کتاب ۔ قلم قتلے : مصنف:ڈاکٹر م ق سلیم :- مبصر: ڈاکٹر عزیز سہیل

Share

قلم قتلے (تبصرے وتجزیئے)

مصنف:ڈاکٹر م ق سلیم ،حیدرآباد
مبصر:ڈاکٹر عزیز سہیل ،حیدرآباد

حیدرآباد دکن ابتداء سے ہی اردو زبان وادب کا گہوارہ رہا ہے ۔ اردو کے فروغ میں یہاں کے حکمرانوں نے بہت ہی اہم اور نمایاں کارنامے انجا دیئے ہیں۔ایک عرصہ دراز تک دکن میں اردو کو شاہی سرپرستی حاصل رہی، دکن سے ہی اردو کی بہت سی اصناف کاآغاز بھی ہوتا ہے۔حیدرآباد دکن میں اردو کی سب سے پہلی جامعہ کا قیام بھی عمل میں لایا گیا، درس وتدریس کے حوالے سے بھی حیدرآباددکن کی نمایاں حیثیت وخصوصی مقام حاصل ہے۔

صحافت کے حوالے سے بھی حیدرآباد کی اپنی ایک منفرد پہچان ہے۔ یہاں سے اردو کے قدیم اخبارات آج بھی مسلسل شائع ہوتے آرہے ہیں۔ عصرحاضر میں اردو کے قومی سطح کے جواخبارات ہیں ان میں روزنامہ رہنمائے دکن‘ روزنامہ سیاست ‘روزنامہ منصف ‘روزنامہ اعتماد ‘ روزنامہ سہارا‘روزنامہ صحافی دکن اور روزنامہ شمس ٹائمس اہم اخبارات تسلیم کیے جاتے ہیں ان کے علاوہ بھی بہت سے قومی و ریاستی اخبارات بھی یہاں سے مسلسل شائع ہوتے رہے ہیں۔ مذکورہ اخبارات کے بیشتر اخبارات میں اردو کا خصوصی صفحہ ہفتہ میں ایک بارشائع ہوتا ہے۔ روزنامہ صحافی دکن حیدرآبادیہ وہ اخبار ہے جس نے اپنی مخصوص خبروں ،خصوصی ایڈیشن ،ملٹی کلر پرنٹنگ کے ذریعے بہت ہی مختصر سی مدت میں بہت نام کمایا ہے، اس اخبار کے ادبی صفحہ’’ قرطاس وقلم‘‘ کے مدیر ڈاکٹرم ۔ق۔ سلیم(محمد قطب الدین سلیم ) ہے۔جو پیشہ درس و تدریس سے منسلک ہیں جن کی ادبی حلقوں میں ایک نمایاں اور منفرد پہچا ن ہے۔ ڈاکٹر م۔ ق۔ سلیم اپنے تنقیدی رحجان کے باعث حیدرآباد کے ادبی حلقوں میں خصوصی طورپر شناخت رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر م ۔ق۔ سلیم کی تازہ تصنیف ’’قلم قتلے‘‘کے عنوان سے پچھلے دنوں منظرعام پرآئی۔ اس کتاب کاانتساب انہوں نے ’’ان ادباء وشعراء کے نام معنون کیا ہے جن کی بدولت میرے قلم سے وقتا فوقتاً’’ قتلے ‘‘نکلے جس کوانہوں نے یکجا کردیا‘‘۔ یہ کتاب تلنگانہ اسٹیٹ اردو اکیڈیمی کے جزوی مالی تعاون سے شائع ہوئی ہے۔ اس کتاب کے آغاز میں ڈاکٹر م ق سلیم نے ساحرؔ لدھیانوی کے مشہور شعرکو نمایاں طورپر لکھا ہے۔
دنیا نے تجربات حوادث کی شکل میں
جوکچھ مجھے دیا ہے وہ لوٹارہا ہوں میں
اس کتاب کے آغاز میں قطعات تاریخ اور تہنیتی قطعہ کو شامل کیاگیاہے۔ پہلا قطعہ تاریخ ا ستاد سخن ڈاکٹرفاروق شکیل حیدرآبادنے لکھا ہے ۔
سلیمی ذہن سے نکلے شرارے ہیں
شرارے ذہن سے قرطاس پراترے
شکیل اس کی یہ تاریخ طباعت ہے
قلم قتلے عرق ریزی قلم قتلے ۲۰۱۷ء
دوسرا قطعہ تاریخ زین الشعراء سردارسلیم حیدرآبادنے لکھا ہے۔
کتاب خوب ہے اس سے شعور حکمت لے
حرو ف نقدکامطلب میاں غلط مت لے
سلیم جس کے نشے میں ہے چور قلب سلیم
قلم کے عشق کا و بادہ ہے قلم قتلے ۱۴۳۹ ؁ھ
ڈاکٹر فاروق شکیل اور سردار سلیم کے قطعات کے بعد تہنیتی قطعہ یوسف روشؔ کا شامل کتاب کیا گیاہے۔
’’قلم قتلے ‘‘کا ہرقتلا نرالی شان والی ہے
یہ کس نے پارے پارے سے مہکتا رس نکالاہے
سلیم باخبر کی ہم سے کیا ہوگی بیاں توصیف
کہ تنقیدی توازن میں اُجالا ہی اُجالا ہے
اس کتاب کا پیش لفظ ’’قتلہ اوّ ل‘‘ کے عنوان سے ڈاکٹر م ق سلیم نے لکھا ہے۔ انہوں نے’ اپنی بات‘ کے تحت تبصرہ نگاری اور تبصرہ کے فنی خصوصیات پرروشنی ڈالی ہے۔ تبصرہ نگاری کے متعلق ڈاکٹر م ق سلیم لکھتے ہیں کہ ’’تبصرہ قاری کوکتاب کے بارے میں بنیادی معلومات فراہم کرنے کا ذریعہ ہے۔ اس بنیاد پرقاری اپنی رائے قائم کرنے کے قابل ہوتا ہے۔ تبصرہ کے لیے حدمقرر نہیں۔ وہ ایک پیراگرف کابھی ہوسکتا ہے یا کئی صفحات پرمشتمل ۔تبصرہ مختصر ہی اچھا لگتا ہے۔ تبصرہ نگار زیادہ بے لاک نہ ہو اورجوکچھ لکھ رہا ہو اس کی نشاندہی کرے اور غلطی کی نوعیت بتائے۔ تبصرہ کتاب کی تعریف وتوصیف بیا ن کرنے کانام نہیں اور نہ ہی غیرضروری تنقید تبصرہ کہلاتی ہے۔ اس میں میانہ روی اور غیر جانبداری کی چاشنی کاپایاجانابھی ضروری ہے‘‘۔
میں ڈاکٹر م ق سیلم کی اس بات سے اتفاق کرتاہوں کہ تبصرہ قاری کو کتاب سے متعلق بنیادی معلومات فراہم کرتاہے ۔اور تبصرہ غیر جانبداری پر مبنی ہونا چاہئے ۔ ڈاکٹر م ق سلیم ایک تجربہ کار قلمکار و بے باک صحافی ہے ان کے اکثر تبصروں میں ان کی بے باکی کا رنگ نمایاں نظر آتا ہے ان کی تنقید بالغرض اصلاح ہوتی ہے وہ اپنی تحریر میں کھری کھری باتیں بیان کرتے ہیں ان کا یہ انداز ہمیں بہت پسند ہے۔
اس کتاب میں ایک اہم مضمون بطور تقریظ ’’قلم قتلے‘‘روشن تحریروں کامجموعہ‘‘ کے عنوان سے شامل ہے جو کے ڈاکٹرنادر المسدوسی صدربزم علم وادب حیدرآبادنے تحریر کیاہے۔ اپنے مضمون میں ڈاکٹرنادرالمسدوسی نے’’ قلم قتلے‘‘ سے متعلق رائے دیتے ہوئے لکھا ہے کہ’’ قلم قتلے ‘‘میں شامل تبصروں اورتجزیوں کامطالعہ کرنے سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ ان کی نثراورنظم دونوں اصناف ادب پربڑی مضبوط گرفت ہے اور یہ سب انہوں نے اپنی بے پناہ تحقیقی صلاحیتوں کی بنیاد پرکیا اور تحقیقی فکری ی صلاحیتوں میں ان کی تنقیدی صلاحیت کابھی دخل ہے۔ سچائی کی دریافت میں انہوں نے تصدیق وتردید کے لیے بطورمحقق ونقادکے ان کے قلب وذہن ہرممکن تعصبات سے بے نیاز رہا، جو کہ ایک ایماندارمحقق کے لیے شرط اوّل ہوتا ہے۔ اس لیے ان کا تحقیقی شعور قوت فکر سے آراستہ اورپیراستہ ہے۔ اس بنا پریہ کہاجاسکتا ہے کہ ڈاکٹر۔م ۔ق۔ سلیم کی اب تک جتنی تصانیف منظرعام پرآچکی ہیں۔ ان میں یہ ایک منفرد طرز کی تحقیقی وتنقیدی کی تبصرہ نگاری کی آئینہ دار ہے۔ ‘‘
زیر تبصرہ کتاب میں شامل تبصروں کو دوحصوں میں کوپیش کیاگیا ہے ۔پہلا حصہ نثری تصانیف پرمشتمل ہے جس میں چودہ تصانیف پر تبصرے شامل ہیں۔ دوسرا حصہ شعری تصانیف پرمشتمل ہیں جس میں آٹھ شعری مجموعے شامل ہیں۔کتاب کے پہلے حصے میں جن احباب کی تصانیف وتبصرے شامل حال ہیں ان میں ڈاکٹرحبیب ضیاء‘ ڈاکٹرجاوید کمال ‘ حکیم سیدشمس اللہ قادری ‘ محمدعظمت اللہ خان‘ ڈاکٹرسیدممتاز مہدی‘ ڈاکٹرمحمدعبدالعزیزسہیل‘سید رؤف ریحان ‘ صائمہ اقبال‘ محمدکلیم محی الدین‘ ڈاکٹرسید رزاق ظفر‘ محمدارشاد اللہ خان‘فضل احمداشرفی‘عبدالودود انصاری‘افروز سعیدہ‘ شعری تصانیف میں جن تصانیف کے تبصرے شامل ہیں ان میں فرید سحرؔ ‘ ڈاکٹرسلیم عابدی‘ انجم شافعی‘ڈاکٹرخواجہ فرید الدین صادق‘ڈاکٹرخلیل صدیقی قاضی‘ معین افروز‘ ام کوثر شبنم ‘عبداللہ ندیم شامل ہیں۔
زیر تبصرہ کتاب کے آخر میں ’’قتلہ آخر‘‘ کے عنوان سے ڈاکٹر م ق سلیم نے انوکھے انداز میں اپنی آخری بات پیش کی ہے یہ ایک انکھا انداز ہے جس میں انہوں نے مطالعہ کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے ساتھ ہی دو باتیں کہی ہیں اول تو یہ کہ ان تبصروں میں فنی طور پر کوئی غلطی ہو تو نشاندہی کریں،اواخر یہ کہ کتاب پسند آئے تو ہمت افزائی کیجئے۔قتلہ آخر میں لکھا ہے کہ ’’آج تبصرہ نگاری دل بہلائی کامشغلہ بن گئی ہے اس لیے میں نے قتلہ اوّل میں تبصرہ نگاری پرروشنی ڈالی ہے۔ یہ کتاب ان ادباء وشعراء کے نام’ معنون‘ ہے جس کی بدولت میرے قلم سے مختلف موقع پرقتلے نکلتے رہے اور مضامین تبصروں کی شکل اختیار کیے۔آپ کے سامنے فیصلہ ہے۔
دشمن لاکھ سہی ختم نہ کیجیے رشتہ
دل ملے نہ ملے ہاتھ ملاتے رہئے‘‘
ڈاکٹر م ۔ق ۔سلیم صاحب کو تنقیدی تبصروں پرمشتمل مجموعہ کی اشاعت پر عمیق دل سے مبارکباد پیش کرتا ہوں اور دعا گو ہوں کہ اللہ رب العزت انھیں صحت و تندرستی کے ساتھ سلامت رکھے اور ان کے قلم کو اور مضبوط بنائے۔ آمین۔اردوقارئین ،اسکالرس کے مطالعہ کے لیے یہ تبصروں کا مجموعہ کافی اہمیت کا حامل ہے جس میں کئی ادب پاروں کا مکمل تعارف اور تنقیدی رائے شامل ہے۔ اس کتاب کے مطالعہ سے ہم بخوبی اندازہ لگاسکتے ہیں کہ ڈاکٹر م ق سلیم نے اس کتاب میں شامل تبصروں میں مختلف پہلووں کی کتنی خوبصورت تصویر کشی کی ہے ۔ ان میں سے بعض تبصرے تنقید نگاری کے عمدہ نمونے ہیں۔
عصر حاضر کے قارئین کے لیے یہ کتاب ایک عمدہ تحفہ ہے۔جس کو مصنف سے بمکان سائبان 19-2-469 بیرون فتح دروازہ حیدرآبادفون نمبر9849406501 یا ہدی بک ڈپو حیدرآباد سے خریدی جاسکتی ہیں۔
——

ڈاکٹر م ق سلیم
ڈاکٹرعزیز سہیل
Share
Share
Share