کالم : بزمِ درویش
فارم ہاؤس
پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ای میل:
لاہور بیدیاں روڈ پر میلوں لمبا دنیا کی مہنگی ترین گاڑیوں کا قافلہ آہستہ آہستہ اُس فارم ہاؤس کی طرف بڑھ رہا تھا جہاں پر شہر کے امیر ترین آدمی کے پو تے کی دعوت عقیقہ تھی ‘ آجکل وطن عزیز خاص طور پر شہر لاہور میں دولت مندوں کا یہ بھونڈا وطیرہ بن چکا ہے کہ وہ اپنی شادی بیاہ ولیمے عقیقے کے فنکشن کسی فارم ہاؤس پر کر تے ہیں‘
اِسطرح ایک طرف تو وہ ون ڈش کی پابندی سے آزاد ہو جاتے ہیں دوسرا وقت کی پابندی کا بھی خوف نہیں رہتا ‘ اِس طرح میزبان اپنی امارت کا بھی خوب اظہار کر تے ہیں ‘ وہ فخر یہ طور پر لوگوں کو بتاتے ہیں کہ ہم نے فنکشن فارم ہاؤس میں رکھاہے وہ مغرور انداز میں بتاتے ہیں فلاں فارم ہاؤس پر فنکشن ہے ‘ خوب ناچ گانا اور شاندار کھانوں کا جھرمٹ ہو گا جہاں آپ دنیا جہاں کے مہنگے لذیذ ترین کھا نے خوب جی بھر کر کھا سکتے ہیں ‘ جناب وقت کی بلکل بھی پابندی نہیں ہے آپ آرام سے آئیں فنکشن ساری رات صبح تک چلے گا اور اگر کو ئی زیا دہ ہی دولت مند ہو تو وہ فرعونیت سے گردن اونچی کر کے کہتا ہے میں نے فیملی اوردوستوں کے لیے سو کنال پر مشتمل فارم ہاؤس بنایا ہے اِس فنکشن کے بہانے دوست احباب میرا فارم ہاؤس بھی دیکھ لیں گے پھر یہ دنیا کے مہنگے ترین دعوتی کارڈ ہندوستان کے بڑے ناموں سے تیار کر واتے ہیں پھر فخریہ بتا تے ہیں فلاں ڈیزائینر سے خاص طور پر دعوتی کارڈ بنوایا ہے ایک کارڈ کی قیمت دس ہزار رو پے ہے آجکل جب کو ئی لاہور میں کسی کو اپنے فنکشن پر بلاتا ہے تو مہمان بھی پوچھتا ہے فنکشن شادی ہال ‘ مارکی میں یا کسی فارم ہاؤس پر رکھا ہے اگر میزبان نے فنکشن شادی ہال میں رکھا ہو یعنی فارم ہاؤس پر نہ رکھا ہو تو بیچارہ شرمندہ شرمندہ سا کہتا ہے بڑی کو شش کی لیکن فارم ہاؤس فارغ نہیں تھا اِس لیے مجبوراً شادی ہال میں ہی فنکشن رکھنا پڑا ‘ پھر بیچارہ شادی ہال کی تعریفیں شروع کر دیتا ہے اور شادی ہال میں اول تو لوگ جاتے ہی کم ہیں یا پھر گھر کے کسی غیر اہم بندے کو بھیج دیتے ہیں جبکہ فنکشن اگر فارم ہاؤس پر ہو تو سارے گھر والے میک اپ کی تہوں میں غرق فنکشن پر پہنچ جاتے ہیں کیونکہ اگلے کئی دن مہمانوں نے اپنے دوست احباب کو فارم ہا ؤس کی رنگین ماحول اور عیا شی کی داستانیں سنانی ہو تی ہیں کہ میں معاشرے کا اہم ترین بندہ ہوں ‘ میں شہر میں ہو نے والے ایلیٹ کلاس کے فنکشنوں میں شرکت کر تا ہوں ‘ میں شہر کے اعلیٰ طبقے میں اٹھتا بیٹھتا ہوں جو لوگ ایسے فنکشنوں میں شریک نہیں ہو تے وہ بیچارے احساس کمتری کا شکار ہو تے رہتے ہیں موجودہ دور کہنے کو تو بہت زیادہ با شعور اور ترقی یافتہ ہے لیکن اگر غور سے دیکھا جائے تو موجودہ دور کا انسا ن مصنوعی زندگی گزار رہا ہے ایسی زندگی جو جھوٹی اور مصنوعی ہے صرف دکھاوے کی خوشیاں ہیں‘ باطنی طور پر انسان بانجھ اورتھور زدہ ہو چکا ہے ‘ فارم ہاوسز میں ہو نے والی تقریبات میں میزبان بھی اِس بات کا خیال رکھتا ہے کہ وہ شہر کے با اثر طبقے کو ہی دعوت دے ‘ ہر طبقے کے اہم لوگ سرکاری افسروں سیاستدانوں فلمی اداکاروں دولت مندوں مل مالکان یعنی اِس بات کا خاص خیال رکھا جاتا ہے کہ ہر طبقے کی ایلیٹ کلاس کو ہی بلایا جائے ‘ متوسط اور غریب طبقے کے لوگ یہاں نہیں آسکتے اور اگر کسی متوسط طبقے کے نمائندے کو کسی خاص مجبوری کے تحت بلا ہی لیا جائے تو اُس بیچارے کو نیا وخت پڑ جاتا ہے وہ خاص قسم کے مہنگے کپڑے بنواتا ہے پھر کسی دوست سے یا رینٹ اے کار سے مہنگی کار یا جیپ کرائے پر لیتا ہے پھر بڑی رقم سلامی کے طور پر یا بڑا چیک لفافے میں بندکرکے میزبان کو دے کر اپنی احساس کمتری احساس بر تر ی میں بدلنے کی کو شش کر تا ہے ۔ ایسا مہمان وہاں جا کر شرمندہ شرمندہ سی مسکراہٹ چہرے پر سجا ئے لوگوں سے ملتا پھرتا ہے ایسے چند مہمانوں میں سے کچھ لوگ پھر بد عنوانی کے چکر میں پڑ کر اندھا دھند دولت کمانے کے چکر میں حرام حلال کی تمیز نہیں کرتے ‘ دولت مند بننے ‘ اونچی کلاس کے برابر ہو نے کے لیے پھررشوت ستانی ٹیکس چوری اور غیر قانونی دھندے شروع ہو جا تے ہیں ‘ مہنگی ترین گاڑیوں کی لمبی طویل قطار میں شاید ہماری ہی عام سی کار تھی یقیناًدوسرے مہمان حیرت سے ہما ری کار کی طرف دیکھتے بھی ہونگے کہ یہ غریب ہما رے فنکشن کو خراب کر نے کیو ں آئے ہیں میرا بھی ایسے فنکشنوں میں آنے کا بلکل بھی دل نہیں کر تا اور نہ ہی میری خواہش ہوتی ہے لیکن میزبان کے بیٹے کو کئی سال سے اولاد نہیں ہو رہی تھی ‘ ڈاکٹروں کے بعد حکمیوں بابوں کے چکر میں دھکے کھاتے ہو ئے یہ مُجھ فقیر تک بھی آپہنچے ‘ میں نے اسماء الحسنی بتائے اللہ نے کرم کر دیا مُجھ فقیر کو اللہ نے ہمیشہ کی طرح عزت دی ‘ اب میزبان کی شدید خواہش تھی کہ میں بھی فنکشن میں آؤں جس دوست کے ساتھ یہ لوگ میرے پاس آئے تھے اُسکے ساتھ ہی اب میں شہر کے مہنگے ترین فنکشن میں شامل ہونے کے لیے جارہا تھا ‘ آہستہ آہستہ ہم دیو قامت بہت بڑے سائز کے گیٹ پر پہنچ گئے راستے میں سڑک کنا رے باوردی ملازم مہمانوں کی راہنمائی کرتے نظر آئے ‘ بہت بڑے گیٹ کو پھولوں گجروں پھولوں کی شاخوں سے خوب سجایا گیا تھا اند ر داخل ہو تے ہی لگا جیسے جنت میں آگئے ہیں ہزاروں برقی قمقموں اور پھولوں سے ہال کو سجایا گیا تھا ‘ لگ رہا تھا سارے شہر کے پھول یہیں پر سجا دئیے گئے ہیں‘ چھت پر ہزاروں چھوٹے بڑے فانوس جیسے ستاروں کی کہکشاں زمین پر اُتر آئی ہو ‘ ملازموں کی فوج ‘لڑکیاں لڑکے ‘خوبصورت رنگین وردیوں میں ملبوس مہمانوں کی مہمانداری اور راہنمائی کرتے نظرآرہے تھے ‘ بیرے تھالوں میں سجے فریش جوس کے گلاس مہمانوں کو دلکش مسکراہٹ کے ساتھ پیش کر تے نظر آئے ‘ ایک طر ف چھوٹے سائز کے رنگین خیمے لگا ئے گئے تھے اگر کو ئی فیملی چاہتی ہو تو کسی ایک خیمے میں جاکر بیٹھ جاتی ‘ وہاں پر موجود ملازم اُس کی خدمت پر لگ جاتا ‘ نرم گداز قالین پر نرم گداز آرام دہ صوفے لگائے گئے تھے پنڈال دور تک پھیلا ہوا تھا ‘ مختلف لوگ ‘ سیاستدان‘ بزنس برادری ‘سرکاری بیوروکریٹ ‘ میڈیا کے لوگ ‘ مختلف ٹو لیاں بنا کر خوش گپیوں میں مصروف تھے ‘ فریش جوس کے ساتھ پران مچھلی اورگرما گرم لذیزتکوں سے مہمانوں کی مہمانداری کھل کر کی جا رہی تھی ۔ انسان مصنوعی زندگی کی روشنیوں میں مست اوررنگ رلیوں میں مصروف تھے ‘ میرا ہمیشہ سے ہی ایسی جگہوں سے دم گھٹتا ہے ‘ میں نے خالی گو شہ دیکھا جا کر صوفے میں دبک گیا میرا دوست گیا ‘ جاکر میزبان کو بلا لا یا فخریہ مسکراہٹ اُس کے چہرے پر پھیلی تھی ‘ آتے ہی بولا پروفیسر صاحب آپ کا شکریہ آپ آئے‘ آپ یقینابہت لطف اندوز ہونگے ‘ سٹیج پر مختلف پاکستانی مشہور سنگر دلکش آواز میں گانوں سے مہمانوں کا دل بہلا رہے تھے ‘ میزبان ادھر اشارہ کر کے بولا جناب آئیں آپ کا دل مو سیقی سے بہلا تے ہیں ‘ میں نے انکار کیا تو وہ بولا جناب ایسا فنکشن آپ نے زندگی میں نہیں دیکھا ہو گا میں شکرئیے کے ساتھ پھر صوفے پر بیٹھ گیاتو میزبان دوسرے مہمانوں کی طرف بڑھ گیا ۔ میں حیرت سے موجودہ دور کے دولت مند کو دیکھ رہا تھاجسے یاد نہیں تھا کہ تاریک قبر منہ پھاڑے اُس کی منتظر ہے جو ہڈیوں کا چورہ بنا دیتی ہے پھرمجھے تاریخ اسلام کی عظیم ہستی یاد آگئی حضرت عمر بن عبدالعزیز ؓ جو جب جوانی میں گو رنر مدینہ تھے جو لباس ایک بار پہنتے اسے کبھی دوبارہ نہ پہنتے جس گلی سے ایک بار گزر جاتے تو وہ گلی خو شبو سے مہک جاتی لوگ کہتے یہاں سے عمر بن عبدالعزیزؓ گزرا ہے اور جب خلافت کا بوجھ کندھوں پر آن پڑا تو گردن عاجزی سے سینے کو آلگی ‘ خلا فت کے بعد گھر جا نے لگے تو سواری کے لیے عمدہ نسل کے خچر اور ترکی گھوڑے سامنے لائے گئے اور کہا گیا یہ شاہی سواریاں ہیں جن پر آج سے پہلے کو ئی سوار نہیں ہوا یہ رسم ہے کہ پہلی بار خلیفہ ہی اِن پر سواری کرتا ہے تو عظیم انسان بولا میرے لیے میرا خچر ہی کا فی ہے ‘ سواریوں کو بیت المال میں داخل کردو ۔ شاہی دستور کے مطابق اعلیٰ قسم کے شامیانے لگا ئے گئے اور بتایا گیا یہ نیا خیمہ ہے اسے کسی نے استعمال نہیں کیا ‘ اِس پر پہلی نشست آپ کی ہوگی تو آپؓ بولے انہیں بیت المال میں داخل کرادو ‘ پھر عالی شان قالینوں کو جوتے سے ہٹا کر زمین پر بیٹھ گئے اورفرمایایہ قالین بھی بیت المال میں جمع کرادو ۔ پھر سیکو رٹی گارڈ رکھنے کی باری آئی تو سابقہ سیکو رٹی گارڈ فوری معذول کردیا جو لوگوں کو خلیفہ کے حکم پر سخت سزائیں دیا کرتا تھا پھر عمرو بن مہاجر کوپاس بلایا اور فرمایا میرا اور تمہارا رشتہ صرف اسلام ہے میں نے تمہیں کثرت سے تلاوت قرآن کرتے دیکھا ہے رات کے اندھیروں میں چھپ کر نوافل پڑھتے دیکھا ہے تم نمازاچھی پڑھتے ہو ‘ لو یہ تلوار سنبھالو میں تمہارے جیسے نیک شخص کو اپنا سیکورٹی گارڈ مقرر کر تا ہوں ۔