محسنِ کائنات رسول اللہ ﷺ کا پیغام
حافظ محمد ہاشم قادری مصباحی
hhmhashim786 @gmail.com
بارہ ربیع الاول کو تشریف فرماہونے والے محسنِ کائنات ﷺ نے انسانوں کے لیے جو دستورِ زندگی دیا وہ صرف دستور کی حد تک نہیں بلکہ آپ نے ایک ایک حکم پر عملی طور پر عمل فرماکر، دستورِ حیات کو نافذ کرکے دکھادیا۔اسی لیے جو کوئی اس دستور کا عملی نمونہ دیکھنا چاہے وہ مصطفی جانِ رحمت ﷺ کی سیرت میں دیکھ لے اور اس کی روشنی میں اپنی زندگی گزارے۔
چناں چہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
{ لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ} [الأحزاب: 21]
بے شک تمہاری رہنمائی کے لیے اللہ کے رسول بہترین نمونہ ہے۔ یہ نمونہ اس کے لیے جو اللہ سے ملنے کی اور قیامت کے آنے کی امید رکھتا ہے اور کثرت سے اللہ کو یاد کرتاہے۔
رسول اللہ ﷺ کی زندگی تمہارے لیے ہر موڑ پررہنمائی کرتی ہے ۔ اسی لیے اللہ نے اپنی مخلوق پر صرف قرآن نازل کرنے پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ اس کی تبلیغ کرنے کے لیے اپنے محبوب کومنتخب فرمایا تاکہ وہ ارشاد خدا وندی پر خود عمل کرکے دکھائیں، ان پر ایمان لانے والے بھی ان کی زندگی کو نمونہ مان کر عمل پیرا ہوں۔
اس وقت دنیا جن حالات سے گزر رہی ہے اور انسانی آبادی ساری ترقیوں اور سہولتوں کے باوجود جن خطرات میں گھری ہوئی ہے، ظلم و زیادتی کی جو گرم بازاری ہے اور انسانی خون پانی کی طرح بہایا جا رہا ہے، مصر ،عراق، ایران، پاکستان ، افغانستان وغیرہ وغیرہ میں خون کی ارزانی ہے اس کا علاج اگر کہیں مل سکتا ہے تو اسی پیغامِ محمدیﷺ کے دستور حیات میں ہے۔
ربیع الاول اسلامی سال کا تیسرا مہینہ ہے۔ تاریخ انسانی میںیہ وہ مبارک مہینہ ہے جس میں حضرت محمد ﷺ اس دنیا میں تشریف لائے۔ آپ کے ذاتی نام احمد اور محمد(ﷺ) ہیں۔ صفاتی نام بہت سے ہیں ۔ مشہور نام ۹۹ ؍ہیں، جن میں سے چند یہ ہیں۔ مصطفی، مجتبیٰ، حامد ، محمود، قاسم، صادق اورامین ﷺ۔ آپ نے فرمایا: میں سید الاولین والآخرین اور خاتم النبیین ہوں۔ اسی لیے آپ کالقب سید المرسلین، افضل الانبیاء اور خاتم الانبیاء ہے۔
۵۷۱ء، بروز پیر بوقت صبح آپ مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے۔بھولی بھٹکی ہوئی انسانیت کے لیے فلاح کی راہ دکھانے والا دستورِ زندگی لے کر آپ تشریف لائے ،جو ہر قوم و ہر ملک کے لوگوں کے لیے نسخۂ اکسیر ہے ۔ اس دستورِ حیات میں نہ کالے گورے کا فرق رکھا گیا نہ عربی و عجمی کا، نہ امیر و غریب کا نہ بادشاہ و فقیر کا۔ کرئہ زمین پر جہاں کہیں بھی انسانی آبادی پائی جاتی ہے یہ دستورِ حیات سب کی رہنمائی کرتا ہے۔
حضور ﷺ نے خطبۂ حجۃ الوداع میں واضح الفاظ میں یہ اعلان فرمایا : اے لوگو! خبر دار ہو جاؤ کہ تمہارا رب ایک ہے اور بے شک تمھارا باپ(حضرت آدم ؈) ایک ہے۔ کسی عرب کو غیر عرب پر اورکسی غیر عرب کو عرب پر کوئی فضیلت نہیں اور نہ کسی سفید فام کو سیاہ فام پر اور نہ سیاہ فام کو سفید فام پر فضیلت حاصل ہے سوائے تقویٰ کے۔آپ ﷺ نے مزید ارشاد فرمایا:
’’ تمام انسان آدم کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے پید اکیے گیےہیں‘‘[احمد بن حنبل، المسندجلد۵، صفحہ۴۱۱، حدیث نمبر۲۳۵۳۶، کنزالعمال، جلد۵ صفحہ۲۹، حدیث نمبر۱۲۳۵۴]
اس طرح اسلام نے تمام قسم کے امتیازات اور ذات پات، رنگ، نسل، جنس ، زبان، حسب و نسب اور مال و دولت پر مبنی تعصبات کو جڑ سے اکھاڑ دیا اور تاریخ میںپہلی بار تمام انسانوں کو ایک دوسرے کے برابر قرار دیا۔ انسانی مساوات کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہوسکتی ہے کہ دنیا کے مختلف ملکوں، نسلوں اور زبانوں سے تعلق رکھنے والے ہر سال مکۃ المکرمہ میں ایک ہی لباس میںملبوس حج ادا کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اسی دستورِ حیات میں عزت و شرف کا معیار امیر و غریباور قوم و قبیلہ کونہیں بلکہ حسنِ کردار ( اخلاق) کو بتایا گیا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمٌْ} [الحجرات: 13]
اے لوگو! ہم نے تمھیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیداکیا اور تمہیں شاخیں اور قبیلے کیا کہ آپس میںپہچان رکھو، بے شک اللہ کے یہاں تم میںزیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیز گار ہے۔القرآن، الحجرات ۴۹/۱۳)
اہم بات یہ ہے کہ پیدائشی لحاظ سے تمام انسان یکساں ہیں۔ انعاماتِ الٰہیہ سے سب انسان نوازے گیے مگر ان کا صحیح اور بر محل؛ استعمال کرکے خدا کا خوف اورتقویٰ حاصل کرنے والا سب سے بہتر و افضل ہے۔
مولاے کائنات علی مرتضیٰ نے فرمایا:’’ شکل و صورت کے لحاظ سے سب انسان برابر ہیں، حضرت آدم؈ ان سب کے باپ اور حوّا سب کی ماں ہیں۔‘‘ اسی تخلیقی برابری کے باعث آدم و حوّا کی سب اولاد آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ الگ الگ قومیں اور جداجدا خاندانوں اور قبیلوں کا مصرف یہ ہے کہ انسانوں کو باہمی تعارف میں آسانی ہو اور ملنے جلنے میں سہولت ہو۔ قبیلے اور قوموں کے ذریعہ فخر و مباہات یا کسی کی تحقیر و تذلیل ہرگز نہیں ہونی چاہیے۔ اسلام نے بھید بھاؤ کی خاردار جھاڑیوں کو کاٹ کر پھینک دیا ہے۔لیکن آج ترقی یافتہ کہلانے کے باوجود سار ی دنیا خاص کر مغربی ممالک میں یہ عصبیت مضبوط سے مضبوط تر ہوتی جارہی ہے۔طاقتور ممالک غریب اور مفلس علاقوں کو آج تک اسی طرح ظلم و ستم کا نشانہ بنائے ہوئےہیں، جس طرح بڑی مچھلی چھوٹی کو لقمہ تر سمجھ کر ہڑپ کر جاتی ہے۔ جس طرح امریکہ کی سرزمین پر انسانوں کے جسم میںخون ہے اور وہاں کے انسان قابلِ قدر ہیں، بالکل اسی طرح باقی دنیا فلسطین، ویتنام ، افغانستان، مصر ، لیبیااور افریقی ممالک وغیرہ کے انسان بھی قابلِ عزت ہیں۔
بارہ ربیع الاوّل کو پیدا ہونے والے محسنِ کائنات ﷺکا پیغام ماننا ہی دنیا کی ساری قوموں کے لیے نسخۂ کیمیا ہے۔ اس میں مرد وعورت، بوڑھے ، جوان ، کنبہ و خاندان اور حاکم و محکوم سبھی کے لیے آرام و راحت اور سکون و اطمینان کا سامان ہے۔ اور اس کا عملی نمونہ بھی خلافت راشدہ کے زمانے میں پورے ۳۶؍سال تک دنیا دیکھ چکی ہے اور اس کا میٹھا پھل بھی کھا چکی ہے۔ آپ ﷺ کی عطا کردہ تعلیم سے نسلی و قبائلی برتری کے تمام بت پاش پاش ہوگیے ۔ یہ مساواتِ اسلامی زندگی کے ہر گوشے میں نظر آتی ہے۔ بارہ ربیع الاوّل شریف کو آنے والے رسول اللہ ﷺ نے انسانوں کے لیے جو دستورِ حیات دیا وہ صرف دستور کی حد تک نہیں رہا بلکہ اللہ کے رسولﷺ نے اس کے ایک ایک حکم پر عمل کرکے ، نافذ کرکے دکھا دیااور حکم دیا کہ اسوئہ رسول پر چل کر زندگی گزارو۔
اخلاق و شمائل رسول اللہ ﷺ:
آپ ﷺ کا فرمان ہے:’’ اِنَّمَا بُعِثْتُ لاُِتَمِّمَ مَکَارِمَ الْاَخْلَا ق‘‘
میری بعثت اس لیے ہوئی کہ میں اخلاق کی تعلیم کو مکمل کروں۔
رسول اللہ ﷺ کے اخلاق عالیہ ، اوصاف جمیلہ اور حلیہ مبارک ، اوصافِ کریمہ اور فضائلِ شریفہ کا ذکر صحابیِ رسول ہند ابی ہالہنے (جو ام المومنین حضرت خدیجہ کے فرزند اور حضرت حسن و حسین؆کے ماموں ہیں) آپ کو اوصاف النبی(حضور کے اوصاف بتانے والے) بھی کہا جاتا ہے،بہت جامع اور بلیغ انداز میں کہاہے۔ ان کے الفاظ یہ ہیں:
’’آپ ﷺ طبعاً بدکلامی اور بے حیائی و بے شرمی سے دور تھے اور تکلفاً بھی ایسی کوئی بات آپ سے سرزد نہیں ہوتی تھی۔ بازاروں میں آپ کبھی آواز بلند نہ فرماتے، برائی کا بدلہ برائی سے نہ دیتے، بلکہ عفو درگزر کا معاملہ فرماتے۔ آپ نے کسی پر کبھی دست درازی نہ فرمائی سواے اس کے کہ جہاد فی سبیل اللہ کا موقع ہو، کسی خادم یا عورت پر آپ نے کبھی ہاتھ نہیں اٹھایا۔ ہند ابی ہالہ عرض کرتے ہیں : میں نے آپ کو کسی ظلم و زیادتی کا انتقام لیتے ہوئے بھی نہ دیکھا جب تک کہ اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود کے خلاف ورزی نہ ہو اور حدود اللہ کی حرمت و ناموس پر آنچ نہ آئے۔ ہاں، اگراللہ تعالیٰ کے کسی حکم کو پامال کیا جاتااور اس کے ناموس پر حرف آتا تو آپ ہر شخص سے زیادہ غصہ فرماتے۔ دو چیزیں سامنے ہوتیںتو ہمیشہ آسان چیز کا انتخاب فرماتے۔ جب اپنے دولت خانہ پر تشریف لاتے تو اپنے کپڑوں کو صاف فرماتے، بکری کا دودھ دوہتے اور اپنی ضرورتیں خود انجام دیتے، اپنی زبان مبارک محفوظ رکھتے، صرف اور صرف اسی چیز کے لیے کھولتے جس سے آپ کو کچھ سروکار ہوتا۔ لوگوں کی دلداری فرماتے اور ان کو متنفر نہ کرتے۔
سیرت محمدی ﷺکا پیغام:
آپ ﷺ ہر وقت آخرت کی فکر میں اور امورِ آخرت کی سوچ میں رہتے، اس کا ایک تسلسل قائم تھا کہ کسی وقت آپ کو چین نہیں ہوتا تھا۔ غلاموں سے بھی محبت کا سلوک فرماتے ۔ آپ مدینہ منورہ کے بازار میں تشریف لے گیے ۔ وہاں ملاحظہ فرمایا کہ ایک غلام یہ کہہ رہا ہے کہ جو مجھے خرید ے وہ مجھے حضور ﷺ کے پیچھے پنج گانہ نماز سے نہ روکے۔ اسے ایک شخص نے خریدلیا۔ کچھ دنوں کے بعد وہ غلام سخت بیمار ہوگیا ۔ اللہ کے رسول ﷺ اس کی تیمار داری کو تشریف لے گیے پھر اس کی وفات ہوگئی تو حضور اس کے دفن میں شریک ہوئے ۔ اس پر بہت سے لوگوں نے حیرانی کا اظہار کیا کہ غلام اور اس پر اتنا انعام۔ آپ کے اخلاقِ کریمانہ پر یہ آیت نازل ہوئی:
{ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ} [الحجرات: 13]
ترجمہ: تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں متقی پرہیزگارہو ۔
ہند بن ابی ہالہ فرماتے ہیں:آپ ﷺ اکثر طویل سکوت اختیار فرماتے ، بلا ضرورت کلام نہ فرماتے، آپ کی گفتگو اور بیان بہت صاف ، واضح اور دو ٹوک ہوتا، نہ اس میں غیر ضروری طوالت ہوتی نہ زیادہ اختصار۔ آپ نرم مزاج و نرم گفتار تھے، درشت اور بے مروت نہ تھے۔ آپ کسی کی اہانت نہ کرتے اور نہ اپنے لیے اہانت پسند کرتے تھے۔ نعمت کی بڑی قدر کرتے اور اس کو بہت زیادہ جانتے خواہ کتنی ہی قلیل ہو۔ نعمت کی برائی نہ فرماتے۔ دنیا اور دنیا سے متعلق جو چیز ہوتی اس پر آپ کوکبھی غصہ نہ آتا لیکن جب رب العالمین کے کسی حق کو پامال کیا جاتا تو اس وقت آپ کے جلال کے سامنے کوئی چیز نہ ٹھہر سکتی تھی، یہاں تک کہ آپ اس کا بدلہ لے لیتے۔ آپ کو اپنی ذات کے لیے غصہ نہ آتا نہ ہی اپنی ذات کے لیے انتقام لیتے۔جب اشارہ فرماتے تو پورے ہاتھ کے ساتھ اشارہ فرماتے۔ غصہ اور ناگواری کی بات ہوتی تو روے انور اس طرف سے پھیر لیتے اور اعراض فرما لیتے۔ خوش ہوتے تو نظریں جھکا لیتے۔ آپ کا ہنسنا زیادہ تر تبسم تھا جس سے صرف آپ کے دندانِ مبارک ،جو بارش کے اولوں کی طرح پاک وشفاف تھے ، ظاہر ہوتے۔
حضرت علی فرماتے ہیں : آپ ہمہ وقت کشادہ رو اور انبساط و بشاشت کے ساتھ رہتے تھے۔ بہت نرم اخلاق، نرم پہلو تھے۔ نہ سخت طبیعت کے تھے نہ سخت بات کہنے کے عادی ، نہ چلاکر بولنے والے نہ کسی کو عیب لگانے والے، نہ تنگ دل نہ بخیل۔ تین باتوں سے آپ نے اپنے کو بالکل بچا کر رکھا ۔ ایک جھگڑا، دوسرے تکبر اور تیسرے غیر ضروری اور لا یعنی کام۔ لوگوں کو بھی تین باتوں سے آپ نے بچارکھا تھا۔ نہ کسی کی برائی کرتے نہ اس کو عیب لگاتے تھے اور نہ اس کی کمزوریوں اور پوشیدہ باتوں کے پیچھے پڑتے تھے۔ صرف وہ کلام فرماتے تھے جس پر ثواب کی امید ہوتی تھی۔ جب گفتگو فرماتے تو شرکاے مجلس ادب سے اس طرح سر جھکا لیتے تھے کہ معلوم ہوتا تھا کہ ان سب کے سروں پر چڑیا ں بیٹھی ہوئی ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کو لباس و جمال و کمال سے آراستہ فرمایا تھااور آپ کو محبت و دلکشی اور رعب و ہیبت کا حسین و جمیل پیکر بنایا تھا۔ہند بن ابی ہالہ بیان کرتے ہیں: آپ خود دار ،باوقار اور شان و شوکت کے حامل تھے اور دوسروں کی نگاہ میں بھی نہایت پر شکوہ ، آپ کا روے انور چودھویں رات کے چاند کی طرح دمکتا تھا۔
براء بن عازب بیان فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺ میانہ قد تھے۔ میں نے آپ کو ایک مرتبہ سرخ قبا میں دیکھا ،اس سے اچھی کوئی چیز میں نے کبھی نہیں دیکھی۔حضرت ابو ہریرہ بیان فرماتے ہیں کہ آپ میانہ قد تھے ،طول کی طرف کسی قدر مائل، رنگ نہایت گورا،ریش مبارک کے بال سیاہ، دہانہ نہایت مناسب اور حسین، آنکھوں کی پلکیںدراز ، چوڑے شانے۔ آخر میں کہتے ہیں کہ میں نے آپ جیسا آپ کے پہلے یا آپ کے بعد کبھی نہیں دیکھا۔ حضرت انس راوی ہیں کہ میں نے حریر و دیباج کو بھی آپ کے دست مبارک سے زیادہ نرم نہیں پایا۔ نہ آپ کی خوشبو سے بڑھ کر کوئی خوشبو سونگھی۔ اللہ کے رسول ﷺ کے اخلاق و شمائل کا یہ ایک مختصر خاکہ ہے۔ آپ کی سیرت لکھنے کے لیے بڑے سے بڑے دفتر بھی کم پڑ جائیں گے۔