پروفیسر محمد علی اثرؔ کی تحقیقی و تنقیدی خدمات :- محمد عظمت الحق

Share
محمد عظمت اللہ

پروفیسر محمد علی اثرؔ کی تحقیقی و تنقیدی خدمات
: ایک مختصر جائزہ

محمد عظمت الحق
اسسٹینٹ پروفیسرشعبۂ اردو(سی۔ایچ۔بی)
مہاراشترا اودے گیری کالج
اودگیر۔413517 ضلع لاتور (مہاراشٹرا)

دکن کا علاقہ ابتدا ہی سے عظیم تہذیبی ورثے کا حامل رہا ہے۔بہمنی دورِ حکومت میں یہاں اردو زبان وادب کی داغ بیل پڑی ۔عادل شاہی اور قطب شاہی دورِ حکومت ہی سے یہاں اردو زبان وادب کی نشو ونما اور ترقی کے مستحکم آثار نظر آتے ہیں ۔

علاقۂ دکن کو اس بات کا اعزاز حاصل ہے کہ یہیں اردو نظم و نثر کا باضابطہ آغاز ہوا۔ ادبی نثر کا پہلا نمونہ’’ سب رس‘‘ بھی اسی علاقے کی دین ہے اور اردو کا پہلا صاحبِ دیوان شاعرقلی قطب شاہ بھی اسی سر زمین سے اٹھا۔
شہر حیدرآباد علاقۂ دکن کا ایک ایسا شہر ہے جسے نہ صرف ملک گیر شہرت حاصل ہے بلکہ یہ اپنی تہذیبی و ثقافتی روایات کے اعتبار سے عالمی سطح پر بھی اپنی مخصوص شناخت رکھتا ہے۔ حیدرآباد شہر اپنے قیام کے زمانے ہی سے تہذیب وثقافت ،شعر وادب ،مذہب وتصوف اورعلوم وفنون کا اہم مرکز رہا ہے ۔ واقعہ یہ ہے کہ کسی شہر کی عظمت ورفعت اور اہمیت وافادیت اس کی بلند وبالا عمارتوں، باغات ،کارخانوں اور صنعت وتجارت ہی پر موقوف نہیں ہوتی بلکہ وہاں کے علما ،شعرا ،ادبا، سائنسدانوں،دانشوراوں ،محققوں اور مدبروں کی علمی وادبی خدمات کی وجہ سے بھی وہ شہر پہچانا جاتا ہے ۔دراصل کسی شہر کو علمی اور تہذیبی شہر بنانے میں دانشوروں ہی کا اہم کردار ہوتا ہے۔
اردو زبان ادب کے حوالے سے حیدرآباد کی ادبی،علمی اور تہذیبی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اس مردم خیز شہر سے ایسے ایسے ادیب شاعر ،نقاد ،محقق اور دانشور اٹھے ہیں جنھوں نے اپنے رشحاتِ قلم اور فکر وفن سے نہ صرف ہندوستان گیر بلکہ عالمی سطح پر اپنی شناخت قائم کی ہے ۔یہی نہیں بلکہ ادبی وعلمی سطح پر حیدرآباد کو بلندو بالا مقام عطا کرنے میں بھی انھوں نے نمایاں رول ادا کیا ہے۔ ایسے ہی مایۂ ناز ہستیوں میں پروفیسر محمد علی اثرؔ کا بھی شمار ہوتا ہے۔
ٍ پروفیسر محمد علی اثرؔ ۲۲ ڈسمبر ۱۹۴۹ء کو حیدرآباد میں پیدا ہوے۔۱۹۷۴ ء میں جامعہ عثمانیہ سے ایم۔اے (اردو) متیازی نمبرات سے کامیاب کیا۔ پھر جامعہ عثمانیہ ہی سے پی۔یچ۔ ڈی کی اعلیٰ سند بھی حاصل کی۔ ۱۹۷۵ء سے جامعہ عثمانیہ کے شعبۂ اردو میں جز وقتی لکچرر کی حیثیت سے موصوف کی تدریسی زندگی کا آغازہوا۔پانچ سال بعد اڈھاک لکچرر کے طور پر تقرر عمل میں آیا ۔ ۱۹۸۲ ء میں مستقل لکچرر ہو گئے اور ترقی کرتے ہوے پروفیسرکے منصب پر فائز ہو کر وظیفۂ حسنِ خدمت پر سبکدوش ہوے۔
محمدعلی اثرؔ ہمہ پہلو شخصیت کے مالک ہیں ۔وہ شاعر بھی ہیں اور نقاد بھی ۔محقق بھی ہی اور مدوّن بھی ۔مرتب بھی ہیں اور مولف بھی ۔ماہرِ دکنیات کی حیثیت سے بھی ان کا مقام بلند ہے۔نظم ونثر کی تقریباً ساٹھ کتابیں اثر صاحب کے زورِ قلم کا نتیجہ ہیں ان میں قریباً پچاس کتابیں تحقیق وتدوین اور ترتیب تالیف کے زمرے میں آتی ہیں ۔ راقم الحروف نے اس مختصر مضمون میں ان کی چند تحقیقی وتنقیدی کتابوں کااختصار کے ساتھ تعارف پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔
ڈاکٹر اثر کی پہلی تصنیف ’’غواصی:شخصیت اور فن‘‘ کے عنوان سے ۱۹۷۷ء میں شائع ہوئی۔یہ تحقیقی کتاب غواصی کی شخصیت،فن اور اس کے عہدکی تفہیم کے حوالے سے بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ پہلی کتاب ہونے کے باوجود اس میں موصوف کی تحقیقی وتنقیدی بصیرت قابلِ داد وتحسین ہے۔’’شمع جلتی رہی‘‘ کا موضوع رپورتاژ ہے ۔یہ کتا ب ۱۹۸۰ ء میں شائع ہوئی۔۱ ۱۹۸ء میں’’ دبستانِ گولکنڈہ ،ادب اور کلچر‘‘کے عنوان سے ایک کتاب ترتیب دی ،جس میں دکنی ادب اور کلچرسے متعلق مضامین یکجا کیے گئے ہیں۔۱۹۸۲ء میں اثر صاحب نے دکنی اور دکنیات کی وضاحتی فہرست مرتب کی۔۱۹۸۳ء میں محمد اکبرالدین صدیقی کے اشتراک سے ادارۂ ادبیات اردو کے مخزونہ مخطوطات بعنوان’’تذکرۂ اردو مخطوطات جلد ششم ‘‘ مرتب کی ۔ ۱۹۸۶ء میں ’’دکنی غزل ‘‘کے نام سے تحقیقی کتاب منظر عام پر آئی ۔اسی سال ’’دکنی اور دکنیات‘‘ کا مرمّمہ ا یڈیشن پاکستان سے شائع ہوا۔ ۱۹۸۷ء میں ایک اور تحقیقی وتدوینی کارنامہ ’’دکنی کی تین مثنویاں‘‘ کے روپ میں منظرِ عام پر آیا۔
’’دکنی شاعری: تحقیق وتنقید‘‘ ۱۹۸۸ ء میں زیورِ طباعت سے آراستہ ہوئی۔ اسی سال پروفیسر اکبر علی بیگ کے اشتراک سے’’ نظیر شناسی‘‘ نامی کتاب مرتب کی جو نظیر شناسی کے سلسلے میں کار آمد کتاب سمجھی جاتی ہے۔ سید ہاشمی کی مرتبہ کتاب ’’کلیات ایمان‘‘کو مزید ترمیم اور اضافے کے ساتھ ۱۹۹۰ء میں شائع کیا۔’’تحقیقی نقوش‘‘ ۱۹۹۳ء میں شائع ہوئی ،جس کا موضوع تحقیق وتنقید ہے۔ جنوب کے شعرو ادب سے متعلق علیم صبا نویدی کے تحریر کردہ مضامین کو ’’جنوب کا شعرو ادب‘‘ کے نام سے ترتیب دے کر ۱۹۹۵ ء میں شائع کیا۔پھر ۱۹۹۶ء میں علیم صبا نویدی کے نام مشاہیر کے مکاتیب مرتب کر کے کتابی شکل میں شائع کیا۔’’نوادراتِ تحقیق‘‘ اور’’دکنی غزلوں کا انتخاب ‘‘کے عنوان سے دو کتابیں اسی سال منظرِ عام پر آئیں جو تحقیق وتنقید اور تدوین و ترتیب کا بہترین نمونہ ہیں ۔اسی سال ڈاکٹر محی الدین قادری زور کے مرتبہ’’تذکرۂ اردو مخطوطات‘‘ جلد اول کو مزید ترمیم واضافے کے ساتھ مرتب و شائع کیا۔
۲۰۰۰ ء میں مثنوی’’اشتیاق نامہ‘‘ کو مدوَّن کیا۔ڈاکٹر محمد عطا ء اللہ کے اشتراک سے’’ دیوان عبد اللہ قطب شاہ ‘‘کی تدوین کی۔ تحقیقی وتنقیدی مضامین کا مجموعہ ’’مقالاتِ اثر‘‘ بھی اسی سال شائع ہوا۔ ۲۰۰۲ء میں رباعی کے معروف شاعر اصغر ویلوری کے فن اور شخصیت پر تحریر کردہ مشاہیر کے مضامین کو مرتب کیا ۔۲۰۰۴ء میں اثر صاحب کے تبصروں اور مقدموں پر مشتمل کتا ب منظرِ عام پر آئی۔اسی سال ڈاکٹر جمال شریف کی مرتّبہ کتاب’’دکنی شاعری ولی سے پہلے‘‘ کو نظرِ ثانی اور مفید مقدمے کے ساتھ شائع کیا۔’’تحقیقاتِ اثر‘‘ ۲۰۰۵ ء میں شائع ہوئی۔
نصیرالدین ہاشمی کی مرتب کردہ کتب خانۂسا لار جنگ کے اردو مخطوطات کی جِلد اول کو ترمیم واضافے کے ساتھ۲۰۰۷ ء میں شائع کیا۔ ڈاکٹر زورؔ کے مرتب کردہ ادارۂ ادبیات اردو کے مخزونہ مخطوطات ’’بنام تذکرۂ اردو مخطوطات ادرۂ ادبیات اردو‘‘ کی جِلددوم اور سوم کو نظرِ ثانی کے بعد ۲۰۰۸ ء میں شائع کیا۔اسی سال ’’تحقیق وتنقید‘‘ کے نام سے ایک اور کتاب بھی منظرِ عام پر آئی۔۲۰۰۹ء میں ڈاکٹر صاحب کی چھے کتابیں:(۱)’’مدحتِ رسولِ اکرم دکنی غزلوں کے حوالے سے‘‘(۲)غواصی کانایاب کلام‘‘(۳)مثنوی پَنددل بند‘‘(۴)’’مثنوی نجات نامہ‘‘ (۵)’’انکشافات‘‘ (۶)’’ سہیل افروز‘‘منظرِ عام پر آئیں۔جو تحقیق وتدوین اور ترتیب وتالیف کے زمرے میں آتی ہیں۔۲۰۱۱ء میں ’’قدیم اردو غزل :تنقید وانتخاب‘‘ اور ’’مشاہیر کے خطوط‘‘ نامی کتابیں شائع ہوئیں۔
’’عادل شاہی دور میں اردو غزل‘‘ ’’بصارت سے بصیرت تک‘‘ ’’انتخابِ داؤد اورنگ آبادی‘‘ ’’دکنی ادب کی تحقیق‘‘ نامی کتابیں ۲۰۱۲ء میں زیورِ طباعت سے آراستہ ہوئیں۔یہ کتابیں بھی تحقیق وتنقید اور تدوین کے زمرے میں آتی ہیں۔رفیع الدین قادری کی مرتّبہ ’’مضامینِ زور‘‘ کی تیسری جلدمفید مقدمے کے ساتھ اسی سال منظرِ عام پر آئی۔کتب خا نۂ سالار جنگ کے اردو مخطوطات کی دوسری جلد بھی اسی سال مرتب کی۔ان مطبوعہ کتابوں کے علاوہ اور بھی کچھ مسودات ہیں جو اشاعت کی راہ دیکھ رہے ہیں۔
پروفیسر محمد علی اثر کی یہ تصانیف ان کی زبردست تحقیقی صلاحیت ،غیر معمولی تنقیدی بصیرت،محنتِ شاقہ اور ژرف نگاہی کی مظہر ہیں ۔ ان کتابوں کے مختصر تعارف ہی سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ پروفیسر محمد علی اثرؔ ایک ہمہ وقتی نقادا ورمحقق ہیں۔تحقیق وتنقید ،ترتیب وتدوین اور تصنیف وتالیف ان کا اوڑھنا بچھونا ہے۔تحقیقی اور تنقیدی کاموں میں اس قدر مصروف اور منہمک رہنے کے باجود ان کے تخلیقی سوتے خشک نہیں ہوے۔
جب وہ تحقیق وتنقید کے خار دار اور سنگلاخ میدانوں سے اوب جاتے ہیں تو ،تخلیقِ شعر کے گلزارِ جاں فزا میں قدم رکھتے ہیں اور یہاں بھی مضامینِ نو کے انبار لگادیتے ہیں۔ڈاکٹر صاحب کے اس وقیع کام کو دیکھتے ہوے یہی کہا جا سکتا ہے کہ :
ایں سعادت بزورِ بازو نیست ۔ تا نہ بخشد خدائے بخشندہ
اثرؔ صاحب نے جس انہماک سے تحقیقی وتنقیدی اور تدوینی کارنامے انجام دیے ہیں وہ بلا شبہ لائقِ تحسین وستائش ہیں ۔اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ انھوں نے اپنی قابلِ قدر تحقیقی وتنقیدی تصانیف سے حیدرآباد میں تنقید وتحقیق کے معیار کو بلند کرنے کی مقدور بھر کاوش کی ہے۔یہی نہیں بلکہ بیسویں صدی کے نصف آخر میں حیدرآباد میں علمی نثر کو فروغ دینے میں بھی انھوں نے نمایاں کردار ادا کیا ہے۔جب بھی حیدرآباد میں اردو نثر کے ارتقا کی تاریخ مرتب کی جائے گی پروفیسر محمد علی اثر کی خدمات کے ذکر کے بغیر وہ تاریخ ادھوری سمجھی جائے گی۔
پروفیسر محمد علی اثر کی ان وقیع خدمات کے پیشِ نظر مختلف سرکاری وغیر سرکاری اداروں نے انھیں انعامات واعزازات سے بھی نوازا ہے ۔ مثلاً آل انڈیا میر اکادمی نے ’’میر ایوارڈ ‘‘ سے نوازا۔آندھرا پردیش اردو اکادمی کی جانب سے ’’کارنامۂ حیات ایوارڈ‘‘ اور ’’ڈاکٹر زور ایوارڈ ‘‘ برائے تحقیق عطا کیا گیا۔یو۔ یس۔اے سے ’’انٹر نیشنل مین آف دی ایئر ایوارد‘‘ملا۔کانپور کے اک ادبی ادارے نے ’’ایمی نینٹ پرسنالٹیز آف انڈیا ایوارڈ‘‘ سے نوازا۔دہلی کے دو الگ الگ اداروں نے اثر صاب کو’’ بھارت ایکسیلینس ایوارڈ‘‘ اور’’ رائزنگ پرسنالٹیز آف انڈیا ایوارڈ‘‘ سے سرفرازکیا۔
اثر صاحب کی ادبی خدمات پر بہار یونیورسٹی سے پی۔ایچ۔ڈی کے لیے اور سنٹرل یونیورسٹی آف حیدرآباد سے ایم۔ فل کے لیے مقالے لکھے گئے۔کچھ ادبی رسائل نے موصوف کے اعترافِ خدمات کے طور پر خاص نمبر اور گوشے بھی شائع کیے۔مثلاً اکتوبر۱۹۹۹ء میں رسالہ ’’شمس وقمر‘‘ بھاگلپور نے گوشۂ محمد علی اثر شائع کیا۔ اکتوبر ۲۰۰۴ ء میں ماہنامہ’’رنگ وبو‘‘ (حیدرآباد)نے محمد علی اثر نمبر نکالا۔ہندوستان کے ایک قدیم رسالے ’’ شاعر ‘‘ ممبئی نے اپنے جون جولائی ۲۰۰۸ء کے شمارے میں خصوصی گوشہ شائع کیا۔ اسی طرح کٹک (اڈیشا ) سے شائع ہونے والے رسالے ’’ادبی محاذ‘‘ نے ۲۰۰۹ ء کے ایک شمارے کو اور ’’لفظ لفظ ‘‘ سری نگر نے ۲۰۱۱ ء کے ایک شمارے کو’’گوشۂ محمد علی اثر‘‘ سے زینت بخشی۔
مشاہیر قلم کاروں نے محمد علی اثر کی خدماتِ زبان وادب کو سراہتے ہوے گراں قدر مضامین قلمبند کیے ہیں ۔ایسے ہی مضامین پر مشتمل چار کتابیں منظرِ عام پر آئی ہیں ۔جن کے نام اور مرتبین اس طرح ہیں:
(۱) محمد علی اثر ایک مطالعہ‘‘ مرتبہ ڈاکٹرمحمد عطا ء اللہ خان
(۲)محمد علی اثرؔ : شخص ،شاعر اور محقق‘‘ مرتبہ ڈاکٹر عتیق اقبال
(۳)محمد علی اثر کی حمدیہ ونعتیہ شاعری‘‘ مرتّبہ ڈاکٹر راحت سلطانہ
(۴) صاحبِ فکر ونظر:محمد علی اثر‘‘مرتّبہ ڈاکٹر امّتُہ الرحیم۔
(۵) دکنی ادب کی تحقیق اور محمد علی اثر مرتبہ ڈاکٹر سید فضل اللہ مکرم
——
مآخذ ومصادر:
(۱)’’بصارت سے بصیرت تک ‘‘مصنفہ پروفیسر محمد علی اثر
(۲)’’محمد علی اثر: ایک مطالعہ‘‘ مرتبہ ڈاکٹر محمد عطا ء اللہ خان
(۳)’’محمد علی اثرؔ :شخص، شاعر اور محقق‘‘ مرتبہ ڈاکٹر عتیق اقبال
(۴)’’محمد علی اثر کی حمدیہ اور نعتیہ شاعری‘‘ مرتبہ ڈاکٹر راحت سلطانہ
(۵)’’صاحبِ فکر ونظر:محمد علی اثر ‘‘مرتبہ ڈاکٹر امتہ الرحیم
(۶)’’گوشۂ محمد علی اثر ‘‘ ماہنامہ شمس وقمر، بھا گلپور، اکتوبر ۱۹۹۹ء
(۷)’’محمد علی اثر نمبر‘‘ ماہنامہ رنگ وبو ،حیدرآباد، اکتوبر ۲۰۰۴ء
(۸)’’گوشۂ محمد علی اثر‘‘ ماہنامہ شاعر ،ممبئی ،جون ،جولائی ۲۰۰۸ء
(۹)’’گوشۂ محمد علی اثر‘‘ سہ ماہی ادبی محاذ ،کٹک(اڈیشا) ۲۰۰۹ ء
(۱۰)’’گوشۂ محمد علی اثر ‘‘ ماہنامہ لفظ لفظ ،سری نگر، ۲۰۱۱ء
Address:
Mohammad Azmat ul Haqا
Assistant Professor Dept. of Urdu(C.H.B)
Maharashtra Udayagiri College
,UDGIR-413517 Distt. Latur (M.S)
Mobile: 7020407042/7774948247

Share
Share
Share