بچوں کا ادب اور اخلاقی قدریں :- تبصرہ : ڈاکٹر صفیہ بانو .اے.شیخ

Share
ڈاکٹر صفیہ بانو.اے.شیخ

بچوں کا ادب اور اخلاقی قدریں
مصنف : ڈاکٹر سید اسرارالحق سبیلی

تبصرہ : ڈاکٹر صفیہ بانو .اے.شیخ

انسانی معاشرے میں بچوں کی حیثیت باغ میں پھولوں کی سی ہوتی ہے۔ بچے کے لیے ماں کی ممتا سے بڑھ کر کوئی نعمت نہیں ہے۔ ماں اپنے بچے کے آرام و راحت کا خیال رکھنے کی خاطر اپنے آرام کو چھوڑ دیتی ہے ۔ باپ کے دل میں بھی بچے سے محبت ہونا فطری بات ہے ۔

وہ بھی بچے کے کو کسی قسم کی تکلیف ہو کبھی گوارہ نہیں کرتا۔ بچے کے حوالے سے عادل اسیر دہلوی کا یہ قطعہ دیکھیے :
’’ ہے امّی کی آنکھوں کا ستار ا مُنّا
ابّو کی امیدوں کا سہار ا مُنّا
چھوٹا ہے اگر چہ تو ہے کھوٹا بھی بہت
نٹ کھٹ ہے بڑا پیار ا ہمارا مُنّا ‘‘ ۱؂
انگریزی زبان میں ادب کے لیے Literature کا الفظ استعمال کیا جاتا ہے ۔ یہ لفظ انگریزی میں فرانسسی زبان کے واسطے سے لاطینی زبان کے لفظ litteratura (لیٹریٹورا)یعنی سیکھنا کا مترادف ہے۔اس طرح ادب ان تحریروں کا احاطہ کرتا ہے جو اعلیٰ اورمعیاری ہوں ۔لہٰذا بچوں کے ادب سے مراد وہ ادبی سرمایہ ہے جو (۱لف) بچوں کے لیے تحریر کیا گیا ہو،(ب) جو بچوں کے ذہنی معیار کے مطابق ہو۔اس سلسلے میں بچوں کے ادب کے مشہور شاعر جناب شفیع الدین نیّر صاحب فرماتے ہیں:
’’ میں جہاں تک سمجھتا ہوں بچوں کے ادب سے مراد نظم اور نثر کا وہ ذخیرہ ہے جو خاص طور پر
بچوں کے لیے لکھا گیا ہویا اپنی معنویت اور افادیت کے اعتبار سے بچوں کے لیے موزوں
ہو۔ یوں سمجھیے کہ جو ادب چار پانچ سال کی عمر سے لے کر تیرہ چودہ برس تک کی عمر لے لیے
مخصوس ہو اسے بچوں کے ادب سے تعبیر کرسکتے ہیں ‘‘ ۲؂
ڈاکٹر مشیر فاطمہ ’ بچوں کے ادب کی خصوصیات ‘ نامی اپنی کتاب میں لکھتی ہیں :
’’ آج سائنس کے زمانے میں ہم بچے کو دوسری چیزوں کی طرح ناپنے لگتے ہیں ۔ اس کی
صلاحیت ، اس کی ذہانت اور اس کا ذخیرۂ الفاظ ناپتے ہیں اور پھر ہم اس حساب سے اس
کو پڑھنے کے لیے کتابیں تجویز کرتے ہیں ۔ مگر ہم بچے کے تجّسس کے اس جوش کو بھو ل
جاتے ہیں ، جس کی کوئی حس نہیں ہے ۔ سائنس کی ناپ تول کی دنیا میں ہم بچے کی ان داخلی
صلاحیتوں کو نظر انداز کردیتے ہیں جو کسی عمر اور ترقی کے پیمائش کی پابند نہیں ہیں۔ ‘‘ ۳؂
ماں کی گود بچہ کی اوّلین درس گاہ ہے۔ اسی درس گاہ میں وہ اوّلین نثری ادب کے طور پر کہانیاں اور اوّلین شعری ادب کے طور پر لوریاں سنتا ۔ماں کی آغوش میں اسے جو تعلیم و تربیت ملتی ہے اسی پر اس کی زندگی کی عمارت قائم ہوتی ہے ۔ اسی عہد کے نقوش اُس کی رہِ حیات کے میل کا پتھر بنتے ہیں ۔ درس گاہیں بچوں کی تعلیم و تربیت کے سب سے بڑے مراکز ہیں ۔ ان درس گاہوں میں رائج نصابی کتب میں بچوں کے ادب کا ہونا لازمی ہے ۔ اِس کی وضاحت کرتے ہوئے ڈاکٹر سید اسرار الحق سبیلی فرماتے ہیں :
’’ بچوں کا ادب بچوں کی اہم ضرورت ہے ، اگر بچوں کا ادب نہ ہو تو زندگی بے رنگ ہوجائے گی۔ ‘‘ ۴؂
دنیا میں چینی اور انگریزی زبان کے بعد سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان ’اردو ‘ ہے ۔اس کا ادب ، عالمی ادب میں شمار کیا جاتا ہے ۔ جہاں تک بچوں کے ادب کا تعلق ہے ،عالمی سطح پر ہم بہت پیچھے ہیں۔ اس کا سبب بیان کرتے ہوئے ڈاکٹر سید اسرار الحق سبیلی لکھتے ہیں :
’’ ہمارے ملک میں مصنفین ا ور ناقدین کا ایک بڑا طبقہ ہے جو بچوں کے ادب سے متعلق
صحیح شعور نہیں رکھتا ، ان کا سارا زور بڑوں کے ادب پر ہے ، وہ بچوں کے ادب کو معمولی اور
دوسرے درجہ کا ادب خیال کرتا ہے ،اور بچوں کا ادب تحریر کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کرنے
کے بجائے حوصلہ شکنی کرتا ہے ، جس کے نتیجے میں بچوں کا معیاری ادب تحریر نہیں ہوپارہا ہے ۔ ‘‘ ۵؂
کمپیوٹر کے اس دور میں انٹرنیٹ کی بے کراں وسعت رکھنے والی کائنات میں بچوں کے ادب کی ایک بڑی دنیا آباد ہے ۔ انٹرنیٹ جہاں فیض رسانی کا بہت بڑا ذریعہ ہے وہی اس کی ضرر رسانیوں سے بچوں کو آگاہ کرنا نیز ان کی صحیح رہنمائی کرنا لازمی ہے ورنہ بچے جھوٹ بولنا، چوری کرنا، ضد کرنا ،نادانی کرنا ، حماقت کرنا ، شرارت کرنا، بے وقوفی کرنا،بے ہودگی سے پیش آنا ، بے رحمی ، سنگ دلی اوربے وفائی کا اظہار کرنا،جیسے غیر انسانی اور انسانیت سے عاری اختصاصات کے حامل جیتے جاگتے کردار بن جائیں گے۔ان سے نبٹنے کا واحد ذریعہ اخلاقیات کی تعلیم ہے۔جس کے ذریعے بچوں میں اعلیٰ اخلاقی قدریں پیدا کی جاسکتی ہیں ۔ مشکوٰۃ شریف میں ترمذی ، ابو داؤد ، ابن ماجہ ، احمد ، نسائی کے حوالے سے یہ حدیث موجود ہے :
’’ اَفْضلُُ الْجِہٰادِ مَنْ قَالَ کَلِمَۃَ حَقِِّ عِنْدَ سُلْطَانِِ جَاءِرِِ
’’ ظالم بادشاہ کے سامنے حق بات کہنا افضل جہاد ہے ۔ ‘‘ ۶؂
تعلیم کا عام مقصد متوقع ،تبدیلیاں پیدا کرکے ایک عام انسان کو انسانِ کامل بنانا ہے ۔اس کام کے لیے بچوں کے ادب سے ایسی منظوم اور نثری تحریریں منتخب کرنی ہوں گی جن کی تعلیم کے نتیجے میں بچے رذائل اخلاق سے پاک ہو تے چلے جائیں،اور اخلاقِ حسنہ سے آراستہ ہوتے چلے جائیں۔بچوں میں نیک اخلاق پیدا کرنے کی ذمہ داری سب سے پہلے والدین کی ہے اُس کے بعد اساتذہ کی ہے۔گھر کا با اخلاق ماحول بچے کو صالح بناتا ہے ۔ اسکول میں اساتذہ کی تعلیم و تربیت اُس پر سونے پر سہاگے کا کام کرتی ہے ۔ ڈاکٹرسیّد اسرالحق سبیلی ُ سنِ اخلاق کی اہمیت کو ان الفاظ میں واضح کرتے ہیں :
’’ اخلاقی تعلیمات تمام آسمانی مذاہب اور پیشوایان مذاہب کی مشترکہ جدوجہد ، افکار اور
اعمال کا خلاصہ ہیں اور جن پر ہر زمانے میں تہذیب و تمدن کی بنیاد اُستوار کی گئی ہے ۔ ‘‘ ۷؂
بچوں کی اخلاقی قدروں کے حوالے سے اختر حسین اختر ؔ اپنے ایک مضمون ’ آداب و اخلاق کی اہمیت ‘ میں یوں رقم طراز ہیں :
’’ ہم انسان یعنی حیوانِ ناطق ہیں ۔ اللہ نے ہماری تعلیم و تربیت کے لیے انبیاء و مرسلین
مبعوث فرمائے ۔ زندگی کالائحۂ عمل طے کردیا ۔ ہدایت کا معقول انتظام کردیا ۔ قرآن
، زبور ، توریت اور انجیل جیسی آسمانی کتابوں کے ذریعے آداب زندگی کی تعلیمات اور
دستورِ زندگی پیش کیا ۔’’ وَ اِنِّکَ لَعَلیٰ خُلُقِِِِ عَظِیمِِِِ ( ترجمہ : اے محبوب ! بے شک
آپ (ﷺ) بلند اخلاق کی عظمتوں والے ہو:قرآن ،پارہ نمبر ۲۹ ، سورہ القلم ۶۸ ،آیت
نمبر ۴، ) کا اظہار کرکے ہمیں سمجھا دیا کہ اپنے اخلاق کو میرے محبوب کی عملی زندگی کے مطابق
ڈھالتے چلے جاؤ تمہارے اخلاق ’ حسنِ اخلاق ‘ کا آئینہ دار بن جائیں گے ۔ ‘‘ ۸؂
تعلیم کا اہم مقصد بچہ کی ہمہ گیر ترقی کرنا ہے ۔ لہٰذا بچوں کے تعلیمی نصاب میں بچوں کے ادب سے ان تحریروں کو منتخب کرنا اور شامل کرنا لازمی ہوجاتا ہے جن کی تعلیم و تدریس کے بعد بچے اُن تمام اخلاقی قدروں سے متصف ہوں جو انہیں آگے چل کر ایک کامل انسان بنا سکیں۔اخلاقی قدروں کا موضوع اس قدر وسیع ہے کہ اس پیش کردہ مقالہ میں اُس کا مکمل احاطہ ناممکن ہے ۔لہٰذا میری کوشش یہی رہے گی کہ بچوں کے ادب سے اخلاقی قدروں کی منتخب مثالیں پیش کرکے اپنے مقالہ کے موضوع کی تکمیل کروں ۔
* اخترحسین اخترؔ کے شعری مجموعے ’ سخن کا سفر ‘ میں شامل ’ عیدِ قرباں ‘ نامی اس نظم کو توجہ سے سنیے :
عید قربانیوں کی آئی ہے
مہر و اُلفت سجا کے لائی ہے ‘‘۹؂
اس نظم کی ابتداء ہی میں دو اخلاقی قدروں (۱) مہریعنی رحم ، ہمدردی: Sympathy ا ور (۲) اُلفت یعنی عشق و محبت : Accustom & Loveکا ذکر ہے ۔پہلے بند میں شاعر نے دشمنی حسد اور کینا جیسی برائیوں سے اپنے دل دماغ اور سینے کو پاک کر لینے کی بات کہی ہے۔ دوسرے بند میں Greatness یعنی بزرگی ، بڑائی ، برتری ، بلندی اور تمکنت پانے کے لیے عدل پرور ، صالح ، عدل گُستر اور ناصح بننے کا مشورہ دیا گیا ہے ۔ تیسرے بند میں اللہ کے صالحین بندوں کے نجات پانے کے دو بڑے گُر بیان کیے ہیں (۱) بُغض و عناد کا قتل کرنا (۲)ہر فتنہ اور فساد کو ختم کرنا ۔ چوتھے بند میں دو اخلاقی قدروں کا ذکر کیا گیا ہیں(۱) Enmity بیر یعنی دشمنی کا نتیجہ بُرا ہوتا ہے ۔(۲) Boon خیر یعنی بھلائی کرنے کا نتیجہ اچھا ہوتا ہے ۔ جس سے امن بھی حاصل ہوتا ہے اور ہر طرح کی خصومت یعنی عداوت اور دشمنی سے رہائی ملتی ہے ۔ پانچویں بند میں (۱) بد دماغی (۲) بد زبانی جیسی بُری خصلتوں کی نا پسندیدگی واضع کی گئی ہیں اور نیک چلنی Chastity & Moralityجیسی اخلاقی قدر وں کو اپنانے کی بات کہی گئی ہیں۔ چھٹّے بند میں (۱) دل کے داغوں یعنی صدموں : Bereavements اور (۲)دل کے زخموں یعنی رنجشوں: Resentments کا ذکر کیا گیا ہیں جن کا ازالہ مہر و اُلفت ہی سے ہوسکتا ہے ۔ ساتویں بند میں (۱) دل پذیری کے گیتوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے جو (۱) Heartsore
یعنی دل گرفتہ (۲) Inconsolable یعنی دل شکستہ ہونے سے ہمیں محفوظ رکھتے ہیں ۔ آٹھویں بند میں علم کی اہمیت اور دورِ حاضر میں اس کی قدر و منزلت پر زور دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ہمیں علم کی قدر کرنی چاہیے اور اپنے خالی ذہنوں کو علم کے خزانوں سے بھرنا چاہیے ۔ دور حاضر کی یہی دہائی ہے ۔آخری بند میں قربانی اور ایثار & Devotion Sacrifice کی حقیقت کو بیان کیا گیا ہے یعنی قربانی کا اصل مقصد ہر ،شر کو ، ہر بدی کو ،اور ہر برائی کو ذبح کرنا ہے ۔اگر ایسا کرنے میں ہمارے بچے کامیاب ہوئے تو وہ ضرور اپنی مراد کو پہنچے گئے یعنی وہ ضرور کامل انسان بن جائیں گے ۔
اردو زبان میں بچوں کے لیے اصلاحی نظم لکھنے والوں میں تلوک چند محرومؔ کا نام قابلِ ذکر ہے ۔ ’’ ہم ہر گز جھوٹ نہ بولیں گے ‘‘ نامی اُن کی نظم کا یہ پہلا بند دیکھیے :
’’ جس بات پہ ہم منہ کھولیں گے
سچ جھوٹ کو پہلے تولیں گے
سچے رستے پہ ہولیں گے
کیوں جھوٹے موتی رولیں گے
ہم ہر گز جھوٹ نہ بولیں گے ‘‘ ۱۰؂
اس اشعارمیں بچوں کو جو اخلاقی تعلیم دی جارہی ہے ۔وہ یہ (۱) جس بات کو بیان کرنے کے لیے منہ کھولنا ہے وہ بات سچ ہے یا جھوٹ پہلے اُسے تولنا ہے ۔(۲) ہمیں سچے راستے پر چلنا ہے یعنی ہمیشہ سچ بولنا ہے ۔ (۳) کہوں جھوٹے موتی رولیں گے یعنی ہم کھی بھی غلط بیانی نہیں کریں گے ۔ (۴) ہم ہر گز جھوٹ نہ بولیں گے یعنی ہم ہر حال میں صرف سچ بولیں گے ۔تلوک چند کے جھوٹ نہ بولنے کی اس اخلاقی قدر کو اردو ادب کے بچوں کے ہر دلعزیز شاعر مولانا اسماعیل میرٹھی نے اپنی ایک نظم میں اپنے مخصوص انداز میں ہوں پیش کیا ہے :
’’ جس کو سچ بولنے کی عادت ہے
وہ بڑا نیک با سعادت ہے
وہی دانا ہے جو کہ سچّا
اس میں بڈّھا ہو یا کوئی بچہ
ہے برا جھوٹ بولنے والا
آپ کرتا ہے اپنا منہ کالا ‘‘ ۱۱؂
اسماعیل میرٹھی کہتے ہیں کہ جس کو سچ بولنے کی عادت ہے وہ بڑا نیک یعنی Good اور با سعادت یعنی خوش نصیب ہے ۔ صرف وہی دانایعنی Wise ہے جو کہ سچّا ہے اگر چہ وہ عمر کے لحاظ سے بوڑھا ہو یا بچہ ہو ۔ جھوٹ بولنے والا سب کی نظروں میں بُرا یعنیBed ہوتا ہے۔ آپ کرتا ہے اپنا منہ کالا کرتا ہے یعنی وہ خود ہی اپنے آپ کو رُسوا اور بدنام کرتا ہے ۔ ڈاکٹر علامہ سر محمد اقبال کی کوئی نہ کوئی نظم بچوں کے نصابی کتب میں ہمیشہ نظر آتی ہے اقبال ؔ بیسویں صدی کے سب سے ممتاز شاعر تھے ۔وہ بچوں کے مستقبل سے کبھی غافل نہیں رہے انہوں نے بچوں کو قوم کے معمار جانا اور ان کی سیرت سازی کے لیے کئی نظمیں لکھیں ۔ ان کی ایک نظم ہے ایک پہاڑ اور گلہری ۔ان کے اشعار کو پر توجہ فرمائیے :
’’ کوئی پہاڑ یہ کہتا تھا اِک گلہری سے
تجھے ہو شرم تو پانی میں جاکے ڈوب مرے
’’ ذرا سی چیز ہے اُس پر غرور کیا کہنا
یہ عقل اور یہ سمجھ یہ شعور کیا کہنا

ہر ایک چیز سے پیدا خدا کی قدرت ہے
کوئی چھوٹا کوئی بڑا یہ اُس کی حکمت ہے
بڑا جہان میں تجکو بنادیا اُس نے
مجھے درخت پہ چڑھنا سیکھا دیا اُس نے

جو تو بڑا ہے تو مجھ سا ہنر دکھا مجھ کو
یہ چھا لیا ہی ذرا توڑ کر دکھا مجھ کو
نہیں ہے چیز نکمی کوئی زمانے میں
کوئی بُرا نہیں قدرت کے کارخانے میں ‘‘ ۱۲؂

یہ نظم امریکی فلسفی اور شاعر رالف والڈو ایمرسن Ralph Waldo Emerson ( 1803-1882) کے کلام سے ماخوذ ہے ۔ پہلے دو شعر میں اقبال نے پہاڑ یعنی بڑی چیز اور گلہری یعنی چھوٹی چیز کے خیالات کو پیش کیا ہے ۔ پہاڑ خود کو بڑا اور گلہری کو چھوٹا یعنی حقیر سمجھ کر کہتا ہے ایک گلہری تو ذرا سی چیز ہے اِس پر بھی تجھے غرور ہے اپنی عقل ، شعور اور سمجھ پر ،حالانکہ میری نظر میں تو حقیر بھی ہے اور اعلیٰ عقل و فہم سے بھی عاری بھی۔ دوسرے دو شعر میں گلہری اپنی بات پیش کرتے ہوئے کہتی ہے ۔ اے پہاڑ ، اے بڑائی مارنے والے ، اے متکّبیر ، اے مغرور ، کسی چیز کا بڑا ہونا یا چھوٹا ہونا یہ اللہ کی حکمت ہے ہر چیز کا خالق اللہ ہے ۔ لہٰذا ہر چیز خدا کی قدرت کا شاہکار ہے ۔ آخری دو شعر میں کائنات کے ہر خود پسندکو اقبال نے منہ توڑ جواب دیا ہے ۔ اُس نے گلہری جیسی بے طاقت سے پہاڑ جیسے خر دماغ رکھنے والے کو چیلینج کیا ہے کہ اگر تو خود کو بڑا سمجھتا ہے تو تو مجھ جیسا ہنر کرکے دکھا دے۔ یہ چھالیا ہی ذرا توڑ کر دکھادے۔ اِس کے بعد اقبال ؔ نے فلسفیانہ نقطہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ زمانے میں کوئی بھی چھز نکمّمی یعنی بے کار نہیں ہے اور اللہ کی اس کائنات میں ہر کوئی اس قادر مطلق کا شاہکار ہے لہٰذا کوئی بھی بُرا نہیں ہے ۔
اقبالؔ کی نظم کے مذکورہ اشعار میں جن اخلاقی قدروں کا درس کا ڈکر آیا ہے اُن میں شرم یعنی Shame ، بے شرمی ، انا یعنی Ego، غرور یعنی Pride ، سائشتگی یعنی Humblenss ، عاجزی یعنی Humility ، ہنر ہائے زیبا یعنی Aesthetics ، نکمّا یعنی Worthless، قابلِ قدر یعنی Worthful ، اچھے بُرے یعنی Good and Bad ، قابلِ ذکر یعنی Mentionable ہیں۔
قومی اردو کونسل برائے فروغ اردو بچوں کے لیے ’ بچوں کی دنیا نامی ‘ ماہنامہ شائع کرتی ہے ۔ اس کے اکتوبر ۲۰۱۷ ء کے شمارے میں سالک جمیل براڑ کی تحریرکردہ کہانی ’ ہمت کی فتح ‘ شائع ہوئی ہے ۔ اس کہانی کا یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیے :
’’ جان لوگی نے ایک دن چھُری سے ڈارھی بناتے بناتے اُکتا جانے کے بعد سیفٹی ریزر
بنانے کا ارادہ کیا ۔ کئی ماہ کی محنت کے بعد سیفٹی ریزر تیار ہوگیا لیکن تجربے کے طور پر
جب جان نے پہلی بار اپنی شیو بنائی تو اُس کا منہ بُری طرح چھِل گیا ۔ اور اُس کی سیفٹی
ریزر کی ایجاد ناکام ہوگئی ۔ سیفٹی ریزر کی ناکامی کے بعد جان لوگی نے ہار نہیں مانی ۔ بلکہ
جوتوں کے لیے ہوا سے بھرے تلے بنانے میں جُٹ گیا ۔ کئی ماہ کی محنت کے بعد اُس نے
ہوا سے بھرے تلے تیار کر لیے ۔ لیکن جب تجربے کے بعد اُس نے خود وہ تلے پہنے تو وہ
پھٹ گئے ۔ اِس ایجادکی ناکامی کے بعد جان کو مایوسی تو ضرور ہوئی لیکن اُس نے ہمت
نہ ہاری اور مصنوعی ہیرے بنانے کی مشین تیار کرنے لگ گیا ۔ مشین تیار ہونے پر جب
اُس نے پہلی بار مشین چلائی تو اُس کے ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے ۔ اور جان لوگی کی یہ ایجاد
بھی ناکام ہوگئی ۔ ‘‘ ۱۳؂
پہلے تو میں آپ کو یہ بتا دینا چاہتی ہوں کہ ٹیلی ویژن کے اِس موجِد کا پورا نام اور اُس کا صحیح تلفُظ بیرڈ جان لوجی Baird, John Logie ( 1888- 1946) ہے ۔ جان لوجی کی اس کہانی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ صبر یعنی Patience ، ہمت یعنی Mettle، محنت یعنی Hard workاور لگن یعنی Affectionسے کام کیے جانے والے ایک نہ ایک دن اپنی منزل کو پا ہی لیتے ہے ۔ کامیابی ایسے ہی عزمِ محکم اور عملِ پیہم والوں ہی کے قدم چومتی ہے۔
ماہنامہ کھلونا (نئی دہلی ) کے نومبر 1967 ء کے شمارے میں بچوں کے ادیب محمد قاسم صدیقی کی کہانی : ’’ احمد ‘‘ چھپی تھی میں اسے اپنے موضوع کی نثری مثال کے طور پر آپ کے سامنے رکھتی ہوں ۔
’’ ۱۷ ؍ اکتوبر کا دن تھا ، اسکول ہال بچوں سے بھرا ہوا تھا ۔ سامنے دائس پر میز پر ایک تصویر رکھی تھی ۔ اس پر کپڑا پڑا ہوا تھا ۔ لیکن پھولوں کا ہار کپڑے کے نیچے سے بھی جھانک رہا تھا ۔ خوب چہل پہل تھی ۔ تھوڑی ہی دیر میں صدر نے کرسی سنبھالی اور جلسہ کی کاروائی شروع ہوگئی ۔ آج طلبا کو اپنے ہی جیسے ایک بچے کی زندگی کے بارے میں نئی نئی باتیں معلوم ہونا تھیں ۔ بچوں کے دل بے چین تھے کہ کار روائی جلد شروع ہو اور وہ اس بچے کی شکل دیکھ سکیں ۔
جلسہ شروع ہوا ۔ایک بچہ ہی صدر تھا ۔تقریر کرنے والے بھی بچے ہی تھے ۔ صدر نے کھڑے ہو کر اپنی تقریر شروع کی اور اس بچے کے بارے میں بتانا شروع کیا ۔ صدر نے کہا ’’ بچو! ہم جس بچے کے بارے میں آج بتا رہے ہیں ،اس کا نام احمد تھا ۔ وہ اپنے ماں باپ کا لاڈلا تھا مگر اس لاڈ پیار کے باوجود ماں باپ دونوں ہی اس کی کڑی نگرانی کرتے تھے۔ وہ کافی بڑا ہوگیا تھا ، مگر اُسے گھر سے نکلنے کی اجازت نہ تھی۔گھر میں اور بھی بہن بھائی تھے۔ ان کے ساتھ ہی کھیلنا اُس کا دستور تھا ۔
’’ ابھی احمد پانچ ہی برس کا تھا کہ اُس کو پڑھنے بٹھادیا گیا،لیکن اُس کو پڑھانے کا کام خود اس کی ماں کے سپرد ہوا تھا ۔ بچہ تیز تھا، اس لیے جلد ہی فارسی اور اردو میں چل نکلا ۔ پڑھنے سے جو وقت ملتا وہ کھیل کی نذر ہوجاتا ۔ کھیل بھی کون سے آنکھ مچولی اور گڑیاں ۔ماں سمجھتی تھی کہ محلے کے گندے بچوں کے ساتھ کھیلنے کے بجائے گڑیاں کھیلنا اس کے لیے کہیں بہتر ہے ۔ اُس سے ہمیشہ کہتیں کہ کوئی کھیل چھُپا کر نہ کھیلو ۔سب لڑکے جو کھیل کھیلیں ، بڑھوں کے سامنے کھیلو۔احمد ہمیشہ وہیں کھیل کھیلتا جنہیں وہ اپنے بزرگوں کے سامنے کھیل سکتا تھا ۔
’’ احمد کی ماں شروع ہی سے اس کی تربیت کی طرف توجہ کر رہی تھیں ۔ احمد کے والد اکبر شاہ کے دربار میں حاضری دیا کرتے تھے اور ہر سال انھیں خلعت ملتا تھا ۔ انہوں نے سوچا کہ ایک مرتبہ احمد کو بھی دربار میں لے جایا جائے ۔احمد کو دربار میں صبح ہی صبح پہنچنا تھا ،مگر وہ سوتا رہ گیا اور دربار کے لیے دیر ہوگئی۔ جب وہ وہاں پہنچا تو بادشاہ انعام و اکرام دے کر اٹھ چکا تھا۔ اُس نے جب احمد کو دیکھا تو رُک گیا اور اُسے اپنے قریب بلایا ۔ دربار کے امراء نے اُسے فوراً سمجھایا کہ بادشاہ اگر دیر سے آنے کی وجہ پوچھے تو بہانہ کردینا اور اپنی غلطی کی معافی مانگ لینا ، احمد بادشاہ کے پاس پہنچا تو بادشاہ نے دیر سے آنے کی وجہ دریافت کی ۔احمد نے فوراً سچ سچ کہہ دیا کہ وہ دیر تک سوتا رہا ۔ دربار میں فوراً سنّاٹا چھا گیا ۔ بادشاہ نے کہا ، ’’ تم نے بہانا کیوں نہ بنایا ‘‘ ۔ احمد نے صاف کہا ’ اُس کی ماں نے ہمیشہ اُسے سیکھا ہے کہ سچ بولو ، چاہے جان ہی کیوں نہ چلی جائے ۔ اُس نے بادشاہ سے کہا ’ آپ مجھے سزا دے سکتے ہیں۔ بادشاہ خوش ہوگیا اور اُسے زیادہ انعام دیا ۔
’’ اسی طرح جب وہ گیارہ برس کا تھا ،تو اُسے ایک نوکر پر کسی بات پر غصہ آگیا ، اور بغیر کچھ سوچے ہوئے اُس نے نوکر کے ایک تھپّڑ مار دیا ۔ اس کی خبر جب اس کی ماں کو ہوئی تو وہ غصہ سے آگ بگولا ہو گئیں ۔ احمد جیسے ہی گھر میں گھُسا انہوں نے حکم دیا کہ اُسے گھر سے نکال دیا جائے ۔ وہ اس گھر میں رہنے کے لائق نہیں ہے۔ احمد نکال دیا گیا ۔ احمد کی خالہ اُسے اپنے گھر لے گئیں ۔ تین دن تک وہ چھُپا رہا آخر خالہ اُسے گھر لائیں ۔ اور اُسے معافی دلانا چاہی ، لیکن اس کی ماں نے صاف کہہ دیا کہ پہلے وہ نوکر سے جاکر معافی مانگے ، اگر وہ معاف کردے گا ،تو یہ گھر میں رہ سکتا ہے ۔ آخر احمد نے بوڑھے نوکر سے معافی مانگی تب گھر میں گھُس سکا ۔
’’ احمد کی تعلیم ہوئی تھی لیکن یہ تعلیم موجودہ زمانے کی تمام ضرورتوں کو پورا کرتی تھی۔ اُسے تیرنے اور تیر اندازی کا بڑا شوق تھا۔ رات کو نانا بچوں کو لے کر بیٹھتے اور جو سبق یاد کرکے سناتا اُسے مٹھائی دیتے ۔ سب سے زیادہ مٹھائی احمد ہی کو ملتی ۔ کھانا سب ساتھ کھاتے ، اگر کسی کے ہاتھ سالن میں سَن جاتے تو وہ نکال دیا جاتا ۔ میز پر کھانا کھاتے ہوئے اگر آواز نکلتی تو بھی کھانا نہ ملتا ۔ صفائی کا خاص خیال رکھا جاتا۔
’’ یہ بچہ بڑا ہوا، تو اس نے اور بھی بڑے کارنامے انجام دیے ۔ آئیے اب ہم اس کی تصویر آپ کو دکھائیں ‘‘ یہ کہہ کر صدر نے تصویر سے کپڑا اُٹھا دیا ۔ تمام بچوں نے دیکھا کہ تصویر سرسید احمد خاں کی تھی ۔ وہ سر سید احمد خاں جنہوں نے قوم کو اس قابل بنایا کہ وہ آج سر بلند ہے۔ یہ اسکول جس میں وہ سب پڑھ رہے تھے سر سید ہی کی دین ہے ۔
صدر نے بتایا ’’ سر سید کا جب بچپن ختم ہوا، تو وہ سنجیدہ ہوتے گئے ۔انھیں یہ خیال بہت ستاتا رہتا تھا کہ ملک میں پڑھنے لکھنے کا رواج بہت کم ہے۔ انہوں نے اس کی طرف خاص توجہ دی ۔ اسی زمانے میں وہ انگریزوں کی ملازمت میں چلے گئے ۔ 1857 ء کی آزادی کی پہلی لڑائی میں وہ بجنور میں تھے۔ ماڑے خاں نے انھیں بہت بہکایا اور لالچ دیا ، مگر انہوں نے انگریزوں ہی کا ساتھ دیا ۔ اس کے نتیجے میں انھیں ’ سر ‘ کا خطاب بھی ملا اور وہ سیکڑوں جانے بچا سکے ۔
’’ ان کی زندگی ہمیں بتاتی ہے کہ اگر دنیا میں بڑا بننا ہو تو حرص ، لالچ، خود غرضی ، جھوٹ ، آرام طلبی کو چھوڑنا ہوگا ۔ تعلیم ، تجربہ ، عمل اور سچائی بڑے بڑے کام کرسکتی ہیں ۔ آج علی گڑھ یونیور سٹی ان کے کارناموں کی زندہ مثال ہے، جس کے لیے انہوں نے زمانے بھر کی گالیاں کھائیں ۔ آج سب کو احساس ہے کہ اگر انہوں نے تعلیم عام نہ کی ہوتی تو ہندوستانی کتنے پیچھے رہ جاتے ۔ ‘‘
’’ یہ کہہ کر صدر نے تقریر ختم کی اور ’’ ہال سر سید احمد خاں زندہ باد ‘ کے نعروں سے گونج اٹھا ۔ سچ ہے جو کچھ کرجاتے ہے وہ کبھی نہیں مرتے ۔ ‘‘ ۱۴؂
اس کہانی سے بچوں کے ادب میں اخلاقی قدروں کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے ۔ ماں باپ کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کے نام ’’ اسماء الحسنہ ‘‘ سے منتخب کریں ،یعنی بچوں کے اچھے نام رکھیں ۔ بچوں سے لاڈ پیار ضرور کریں ،لیکن ان پر کڑی نگرانی رکھیں۔ انھیں بری صحبتوں سے بچائیں ۔ انھیں نیک سیرت بچوں اور بڑوں کی صحبت کے فیضان سے مالا مال کریں۔ قر آن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :’’ وَ کُوْنُوْ ا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ : ‘‘
( ترجمہ : اور سچوں کے ساتھ ہوجاؤ) :ْ قرآن ،پارہ نمبر ۱۱ ، سورہ نمبر ۹ التوبہ ، آیت نمبر ۱۱۹ )‘‘ اس کہانی میں انسان کی پہلی درس گاہ یعنی ماں کی آغوش میں تربیت کو نمایا ں طور پر ظاہر کیا گیا ہے ۔ بادشاہ کے سامنے سچ بولنا جان کو خطرے میں ڈالنا ہوتا ہے، لیکن ماں کی تربیت کے سبب بچے میں’’ صِدق ‘‘ Honesty کی اخلاقی قدر اس درجہ رچ بس گئی کہ سچائی اُس کی زبان اور اردے میں سما گئی نیز بچہ کے عزم و عمل سے اُس کا اظہار ہوا ۔ نوکر کے ساتھ بد سلوکی پر ماں کا (۱) رحم نہ کرنا (۲) عدل و انصاف سے کام لینا دونوں بچہ پر نیز اُس کی خالہ پر اثر انداز ہوئے ۔ بچے میں عفو و درگزر Pardon & Forgiveness، برد باری Tolerance ، خاکساری Modesty، خوش کلامیSmooth Spoken ، خود داری Abstention اور استقامت Perseverance جیسی اخلاقی قدریں پیدا ہوئیں ۔ نانا اور دادا جیسے بزرگوں کا بچوں کو مٹھائی دے کر ان کی حوصلہ افزائی کرنا ،ان اخلاقی قدروں کی آبیاری میں بڑا معاون ہوتا ہے ۔کھانا کھانے کے آداب میں (۱) کھانا کھانے سے پہلے ہاتھ دھونا (بقول نبی ﷺ کے فقر کو دور کرتا ہے ) (۲) کھانا کھا لینے کے بعد ہاتھ دھونا ( بقول نبی ﷺ کے جنون اور امراض سے بچاتا ہے ) (۳) با ادب بیٹھ کر اطمینان سے کھانا (۴) اپنے آگے سے کھانا (۵) کھانے کے درمیان فضول باتیں نہ کرنا (۶) کھانا بچا کر نہ اٹھنا یعنی کھانا مکمل طور پر کھا کر اٹھنا (۷) مہمان کے ساتھ کھا رہے ہوں تو مہمان کا ہر طرح سے خیال رکھنا ۔(۸) اتنا کھانا کہ ایک حصہ معدہ غذا سے ،ایک حصہ پانی سے اور ایک حصہ ہوا کے لیے خالی ہو وغیرہ ۔
سر سید احمد خاں کی زندگی سے ہمیں سبق حاصل کرنا ہوگا کہ اگر دنیا میں بڑا بننا ہو تو حرص Greed، لالچ Temptation، خود غرضی Selfishness ، جھوٹ Lie اور آرام طلبی Indolency کو چھوڑنا ہوگا ۔ انسان اپنی تعلیم، اپنے تجربے ، اپنے عمل اور سچائی سے بڑے بڑے کام انجام دے سکتا ہے ۔آج کے معاشرے کو بھی چاہیے کہ وہ تعلیم پر سب سے زیادہ زور دے ۔ ہمارے تعلیمی نظام میں سر سید کے تعلیم و تربیت کے نظر یات کو ترجیح دی جائے ۔ ہمارے درسی نصابات میں بچوں کے ادب میں اخلاقی قدروں کو نہ صرف شامل کیا جائے بلکہ انھیں موئثر اور کار گر بنانے کے لیے ان تعلیمی سرگرمیوں پر بھی زور دیا جائے ،جن سے ہمارے بچے مستقبل کے مکمل انسان بن کر اپنے معاشرے ،اپنی قوم ،اپنے ملک اور سارے عالم کے لیے فاعلِ خیر ثابت ہوں۔
——–
حواشی :
(۱) کتاب کا نام : رنگ برنگ پھول ( بچوں کی رباعیاں حصہ سوم ) : شاعر : عادل ؔ اسیر دہلوی ، اشاعت پنجم : ۲۰۰۸ ء ، ناشر : ملک بُک ڈپو ترکمان گیٹ دہلی، ص : ۲۷
(۲) ماہنامہ : آج کل ، مضمون : بچوں کا ادب از شفیع الدین نیّر ، ( جنوری ) 1978 ء حوالہ ۔۴
بحوالہ : ماہنامہ : : نیا دور( اطفال نمبر )، مضمون : بچوں کے نیّر از نثار اعظمی ، ناشر : محکمہ اطلاعات و رابطہء عامہ اترپردیش ، سن اشاعت: ، نومبر دسمبر 1979 ء ، جلد : ۳۶ ، شمارہ : ۸ اور ۹ ص ۔ ۵۵ سے ۵۶
(۳) کتاب کا نام : بچوں کے ادب کی خصوصیات از ڈاکٹر مشیر فاطمہ : مضمون : بچوں کے ادب کا مسئلہ ،، انجمن ترقی اردو ( ہند) علی گڑھ ،1962 ء ص ۔ ۷
(۴) کتاب کا نام : بچوں کا ادب اور اخلاق ایک تجزیہ : مصنف : ڈاکٹر سید اسرارلحق سبیلی پیش لفظ : ناشر : ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاؤس دہلی ،سن اشاعت ۲۰۱۵ء ص ۔ ۱۳
(۵) کتاب کا نام : بچوں کا ادب اور اخلاق ایک تجزیہ : مصنف : ڈاکٹر سید اسرارلحق سبیلی : پیش لفظ : ناشر : ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاؤس دہلی ،سن اشاعت ۲۰۱۵ء ص ۔ ۱۲
(۶) مشکوٰۃ (مترجم ) : مرتبہ امام ولی الدین محمد بن عبداللہ الخطیبؓ ، ترجمہ مولانا عبدالحکیم خاں اختر شاہجہان پوری ، باب : کتاب الامارۃ و القضاء جلد دوم ، ص ۔ ۱۵۸ ، ناشر : رضا اکیڈمی ، ڈونٹاڈ اِسٹرٹ کھڑک ممبئی ۔ ۹
(۷)کتاب کا نام : بچوں کا ادب اور اخلاق ایک تجزیہ : مصنف : ڈاکٹر سید اسرارلحق سبیلی : مضمون : حسن اخلاق کی اہمیت، ناشر : ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاؤس دہلی ،سن اشاعت ۲۰۱۵ء ص ۔ ۲۰
(۸) کتاب کا نام: گائیڈ رہبر اردو ( درجہ ہشتم ، سمیسٹر ۲ ) از اختر حسین اخترؔ : مضمون : آداب و اخلاق کی اہمیت : ، سرسید احمد خاں ایجوکیشنل اینڈ چیری ٹیبل ٹرسٹ ،2013 ء ، ص ۔ ۷
(۹)کتاب کا نام : سخن کا سفر از اختر حسین اختر ؔ نظم : عید قرباں : ،۲۶ ؍ جنوری 2003 ء ص ۔ ۲۱ سے ۲۲
(۱۰) کتاب کا نام : بہار طفلی ( نظموں کا مجموعہ ) از تلوک چند محروم ، نظم : ہم ہر گز جھُوٹ نہ بولیں گے ، ناشر : مکتبہء جامعہ لمیٹیڈ نئی دہلی ۔ طبع اوّل : ۱۹۶۰ء ص ۔ ۵۴
(۱۱)کتاب کا نام : بچوں کے اسماعیل میرٹھی از حکیم نعیم الدین زبیری ، نظم : سچ کہو ، ناشر : مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ نئی دہلی ۔ سنہ اشاعت : ۲۰۱۳ء سلسلہ ء مطبوعات : ۱۷۴۹ ، ص ۔ ۶۹
(۱۲)کتاب کا نام : کلیات اقبال (اردو ) از اقبالؔ ، ترتیب : بانگ درا ( حصہ اوّل : ۷ : (نظم ): ایک پہاڑ اور گلہری ، نا شر : شیخ نیاز احمد ، شیخ غلام علی اینڈ سنز پبلشرز ادب ماکیٹ ، چوک انار کلی ، لاہور اشاعت سوم : ۱۹۷۷ء ص ۔ ۳۱
(۱۳)ماہنامہ : بچوں کی دنیا ، کہانی : ہمت کی فتح از سالک جمیل براڑ ، ناشر : ڈائرکٹر ، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان جسولہ نئی دہلی ۔ اکتوبر ۲۰۱۷ ء جلد : ۵ ، شمارہ : ۱۰ ، ص : ۳۳
(۱۴) ماہنامہ : رسالہ کھلونا ( لکھنؤ ) کہانی : احمد از محمد قاسم صدیقی ، نومبر 1967ء ص ۔ ۳۷ سے ۳۹
——
Dr. Sufiya Banu A.Shaikh
C- Ground Floor Tajpalace, Kumbharwada
380001.Gujarat , India ,Jamalpur Ahmedabad.
——

Share
Share
Share