئی محبت نہیں ہوتی ۔ روپئے کی ابتدا اور انتہا روپیہ ہے اور زیادہ روپیہ اور زیادہ روپیہ۔‘‘ (برہمن)
کرشن چندر کا افسانہ ’’ان داتا‘‘ بھی اسی صف میں رکھا جا سکتا ہے ۔ جوکہ بنگال کے بھیانک قحط اور اس کے اثرات پر لازوال افسانہ ہے۔
اسی دوران دنیا کے افق پر دوسری جنگ عظیم کے مہیب بادل محیط ہو رہے تھے ۔ فسطائی اور سامراجی طاقتیں اپنی پوری بربریت کے ساتھ اپنا رول ادا کررہی تھیں ۔ ادب میں بھی سماجی بے چینی اور تلخی دبے پاؤں آنے لگی تھی۔ کرشن چندر کا دل ایک حسّاس انسان کا دل تھا ۔ جس نے ’’گل فروش‘‘ ’’خونی ناچ‘‘’’ بے رنگ و بو‘‘’اور ’’ دو فرلانگ لمبی سڑک‘‘ جیسے پر اثر اور افسانوی ادب میں ہمیشہ زندہ رہنے والے افسانے لکھوائے۔
کرشن چندر نے جہاں بہت سارے لازوال اور شاہکار افسانے تخلیق کئے ، وہیں ان کے چند افسانے ایسے بھی ہیں جنہیں پڑھنے کے بعد حیرت ہوتی ہے کہ یہ افسانے کرشن چندر جیسے عظیم افسانہ نگار نے لکھے ہیں ؟ اس لئے کہ ان افسانوں میں کرشن چندر کا نہ اپنا مخصوص اسلوب ہے ، نہ آرٹ ہے اور نہ فنّی رچاؤ ہے۔ اس سلسلے میں ہم کرشن چندر کے ’’عورتوں کا عطر‘ ‘’’ ربر کی عورت‘‘’’بھگوان کی واپسی‘‘’’ لڑکی کی مہک‘‘’’ تھالی کا بیگن‘‘ اور ’’زر گاؤں کی رانی ‘‘وغیرہ جیسے افسانوں کا نام لے سکتے ہیں۔
لیکن ان چند افسانوں کی وجہ سے کرشن چندر کی غیر معمولی فنّی و فکری صلاحیت پر حرف نہیں آتا ، اس لئے کہ کسی بھی فنکار کے متعلق یہ نہیں کہا جا سکتاہے کہ اس کی ہر تخلیق شاہکار ہوگی ۔ اس لئے کرشن چندر کے بہت سارے بہترین افسانوں کے سامنے ان چند غیر معیاری افسانوں کو فراموش کرنے میں کوئی تامل نہیں۔ اور ابوالفیض سحر کی باتوں پر یقین کرنا پڑتا ہے کہ:
’’ کرشن چندر نے اردو افسانو ی ادب کو جو تنوع دیا، جو ہمہ جہتی و ہمہ گیری دی ، جو بلندی عطا کی ، جو وسعت اور گہرائی و گیرائی دی ، اس کی مثال ہماری ادبی تاریخ میں کم ملے گی ۔ ہندوستان کے شہروں ، دیہاتوں کے گلی کوچوں ، فٹ پاتھوں کے تڑپتے لمحوں ، حویلیوں اور جھونپڑوں کے پر سکون صحنوں کی زندگی سے لے کر لندن ، ماسکو، اور واشنگٹن جیسے پر ہجوم شہروں کے کلبوں اور کارخانوں کی نئی صنعتی زندگی کی دھوپ چھاؤں ، زندگی کے مختلف فلسفوں اور عقیدتوں کے چمن زاروں میں کھلے انسانی احساسات و جذبات کے پھولوں اور ان پھولوں پر منڈلاتی انسانی نفسیات اور کردار کی رنگ برنگی تتلیاں جسم و جاں اور روح کی وادیوں میں گنگناتے آبشاروں ، لہلہاتے چنار دلچسپ پیرائے سے کرشن چندرکے ادب کو مزیّن کرتے ہیں ،اور اس کی مقامی اور بین الاقوامی قرأت اور قدرو قیمت بڑھاتے ہیں۔‘‘
کرشن چندر کی اعلیٰ صلاحیتوں ، تحریر کی شگفتگی اور فکر و فن کا اعتراف بڑے بڑے ناقدوں نے کیا ہے ۔ ڈاکٹر قمر رئیس اور پروفیسر گوپی چند نارنگ کرشن چندر کی عظمت کا اعتراف یوں کرتے ہیں:
’’ کرشن چندر نے اردو زبان میں انسانی وجود کی، اس کے قلب کی سوئی ہوئی وادیوں کو جگایا تھا ۔ جہاں کسی اور کی رسائی نہ ہوسکی ۔ وہ اپنے ساحرانہ بیان سے ان وادیوں کی ساری رنگینی ، شادابی اور دلکشی کو اپنے قارئین کی روح میں منتقل کردیتا تھا ۔ اس کی کہانیوں میں انسان کے مقدس اور معصوم جذبات دل کی طرح دھڑکتے ہوئے
محسوس ہوتے ہیں۔ آہوں اور آنسوؤں امیدوں اور مایوسیوں اور قہقہوں اور مسکراہٹوں سے آنکھ مچولی کھیلتے یہ انسانی جذبات ہی اس کا سرمایۂ حیات ہیں۔‘‘ (ڈاکٹر قمر رئیس)
’’ انسانی قدروں کے مرقع نگار کی حیثیت سے اردو میں کرشن چندر کی حیثیت ہمیشہ رہے گی ۔ عوام و خواص میں جتنی مقبولیت کرشن چندر کو نصیب ہوئی وہ بہت کم لوگوں کو میسر آئی ہے ۔ان میں تین باتیں خاص تھیں ۔ مناظر فطرت سے والہانہ محبت ، اخلاص سے معمور انسان دوستی اور جذبات سے تھرتھراتا ہوا سادہ اور خوبصورت اسلوب۔‘‘ (پروفیسر گوپی چند نارنگ)
کرشن چندر کے افسانوں میں مناظر فطرت کی جتنی حسین اور خوبصورت تصویریں دیکھنے کو ملتی ہیں اور اسے پیش کرنے میں انھیں جو کمال حاصل تھا وہ دوسروں کو کم نصیب ہوا ۔ کرشن چندر کے افسانے ’سفید پھول‘ پورے چاند کی رات‘ گل فروش‘ اور ’خوشبو اڑی اڑی سی۔ وغیرہ جیسے بہت سارے افسانے ایسے ہیں جن میں قدرتی اور فطری مناظر بڑے دلکش اور پیارے انداز میں ملتے ہیں اور ایسے مناظر کی بہترین اور لاجواب تصویر کشی کا فن کرشن چندر کو ہی حاصل تھا ،اور اس فن کمال تک کوئی دوسرا افسانہ نگار نہیں پہنچ سکا۔