اردو شاعری بطور محرکِ تحریکِ آزادی
ایک تحقیدی جائزہ
محمد خرم یاسین
ریسرچ اسکالر ۔ فیصل آباد
تاریخِ عالم گواہ ہے کہ دنیا بھر کے سیاسی اور معاشی انقلابات کے محرکات میں شعر و ادب نے ہمیشہ اہم کردار ادا کیا۔دنیاکے وہ ممالک جہاں نثرکے مقابلے میں عوام الناس شاعری کے زیادہ دلدادہ رہے اوریہ ان کی تہذیب و ثقافت کا حصہ بھی بنی، وہاں اس کی اثر آفرینی ہمیشہ زیادہ رہی ۔
برصغیر کی بات کریں تو انگریز کاروباری مقاصد لیے ایسٹ انڈیا کمپنی کی صورت میں یہاں پہنچے لیکن یہاں کی انتظامی بدحالی کو دیکھتے ہوئے انھوں نے منظم طریقے سے اس ’’سونے کی چڑیا‘‘ کو قید کرنے کی کوشش کی جس میں وہ کامیاب بھی رہے ۔ ان کی کامیابی سارے برصغیر کی معاشی و ثقافتی ناکامی ثابت ہوئی ۔چونکہ ہنود پہلے ہی مسلمان بادشاہت کے زیرِ اثرزندگی گزار رہے تھے اس لیے ان کے لیے یہ زیادہ اہم بات نہ تھی کہ اب ان کے نئے آقا کون ہوں گے۔ البتہ مسلمانوں کے لیے یہ معاملہ نہ صرف تکلیف دہ تھا بلکہ ان کی تہذیب و ثقافت کو مٹانے کے مترادف بھی تھا۔یہ معاملہ زیادہ پر اثر تب ہوا جب انگریزوں نے مسلمانوں اور ہندوؤں کے مذہبی جذبات سے کھیلنا اور انھیں مجروح کرنا چاہا جس کے رد عمل کی ایک جھلک ۱۸۵۷ء کی جنگِ آزادی کی صورت میں نظر آتی ہے۔یہ جنگِ آزادی صرف بغاوت نہیں تھی بلکہ انگریزی استعماریت کے مقابل اپنے بقا کی جنگ تھی جس کی لہر برصغیر کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پھیلی ۔اس حوالے سے ممتاز تاریخ دان آئی ایچ قریشی کا بیان ہے کہ اس کے محرکات میں صرف مذہب ہی نہیں بلکہ زندگی کے دیگر سماجی، سیاسی اور معا شی پہلو بھی موجود تھے ۔لکھتے ہیں:
"The rebellion was born out of the widespread unrest in the population. The disaffection was caused by many factors, political, economic, social, religious and military. The unrest was much more intense among the Muslims than amon the Hindus.”(I)
یوں جہاں ایک جانب برصغیر کی عوام انگریزوں کی جانب سے مذہبی مسائل کا شکار ہوئی وہیں ان کی تہذیب و ثقافت جس کا اردو زبان سے گہرا تعلق تھا، وہ بھی خطرے سے دوچار ہوئی۔ یہ زبان سارے برصغیر کے مسلمانوں کا ثقافتی ورثہ تھی۔اسی لیے انگریز نے اردو ہندی تنازعہ کھڑا کرکے ’’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘ کے قانون کا اطلاق کیا جس کے نتیجے کے طور پر ہندو مسلم فسادات بھی برپا ہوئے ۔ اردو اورمسلم ثقافت کے تعلق کے بارے میں پروفیسر امجد علی شاکر لکھتے ہیں:
’’ادب کے دو پہلو ہوتے ہیں ۔ایک انسانی یا بین الاقوامی اور دوسرا قومی۔اردو ادب میں بھی انسانی رخ کے پہلو بہ پہلو قومی رخ نمایاں ہے اور یہ رخ برصغیر کی مسلم ثقافت کا عکاس ہے۔‘‘ (۲)
اس لیے یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ یہ ثقافت کا مسئلہ خود عوام کی بقا ء کا مسئلہ تھا اسی لیے انگریز کے اردو کی جگہ ہندی کوسرکاری طور پر لاگو کرنے کے اقدام سے برصغیر بھر کے باشندے بالخصوص مسلمان سخت متاثر ہوئے ۔ان باشندوں میں اپنی حساس طبیعت کے پیشِ نظر شعراو ادبا نے زیادہ اثر قبول کیا اوریہ اثر رد عمل کے طور پر ان کے قلم سے کبھی نظم اور کبھی نثر کی صورت میں بہنے لگا۔ اس سے اردو شاعری کے مزاج میں ایک بڑی تبدیلی اس کے موضوعات کے حوالے سے آئی۔ اب اس میں روایتی محبوب ، اس سے چھیڑ چھاڑ یا محض زلفِ خمِ جاناں و تصوف کے بیانات کے بجائے مقصدیت پر زور دیا جانے لگا ۔ اسی سبب اردو نظم کو بھی عروج ملا ۔یہاں تک کہ غالب ایسے بڑے شاعر کے کلام میں ۱۸۵۷ ء کی جنگِ آزادی، دہلی کی تباہی اور شاہی دربار کے اجڑنے کی موضوعات شامل ہونے لگے جب کہ ان کے خطوط کا مجموعہ ’’دستبو‘‘ تو اس حوالے سے بالخصوص اہمیت کا حامل ہے۔
ایسی صورتِ حال میں جب کہ لوگوں کی جائیدادیں چھین کر انھیں غلام بنایا جارہا ہو،کاروبارِ زندگی معطل ہوچکا ہو ، ادبا کو توپ کے دہانے پر کھڑا کر کے گولے چلائے جارہے ہوں اور ملک کے کل زرِ مبادلہ پراستعماری قبضہ و تسلط ہوچکا ہو تو شعرا بے مقصد شاعری نہیں کرتے۔یوں جہاں ایک جانب اردو شاعری کو مقصدیت ملی ،وہیں اس کے موضوعات میں تنو ع بھی آیا۔اس حوالے سے اردو کے منظر نامے پر رونما ہونے والی اہم ترین تبدیلیو ں میں تحریک علی گڑھ اور ۱۹۳۶ء میں قائم ہونے والی تحریک انجمن ترقی ادب کو دیکھا جاسکتا ہے جو کہ دراصل استعماریت کے خلاف اعلانِ جنگ تھی۔ اس ادبی تحریک کے تحت جتنے بھی اجلاس ہوئے ان میں اس کی مقصدیت پسندی کا اعادہ بھی ضرورہوتا رہا۔ اس حوالے سے اختر حسین رائے پوری کا یہ بیان ملاحظہ کیجیے:
’’اگر ہم ترقی پسند ہیں اور ہمارا ادب اپنے فرض کا پابند ہے تو ہمیں اس جنگ میں عملی حصہ لینا ہے۔‘‘(۳)
ڈاکٹر شفیعہ قادری نے ان دونوں تحاریک میں سرسیداحمد خان کی تحریکِ علی گڑھ کو اول اور انجمن ترقی ادب کی تحریک کو اسی کی ایک کڑی قرار دیا ہے ۔لکھتی ہیں:
’’سرسید احمد خان نے اردو زبان کی بقا اور تحفظ کی تحریک شروع کی ، پھر انجمن ترقی اردو نے اس تحریک کو آگے بڑھایا۔‘‘ (۴)
اگر غائر نظری سے ان دونوں تحاریک کا جائزہ لیا جائے تو ڈاکٹر شفیعہ قادری کا بیان غلط نہیں لیکن دونوں کی نوعیت میں فرق ہے ۔ موخر الذکر خالصتاً ادبی تحریک تھی اور اس کے مقاصد متعین تھے جب کہ اس کی زیادہ خدمات بھی شاعری کے ساتھ ہی منسلک رہیں ۔
لیکن یہا ں اس بات کا اعادہ ضروری ہے کہ ایسا ہر گز نہیں کہ اس تحریک سے قبل شعر ا نے استعمار کے خلاف آواز بلند نہ کی ہو یا آزادی کے لیے نہ لکھا ہو۔ علی جواد زیدی نے ’’اردو میں قومی شاعری کے سو سال ‘‘ میں اسی حوالے سے اردو شاعری کے چھ ادوار بیان کیے ہیں جن میں بالترتیب پہلے دور میں تہتر (۷۳)، دوسرے دور میں چوبیس ( ۲۴)، تیسرے دور میں چالیس (۴۰)، چوتھے دور میں چھتیس(۳۶)، پانچویں دور میں بائیس(۲۲) اور چھٹے دور میں انتالیس(۳۹)ایسی نظمیں بشمول چند قطعات دیے ہیں جن کا تعلق براہِ راست جذبہ قومیت و حریت اور استعماریت کے خلاف اعلانِ جنگ سے ہے ۔ڈاکٹر گوپی چند نارنگ ا س صورتِ حال پر تحقیدی نظر ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’جوں جوں انگریز اس ملک پر قبضہ و اقتدار بڑھاتے گئے اور ان کے مفاد عوامی مفادسے ٹکرانے لگے، غلامی اور مظلومیت کا احساس رفتہ رفتہ ہندوستان کے تمام طبقوں میں قدر مشترک کی شکل اختیار کرگیا۔ اس زمانے کی اردو شاعری میں بھی اس کے اثرات جگہ جگہ نظر آتے ہیں۔کہیں کوئی مصحفی، کوئی جرات ، کوئی مومن ان مخفی دلی جذبات کو الفاظ کا جامہ پہنا دیتا ہے لیکن چونکہ اس زمانے میں آزادی کا تصور ابھی مذہبی یا اخلاقی بنیادوں پر تھا اس لیے عام طور پر انگریزوں کی مخالفت اس بنا پر ہوئی کہ ان کی محکومیت میں دین اور مذہب خطرے میں ہے۔‘‘ (۵)
۱۸۵۷ء سے ۱۹۴۷ء شائع ہونے والے مزاحمتی ادب میں سے کچھ اہم شعرا کی نظموں کے عنوانات ملاحظہ کرنے سے یہ اندازہ لگانا ہر گز مشکل نہیں رہتا کہ کوئی شاعرانگریز کے خلاف آواز بلند کرکے قومیت پرستی کو پروان چڑھا رہا تھا تو کوئی مسلمانوں کو عہدِ رفتہ یاد دلا کر ان کی غیرت وحمیت کو جگانے کی کوشش میں مبتلا تھا ۔الغرض شعرااپنے اپنے تئیں مختلف طریقوں سے برصغیر کے لوگوں کو آگاہی دینے اور ایک کامل جذبے کے تحت متحد کرنے کے لیے ادبی خدمات سر انجام دے رہے تھے ۔ چند نظموں کے عنوانات ملاحظہ کیجیے جن سے ان کے نفسِ مضمون و بین السطور کو جاننا چنداں مشکل نہیں رہتا۔ ’’داستان انتزاع سلطنت ‘‘از واجد علی شاہ اختر، ’’قیدِ فرنگ ‘‘اور ’’بیانِ دردر‘‘از بہادر شاہ ظفر،’’حبِ وطن ‘‘از محمد حسین آزاد،’’۱۸۵۷ء ‘‘از مرزا اسد اللہ خاں غالب،’’داغِ غم‘‘از منیر شکوہ آبادی ،’’موزی فرنگی‘‘از عزیز الدین خان ،’’گرفتار مردان دہلی‘‘از مولوی مظہر الحق،’’مصیبتِ دہلی‘‘از قاضی فضل حسین افسردہ،’’دارو رسن ‘‘از محمد علی تشنہ،’’شہر آشوب‘‘از مرزا داغ دہلوی ،’’بازارِ موت ‘‘از مرزا قربان علی بیگ سالک،’’انگلستان کی آزادی اور ہندوستان کی غلامی ‘‘ازخواجہ الطاف حسین حالی ،’’اچھا زمانہ آنے والا ہے‘‘از اسماعیل میرٹھی،’’احرارِ قوم اور طفلِ سیاست ‘‘از مولاناشبلی نعمانی،’’برٹش راج ‘‘ از،اکبر الہ آبادی’’چکی کی مشقت ‘‘از مولانا حسرت موہانی،’’ترانہ ہندی‘‘اور ’جلیانوالہ باغ‘‘از علامہ محمد اقبال، ’’فانوسِ ہند کا شعلہ ‘‘ از ظفر علی خان،’’رد سحر‘‘اور‘‘شرارِ جوہر ‘‘از محمد علی جوہر،’’آزادی ‘‘از حفیظ جالندھری،’’اٹھو‘‘از علی سردار جعفری، ’’ایسٹ انڈیا کمپنی کے فرزندوں سے خطاب‘‘از جوش ملیح آبادی،’’قیدی کی لاش‘‘از علی جواد زیدی ،’’یومِ آزادی‘‘از سراج لکھنوی اور ’’پیرِ مغاں کی یاد‘‘ از آل احمد سرور وغیرہ شامل ہیں۔ برصغیر میں چھپنے والے اردو رسائل و جرائد میں بھی حریت و جذبہ قومیت کے تحت لکھی شاعری با آسانی مل جاتی ہے۔ جب کہ اس کے علاوہ دیگر ایسے کئی اور ذرائع بھی میسر ہیں جن سے اردو شاعری مسلمانوں میں آزادی کی روح پھونک رہی تھی ۔ مثلاً مساجد میں دیے جانے والے خطبات اور بغاوت پر اکسانے والے پوسٹر۔اس حوالے سے مولوی لیاقت علی کی جانب سے شائع ہونے والے ایک منظوم پوسٹر پر سے صرف تین اشعار ملاحظہ کیجیے:
فرض ہے تم پہ مسلمانو جہادِ کفار
اس کا سامان کرو جلد اگر ہو دیں دار
جو نہ جاوے خود لڑائی میں نہ خرچے کچھ مال
اس پہ ڈالے گا خدا پیشتر از مرگ وبال
حق تعالیٰ کو مجاہد وہ بہت بھاتے ہیں
مثل دیوا ر جو صف باندھ کے جم جاتے ہیں (۶)
رفیع احمد قدوائی تحریکِ آزادی اور شاعری کے تناظر میں تحریر کی گئی کتاب ’’آزادی کی نظمیں‘‘ کے ’’تعارف‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’ہندوستانی ادب بالخصوص ہندوستا نی شاعری پر غور کیا جائے تو یہ حقیقت اور بھی واضح ہوجاتی ہے(کہ) آزادی کے موجود ہ تصورتک پہنچنے میں جتنے زینے ہندوستانی سماج نے طے کیے ہیں اتنے ہی ہمارے ادب نے بھی طے کئے ہیں۔‘‘ (۷)
اب ذرا ان شعری نمونوں پر غور کیا جائے جو تحریکِ آزادی کے محرکات میں شامل تھے تو بات اور زیادہ واضح ہوجاتی ہے کہ نہ صرف ہمارے شعرا کو وقت کی نزاکت کا پورا خیال تھا بلکہ انھوں نے اپنی اس اہم ملی فریضے کو نبھانے کی بھی پوری کوشش کی۔ یہی وجہ ہے کہ اس تحریک میں پہلے پڑھے لکھے لوگوں نے شرکت کی اور پھر ان کی پیروی میں عوامی جذبات میں بھی طلاطم برپا ہوا۔ مرزااسد اللہ غالب کی غزل میں شہر آشوب کا نمونہ ملاحظہ کیجیے:
چوک جس کو کہیں وہ مقتل ہے
گھر بنا ہے نمونہ زنداں کا
شہرِ دہلی کا ذرّہ ذرّہ خاک
تشنہ خوں ہے ہر مسلماں کا (۸)
جب کہ آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر جنھیں قید کر کے بزرگی و کسمپرسی کی حالت میں رنگون بھیج دیا گیاان کے آخری عمر کے کلام میں بھی جا بجا غربتِ وطن، انگریزوں کی عیاری اور تخت و تاج کی تاراجی کی جھلک ملتی ہے جس میں کبھی وہ بلبل کی قسمت ہی کو خراب قرار دیتے ہیں جس کے نصیب میں فصلِ بہار میں قید لکھ دی گئی تھی اور کبھی کنجِ مزار میں سونے کی بات کرتے ہیں۔’’قیدِ فرنگ ‘‘ سے ایک نمونہ ملاحظہ کیجیے:
بادِصبا اڑاتی چمن میں ہے سر پہ خاک
ملتے ہیں سر بہ سر کفِ افسوس برگ تاک
جو آگیا ہے اس محل تیرہ رنگ میں
قیدِ حیات سے ہے وہ قیدِ فرنگ میں (۹)
مولانا محمد حسین آزاد نے مثنوی ’’حبِ وطن ‘‘ کے ایک سو ایک (۱۰۱)اشعار میں وطن سے محبت کے جو تقاضے بیان کیے ہیں اس کا پس منظر دہلی کا اجڑنا اور لوگوں کا یہاں سے دیگر شہروں کی جانب رخ کرنا ہے۔ دہلی کی تباہی در اصل برطانوی استعماریت کی بدترین امثال میں سے تھی۔ اس مثنوی کا ایک ایک شعر حقیقتاً حبِ وطن سے ہی معمور ہے۔جب کہ اس کے بعد ’’خاکِ وطن ‘‘ کا بھی ہرایک شعر وطن سے محبت کی دلیل ہے۔محکومی کے تناظر میں ’’خاکِ وطن ‘‘سے دو اشعار ملاحظہ کیجیے:
جب نہ تھی یونان میں علم و ہنر کی روشنی
جلوہ افروز خرد تھی تیرے گھر کی روشنی
اڑ گیا نورِ سحر تاریکی غم چھا گئی
تیرا اقبال ڈوبا ، شامِ ماتم چھا گئی (۱۰)
مسلمانوں کی بیداری اور ان میں جذبہ قومیت جگانے میں شبلی نعمانی کی خدمات کو کسی طرح نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ ان کی شاعری میں وعظ و نصیحت کا رنگ نمایاں ہے ۔ا س تناظر میں وہ کبھی انگریز و انگریزی سوچ والوں پر طنز کرتے ہیں اور کہیں سرسید احمد خان اور
ان کے اقدامات کو نشانہ بناتے ہیں ۔بہر حال ان کی نیت چونکہ مسلمانوں کی نشاۃ الثانیہ ہی تھی اس لیے ان کی شاعری کو اسی ضمن میں دیکھا جاسکتا ہے ۔’’احرارِ قوم اور طفلِ سیاست ‘‘ میں انھوں نے انگریز کے پیرو کاروں کو طنز کا نشانہ بنایا ہے جب کہ نظم ’’ مذہب اور سیاست ‘‘میں مسلمانوں کو ان کے عہدِ رفتہ کی یاد دلائی ہے۔ لکھتے ہیں:
ہے یہ وہ قوت پرزور کے جس کی تکرار
سنگِ خارا کو بنا دیتی ہے اک مشتِ غبار
یا کوئی جذبہ ملک و وطن تھا جس نے
کردئیے دم میں قوائے عملی سب بیدار (۱۱)
بچوں کے لیے خصوصی طور پر ادب تخلیق کرنے والے اسماعیل میرٹھی بھی اس میدان میں کسی سے پیچھے نہیں تھے ۔انھوں نے غلامی کے دور میں ایسی نظمیں تخلیق کیں جو بچوں اور بڑوں دونوں کے لیے رجائی اور یکساں مفید تھیں۔ ویسے تو ان کی کاوشات ’’کیے جاؤ کوشش ‘‘اور ’’محنت کرو‘‘ وغیرہ میں بھی رجائی عناصر ملتے ہیں لیکن ان کی نظم ’’اچھا زمانہ آنے والا ہے‘‘ جو اسی حوالے سے مخصوص ہے، اس کے تین اشعار ملاحظہ کیجیے:
ہر اک توپ سچ کی مددگار ہوگی
خیالات کی تیز تلوار ہوگی
اسی پر فقط جیت اور ہار ہوگی
کرو صبر آتا ہے اچھا زمانہ
زبانِ قلم سیف پر ہوگی غالب
دبیں گے نہ طاقت سے پھر حق کے طالب (۱۲)
قومیت پرست شعرا میں ایک اور اہم نام مولانا الطاف حسین کا ہے جو شبلی اور اکبر کی طرح مسلمانوں کو ان کے تابناک ماضی کی یاد دلاتے رہے۔ ان کی مدو جزرِ اسلام جذبہ قومیت کے فروغ کی ایک یسی کاوش ہے جسے کسی بھی صورت نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔اس حوالے سے خالد بن سعید لکھتے ہیں:
’’Hali, in his lucid and flowing verse, described the rise and fall of (۱۳)Islam a as a political and cultural force in the world.
ان کے ایسے ہی جذبات ان کے دیوان میں اور بھی کئی جگہوں پر بکھرے ملتے ہیں جن میں ’’آزادی کی قدر‘‘ اور ’’انگلستان کی آزادی اور ہندوستان کی غلامی‘‘، ’’نیشن کی تعریف‘‘،’’سید احمد کی مخالفت کی وجہ‘‘ اور ’’دلی کی شاعری کا تنزل ‘‘ وغیرہ شامل ہیں ۔
بارہ بندوں اور دوسو کے قریب اشعار پر مشتمل ان کی مثنوی ’’حب وطن‘‘بھی اسی سلسلے کی ایک اہم کڑی ہے جب کہ ان کی شہرہ آفاق شہر آشوب ’’دہلی مرحوم ‘‘ کو بھی اسی پس منظر کی تخلیق تھی ۔
ایسے سیاسی رہنما شعرا کی بات کی جائے جو انگریز کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بنے تو ان میں ایک ممتازنام سید الاحرار ، مولاناحسرت موہانی کا ہے جن کی ساری زندگی برصغیر کو انگریزوں سے نجات دلانے کے لیے صرف ہوئی۔ جہاں وہ ایک جانب جذبہ قومیت جگانے کی پاداش میں قید و بند کی صعوبتیں ’’چکی کی مشقت ‘‘کاٹتے رہے وہیں مزاحمتی ادب کی صورت میں جہاد بھی جاری رکھا۔ ڈاکٹر سید عبداللہ ان کے بارے لکھتے ہیں:
’’ان کی غزل میں قول و عمل کی ہم آہنگی کا کمال نظر آتاہے۔ان کی سیاسی زندگی اور ادبی زندگی ، ان کی ادبی زندگی اور ذاتی زندگی کے فاصلے کم سے کم نظر آتے ہیں۔ ان کے سیاسی محبوب اور ادبی محبوب میں کوئی جھگڑا نہیں۔ ان کے یہاں لیلائے آزادی اور حسن میں باہم صلح و آشتی ہے۔‘‘(۱۴)
چونکہ مولانا حسرت موہانی کی شاعری میں تغزل کارنگ زیادہ نمایاں رہا اس لیے ان کی ملی شاعری میں بھی اکثر اوقات حسرت و یاس کا عنصرغالب دکھائی دیتاہے۔ ملاحظہ کیجیے:
رسمِ جفا کامیاب دیکھیے کب تک رہے
حبِ وطن مستِ خواب دیکھیے کب تک رہے
نام سے قانون کے ہوتے ہیں کیا کیا ستم
جبر یہ زیرِ نقاب دیکھیے کب تک رہے (۱۵)
اپنے اچھو تے خیالات اور طنزیہ شاعری کی وجہ سے اکبر الہٰ آبادی اردو ادب میں کسی تعارف کے محتاج نہیں۔انھیں صحیح معنی میں مغربی تہذیب کا نقاد کہا جاسکتا ہے۔ انھیں اپنے ثقافتی ورثے پر نازتھااور مغربی کلچر کی تمام خرافات خواہ ان کا تعلق مرد و خواتین کی مخلوط محفلوں سے ہو، جدید تعلیم کے اس تصور سے ہو جس میں بیٹا باپ کو خبطی سمجھنے لگے یاٹائی سے جو گلا گھونٹ کر رکھ دے، اکبر ہر مقام پران پرتنقید کرتے نظر آتے ہیں ۔اسی سبب انھوں نے سر سید کی علی گڑھ تحریک کو بھی تذہیک کا نشانہ بنایا جو جو مسلمانوں کو جدید مغربی تعلیم سے بہرہ ور کرنا چاہتی تھی۔بہرحال ان کا کلام اپنے کلچر پر ناز اور قومیت کے جذبے سے تعبیر ہے ۔ اس حوالے سے ان نظم کے دو اشعار ملاحظہ کیجیے:
وہ چھینٹے دیجیے ان کو حکیمانہ طریقوں سے
کہ بجھ کر راکھ ہی ہوجائے مذہب کا یہ انگارا
چلے مقراض تدبیر ایسے پیچیدہ طریقوں سے
کہ جڑ کٹ جائے مذہب کی یہ گھر ہو منہدم سارا (۱۶)
۱۸۵۷ء کی جنگِ آزادی کے رد عمل میں مولاناظفر علی خان اور مولانا محمدعلی جوہر بھی ایسے قوم پرست شعرا کے رو پ میں سامنے آئے جن کی زندگی کا اول و آخر مقصد اپنی قوم کو جگانا اور دشمن کے خلاف صف آرائی پر تیار کرنا تھا۔ یہ دونوں حضرات حریت پسند شعرا اور سیاسی رہنما تھے ۔ لوگ ان کے جوشِ خطابت سے از حد درجہ متاثر تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ مولانا ظفر علی خان کی ’’فریادِ جرس‘‘، ’’فانوسِ ہند کا شعلہ‘‘ اور ’’انقلابِ ہند‘‘ و دیگر جب کہ مولانا جوہر علی کی ’’ردّسحر‘‘اور’’اور ہی کچھ‘‘وغیرہ نے ایک طرح سے برصغیر بھر کے مسلمانوں کے جذبات میں آگ لگا دی تھی۔
قوم پرست شاعری کے حوالے سے ایک اور بہت بڑا نام علامہ محمد اقبال کا آتا ہے۔ ان کی شاعری نے نہ صرف اس وقت کے مسلمانوں کو اقوامِ مغرب کی سیاسی چالوں، جھوٹی تہذیب اور مکاریوں سے آگاہ کرنا چاہا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ انھیں خوابِ غفلت سے بھی جگانے کی کوشش کی ۔ ان کی شاعری میں ایسی بہت سی نظمیں ہیں جو براہِ راست اس موضوع کا احاطہ کرتی ہیں ۔اس ضمن میں انھوں نے جو ’’ترانہ ملی‘‘، ’’وطنیت‘‘، ’’ترانہ ہندی‘‘ ، ’’ہندوستانی بچوں کاقومی گیت‘‘، ’’تہذیبِ حاضر‘‘، اور’’فاطمہ بنتِ عبداللہ‘‘ ایسی نظمیں لکھیں وہ آج بھی زبان زدِ عام ہیں۔چند اشعار ملاحظہ کیجیے:
مٹی کو جس کی حق نے زر کااثر دیا تھا
ترکوں کا جس نے دامن ہیروں سے بھر دیا تھا
میرا وطن وہی ہے ، میرا وطن وہی ہے (۱۷)
اردو شاعری کا دامن ایسی قومی و ملی شاعری سے بھرا پڑا ہے جسے محض حظ آفرینی یا بے مقصدی شاعری نہیں کہا جاسکتا ۔برصغیر کے عوام کو جھنجوڑنے اور خوابِ غفلت سے جگانے والے شعرا کی ایک طویل فہرست ہے اور ان سب کے منظومات کو یہاں جگہ نہیں دی جاسکتی ۔یہ اردو شاعری ہی تھی جس نے نہ صرف عوام الناس کے جذبہ آزادی کو چنگاری دکھائی بلکہ اسے اتنا تلاطم خیز بھی کیا ۔یہاں تک کہ پروفیسر اصغر سودائی کی نظم کا ایک حصہ ’’پاکستان کا مطلب کیا، لاالہ الاللہ‘‘ مسلمانوں کی راہِ منزل میں نعرہ بن کر گونجا۔ اسی لیے تحریکِ آزادی میں اردو شاعری کے کردار کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے محمد احمد صدیقی تحریر کرتے ہیں کہ :
’’ آزادی کی تحریک میں روح پھونکنے میں اردو شاعری نے بھی اہم رول ادا کیا۔ ۱۸۵۷ء سے ۱۹۴۷ء تک اردو شعرا نے اپنے ہم وطنوں کے دلوں میں اتحادو اتفاق اور حب الوطنی کے دیپ جلائے اور ان کے سینوں میں جذبہ حریت کو بیدار کرکے کاروانِ آزادی کی رفتار کو تیز سے تیز تر کردیا۔‘‘ (۱۸)
——
حواشی
1.I.H. Qureshi, "A Short History of Pakistan”, 4th Edition, Karachi: University of Karachi, 2010, P-778
۲۔امجد علی شاکر، پروفیسر ،”اردو ادب تاریخ و تنقید“، لاہور:عزیز پبلشرز، ۸۸۹۱ئ
۳۔اختر حسین رائے پوری،” ادب اور انقلاب“،حیدر آباد :ادارہ اشاعت اردو ، ۳۴۹۱ئ
۴۔شفیعہ قادری، ڈاکٹر، ”اردو تحریک آزادی سے قبل“ ،حیدر آباد:مکتبہ شعرو حکمت ،۰۰۰۲ء
۵۔گوپی چند نارنگ،” ہندوستان کی تحریک آزادی اور اردو شاعری“نئی دہلی:قومی کونسل برائے فروغِ اردو زبان، ۳۰۰۲ئ
۶۔ایضاً
۷۔سبط حسن، مرتب،” آزادی کی نظمیں“، لکھنو: حلقہ ادب مال روڈ،۰۴۹۱ئ
۸۔اسد اللہ خان غاب، ”دیوانِ غالب“ ، نسخہ نظامی،کانپور: نظامی پریس ، ۲۶۸۱ئ
۹۔علی جواد زیدی ، مرتب،” اردو میں قومی شاعری کے سو سال “، لکھنو: اتر پردیش اردو اکادمی، ۶۸۹۱ئ
۰۱۔محمد حسین آزاد، مولانا ،”مجموعہ نظم آزاد“، لاہور: رفاہ عام سٹیم پریس،۹۹۸۱ئ
۱۱۔شبلی نعمانی، مولانا،”مجموعہ نظم ِ شبلی اردو“،دہلی: شاہ جہانی پریس، ۹۲۹۱ئ
۱۲۔حکیم نعیم الدین زبیری، مرتب، ”بچوں کے اسماعیل میرٹھی“ ، دہلی:مکتبہ جامعہ دہلی ، ۳۱۰۲ئ
۱۳. Khalid Bin Sayeed, "Pakistan The Formative Phase 1857-1948”, Karachi: Oxford University Press, 2010, P-4
۱۴۔حسرت موہانی، مولانا،” کلیاتِ حسرت موہانی“،کراچی: ماس پرنٹرز، ۷۹۹۱ئ
۱۵۔ایضاً، ص۳۱
۱۶۔اکبر الہٰ آبادی،” کلیاتِ اکبر(حصہ دوم)“،کراچی:پنجاب پبلشرز،س ن
۱۷۔ محمد اقبال، علامہ،”کلیاتِ اقبال“، اسلام آباد:نیشنل بک فاو¿نڈیشن، ۵۱۰۲ئ
۱۸۔محمد احمد صدیقی ،”تحریکِ آزادی ہند اور مسلمان“،گورکھپور: صبحِ وطن، ۸۹۹۱ئ
——
M. Khuram Yasin
Scholar, PhD., Urdu, Govt. College University, Faisalabad
One thought on “اردو شاعری بطور محرکِ تحریکِ آزادی – ایک تحقیدی جائزہ :- محمد خرم یاسین”
khurram yasin v good n great work