قرآن کی پہلی ہی آیت میں خلافتِ الٰہیہ کی فکر
مفتی کلیم رحمانی
8329602318 Mob:
دورِ حاضر میں بہت سے مسلمانوں کے درمیان جو دینی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے جس کے تحت کہا جاتا ہے کہ اس وقت ہم مکی دور سے گزر رہے ہیں ، اور مکی دور میں اسلام کے پاس حکومت الٰہیہ کی کوئی فکر نہیں تھی اس لئے ہمیں بھی اس وقت حکومت الٰہیہ کی بات نہیں کرنی چاہیے جب کہ یہ خیال اسلام کی بنیادی تعلیم سے ناواقفیت پر مبنی ہے –
حقیقت یہ ہے کہ اسلام کی ابتداء ہی حکومت الٰہیہ کی فکر سے ہوئی ، چنانچہ غارِ حرا میں آنحضور ﷺ پر جو سب سے پہلی وحی نازل ہوئی اس کی پہلی ہی آیت میں حکومتِ الٰہیہ کی فکر پیش کردی گئی۔
ارشاد ربانی ہے : اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقْ ۔
’’( اے محمد ﷺ ) پڑھ تیرے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا ۔‘‘
مذکورہ آیت قرآن کی ان پانچ آیات میں سے ایک ہے جو آنحضور ﷺ پر سب سے پہلے نازل ہوئیں جب کہ آپ ﷺ غار حرا میں تھے ، اس پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے آپ کو انسانوں کے رب کی حیثیت سے پیش کیا ، ساتھ ہی اس میں یہ مطالبہ بھی پوشیدہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کو اپنا رب مانیں ۔
رب ، اللہ تعالیٰ کی ایسی جامع اور بڑی صفت ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی تمام صفات شامل ہیں، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں اپنے آپ کو زیادہ تر رب ہی کی حیثیت سے بیان فرمایا اور رب ہی کی حیثیت سے ماننے اور یاد کرنے کا حکم دیا ، یوں تو صفتِ رب میں اللہ تعالیٰ کی تمام ہی صفات کا کچھ نہ کچھ حصہ شامل ہے ، لیکن صفتِ رب میں اللہ کی جن دو صفات کا غلبہ
ہے وہ صفتِ حکمرانی اور قانون سازی ہے چنانچہ لفظ رب ، عربی زبان میں بادشاہ اور قانون ساز کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ، قرآن مجید کی بہت سی آیات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ لفظ رب ، بادشاہ اور قانون ساز کے معنیٰ میں استعمال ہوتا ہے بطور نمونہ چند آیات پیش کی جاتی ہیں۔
سورہ یوسف میں ارشاد ربانی ہے
یَا صَاحِبِی السِّجْنِ اَمَّآ اَحَدُ کُمَا فَیَسْقِی رَبَّہ‘ خَمْرًا وَ اَمَّا الْآخَرُ
فَیُصْلَبُ (یوسف:۱۴)
’’ (کہا یوسف نے) اے جیل کے ساتھیو! بہر حال تم دونوں میں ایک اپنے رب یعنی بادشاہ کو شراب پلائے گا اور بہر حال دوسرا پس سولی دیا جائے گا۔‘‘
آیت مذکورہ کا پس منظر یہ ہے کہ جب یوسف ؑ بے قصور جیل میں ڈال دئے گئے تو آپ کے ساتھ دو نوجوان بھی جیل میں ڈالے گئے ، یہ دو نوں نوجوان بادشاہ مصر کے ملازم تھے ان میں سے ایک ساقی تھا اور ایک باورچی ، دونوں اس الزام میں جیل میں ڈالے گئے کہ انہوں نے بادشاہ کو کھانے یا پینے میں زہر دینے کی کوشش کی ، ان دونوں نے جیل میں خواب دیکھا اور یوسف ؑ کو اپنا اپنا خواب بیان کیا اور ان سے ان خوابوں کی تعبیر پوچھی ، یوسف ؑ نے پہلے ان دونوں کے سامنے اسلام کی بنیادی دعوت پیش کی اور پھر ان کے خوابوں کی تعبیر بتائی جو مذکورہ آیت میں بیان ہوئی ہے ، اور یوسف ؑ کو جس کے متعلق یقین تھا کہ وہ رہائی پانے والا ہے اور بادشاہ کے پاس اپنی سابقہ خدمت پر بحال ہونے والا ہے تو یوسف ؑ نے بادشاہ کے پاس اپنا تذکرہ کرنے کو کہا تھا جو اسی سورۃ کی آیت ۴۲ میں مذکور ہے ، اس آیت میں بھی دو جگہ رب کی نسبت بادشاہ مصر کی طرف کی گئی ،
فرمان باری تعالیٰ ہے :
وَ قَالَ لِلَّذِیْ ظَنَّ اَنَّہ‘ نَاجٍ مِنْھُمَا اذْکُرْ نِیْ عِنْدَ رَبَّکَ فَاَنْسٰہُ الشَّیْطَانُ ذِکْرَ رَبِّہِ فَلَبِثَ فِی السِّجْنِ بِضْعَ سِنِیْنَ . (یوسف :۴۲)
’’ اور کہا (یوسف نے اس سے ) جس کے متعلق گمان تھا کہ یہ دونوں میں سے رہائی پانے والا ہے میرا تذکرہ کرنا تیرے رب یعنی بادشاہ کے پاس پس بھلا دیا اس کو شیطان نے اس کے رب یعنی بادشا ہ کے پاس تذکرہ کرنے سے پس ٹھہرے (یوسف) جیل میں چند سال۔‘‘
اسی سورت کی آیت ۵۰ میں بھی رب کی نسبت بادشاہ مصر کی طر ف کی گئی ہے ، ارشا د ربانی ہے : فَلَمَّا جَآ ءَ ہُ الرَّسُوْلُ قَالَ ارْجِعْ اِلٰی رَبِّکَ (یوسف : ۵۰)
’’ پس جب بادشاہ کا قاصد رہائی کا پیغام لے کر یوسف ؑ کے پاس آیاتو یوسف ؑ نے اس سے کہا لوٹ جا تیرے رب یعنی بادشاہ کی طر ف ۔‘‘
مذکورہ تینوں آیات میں بادشاہ کو رب کہا گیا ہے اس لئے کہ لوگ اس کو مطلق حلال و حرام کا مالک سمجھتے تھے اور اللہ کے سوا کسی کو حلال و حرام کا مالک سمجھ لینا اس کو رب ما ن لینا ہے اور اسلام کا سب سے پہلا مطالبہ یہی ہے کہ اللہ کے علاوہ کسی کو رب نہ بنایا جائے اور یہی پیغام قرآن کی سب سے پہلی نازل ہونے والی آیت میں ہے ۔
اسی طرح سورہ نازعات آیت ۲۴ میں فرعون کا جو دعویٰ بیان کیا گیا ہے اس سے بھی یہی واضح ہوتا ہے کہ لفظ رب عربی میں مطلق حکمراں اور قانون ساز کے لئے استعمال ہوتا ہے ،
چنانچہ فرمان باری تعالیٰ ہے :
فَقَالَ اَنَا رَبُّکُمْ الْاَعْلٰی (نَزِعٰت :۲۴)
جب موسیٰؑ نے فرعون کو اللہ کے رب ہونے کی دعوت دی تو اس نے دعوت کو جھٹلایا اور قوم کو جمع کیا اور اس کے سامنے اعلان کیا کہ میں تمہارا ربِ اعلیٰ ہوں ، چوں کہ وہ اپنے آپ کو قوم کا مطلق حکمراں اور قانون ساز سمجھتا تھا اس لئے اس نے رب اعلیٰ ہونے کا اعلان کیا ۔
سورہ توبہ کی آیت ۳۱ سے بھی واضح ہوتا ہے کہ اللہ کے علاوہ کسی اور کو مطلق قانون ساز بنا لینا اس کو رب بنا لینے کے معنی میں آتا ہے ، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے سورہ توبہ کی آیت میں ۳۰؍ ۳۱ میں یہودو نصاری کے چند جرائم بیان فرما کر ان پر لعنت کی ان جرائم میں سے ان کا ایک جرم یہ بیان کیا کہ انہوں نے اپنے عالموں اور عابدوں کو رب بنا لیا ۔ ارشاد ربانی ہے :
قَاتَلَ ھُمُ اللّٰہُ اَنّٰی یُوْفَکُوْنَ اِتَّخَذُوْا اَحْبَارَھُمْ وَرُھْبَانَھُمْ اَرْبَاباً مِنْ دُوْن اللّٰہِ(توبہ : ۳۰۔۳۱)
’’ اللہ تعالیٰ ان کو یعنی یہو دو نصاریٰ کو ہلا ک کرے وہ کہاں پھرے جا رہے ہیں، انہوں نے اپنے عالموں اور عابدوں کو رب بنا لیا اللہ کے علاوہ ۔‘‘
مذکورہ آیت کی تفسیر میں ایک حدیث رسول ﷺ بھی ہے جو یہاں پیش کی جار ہی ہے :
عَنْ عَدِیْ بْنِ حَاتِمٍ قَالَ اَتَیْتُ النَّبِیَّ ﷺ وَ فِیْ عُنُقِی صَلِیْب’‘ مِنْ ذَھَبٍ فَقَالَ یَاعَدِیُّ اِطْرَحْ عَنْکَ ھٰذَا الْوَثْنُ وَ سَمِعْتُہ‘ یَقْرَءُ فِی سُوْرَۃِ بَرَاَۃِ اِتَّخَذُوْا اَحْبَارَھُمْ وَرُھْبَانَ ھُمْ اَرْبَاباً مِّنْ دُوْْنِ اللّٰہِ فَقَالَ اَمَا اِنَّھُمْ لَمْ یَکُوْنُوْا یَعْبُدُوْنَھُمْ وَ لکِنَّھُمْ کَانُوْا اِذَا اَحَلُّوْا لَھُمْ شَیْئاً اِسْتَحَلُّوْہُ وَاِذَا حَرَّمُوْا عَلَیْھِمْ شَیْئاً حَرَّمُوْہُ۔ (ترمذی جلد دوم)
’’حضرت عدی بن حاتمؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور میری گردن میں سونے کا ایک صلیب تھا ، پس آپ ﷺ نے فرمایا ، اے عدی ! اس بت کو تیری گردن سے پھینک دے، اور میں نے آپ کو سنا آپ ﷺ سورہ برات پڑھ رہے تھے انہوں نے یعنی یہود و نصاری نے اپنے عالموں اور عابدوں کو رب بنا لیا اللہ کے سوا ، پس آپ ﷺ نے فرمایا وہ ان کی عبادت نہیں کرتے لیکن جب وہ ان کے لئے کوئی چیز حلال کرتے تو وہ حلال سمجھ لیتے اور جب وہ ان پر کوئی چیز حرام کرتے تو اس کو حرام سمجھ لیتے۔ ‘‘
مذکورہ حدیث سے بھی یہ بات واضح ہوئی کہ اللہ کے علاوہ کسی اور کو مطلق حلال وحرام کا مالک و مختار سمجھنا اس کو رب بنالینا ہے ساتھ ہی اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی مسلمان کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اللہ کے علاوہ کسی اور کو مطلق حلال و حرام کا مالک سمجھے چاہے وہ بڑے سے بڑا عالم ہو یا بڑے سے بڑا بادشاہ ہو، لیکن یہ المیہ ہی ہے کہ یہودی نصاریٰ جس طرح اپنے عالموں اور عابدوں کو حلال و حرام کا مالک سمجھنے کی گمراہی میں مبتلا تھے ، آج وہی گمراہی امت مسلمہ کے بیشتر افراد میں آچکی ہے ، چنانچہ اس وقت امت مسلمہ کے بے شمار افراد اپنے علماء و مشائخ کی حلا ل کردہ چیزوں کو حلال سمجھتے ہیں اور حرام کردہ چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں چاہے وہ اپنی حلال و حرام کردہ چیزوں پر قرآن وحدیث کی دلیل پیش کریں یا نہ کریں اور غور کیا جائے تو اس سلسلہ میں امت مسلمہ کی اکثریت یہودو نصاری سے دو قدم آگے نظر آتی ہے کیوں کہ یہودو نصاری تو صرف اپنے عالموں اور
عابدوں کو حلال و حرام کا مالک سمجھتے تھے ، لیکن امت مسلمہ کی اکثریت اپنے سیاسی لیڈروں کو بھی حلال و حرام کا مالک سمجھتی ہے ، جن کے پاس نہ دین کا علم ہے اور نہ دینی عبادات سے ان کا کوئی تعلق ہے ۔
اور مزید ستم ظریفی یہ کہ بہت سے مسلمان خود اپنے ووٹوں سے ان سیاسی لیڈروں کو حلال و حرام کا اختیار دیتے ہیں،اسلام نے اللہ کی حکمرانی و قانون سازی کو اپنے ماننے والوں پر ایسے لازم و ضروری قرار دیا کہ اس سلسلہ میں کوئی نرمی اور گنجائش باقی نہیں رکھی ، جیسا کہ آج بہت سے مسلمان اسلام کی مغلوبیت کا بہانہ بنا کر باطل کی حکمرانی اور قانون سازی کو جواز کا درجہ فراہم کر رہے ہیں ، جب کہ دین اسلام نے اللہ کی حکمرانی اور قانون سازی کی بات اس وقت کہی جب دین اسلام مغلوب ہی نہیں اجنبی تھا اور اس کی پہلی آیت میں کہی جس کی تکمیل کا اعلان تئیس (۲۳) سال بعد ہوا ، چنانچہ اللہ کے رسول ﷺ نے نبوت ملنے کے بعد اللہ کے علاوہ کبھی کسی کی حکمرانی اور قانون سازی کو تسلیم نہیں کیا ، اور نہ مکی دور میں کسی ایمان والے نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کے علاوہ کسی اور کی اطاعت کا قلادہ اپنی گردن میں ڈالا ، جب کہ مکی دور میں مسلمان صرف مغلوب ہی نہیں ہر طرف سے ظلم و ستم کی چکی میں پسے جا رہے تھے ، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اسلام مغلوبیت کے دور میں بھی اپنے ماننے والوں کو اللہ کے علاوہ کسی اور کو مطلق حکمراں او ر قانون ساز ماننے کی اجازت نہیں دیتا ۔
مکی دور کے حوالہ سے حکومت الٰہیہ کے متعلق زیادہ سے زیادہ جو بات کہی جا سکتی ہے وہ صرف یہ کہ مکی دور میں حکومت الٰہیہ کو غلبہ حاصل نہیں ہوا تھا اس لئے اس کی تفصیلی دفعات بھی مکی دور میں نازل نہیں ہوئیں ، لیکن جہاں تک حکومت الٰہیہ کی فکری بنیادکا سوال ہے تو یہ دور مکی کی پہلی ہی آیت میں پڑ چکی تھی اور آنحضور ﷺ اور صحابہ کرامؓ کی دور مکی اور دور مدنی کی پوری جدو جہد اسی فکر کو عملی جامہ پہنانے میں صرف ہوئی ، اور اسلام کا یہی مطالبہ ہر مسلمان سے ہے۔