ارمغانِ تصوف : صوفی ازم کا مینارۂ نور
ڈاکٹر حامد اشرف
Mob:9423351351
پروفیسر محمد عبدالحمید اکبر صاحب سے میرا پہلا تعارف غالباً 1982ء میں مسجد گدائی ( گلبرگہ) میں ہوا۔ وہاں ایک عظیم الشان جلسہ زیرِ عنوان ’’حضرت شیخ احمد فاروقی مجدد الفِ ثانی اور اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی ‘‘ منعقد ہوا تھا ٗجس کے مہمان مقرر پروفیسر صاحب تھے ۔مو صوف محترم نے مذکورہ نابغۂ روزگارہستیوں پر ایک گنج ہائے گراں مایہ سامعین کے گوشِ گزار کیا تھا اور اپنی قدرت زبان ٗشائستہ لب ولہجے اور کھنک دار آواز سے وہ سماں باندھا کہ جیسے کہہ رہے ہوں ۔
ع سب ہم سے سیکھتے ہیں انداز گفتگو کا
میں اس وقت انٹر میڈیٹ کا طالبِ علم تھا ۔پروفیسر صاحب کی وہ تقریر مدتوں میرے حافظے میں رہی۔ مولانا عبدالماجددریا آبادی کے لیے پروفیسر صاحب نے جو کہا تھا وہ مجھے آج بھی یاد ہے کہ
’’ وہ کفر و الحاد کی منزل میں تھے کہ انہیں دو چیزوں نے بچا لیا ۔ایک اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی کی تحریروں نے اور دوسرے مکتو بات مجدد الفِ ثانی نے۔‘‘
واقعہ یہ ہے کہ مولانا عبد الماجد دریا بادی عنفوانِ شباب میں ریشنلسٹ ( عقلیت پسند)ہو گئے لیکن ٗ اعلیٰ حضرت کی تحریروں اور مجدد الفِ ثانی کو جب انہوں نے پڑھا تونہ صرف ان کے دل کی دنیا بدل گئی بلکہ دنیا کو مولانا کی شکل میں بے پایاں عالم دین اور مفسر قرآن بھی ملا۔
2012 ء میں یونیورسٹی گرانٹس کمیشن ٗ نئی دہلی سے مجھے ایک میجر ریسرچ پروجیکٹ زیرِ عنوان ’’دکنی لوک گیت ۔حیدرآبادکرنا ٹک کے خصوصی حوالے سے ‘‘ منظور ہواتوخیال آیا کہ کار تحقیق کی تکمیل میں کچھ مشاہیر ادب کی آراء بھی قلم بند کی جائے ٗ چنا ں چہ معروف افسانہ نگار و ناقد قدیر زماں ( مرحوم) ٗ پروفیسر نسیم الدین فریس ٗپروفیسر خالد سعید کی آراء قلمبند کرتے ہوئے حیدرآباد سے گلبرگہ آیا۔یہاں جناب ڈاکٹر وہاب عندلیب ٗپروفیسر محمد عبدالحمیداکبر اور جناب حامد اکمل سے ملاقات ہوئی۔جامعہ گلبرگہ کے شعبۂ اردو میں جب پروفیسرمحمد عبدالحمید اکبر صاحب سے ملاقات ہوئی تو دکنی لوک گیتوں کامسودہ میں نے سامنے رکھا اور غرض و غایت بیان کی ٗ خدشہ تھا کہ مو صوف شدید مصروفیت کے باعث ٹال دیں گے لیکن ٗ انہوں نے نہ صرف خوشی کا اظہار کیا ٗ بلکہ دکنی لوک گیتوں کی تحقیق کو کافی سراہا۔ مسودے پر طائرانہ نظر ڈالتے ہوئے وہ اسی وقت گویا ہوئے ۔میں نے ویڈیو کیمرہ سنبھالا ۔بیس پچیس منٹ تک مسلسل بولتے رہے ۔دکنی لوک گیتوں سے متعلق پروفیسر صاحب کی گراں قدر معلومات سے میں حیرت کے سمندر میں ڈوب گیا ۔جب یہ ویڈیو میں نے جدید شاعرو نقاد جناب اکرم نقاش کو بتایا تو انہوں نے کہا کہ’’ فی البدیہہ تبصرہ کرنا
پروفیسر صاحب کی ذہانت اور شخصیت کا خاصہ ہے ۔اگر مجھے مسودہ دے کر اُسی وقت رائے پوچھی جائے تو میں قطعی نہیں کہہ سکتا ۔مجھے تفصیلی مطالعہ کرنا پڑے گا اور زبانی بھی نہیں بلکہ تحریری شکل میں اپنی رائے دے سکوں گا۔جناب حامد اکمل کا بھی معاملہ فی البدیہ ہی رہا ۔’’ کے ۔بی ۔این ۔ٹائمز ‘‘ کے دفتر میں ان سے ملاقات کی اور آمد کا مقصد بتایا ۔انہوں نے بھی مسودے پر سرسری نگاہ ڈالی اور دیر تک لوک گیتوں کی تفہیم و تشریح کرتے رہے ۔ پروفیسر خالد سعید ٗپروفیسر عبدالحمید اکبراور اکمل صاحب کی برجستہ معلومات اور حوصلہ افزائی کا نتیجہ ہی کہیے کہ ’’دکنی لوک گیتوں‘‘ پر میری کتاب منظرِ عام پر آئی۔
’’ارمغان تصوف‘‘پروفیسر عبدالحمید اکبر صاحب کی حالیہ تصنیف ہے ٗ عنوان ہی سے پتہ چلتا ہے کہ تصنیفِ ہذا تصوف کے متعدد مو ضوعات کو اپنے جلو میں سمیٹے ہوئے ہے۔پیش لفظ پروفیسر عتیق اللہ اور دیباچہ مفتی نظام الدین جیسے اہلِ قلم دانشوران نے تحریر فرمایا ہے اور پروفیسرعبد الحمید صاحب نے ’’اپنی بات‘‘ کے زیرِ عنوان اظہارِ خیال کیا ہے ۔مولانا الطاف حسین حالی کی تصانیف حیات سعدی ٗ حیات جاوید اور یادگارِ غالب کو آفاقی شہرت حاصل ہے۔اردو ادب میں ان کی آواز ایک شفیق بوڑھے کی سی ہے ٗ جو دینداری اور مذہبی ا قدارقدرت نے انہیں ودیعت کی تھیں ٗجن سے مولانا کے فکری چراغ روشن تھے۔ان چراغوں کی روشنی قدرے کم سہی ٗ پروفیسر عبدالحمید اکبر صاحب کے حصے میں بھی آئی ہے ۔جس کی دلیل موصوف محترم کے وہ اٹھارہ مضامین ہیں ٗ جو ’’ارمغانِ تصوف‘‘ کے زیرِ عنوان مجتمع ہوئے ہیں۔سبھی مضامین سے مذہبی روایات اور صوفیانہ خیالات متشرح ہوتے ہیں۔’’ارمغان تصوف‘‘ کا ہر ورق راست بازی اور حق گوئی کی تلقین کرتا ہے ٗ جس کی ہر سطر انوارِ تصوف ٗ ملفوظاتِ تصوف ٗ تعلیماتِ تصوف اور افکارِ تصوف کا پتہ دیتی ہے۔
پہلا مضمون ’’تصوف اور اصلاحِ ذکر الٰہی ‘‘ کے زیر عنوان ہے ۔جس کے مطالعے سے قاری کو نہ صرف صوفی ازم سے آگاہی ہوتی ہے بلکہ ٗ صوفی کی تعریفات اور اس کی کائنات کا ایک دفتر نگاہوں کے سامنے کھل جا تا ہے۔ صوفیانہ اطوار و طریق کے علاوہ علم تصوف کی تاریخ پر بھی روشنی پڑتی ہے کہ یہ علم 200ھ سے کچھ پہلے کا ہے۔ تصوف ہی ایک ایسی شاہراہِ علم وعمل ہے ٗ جس کا راہی اللہ رب العزت کی ذاتِ پاک میں فنا ہو کر حق تعالی شانہ سے بقا حاصل کر لیتا ہے اور وہ اس منزل کا حقدار اس لیے ہوا کہ اسے اللہ رب العزت کی محبت و قربت حاصل رہی ۔ پروفیسر صاحب نے یوں تو مضمون ہذا میں صوفی با طریقت کے اقوال و اعمال کا کما حقہہ اظہار کیا ہے اور شیخ ابو علی روزباری کی زبانی بتایا ہے کہ ’’صوفی و ہ ہے جو صفائے قلب کے ساتھ صوف پوشی اختیار کرتا ہے ٗ ہوائے نفسانی کو سختی کا مزہ چکھاتا ہے ۔شرح مصطفوی کو لازم کر لیتا ہے اور دنیا کو پس پشت ڈال دیتا ہے۔‘‘ (1)
مضمون کے دوسرے حصے میں اصلاح ذکرِ الہٰی کا بیان ہے۔پروفیسر صاحب نے بہر صورت ذکر کی تشریح کرتے ہوئے اس کی غرض و غایت اورافادیت قر آنِ پاک و احا دیث سے ثابت کی ہے۔ ذکر کے اقسام میں ذکرِ جلی و خفی یعنی جہری و سری پر بطورِ خاص روشنی ڈالی ہے۔ علمائے کرام کے مختلف حوالوں سے افضل ذکر’’لا الہ الی اللہ‘‘ کو اور اسمِ اعظم ’’بسم اللہ‘‘ کوبتایا ہے ۔ ذکر کی تعریف کرتے ہوئے مو صوف لکھتے ہیں کہ’’ ذکر میں اللہ پاک کو ہر لمحہ یاد رکھنا ،اس کی محبت اور تعظیم کی بنا پر اس کے احکام کی بجا آوری کرنا، لا ھو کہتے ہوئے سر کو اٹھانا اور اللہ ھو کی ضرب دل پر لگاتے ہوئے سر جھکانا۔اسی طرح ھو کہتے ہوئے دم کو اندر لینا اور ھو خیال کرتے ہوئے دم کو چھوڑنا شامل ہے۔مضمون کے ماخذات پر نظر پڑتی ہے تو قاری محوِ حیرت ہوتا ہے کہ موصوف محترم نے قرآ نِ حکیم کے علاوہ’’ عوارف المعارف‘‘، ’’سِیرِمحمدی‘‘ ’’تبصرۃ الخوارفات ‘‘ ’’اخبارالاخیار‘‘ ’’عین الفخر‘‘’’جاوید نامہ ‘‘ اور’’وظائفِ اشرفی‘‘ جیسی کتابوں سے حوالے اخذ کئے ہیں۔مضمون ہذا کامطالعہ اہلِ ایمان ٗ بالخصوص تصوف کے ارادت مندوں کے لیے اکسیر کی حیثیت رکھتا ہے۔جس میں پروفیسر صاحب نے ذکر الٰہی کی خصوصیات ٗ اقسام اور بزرگانِ دین اور صوفیائے کرام کی عادات و اطوار کی تفصیل پیش کی گئی ہے اور قرآن و ا حادیث سے ذکر کی اہمیت ٗافادیت اور ضرورت پر اپنے خیالات مترشح کیے ہیں۔
دوسرا مضمون ’’رہبانیت اور تصوف میں تصورِ ترکِ دنیا ‘‘سے متعلق ہے ۔عام طور پر ہم قرآنِ پاک کی ایک آیت ’’ لا رہبانیتِ فی الاسلام‘‘ کہہ کر مطمئن ہوجاتے ہیں اور ہمارے ذہن میں یہ خیال جاگزیں ہوتا ہے کہ بدھ مذہب اور عیسائی مذہب کے ماننے والے ہی رہبانیت کو اپناتے ہیں اورترکِ دنیا کرتے ہیں ۔ پروفیسر صاحب نے مضمونِ ہذا میں راہب اور رہبانیت کے کم و بیش سبھی پہلو وں پر روشنی ڈالی ہے اور یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ اسلام صرف گوشہ نشیں اور تاریک الدنیا ہو کر دنیا کے ہنگاموں سے الگ تھلگ خانقاہوں اور درگاہوں میں مصروفِ ذکر ہونے کی تعلیم نہیں دیتا بلکہ حقوق العباد اور حقوقِ اللہ کے فرائضِ منصبی کو پورا کرنا سکھاتا ہے۔ہاں یہ ضرور ی ہے کہ انسان دنیا داری سے زیادہ اخروی کامیابی و کامرانی کو پیشِ نظر رکھے ۔ ارشادِ نبی کریمؐ کے مطابق ’’دنیا کی محبت تمام خطاؤں کی جڑ ہے اور دنیا کو ترک کرنا تمام عبادتوں کی اصل ہے۔‘‘یعنی جائز وسیلوں سے مال و زر حاصل کرنا ،اہل و عیال کی پرورش کرنا اور دینی تقاضوں سے غفلت نہ برتنا دنیا داری ہوتے ہوئے بھی دنیا داری نہیں ہے۔زندگی تو سراپا ہنگامہ اور سراسر انقلاب ہوتی ہے ۔اور زندگی کی کشتی ہمیشہ طوفانوں کا مقابلہ کرتی رہے نہ کہ راہبوں کی طرح جنگلوں میں خلوت تلاش کی جائے ۔
’’ارمغانِ تصوف‘‘ کا تیسرا مضمون ’’تصو ف اور صوفی ‘‘ ہے ۔جو دراصل ڈاکٹر الحاج حضرت سید شاہ محی الدین قادری ہادی لا ابالی ؒ کے مخطوطے پرتحریر کردہ ہے۔جس میں پروفیسر صاحب ر قمطراز ہیں کہٗ کہ کچھ لوگ تصوف کو اسلام سے جدا سمجھتے ہیں۔حالانکہ ’’تصوف ہی اسلام ہے اور اسلام ہی تصوف ہے۔‘‘اس سلسلے میں انہوں نے حضرت علامہ اسماعیل حقی علیہ الرحمہ کا درجِ ذیل اقتباس تحریر کیا ہے۔
’’یہ علم اس بندے کو نصیب ہوتا ہے جو اپنے تمام اعضا کو مخلوق کے تعلقات سے فارغ کردے۔اپنے جمیع ارادات اور حرکات و سکنات کو فنا کردے اور اپنے آپ کو ہر تمنا اور آرزو سے فارغ کر کے بارگاہِ حق کے سپرد ہو جائے۔‘‘(تفسیر روح البیاں۔ج:08 ص 429) (2)
تصوف کے لئے قرآن و حدیث میں ’’احسان ‘‘ اور’’تزکیہ نفس‘‘ کی اصطلاح مروج ہے۔اور سورۃ کہف میں علمِ تصوف کو ’’ علمِ لدنی ‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔لہذا یہ علم در حقیقت علمِ اللہ ہے جو من جانبِِ خدا ٗبندے کے قلب پر منکشف ہوتا ہے۔مادہ پرستی کے عہدِ جدید میں علم تصوف ساری انسانیت کے لئے از حد ضروری ہے بلکہ اس سے متعلق چار سلسلے قادریہ،چشتیہ،نقشبندیہ ،سہروردیہ بھی فلاحِ انسانیت کے لیے ناگزیر ہیں ۔
چوتھا مضمون ’’فقہی خدمات اور خانقاہی کردار ‘‘ کے موضوع پر تحریر ہوا ہے۔جس میں پروفیسر صاحب نے خانقاہی نظام کی بنیاد مدینہ منورہ کا وہ زمانہ بتایا ہے ٗجب لوگ دینی تعلیم کے حصول کی خاطر مدینہ منورہ آتے اور ان کا قیام صحابہ کرام کے مکانوں پر ہوتا۔ یہ سلسلہ صحابہ کرام سے تابعین ،تبع تابعین ،علمائے عظام اور صوفیا کرام تک پہنچتا ہے۔حضرت شیخ ابو ہاشم سے لے کر حضرت دادا ہجویری ،امامِ غزالی ،حضرت جنید بغدادی ،حضرت معروف کرخی ،حضرت پیرانِ پیر غوث الاعظم ،حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری جیسے بزرگانِ دین نے اپنی اپنی خانقاہوں میں علومِ شریعہ کے ساتھ ساتھ تلقین اذکار اور تزکیہ نفس کے کے علا وہ خدمتِ خلق کی عملی تربیت کی ہے۔یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ علمِ فقہ کی اہمیت و افادیت کے لئے مضمون ہذا میں حضرت امام مالک علیہ الرحمہ کا یہ فرمانِ عالی شان نقل کیا گیا ہے:
’’جس نے علمِ تصوف تو حاصل کیا لیکن فقہ کے علم سے بے بہرہ رہا تو فسق میں گرفتار ہوگیا۔اور فقہ کے حصول کے بعد خانقاہی تعلیمات سے دور رہا تو وہ زندیق کہلایا۔اور فقہ و تصوف دونوں کو حاصل کیا تو پھر محقق ہوا۔‘‘(3)
ایک مقالہ حضرت امام جعفر صادقؓ کے حالاتِ زندگی پر تحریر ہوا ہے۔جس میں حضرتِ امام جعفر صادقؓ کی ولادتِ با سعادت ،حلیہ مبارکہ و فضائلِ جمیلہ ،عادات و عبادات ،مستجاب الدعوات ، خلوت پذیری ، تصانیف ،کرامات ،اولادِکرام اورخلفائے کرام سے متعلق افکار و خیالات سپردِ قلم کئے گئے ہیں۔بعدِازآں ایک اور مقالہ حضرت جنید بغدادی علیہ الرحمہ کے ملفوظات اور تصانیف پر رقم کیا گیا ہے جس سے انوارِ تصوف کی کرنیں پھوٹتی نظر آتی ہیں۔
حضرت جنید بغدادی ایک ایسے صوفی بزرگ تھے جو علمِ تصوف کے مروجہ علوم و فنون پر کامل دسترس رکھتے تھے۔وہ اپنے وقت کے عظیم محدث یا فقہی بن سکتے تھے لیکن انھوں نے اپنے آپ کو صوفی کہلانا پسند کیا۔حضرت کی تصانیف اور اقوال پر سیر حاصل بحث کرتے ہوئے پروفیسر صاحب نے علمِ تصوف کی تدوین اور اصول و ضوابط پر حضرتِ جنید کی عمل پیرائی کو مترشح کیا ہے۔
’’ حضر ت شیخ سعدی علیہ الرحمہ : احوال اور صوفیانہ افکار ‘‘کے زیر عنوان بھی ایک مضمون شاملِ تصنیف ہے۔یہ کافی گراں قدرہے۔جس میں پروفیسر صاحب نے سعدیِ شیرازی ؒ کے حالات زندگی بیان کرتے ہوئے ان کی شہرۂ آفاق تصنیف ’’گلستان ‘‘ کا تجزیہ کرتے ہوئے عصر حاضر میں اس کی ضرورت و اہمیت ثابت کی ہے ۔ نیز یہ بتایا ہے کہ شیخ سعدی کی تربیت میں ان کے والد کا بڑا ہاتھ رہا ہے ۔وہ لکھتے ہیں کہ
’’ آپ ( سعدی شیرازی )کے والد ان کی تربیت اس ڈھنگ سے کرتے تھے کہ جس طرح ایک عارف اور دریائے سلوک کا غواص اپنے مرید کو تزکےۂ نفس کی منزلیں طئے کرواتا ہے ۔‘‘ (4)
موصوف محترم کے مضمون سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ شیخ سعدی شیرازی ؒ کی عمر120سال رہی ٗ جس میں شیخ نے تحصیل علم کے لیے 30سال ٗ سیر و سیاحت میں 30 سال ٗ تصنیف و تالیف کے لیے 30سال اور بقیہ 30سال گوشہ نشینی میں بسر کیے۔بچپن ہی سے شیخ خوش بیان مقرر تھے ۔آپ کا شمار اپنے وقت کے صوفی علماء میں ہوتا تھا ٗ نیز آپ ایک سلجھے ہوئے محقق ٗ واعظ اور عالم و فاضل تھے ۔بحث و منا ظرے میں آپ کی رائے کو افضلیت حاصل تھی۔گلستان کے باب دوم سے پتہ چلتا ہے کہ آپ کو ایک مرتبہ عیسائیوں نے قیدی بنا لیا ۔حلب کے ایک رئیس نے دس دینار کے بدلے رہائی دلائی اور سو دینار مہر کے عوض اپنی بیٹی سے نکاح کروایا۔چمن دہر کی سیاحی میں جو گوہرِ حکایات ہاتھ آئے ٗ شیخ نے اسے اشعار کا جامہ اس ہنر مندی سے پہنایا کہ وہ ضرب المثل بن گئے ۔جو نثر لکھی وہ اسم با مسمیٰ یعنی واقعی گلستان و بوستان بن گئی ۔جس کا اندازہ شیخ کو ان کی
کی زندگی میں ہی ہو چکا تھا ۔اس لیے انہوں نے کہا تھا کہ
’’ پھولوں کا طبق تیرے کام کا نہیں ٗ میری گلستان کا ایک ورق ہی کافی ہے ۔پھول تو چار پانچ روز میں مرجھا جائیں گے اورمیری گلستان ہمیشہ سر سبز و شاداب رہے گی۔‘‘(5)
پروفیسر صاحب نے ’’ ارمغانِ تصوف ‘‘ میں جو مقالے مجتمع کیے ہیں ٗ ان میں کم و بیش سبھی مضامین ’’تصوف ‘‘ کے مو ضوع کا احا طہ و ادراک کرتے ہیں۔’’ حضرت مولانا جلال الدین رومی اور حضرت مولانا شمس تبریز علیہ الرحمہ ‘‘ ’’ تعلیماتِ تصوف اور مثنوی مولانا روم علیہ الرحمہ ‘‘ ’’تصوف : مولانا روم اور علامہ اقبال ‘‘ جیسے مقالہ جات سے تصوف اور پیر و مُر شدکے تعلقات کا اظہار ہوتا ہے۔جو محبت حضرت نظام الدین محبوبِ الہٰی اور حضرت امیر خسرو کے بیچ قا ئم تھی ٗ وہی سوز و گداز اور تڑپ مذکورہ بالا مضامین میں ملتی ہے ۔پروفیسر صاحب نے حضرت مولانا رومی کی اپنے مرشد حضرت شمس تبریز کے تئیں اور علامہ اقبال کی نیاز مندی اپنے روحانی استاد مولانا رومی کے لیے بتائی ہے۔ مولانا شمس تبریز نے جو کچھ مولانا رومی کو عطا کیا ٗ اس کا تصور ایک عام ذہن نہیں کر سکتا ۔یہاں حضرتِ موسی علیہ السلام کی حصول علم کے سلسلے میں جو ملاقات حضرت خضر علیہ السلام سے ہوئی تھی ٗ وہ ذہن کے دریچوں سے ابھرتی ہے۔
مولانا روم کا مثنوی لکھنا نہایت عظیم الشان کارنامہ ہے ۔جس کے مطالعے سے قلب میں سوز اور روح میں احساس ضرور پیدا ہوتا ہے ۔ یہ مثنوی ایک پیرِ کامل کا کام انجام دیتی ہے۔ علامہ اقبال اور حضرت انوار اللہ شاہ کاشمیری کا معاملہ بھی مولانا روم اور حضرت شمس تبریز جیسا ہے ٗ حضرت انوار اللہ شاہ کاشمیری کی نظر عنایت نے اقبال کو ایسا گہر ہائے آبدار بنایا کہ جس کی چمک کہیں سے بھی اور کسی بھی زمانے میں کم نہیں ہو پاتی۔ اسی لیے اقبال نے کہا تھا
کوئی اندازہ کر سکتا ہے ٗ اس کے زور و بازو کا
نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
’’ ارمغانِ تصوف ‘‘ کے اخیر کے دو مضامین علامہ اقبال کے پسندیدہ موضوع یعنی تصوف اور تصور مومن سے متعلق ہیں۔اقبال کے صوفی ازم سے متعلق پروفیسر صاحب لکھتے ہیں کہ اقبال نے ’’زبورِ عجم ‘‘ میں یہ دعا کی تھی کہ اے خدا میری نگاہوں میں اتنی روشنی آ جا ئے کہ میں شراب میں نشے کو دیکھ سکوں ‘‘ اور ان کی دعا قبول ہو گئی ورنہ وہ تصوف کے وجدانی تجربوں اور وحدت الوجود کی سر مستی میں ڈوب نہ جاتے ۔اقبال کی فارسی تصانیف اسرارِ خودی ٗ رموزِ بے خودی ٗ پیام مشرق ٗ ارمغانِ حجاز اور جاوید نامہ سے پروفیسر صاحب نے فارسی اشعار کوڈ کیے ہیں اور اقبال کی پسندیدہ اصطلاحوں جیسے’ فقر‘’ نگاہ ‘ ’عشق ‘ ’حکمت ‘ ’مستی ‘’ میراث ‘’رہبانیت ‘اور ’خودی ‘سے متعلق نظریات اور صوفیانہ افکار پیش کیے ہیں۔
اسی طرح اقبال کے تصور مومن سے متعلق بتایا ہے کہ حضرت بلالؓ نے دہکتے ہوئے انگاروں پر لیٹ کر ٗ حضرت خبابؓ نے پھانسی کے تختے پر مسکرا کر اور حضرت سمیہؓ نے نیزے سے اپنا جسم گھائل کروا کر جو فتح عظیم حاصل کی ہے ٗ وہ ان کے نورِ ایمان اور قوت یقین کا فیضان تھا ۔فقر و عشق کی شمع جب کسی انسان کے دل میں روشن ہو جائے تو دنیا کی کوئی طاقت اسے شکست نہیں دے سکتی۔ پروفیسر صاحب نے اس مضمون میں مومن کے قو ل و فعل ٗ اوصاف و کردار ٗ اور فکرو نظر کی بلندی کا خاطر خواہ تجزیہ ملتا ہے ۔ نیزقاضی محمود بحری اور امام غزالی کے افکار و نظریات بھی تحریر ہوئے ہیں :
کافر ہے مسلماں تو نہ شاہی نہ فقیری
مومن ہے تو کرتا ہے فقیری میں بھی شاہی
ہو حلقۂ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزمِ حق و باطل ہو تو ولاد ہے مومن
جچتے نہیں کنجشک و حمام اس کی نظر میں جبریل و سرافیل کا صیاد ہے مومن ’’ارمغان ‘‘کے دیگر مضامین میں ’حضرت خواجہ غریب نواز : تصوف و عرفان ‘’حضرت خواجہ بندہ نواز اور تصانیف مبارکہ ‘ ’حضرت خواجہ بندہ نواز ( فضائل و مراتب اور پیغامِ انسانیت ) ‘ ’اشاعت اسلام میں دکن کے صو فیا ئے کرام کا حصہ ‘ ’دکنی ادب کا مذہبی ورثہ ‘ اور ’نظیر اکبر آبادی اور تصوف ‘ اس لیے قابلِ ذکر ہیں کہ عصر حا ضر میں سبھی مذاہب کے ماننے والے انتہا پسند ہو گئے ہیں ۔انسانی ہمدردی اور قومی رواداری مفقود ہو گئی ہے ۔صوفیائے باکمال نے اپنے قول و فعل اور اخلاق و کردار سے سبھی مذاہب کے ماننے والوں کو ایک دوسرے سے قریب کر دیا تھا ۔ صوفی تعلیمات سے قومی یکجہتی اور معاشرتی رواداری کو کافی فروغ حاصل ہوا تھا۔اس لیے آج دنیا کو ہندو مسلم سکھ عیسائی کی نہیں انسان کی ضرورت ہے ۔تاکہ انسان ہی انسانوں کی بھلائی کر سکے اور ایک دوسرے کا ہمدرد و غمخوار بنے ۔ایک دوسرے سے دلی محبت رکھے ۔ پروفیسر مظفر شہ میری کا ایک اقتباس یہاں بے محل نہ ہو گا۔
’’ زندگی جہدِ مسلسل کا نام ہے اور اس تگ و دو میں ہمیں نت نئے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔کوئی نئی سیاسی صورت حال ٗ کوئی نیا نظریہ ٗ کوئی نیا مسلک یا کوئی نیا واقعہ عام آدمی کو شش و پنج میں ڈال دیتا ہے ۔اُس وقت کسی صاحبِ بصیرت کی رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے جو اس کے دل مضطرب کے لیے باعثِ اطمینان ہو۔یہیں آکر ہمیں صویانہ نظام تعلیم کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔‘‘ (6)
اس طرح ’’ارمغانِ تصوف ‘‘ نہ صرف ایک ادبی ٗ اصلاحی اور مذہبی کتاب ہی نہیں بلکہ آج کی ایک انسانی ضرورت بن گئی ہے۔ نا قدینِ ادب نے مولانا حالی کی شہرۂ آفاق تصنیف ’’ حیات سعدی ‘‘ کی اشاعت پر کہا تھا کہ مصنف کے مزاج اور کتاب کے مو ضوع و ممدوح میں مناسبت پائی جاتی ہے ٗ وہی بات ’’ارمغان تصوف‘‘ پر بھی صادق آتی ہے ۔یوں بھی ایک تخلیق کار کبھی اپنی ذات سے علا حدہ ہو کرکوئی بہترین تخلیق پیش نہیں کر سکتا ۔ پروفیسر صاحب کی تحریریں ان کی مذہب پسندانہ طبیعت اور مومنانہ سرشت کی غمازی کرتی ہیں اور ان کا یہ نایاب تحفہ تصوف شناسی کے معیار اور عصری تقا ضوں پر پورا اترتاہے۔
حواشی
(1) تصوف اور اصلاح ذکر الہٰی ’’ارمغانِ حجاز ‘‘ پروفیسر محمد عبدالحمید اکبر
(2) تفسیر روح البیان علامہ اسماعیل حقی علیہ الر حمہ ج۔8 ص 429
(3) فقہی خدمات اور خا نقاہی خدمات ’’ارمغانِ حجاز ‘‘ پروفیسر محمد عبدالحمید اکبر
(4) حضرت شیخ سعدی : احوال و صوفیانہ افکار ’’ارمغانِ حجاز ‘‘ پروفیسر محمد عبدالحمید اکبر
(5) (ایضاً )
(6) عصر حاضر کی مذہبی شدت پسندی اور صوفیانہ فکر و اخلاص ۔’’تصوف شناسی ‘‘ مرتب سید شفیق احمد اشرفی ص 35ایم۔آر۔پبلی کیشنز ٗ دہلی
——
Dr. Hamid Ashraf
چئرمین بورڈ آف اسٹڈیز ان اردو
سوامی رامانند تیرتھ مراہٹواڑہ یونیورسٹی ٗ ناندیڑ